ڈالر کی اونچی اڑان اور عمران خان کی سیاست
عمران خان اس وقت تک وزیر اعظم ہیں جب تک آئینی بحران کا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا
عمران خان اس وقت تک وزیر اعظم ہیں، جب تک آئینی بحران کا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ بھی آجائے، وہ ابھی چند دن اور ملک کے وزیر اعظم رہیں گے۔ وہ وزیراعظم کو ملنے والی تمام سہولیات اور مراعات بھی انجوائے کر رہے ہیں۔
حا ل ہی میں جب وہ لاہور گئے تو بطور وزیر اعظم گئے۔ یوں وہ دستور وزیر عظم ہیں جب تک کہ انھیں آئینی طریقہ سے اتارا نہیں جاتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ انھیں جانا ہے، وہ چند دن کے مہمان ہیں۔لیکن جب تک وہ وزیر اعظم ہیں، پاکستان کو چلانے کی ذمے داری انھی کی ہے۔ آجکل ملک میں جو معاشی بحران ہے، انٹر بینک ریٹ میں ڈالر تقریبا نوے روپے تک چلا گیا ہے، اس کے بھی ذمے دار عمران خان ہی ہیں۔ جب تک وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر بیٹھے ہوئے ہیں تب تک وہی ذمے دار ہیں۔
یہ ذمے داری کسی اور کے کندھے پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ڈالر کی اس اونچی اڑان کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے، کاروباری لوگوں پر یشانی آئی ہے، اس کی ذمے داری بھی انھیںپر عائد ہوتی ہے۔ عام آدمی کو اس بات سے سروکار نہیں کہ انھیں ہٹانے کے لیے کون کوشش کر رہا ہے۔ عام آدمی کو مہنگائی سے مطلب ہے اور ابھی جب تک وہ وزیر اعظم ہیں مہنگائی کے وہی ذمے دار ہیں۔ وہ خود کو اس ساری معاشی صورتحال سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔
اگر بطور وزیر اعظم وہ سیکریٹری خارجہ کو بلا سکتے ہیں۔ تو بطور وزیر اعظم وہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کو کیوں نہیں بلاتے اور ڈالر کی اس اونچی اڑان پر سوال کیوں نہیں اٹھاتے۔ وہ آزاد خارجہ پالیسی کی تو بہت بات کرتے ہیں، کیا ان سے سوال ہو سکتا ہے کہ ان کی یہ کیسی آزاد خارجہ پالیسی تھی جس میں اسٹیٹ بینک کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر قانون سازی کی گئی۔
آج ایک امریکی خط پر وہ اس قدر شور مچا رہے ہیں لیکن کل جب پاکستان کے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنے کی شرط آئے تھی تو ہماری خود مختاری اور آزاد خارجہ پالیسی کہاں تھی۔ تب اقتدار محفوط تھا، اس لیے آپ کو آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی شرئط منظور تھیں۔ مسئلہ تو تب ہی پیدا ہوا، جب اپنی کرسی خطرے میں نظر آئی۔ جب تک عوام کی زندگیاں معاشی طور پر خطرے میں تھیں ہم سب قبول تھا۔ لیکن اپنی کرسی کو خطرہ کسی طور پر قبول نہیں ہے۔ یہ نئی خارجہ پالیسی ہے۔
روپے کی قدر روزانہ گر رہی ہے۔ لیکن مجال ہے کہ حکومتی نمایندے، وزیر اعظم ، وزیر خزانہ ، گورنر اسٹیٹ بینک اور تحریک انصاف کے ذمے داران اس پر ایک لفظ بھی بول سکیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔شاید روپے کی قدر میں روزانہ کی بنیاد پر کمی ان کے لیے باعث اطمینان ہے، اگر باعث پریشانی ہوتا تو یقیناً ہمیں یہ پریشانی کہیں نہ کہیں نظر آتی۔ کیا روپے کی قدر میں گرواٹ کا بھی امریکا ہی ذمے دار ہے؟ کیا یہ بھی عمران خان کے خلاف غیرملکی سازش ہے۔ کیوں نہیں قوم کو بتایا جاتا کہ یہ ہماری نا اہلی ہے۔
عمران خان جا رہے ہیں۔ وہ چند دن کے مہمان ہیں۔ لیکن جاتے جاتے وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے پاکستان کی معیشت میں ٹائم بم لگا کر جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے پروگرام معطل کر کیے جا رہے ہیں۔ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے انھوں نے ملک میں پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کیں۔ حالانکہ انھوں نے خود ہی اپنے ہاتھ سے آئی ایم ایف کو لکھ کر دیا ہو اتھا کہ ہم پٹرول کی قمیت کم نہیں کریں گے۔ ان کا ساڑھے تین سال کا اقتدار بھی ہمارے سامنے ہے۔
انھوں نے کبھی بھی کسی چیز کی قیمت کم نہیں کی۔ بلکہ عالمی مالیاتی ادروں کے سامنے سرنگوں ہی نظر آئے ہیں بلکہ انھوں نے ایک جلسہ میں خود ہی کہہ دیا کہ میں کوئی چیزوں کی قیمتیں کم کرنے کے لیے وزیر اعظم نہیں بنا تھا، لیکن جب کرسی جاتی دیکھی تو جان بوجھ کر پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کر دی۔ جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کا معاہدہ بھی معطل ہوگیا۔
میں چیزوں کی قیمتیں کم کرنے کے خلاف نہیں ہوں۔ لیکن سیاسی مقاصد کے لیے معاشی ٹائم بم لگانے کے خلاف ہوں۔ ملک کی قیمت پر سیاست کرنے کے خلاف ہوں۔ آج عمران خان نے پاکستان کو جس سیاسی بحران میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ جو خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں، اس سے پاکستان کو کتنا نقصان ہے،کیا ان کو فکر ہے۔ ان کے لیے ان کی سیاست اور کرسی اہم ہے، وہ پاکستان کی قیمت پر بھی اپنی کرسی بچانے کے چکر میں نظر آرہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک رحجان ہے۔ کل تک آپ یہ الزام اسحاق ڈار پر لگاتے تھے، آج آپ وہی کچھ خود کر رہے ہیں۔ اسحاق ڈار پر تو آپ کوئی الزام ثابت نہیں کر سکے۔ لیکن آپ کی چیزیں سب کو کھلے عام نظر آرہی ہیں۔
ہمارے ہمسائے میں آج کل سری لنکا میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے۔ وہاں اسپتال میں ادویات نہیں ہیں۔ بچوں کے پڑھنے کے لیے کتابیں نہیں ہیں۔ پٹرول نہیں ہے۔ مملکت کا معاشی نظام ختم ہو گیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سری لنکا معاشی طور پر فلاپ ہو گیا ہے۔ ڈیفالٹ کرنے کی عملی مثال ہمارے سامنے ہے۔ لوگ سڑکوں پر ہیں۔ لیکن کسی کے پاس مسائل کا کوئی حل نہیں۔ دنیا بھی مدد کے لیے نہیں آرہی ہے۔ کیونکہ مشکل وقت میں کوئی ساتھ کھڑا نہیں ہوتا۔
لوگ پاکستان کے بارے میں بھی ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بھی روز گر رہے ہیں اور عمران خان اپنے سیاسی کھیل میں مصروف ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ خوش ہیں کہ جب وہ جائیں گے تو آنے والوں کے لیے شدید مشکلات ہوںگی، آنے والے ملک چلا ہی نہیں سکیں گے۔ پھر میں سیاست کروں گا، پاکستان کی تباہی کی قیمت پر سیاست کروں گا، یہ کیسی سیاست ہے۔
اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ یہ آتا بھی ہے اور چلا بھی جاتا ہے۔ شاید عمران خان کو پہلی دفعہ ملا تھا اسی لیے وہ جاتے دیکھ کر پریشان ہیں۔ ورنہ اگر انھیں یہ یقین ہو کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں تو وہ ایسا کبھی نہ کرتے۔ پتہ نہیں کیوں وہ اسی اننگ کو اپنی آخری اننگ سمجھ رہے ہیں۔ انھیں سمجھنا ہوگا کہ اگر انھوں نے جن لوگوں کو اقتدار سے نکالا تھا، وہ دوبارہ آسکتے ہیں تو انھیں بھی دوبارہ باری مل سکتی ہے۔ جاتے ہوئے واپس آنے کے دروزے کھلے رکھ کر جانا چاہیے۔
اگر دوبارہ واپسی کے دروازہ بند کر کے جائیں گے تو آپ کے لیے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔ ملک جان بوجھ کر معاشی تباہی کی طرف نہیں دھکیلنا چاہیے۔ یہ کوئی اچھی سیاسی حکمت عملی نہیں ہے۔ کم از کم ان سے یہ توقع نہیں تھی۔ جب تک وہ اقتدار میں ہیں انھیں دل وجان سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔ روپے کی گرتی قدر پر کام کرنا چاہیے۔ ملکی مفاد میں فیصلے کرنے چاہیے۔ ان کی کارکردگی پر ہی لوگ ان کو واپس لائیں گے۔ جو واپس آرہے ہیں وہ بھی کارکردگی پر ہی آرہے ہیں۔ لوگوں کی تائید سے ہی آرہے ہیں۔ انھیں بھی عوام کی تائید کو ترجیح رکھنا چاہیے۔
حا ل ہی میں جب وہ لاہور گئے تو بطور وزیر اعظم گئے۔ یوں وہ دستور وزیر عظم ہیں جب تک کہ انھیں آئینی طریقہ سے اتارا نہیں جاتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ انھیں جانا ہے، وہ چند دن کے مہمان ہیں۔لیکن جب تک وہ وزیر اعظم ہیں، پاکستان کو چلانے کی ذمے داری انھی کی ہے۔ آجکل ملک میں جو معاشی بحران ہے، انٹر بینک ریٹ میں ڈالر تقریبا نوے روپے تک چلا گیا ہے، اس کے بھی ذمے دار عمران خان ہی ہیں۔ جب تک وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر بیٹھے ہوئے ہیں تب تک وہی ذمے دار ہیں۔
یہ ذمے داری کسی اور کے کندھے پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ڈالر کی اس اونچی اڑان کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے، کاروباری لوگوں پر یشانی آئی ہے، اس کی ذمے داری بھی انھیںپر عائد ہوتی ہے۔ عام آدمی کو اس بات سے سروکار نہیں کہ انھیں ہٹانے کے لیے کون کوشش کر رہا ہے۔ عام آدمی کو مہنگائی سے مطلب ہے اور ابھی جب تک وہ وزیر اعظم ہیں مہنگائی کے وہی ذمے دار ہیں۔ وہ خود کو اس ساری معاشی صورتحال سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔
اگر بطور وزیر اعظم وہ سیکریٹری خارجہ کو بلا سکتے ہیں۔ تو بطور وزیر اعظم وہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کو کیوں نہیں بلاتے اور ڈالر کی اس اونچی اڑان پر سوال کیوں نہیں اٹھاتے۔ وہ آزاد خارجہ پالیسی کی تو بہت بات کرتے ہیں، کیا ان سے سوال ہو سکتا ہے کہ ان کی یہ کیسی آزاد خارجہ پالیسی تھی جس میں اسٹیٹ بینک کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر قانون سازی کی گئی۔
آج ایک امریکی خط پر وہ اس قدر شور مچا رہے ہیں لیکن کل جب پاکستان کے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنے کی شرط آئے تھی تو ہماری خود مختاری اور آزاد خارجہ پالیسی کہاں تھی۔ تب اقتدار محفوط تھا، اس لیے آپ کو آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی شرئط منظور تھیں۔ مسئلہ تو تب ہی پیدا ہوا، جب اپنی کرسی خطرے میں نظر آئی۔ جب تک عوام کی زندگیاں معاشی طور پر خطرے میں تھیں ہم سب قبول تھا۔ لیکن اپنی کرسی کو خطرہ کسی طور پر قبول نہیں ہے۔ یہ نئی خارجہ پالیسی ہے۔
روپے کی قدر روزانہ گر رہی ہے۔ لیکن مجال ہے کہ حکومتی نمایندے، وزیر اعظم ، وزیر خزانہ ، گورنر اسٹیٹ بینک اور تحریک انصاف کے ذمے داران اس پر ایک لفظ بھی بول سکیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔شاید روپے کی قدر میں روزانہ کی بنیاد پر کمی ان کے لیے باعث اطمینان ہے، اگر باعث پریشانی ہوتا تو یقیناً ہمیں یہ پریشانی کہیں نہ کہیں نظر آتی۔ کیا روپے کی قدر میں گرواٹ کا بھی امریکا ہی ذمے دار ہے؟ کیا یہ بھی عمران خان کے خلاف غیرملکی سازش ہے۔ کیوں نہیں قوم کو بتایا جاتا کہ یہ ہماری نا اہلی ہے۔
عمران خان جا رہے ہیں۔ وہ چند دن کے مہمان ہیں۔ لیکن جاتے جاتے وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے پاکستان کی معیشت میں ٹائم بم لگا کر جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے پروگرام معطل کر کیے جا رہے ہیں۔ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے انھوں نے ملک میں پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کیں۔ حالانکہ انھوں نے خود ہی اپنے ہاتھ سے آئی ایم ایف کو لکھ کر دیا ہو اتھا کہ ہم پٹرول کی قمیت کم نہیں کریں گے۔ ان کا ساڑھے تین سال کا اقتدار بھی ہمارے سامنے ہے۔
انھوں نے کبھی بھی کسی چیز کی قیمت کم نہیں کی۔ بلکہ عالمی مالیاتی ادروں کے سامنے سرنگوں ہی نظر آئے ہیں بلکہ انھوں نے ایک جلسہ میں خود ہی کہہ دیا کہ میں کوئی چیزوں کی قیمتیں کم کرنے کے لیے وزیر اعظم نہیں بنا تھا، لیکن جب کرسی جاتی دیکھی تو جان بوجھ کر پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کر دی۔ جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کا معاہدہ بھی معطل ہوگیا۔
میں چیزوں کی قیمتیں کم کرنے کے خلاف نہیں ہوں۔ لیکن سیاسی مقاصد کے لیے معاشی ٹائم بم لگانے کے خلاف ہوں۔ ملک کی قیمت پر سیاست کرنے کے خلاف ہوں۔ آج عمران خان نے پاکستان کو جس سیاسی بحران میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ جو خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں، اس سے پاکستان کو کتنا نقصان ہے،کیا ان کو فکر ہے۔ ان کے لیے ان کی سیاست اور کرسی اہم ہے، وہ پاکستان کی قیمت پر بھی اپنی کرسی بچانے کے چکر میں نظر آرہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک رحجان ہے۔ کل تک آپ یہ الزام اسحاق ڈار پر لگاتے تھے، آج آپ وہی کچھ خود کر رہے ہیں۔ اسحاق ڈار پر تو آپ کوئی الزام ثابت نہیں کر سکے۔ لیکن آپ کی چیزیں سب کو کھلے عام نظر آرہی ہیں۔
ہمارے ہمسائے میں آج کل سری لنکا میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے۔ وہاں اسپتال میں ادویات نہیں ہیں۔ بچوں کے پڑھنے کے لیے کتابیں نہیں ہیں۔ پٹرول نہیں ہے۔ مملکت کا معاشی نظام ختم ہو گیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سری لنکا معاشی طور پر فلاپ ہو گیا ہے۔ ڈیفالٹ کرنے کی عملی مثال ہمارے سامنے ہے۔ لوگ سڑکوں پر ہیں۔ لیکن کسی کے پاس مسائل کا کوئی حل نہیں۔ دنیا بھی مدد کے لیے نہیں آرہی ہے۔ کیونکہ مشکل وقت میں کوئی ساتھ کھڑا نہیں ہوتا۔
لوگ پاکستان کے بارے میں بھی ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بھی روز گر رہے ہیں اور عمران خان اپنے سیاسی کھیل میں مصروف ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ خوش ہیں کہ جب وہ جائیں گے تو آنے والوں کے لیے شدید مشکلات ہوںگی، آنے والے ملک چلا ہی نہیں سکیں گے۔ پھر میں سیاست کروں گا، پاکستان کی تباہی کی قیمت پر سیاست کروں گا، یہ کیسی سیاست ہے۔
اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ یہ آتا بھی ہے اور چلا بھی جاتا ہے۔ شاید عمران خان کو پہلی دفعہ ملا تھا اسی لیے وہ جاتے دیکھ کر پریشان ہیں۔ ورنہ اگر انھیں یہ یقین ہو کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں تو وہ ایسا کبھی نہ کرتے۔ پتہ نہیں کیوں وہ اسی اننگ کو اپنی آخری اننگ سمجھ رہے ہیں۔ انھیں سمجھنا ہوگا کہ اگر انھوں نے جن لوگوں کو اقتدار سے نکالا تھا، وہ دوبارہ آسکتے ہیں تو انھیں بھی دوبارہ باری مل سکتی ہے۔ جاتے ہوئے واپس آنے کے دروزے کھلے رکھ کر جانا چاہیے۔
اگر دوبارہ واپسی کے دروازہ بند کر کے جائیں گے تو آپ کے لیے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔ ملک جان بوجھ کر معاشی تباہی کی طرف نہیں دھکیلنا چاہیے۔ یہ کوئی اچھی سیاسی حکمت عملی نہیں ہے۔ کم از کم ان سے یہ توقع نہیں تھی۔ جب تک وہ اقتدار میں ہیں انھیں دل وجان سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔ روپے کی گرتی قدر پر کام کرنا چاہیے۔ ملکی مفاد میں فیصلے کرنے چاہیے۔ ان کی کارکردگی پر ہی لوگ ان کو واپس لائیں گے۔ جو واپس آرہے ہیں وہ بھی کارکردگی پر ہی آرہے ہیں۔ لوگوں کی تائید سے ہی آرہے ہیں۔ انھیں بھی عوام کی تائید کو ترجیح رکھنا چاہیے۔