وہ دن ضرور آئے گا

کہا جاتا ہے کہ اصلاح کی بنیاد انسان کے جہل سے شروع ہوتی ہے اور علم کی روشنی میں اسی کا اختتام ہو جاتا ہے

SPRINGFIELD:
حضرت عیسیٰؑ سے 600 برس پہلے چین ہندوستان سے لے کر ایران اور یونان تک مختلف ملکوں میں بڑے بڑے لوگ بڑے بڑے فلسفی اور مختلف مذہبوں کے بانی پیدا ہوئے۔ اگرچہ یہ سب ایک ہی وقت میں نہ تھے لیکن ان کا زمانہ اتنا قریب قریب گزرا ہے کہ چھٹی صدی قبل مسیح کو خاص اہمیت حاصل ہے اس زمانے میں دنیا میں ایک نئی فکر کی لہر دوڑ رہی تھی یعنی موجودہ حالت سے بے اطمینانی اور بہتر صورت کی جستجو اور امید کی لہر ۔ یہ سب کے سب اپنی اپنی قوموں کی حالت بدلنے اسے بہتر بنانے اور ان کی مصیبتیں کم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے وہ برائیوں پر حملہ کرنے سے کبھی نہیں ڈرے انھوں نے قدیم روایات اور انسانی ترقی کے راستے میں حائل تمام برائیوں پر حملہ کیا اور انھیں مٹا دیا اس کے علاوہ انھوں نے اعلیٰ زندگی کی ایک ایسی مثال قائم کی جو لوگوں کے لیے نسل بعد نسل نمونے کا کام دیتی رہی اور ان کی ہمت بڑھاتی رہی۔

ہندوستان میں چھٹی صدی قبل مسیح میں گوتم بودھ اور مہابیر پیدا ہوئے، چین میں کنفیوشس اور لاوزے ایران میں زرتشت اور یونان میں فیثا غورث، ایران کے زرتشت پارسی مذہب کے بانی کہے جاتے ہیں۔ انھوں نے ایران کے قدیم مذہب میں ایک نئی روح پھونک دی۔ چین میں اس زمانے میں دو بڑے شخص گزرے ہیں یعنی کنفیوشس اور لاوزے ۔ یہ دونوں حضرات عام معنوں میں مذہب کے بانی نہیں کہے جا سکتے لیکن انھوں نے اخلاق اور معاشرت کا ایک نظام تربیت دیا کہ انسانوں کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے ان کے انتقال کے بعد چین میں ان کے نام پر سیکڑوں مندر بن گئے اور چینی ان کی کتابوں کی اتنی تعظیم کرنے لگے جیسے ہندو ویدوں کی یا عیسائی انجیل کی کرتے ہیں۔ کنفیوشس کی تعلیم کا ایک اثر یہ ہوا کہ چینی دنیا میں سب سے زیادہ مہذب بن گئے ، ہندوستان میں مہابیر اور بودھ نے جنم لیا ،مہابیر نے جین مذہب کی بنیاد ڈالی ان کا اصلی نام دردھ مان ہے، مہابیر تو لقب ہے جو ان کی عظمت کی بنا پر انھیں دیا گیا یعنی سب سے بڑا بہادر۔ وہ عدم تشدد کے بڑے حامی تھے اور کوئی ایسا فعل نہیں کرتے تھے جس سے کسی جاندار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

گوتم بودھ ایک شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے ان کا نام سدھارتھ تھا گوتم کے والدین نے انھیں بڑے ناز و نعم سے پالا تھا اور یہاں تک اس کا اہتمام کیا تھا کہ کوئی تکلیف، دکھ یا مصیبت کا منظر ان کی نظر سے نہ گزرے لیکن بھلا یہ کیسے ممکن تھا ایک روز انھوں نے ایک غریب ایک مصیبت زدہ آدمی اور ایک مردے کو دیکھا جس کا ان پر زبردست اثر ہوا۔ اب محل میں انھیں چین کہاں تھا تمام عیش و عشرت کا سامان جو ان کے چاروں طرف تھا حتیٰ کہ ان کی حسین بیوی جس سے وہ بے انتہا محبت کرتے تھے ان کے دل سے انسان کی مصیبت کی فکر کو دو ر نہ کر سکی اور ان کی ان مصیبتوں سے دنیا کو نجات دلانے کی خواہش بڑھتی گئی یہاں تک کہ وہ اسے برداشت نہ کر سکے اور ایک روز رات کی خاموشی میں اپنے محل سے نکل کھڑے ہوئے تا کہ جو سوال ان کے دل میں کھٹک رہے تھے ان کا حل تلاش کریں۔ عرصے تک وہ اس تلاش میں سر گرداں رہے آخر کار کئی برس بعد گیا نامی ایک جگہ میں ایک درخت کے نیچے وہ بیٹھے تھے کہ ان کا ضمیر روشن ہو گیا اور انھوں نے اپنی تعلیم شروع کی اور اعلیٰ زندگی کا راستہ بتایا۔ دیوی دیوتاؤں کو جو قربانیاں دی جاتی تھیں ان سب کی انھوں نے مذمت کی اور کہا کہ اس کے بجائے ہمیں غصہ، نفرت اور حسد کے جذبات اور برے خیالات کی قربانی کرنی چاہیے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاک زندگی بسر کرنا اور نیک کام کر نا اصل چیز ہے۔ بدھ مت کے پیرو کار آج دنیا میں سب سے زیادہ ہیں اس کے بعد عیسائیت، اسلام اور ہندو دھرم کے ہیں ان کے علاوہ یہودیوں، سکھوں، پارسیوں وغیرہ کے مذاہب ہیں۔ مذاہب اور ان کے بانیوں نے دنیا کی تاریخ میں زبردست حصہ لیا ہے اس میں شک نہیں کہ ان مذاہب کے بانی دنیا کی مقد س ترین ہستیوں میں گزرے ہیں لیکن اکثر تاریخ میں ہم نے دیکھا ہے کہ ان کے پیروکار وں نے لوگوں پر روشنی کے دروازے کھولنے کے بجائے انھیں تاریکی میں رکھنے کی کوشش کی ان کے ذہن میں وسعت پیدا کرنے کے بجائے انھیں تنگ نظر اور متعصب بنا دیا۔


مذہب کے نام پر لاکھوں انسانوں کا خون بہایا گیا عقل و فہم پر پہرے بٹھانے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ کفر و الحاد کے فتوے جاری ہونا شروع ہو گئے اور معاملہ دار و رسن تک جا پہنچا۔ سقراط، گلیلیو، سرویتس کے ساتھ یہ ہی ہوا کلیسا کی معافی کی درخواست آج گلیلیو کے کانوں تک نہیں پہنچائی جا سکتی لیکن گلیلیو کی صداقت سے سر شار قتل گاہوں سے غشاق کے نئے قافلے ضرور نکلیں گے جو گلیلیو، برونو، سرویتس، سقراط کے مشن کو آگے بڑھانے میں معاون ہونگے ۔

مارکس نے کہا تھا چونکہ انسان اپنے ماحول سے تشکیل پاتا ہے اس لیے اس کے ماحول کو انسانیت پہ مبنی ہونا چاہیے وحشت پر مبنی سماج وحشی ہی تخلیق کرتا ہے۔ روسو نے کہا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے لیکن انسان ہی میں یہ خوبی ہے کہ وقت آنے پر وہ اپنی زنجیروں کو توڑ دینے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے تمام حیوانوں میں سے انسان ہی ایک ایسا حیوان ہے جس نے آزمائش بقا کے تمام مرحلوں کو کامیابی سے طے کیا اور ہر امتحان سے سرخرو واپس لوٹا۔ دوسر ی طرف جدید سائنس کے ظہور کے بعد اٹھارہویں صدی کے یورپی معاشرے میں روشن خیالی ایسی تحریک تھی جس نے عقل و دانش کی برتری انسانی وقار کے تحفظ اور فلاح و بہبود کا پرچار کرتے ہوئے سیاسی استبداد یا مطلق العنان بادشاہت، روایت کی بالادستی اور کلیسائی پاپائیت کو سیاسی و مذہبی معاملات سے نکالنے کا تقاضہ کیا اور ساتھ ساتھ باہمی انسانی معاملات میں تحمل و بردباری کو ایک اصول بنا کر لوگوں کو ذاتی عقائد بروئے کار لانے اور ذاتی عقائد طے کرنے کا انفرادی، آفاقی حق دیا اور یہ ہی بات اس کی مقبولیت کا اہم ترین سبب بنی اور یوں انھیں صدیوں سے ذہنی استحصال کر نے والے کلیسائی پادریوں کی بالادستی سے نجات مل گئی۔

کہا جاتا ہے کہ اصلاح کی بنیاد انسان کے جہل سے شروع ہوتی ہے اور علم کی روشنی میں اسی کا اختتام ہو جاتا ہے اور یوں دنیا بھر کے لوگ علم کی روشنی میں جہل کی زنجیروں کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے ترقی اور خوشحالی ان کا مقدر بن گئی ۔ دنیا بھر کے برعکس ہم نے جہل کے اندھیروں میں رہنا پسند کیا اور ہم نے روشن خیالی اور خرد افروزی کو دیس سے نکال باہر کیا فکر و دانش کی روشنی کو دیس کے لیے حرام قرار دے دیا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب اخلاقی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں مذہبی بندشیں یکسر فنا ہو جاتی ہیں درندگی و خونخواری کا نام تہذیب انسانی قرار پاتا ہے جب ہر فرد کا ہاتھ دوسرے فرد کے خون سے رنگین ہوتا جاتا ہے تو آخرکار انسان تھک کر خستہ و درماندہ ہو کر ہانپنے لگتا ہے ایک جگہ گر پڑتا ہے تو افق سے ایک روشن ستارہ طلوع ہوتا ہوا اسے نظر آئے گا جس کی روشنی سے راحت و سکون محسوس ہو گا۔ جس کی تیز کرنیں اس کے دکھے ہوئے اعضا اور زخمی جسم پر مومیائی کا سا کام کریں گی اور افراد نوع انسانی پھر ایک بار اس درخشاں فضا میں ایک دوسرے سے بغلگیر ہوں گے یقین ہے کہ وہ دن ہماری زندگیوں میں ضرور آئے گا۔
Load Next Story