اب فرازؔ نہیں
احمد فرازؔ ایک ترقی پسند شاعر تھے لیکن اس خاص وصف کے باوجود بھی انھوں نے دور آمریت سے لے کر جمہوریت ۔۔۔
احمد فرازؔ اردو شعر و ادب کا وہ نام، جس نام کو سن کر ہزاروں نہیں لاکھوں افراد اپنا جگر چھلنی اور دل کھو جانے کا ذکر کرتے ہوئے ملتے ہیں، دراصل ہماری اجتماعی زندگی کے چند دردناک اور اندھیاروں میں ڈوبے ہوئے ابواب جو شاید فرازؔ کی شاعری ہی میں نہیں بلکہ ان کی زندگی کے بین السطور میں اپنی جھلک دکھا رہے ہیں، وہ شاید ہمارے مورخین کی X-Range نگاہوں سے پوشیدہ ہی رہے، لہٰذا انھوں (مورخین) نے پاکستان میں مطلق العنان آمریت کے مختلف ادوار بس زمانی ترتیب سے پیش کر دیے ہیں۔
احمد فراز کے یہاں آمریت کے زہریلے اثرات کا مطالعہ جس ذکاوت کے ساتھ ملا ہے کسی اور شاعر کے یہاں اس درجہ نہیں۔ 1971 کے بعد بالخصوص پاکستان میں ادبی و شعری حلقوں میں جس شاعر کو سنا گیا اور چاہا گیا وہ فرازؔ ہی ہیں۔ احمد فرازؔ کے بارے میں اگر میں صرف یہ کہوں کہ وہ محبتوں کے شاعر ہیں تو یہ بات زیادہ زود اثر ہو گی بجز اس کے کہ میں ان کے بارے میں بہت کچھ کہوں۔ محبت تو ایک احساس ہے، جیسے ڈر، خوف اور خدا، لہٰذا فرازؔ کی شاعری احساسات کی شاعری ہے۔ ہر نفس میں ودیعتاً کوئی نہ کوئی احساس وقوع پذیر ہے کوئی غم دوراں کو لے کر غم خوار ہے تو کوئی غم جاناں کو لے کر غم دیدہ، لیکن فرازؔ کے یہاں انسانی زندگی کے تمام تر احساسات اپنی اپنی جگہوں پر اپنے ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد الگ ہو جانے کے احساس کو جس شدت سے فرازؔ نے محسوس کیا شاید ہی فرازؔ کے کسی ہم عصر نے:
اب کس کا جشن مناتے ہو،
وہ ملک جو دو نیم ہوا
اردو شعر و سخن سے آشنا یا اس سے جڑا ہوا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ شاعری دوسرے دیگر فنون لطیفہ سے زیادہ مشکل ہے، اس میں پٍِتا پانی ہوا جاتا ہے۔ فرازؔ کے یہاں ہمیں محبتوں کی کارستانی سے لے کر انقلاب بپا کرتی ہوئی شاعری ملتی ہے۔ احمد فرازؔ کی شاعری بیک وقت نغمہ دلدار بھی ہے اور شعلہ بیدار بھی ہے۔ احمد فرازؔ ان معدودے چند شعرا میں سے ہیں جنھیں مقبولیت خواص و عام حاصل رہی ورنہ ہماری اردو شاعری کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے بعض شعرا انقلاب بپا کرتے ہوئے ملتے ہیں تو بعض ریشمی زلفوں سے ملاقات کرواتے ہیں لیکن فرازؔ کے یہاں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں۔ وہ ایک طرف تو آمر کو للکارتے ہیں تو دوسری طرف حسینوں کے جھرمٹ میں لے جاتے ہیں۔
احمد فراز ؔکو زندگی بھر ادیبوں، ادب دوستوں اور دیگر اہل علم و فن کی جانب سے زبردست پذیرائی زندگی کی آخری سانسوں تک حاصل رہی، ان کے سامعین ان کی نظم ''محاصرہ'' اور ''سنا ہے لوگ اسے جی بھر کے دیکھتے ہیں'' کی پرزور فرمائش کیا کرتے تھے۔ آخری عمر میں فرازؔ جب اپنی شہرہ آفاق نظم محاصرہ سناتے سناتے بھول جایا کرتے تھے تو پورے پنڈال سے سامعین ان کو ان کی نظم یاد دلایا کرتے تھے۔ بعض اکابرین اور معاصرین فرازؔ کو صرف لڑکپن کا شاعر یا صرف جذبہ محبت کا شاعر کہتے ہیں، احمد فراز کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کی سامراج دشمن، انقلابی شاعری ہی ہے اور صرف محاصرہ ہی پر کیا موقوف ''کالی دیوار'' بھی معرکۃ الآرا نظم ہے۔ نظم ''محاصرہ'' پاکستان میں آمریت کے تسلط کے خلاف ایک نعرہ مستانہ ہے اور ''کالی دیوار'' ویتنام پر امریکا کی وحشی یلغار کا شاخسانہ ہے، تنہا تنہا سے لے کر اپنے آخری مجموعہ کلام ''اے عشق جنوں پیشہ'' تک فراز اپنے گرد محبتوں کے جال بنتے رہے۔ ہمارے یہاں ''ادب برائے ادب'' کی ترویج ہوتی رہی ہے اس لیے فراز کی شاعری سماج کی شاعری ہے۔ فرازؔ کی شاعری میں نغمگی اور غنائیت بھی ہے، اور وہ طمطراق اور وہ گھن گرج بھی۔
فراز کی شاعری میں حسن و جاذبیت کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو شاعری کی کلاسیکیت کو بھرپور انداز میں اپنے اندر جذب کیا، اردو شاعری کی مکمل تہذیب ان کے یہاں موجود تھی، پرانی قدروں اور نئی اقدار کے ملاپ سے اس کو اپنانے سے ان کے یہاں موضوعات کا انبوہ بھی ہے اور کسی درجہ ٹھہراؤ بھی ہے، آپ فرازؔ کی نظم پڑھیں یا غزل آپ کو خیالات کا ایک تسلسل ملے گا، احمد فراز کی شاعری وطن عزیز میں ٹھہرتی ہوئی آمریت اور ہواؤں کے دوش پر آتی جمہوریت سے باہم لڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ فرازؔ کے یہاں نعرہ بازی، اشتعال اور ثقالت اتنی خاص نہیں ہے، ہر ترقی پسند شعرا کی طرح ان کے یہاں سماجی ناانصافیوں، مزدوروں و کاشتکاروں کی حق تلفیوں، سرمایہ داری کی فریب کاریوں، آمریت سے نفرت لسانی تعصبات اور طبقاتی آویزیش کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے اور احتجاج کرتی ہے۔
یہ بھی تو درست ہے کہ ان کی پوری شاعری عوامی بالادستی، جمہوریت سے لگاؤ اور جمہوری رویوں کی افزائش اور جمہوری قدروں کی بحالی، انسان دوستی اور امن و آتشی کی سرخروئی کے لیے وقف ہے۔ احمد فراز کا تعلق یا ان کی شاعری کا تعلق شاعری کے اس مکتب فکر سے ہے جو انسانیت کی سماجی و معاشی ترقی کی سوچ پر قدغن لگانے والی قوتوں کے خاتمے پر یقین پیش مہیا کرتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو فراز بحیثیت انسان تو پاپولر تھے لیکن ان کی شاعری عام معنوں میں اتنی پاپولر نہیں تھی جیسا کہ اکثر کم درجے کے مزاحمتی شاعروں کی ہوا کرتی ہے، لیکن فرازؔ کی شاعری تمام جمالیاتی حس کے ساتھ وارد ہی نہیں ہوتی بلکہ سامعین و حاضرین کے دلوں پر وہ کیفیتں غالب ہو جاتی ہیں جو عاشق و معشوق کے باہم ملنے پر دونوں کے دلوں کے نہاں خانوں پر ہوتی ہیں۔
احمد فرازؔ ایک ترقی پسند شاعر تھے لیکن اس خاص وصف کے باوجود بھی انھوں نے دور آمریت سے لے کر جمہوریت کے ادوار میں بھی کئی خاص اعلیٰ حکومتی عہدوں پر خدمات سر انجام دیں۔ انھوں نے آمریت میں بھی اعلیٰ سرکاری اعزاز بھی حاصل کیا (لوگ مارے جلن کے ان لوگوں پر جنھوں نے اعلیٰ سرکاری اعزازات حاصل کیے ان پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک آمر سے کوئی سرکاری اعزاز لیا یہاں ان جیسے اندروں بیں لوگوں کے لیے عرض ہے کہ کوئی بھی اعزاز کسی خاص شخصیت کے لیے تو ہوتا ہی ہے ساتھ ساتھ وہ اعزاز پوری قوم کے لیے بھی ہوتا ہے اور قوم کی طرف سے کوئی بھی اعزاز خاص ہوا کرتا ہے۔ 1995میں گورنر سندھ محمود اے ہارون نے ان کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی۔ فرازؔ نے ریڈیو پاکستان کے لیے بھی ڈرامے لکھے انھوں نے 5 منظوم ڈرامے لکھے جن میں ''روشنیوں کا شہر'' اور ''بودلک'' خاص اہم ہیں۔
بہت کم شاعروں کے بارے میں اگر یہ کہوں کہ وہ مصور تھے یا لفظوں میں مصوری کرتے تھے تو ان میں فرازؔ کا نام سب سے نمایاں ہوگا۔ فرازؔ دور حاضر کا خاص نام ہے اب ہر بڑے آدمی کی زندگی ہی میں اس پر کام ہونا چاہیے۔ لیکن اب کوئی بڑا بچا ہی نہیں اور جو ہیں ان کی عزت و توقیر کرنی چاہیے نا کہ ان کے مرحوم ہونے کے بعد ان پر کام کیا جائے۔
احمد فراز کے یہاں آمریت کے زہریلے اثرات کا مطالعہ جس ذکاوت کے ساتھ ملا ہے کسی اور شاعر کے یہاں اس درجہ نہیں۔ 1971 کے بعد بالخصوص پاکستان میں ادبی و شعری حلقوں میں جس شاعر کو سنا گیا اور چاہا گیا وہ فرازؔ ہی ہیں۔ احمد فرازؔ کے بارے میں اگر میں صرف یہ کہوں کہ وہ محبتوں کے شاعر ہیں تو یہ بات زیادہ زود اثر ہو گی بجز اس کے کہ میں ان کے بارے میں بہت کچھ کہوں۔ محبت تو ایک احساس ہے، جیسے ڈر، خوف اور خدا، لہٰذا فرازؔ کی شاعری احساسات کی شاعری ہے۔ ہر نفس میں ودیعتاً کوئی نہ کوئی احساس وقوع پذیر ہے کوئی غم دوراں کو لے کر غم خوار ہے تو کوئی غم جاناں کو لے کر غم دیدہ، لیکن فرازؔ کے یہاں انسانی زندگی کے تمام تر احساسات اپنی اپنی جگہوں پر اپنے ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد الگ ہو جانے کے احساس کو جس شدت سے فرازؔ نے محسوس کیا شاید ہی فرازؔ کے کسی ہم عصر نے:
اب کس کا جشن مناتے ہو،
وہ ملک جو دو نیم ہوا
اردو شعر و سخن سے آشنا یا اس سے جڑا ہوا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ شاعری دوسرے دیگر فنون لطیفہ سے زیادہ مشکل ہے، اس میں پٍِتا پانی ہوا جاتا ہے۔ فرازؔ کے یہاں ہمیں محبتوں کی کارستانی سے لے کر انقلاب بپا کرتی ہوئی شاعری ملتی ہے۔ احمد فرازؔ کی شاعری بیک وقت نغمہ دلدار بھی ہے اور شعلہ بیدار بھی ہے۔ احمد فرازؔ ان معدودے چند شعرا میں سے ہیں جنھیں مقبولیت خواص و عام حاصل رہی ورنہ ہماری اردو شاعری کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے بعض شعرا انقلاب بپا کرتے ہوئے ملتے ہیں تو بعض ریشمی زلفوں سے ملاقات کرواتے ہیں لیکن فرازؔ کے یہاں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں۔ وہ ایک طرف تو آمر کو للکارتے ہیں تو دوسری طرف حسینوں کے جھرمٹ میں لے جاتے ہیں۔
احمد فراز ؔکو زندگی بھر ادیبوں، ادب دوستوں اور دیگر اہل علم و فن کی جانب سے زبردست پذیرائی زندگی کی آخری سانسوں تک حاصل رہی، ان کے سامعین ان کی نظم ''محاصرہ'' اور ''سنا ہے لوگ اسے جی بھر کے دیکھتے ہیں'' کی پرزور فرمائش کیا کرتے تھے۔ آخری عمر میں فرازؔ جب اپنی شہرہ آفاق نظم محاصرہ سناتے سناتے بھول جایا کرتے تھے تو پورے پنڈال سے سامعین ان کو ان کی نظم یاد دلایا کرتے تھے۔ بعض اکابرین اور معاصرین فرازؔ کو صرف لڑکپن کا شاعر یا صرف جذبہ محبت کا شاعر کہتے ہیں، احمد فراز کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کی سامراج دشمن، انقلابی شاعری ہی ہے اور صرف محاصرہ ہی پر کیا موقوف ''کالی دیوار'' بھی معرکۃ الآرا نظم ہے۔ نظم ''محاصرہ'' پاکستان میں آمریت کے تسلط کے خلاف ایک نعرہ مستانہ ہے اور ''کالی دیوار'' ویتنام پر امریکا کی وحشی یلغار کا شاخسانہ ہے، تنہا تنہا سے لے کر اپنے آخری مجموعہ کلام ''اے عشق جنوں پیشہ'' تک فراز اپنے گرد محبتوں کے جال بنتے رہے۔ ہمارے یہاں ''ادب برائے ادب'' کی ترویج ہوتی رہی ہے اس لیے فراز کی شاعری سماج کی شاعری ہے۔ فرازؔ کی شاعری میں نغمگی اور غنائیت بھی ہے، اور وہ طمطراق اور وہ گھن گرج بھی۔
فراز کی شاعری میں حسن و جاذبیت کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو شاعری کی کلاسیکیت کو بھرپور انداز میں اپنے اندر جذب کیا، اردو شاعری کی مکمل تہذیب ان کے یہاں موجود تھی، پرانی قدروں اور نئی اقدار کے ملاپ سے اس کو اپنانے سے ان کے یہاں موضوعات کا انبوہ بھی ہے اور کسی درجہ ٹھہراؤ بھی ہے، آپ فرازؔ کی نظم پڑھیں یا غزل آپ کو خیالات کا ایک تسلسل ملے گا، احمد فراز کی شاعری وطن عزیز میں ٹھہرتی ہوئی آمریت اور ہواؤں کے دوش پر آتی جمہوریت سے باہم لڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ فرازؔ کے یہاں نعرہ بازی، اشتعال اور ثقالت اتنی خاص نہیں ہے، ہر ترقی پسند شعرا کی طرح ان کے یہاں سماجی ناانصافیوں، مزدوروں و کاشتکاروں کی حق تلفیوں، سرمایہ داری کی فریب کاریوں، آمریت سے نفرت لسانی تعصبات اور طبقاتی آویزیش کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے اور احتجاج کرتی ہے۔
یہ بھی تو درست ہے کہ ان کی پوری شاعری عوامی بالادستی، جمہوریت سے لگاؤ اور جمہوری رویوں کی افزائش اور جمہوری قدروں کی بحالی، انسان دوستی اور امن و آتشی کی سرخروئی کے لیے وقف ہے۔ احمد فراز کا تعلق یا ان کی شاعری کا تعلق شاعری کے اس مکتب فکر سے ہے جو انسانیت کی سماجی و معاشی ترقی کی سوچ پر قدغن لگانے والی قوتوں کے خاتمے پر یقین پیش مہیا کرتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو فراز بحیثیت انسان تو پاپولر تھے لیکن ان کی شاعری عام معنوں میں اتنی پاپولر نہیں تھی جیسا کہ اکثر کم درجے کے مزاحمتی شاعروں کی ہوا کرتی ہے، لیکن فرازؔ کی شاعری تمام جمالیاتی حس کے ساتھ وارد ہی نہیں ہوتی بلکہ سامعین و حاضرین کے دلوں پر وہ کیفیتں غالب ہو جاتی ہیں جو عاشق و معشوق کے باہم ملنے پر دونوں کے دلوں کے نہاں خانوں پر ہوتی ہیں۔
احمد فرازؔ ایک ترقی پسند شاعر تھے لیکن اس خاص وصف کے باوجود بھی انھوں نے دور آمریت سے لے کر جمہوریت کے ادوار میں بھی کئی خاص اعلیٰ حکومتی عہدوں پر خدمات سر انجام دیں۔ انھوں نے آمریت میں بھی اعلیٰ سرکاری اعزاز بھی حاصل کیا (لوگ مارے جلن کے ان لوگوں پر جنھوں نے اعلیٰ سرکاری اعزازات حاصل کیے ان پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک آمر سے کوئی سرکاری اعزاز لیا یہاں ان جیسے اندروں بیں لوگوں کے لیے عرض ہے کہ کوئی بھی اعزاز کسی خاص شخصیت کے لیے تو ہوتا ہی ہے ساتھ ساتھ وہ اعزاز پوری قوم کے لیے بھی ہوتا ہے اور قوم کی طرف سے کوئی بھی اعزاز خاص ہوا کرتا ہے۔ 1995میں گورنر سندھ محمود اے ہارون نے ان کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی۔ فرازؔ نے ریڈیو پاکستان کے لیے بھی ڈرامے لکھے انھوں نے 5 منظوم ڈرامے لکھے جن میں ''روشنیوں کا شہر'' اور ''بودلک'' خاص اہم ہیں۔
بہت کم شاعروں کے بارے میں اگر یہ کہوں کہ وہ مصور تھے یا لفظوں میں مصوری کرتے تھے تو ان میں فرازؔ کا نام سب سے نمایاں ہوگا۔ فرازؔ دور حاضر کا خاص نام ہے اب ہر بڑے آدمی کی زندگی ہی میں اس پر کام ہونا چاہیے۔ لیکن اب کوئی بڑا بچا ہی نہیں اور جو ہیں ان کی عزت و توقیر کرنی چاہیے نا کہ ان کے مرحوم ہونے کے بعد ان پر کام کیا جائے۔