لذت اور مشقت

رمضان شریف کا رحمتوں اور برکتوں سے بھرپور مہینہ سایہ فگن ہو چکا ہے

gfhlb169@gmail.com

کراچی:
رمضان شریف کا رحمتوں اور برکتوں سے بھرپور مہینہ سایہ فگن ہو چکا ہے۔ چند سال پہلے ایک بہت ہی عزیز دوست نے ایک خوبصورت واقعے کا ذکر کیا اور چونکہ یہ واقعہ رمضان شریف میں پیش آیا اس لیے خیال آیا کہ اسے من و عن بیان کر دیا جائے۔ بہت امید ہے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

ہمارے اُس عزیز دوست کو شوق ہوا کہ رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں مسجد میں ساری رات قیام کر کے اور رات کو زیادہ سے زیادہ عبادت میں مشغول رہ کر آخرت میں بڑی کامیابی سمیٹنے کی کو شش کی جائے۔ہمارے ہم عصر اب عمر کے اُس حصے میں داخل ہو چلے ہیں کہ کسی بھی وقت دنیا سے رخصت ہونے کا مرحلہ درپیش ہو سکتا ہے اس لیے ایسی سوچ کا آنا اور ایسے اقدامات کا اٹھانا ایک معمول کی بات ہوتی ہے۔

زندگی کا ایک بڑا حصہ گزر جانے کے بعد ایک تو آدمی جسمانی طور پر کمزورہوتا جاتاہے دوسرا اپنی ملازمتوں سے ریٹائرمنٹ یا کاروباری افراد کا اپنے کاروبار کو بچوں کے حوالے کر دینے کے بعد فراغت ملنی شروع ہوتی ہے۔ فراغت کے ان لمحات میں ایک پسندیدہ مصروفیت آخرت کا توشہ جمع کرنے کی فکر ہے۔یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ آخرت کا خیال آ جائے ورنہ وقت تو ہر کسی کا گزر ہی جاتا ہے البتہ زندگی کی دوڑ کے آخری مراحل میں اگر غفلت میں پڑے پڑے وقت گزر گیا تو بہت کچھ گنوا دیا۔

ہمارے عزیز دوست نے اپنے پروگرام پر عمل کرنا شروع کر دیا اور اپنے محلے کی مسجد میں رات کے قیام کو اپنا معمول بنا لیا۔وہ عشاء کی نماز کے بعد پانی لے کر مسجد چلے جاتے اور کسی ستون کے قریب عبادت میں مشغول ہو جاتے۔نوافل کی ادائیگی کے ساتھ جتنا قرآن پڑھ سکتے، پڑھتے اور ذکر و فکر میں مشغول رہتے۔مسجد میں اور بھی افراد ہوتے۔وہ آپس میں گفتگو بھی کرتے اور چند ایک محافل بھی منعقد کرتے لیکن یہ ہر ایک سے کنارہ کش ہو کر نوافل اور ذکر و فکر میں اکیلے ہی مشغول رہتے۔

سحری اور نمازِ فجر سے فارغ ہو کر کچھ دیر کے لیے آرام کرتے اور پھر نہا دھو کر،تر و تازہ ہو کر دن کے معمولات کی طرف دھیان دیتے۔ عصر کی نماز کے بعد ان سے کچھ دیر کے لیے ملاقات ہوتی توہم ان سے دعاؤں میں یاد رکھنے کی درخواست کرتے۔چند دن کے بعد اُنھوں نے بتایا کہ وہ رات کو بارہ ساڑھے بارہ بجے کے لگ بھگ ستون سے ٹیک لگا لیتے ہیں یا وہیں پر لیٹ کر ایک گھنٹے کے لیے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اس طرح رات کے آخری پہر میں دلجمعی سے عبادت ہو پاتی ہے۔

کہنے لگے کہ گزشتہ رات میں لیٹا ہی تھا، نیند ابھی نہیں آئی تھی ۔اس حالت میں محسوس ہوا کہ کوئی آدمی میرے قریب کھڑا مجھے دیکھ رہا ہے۔میں نے آنکھیں کھول دیں۔دیکھا کہ ایک شخص جو غالباً ساٹھ پینسٹھ کے پیٹے میں ہوں گے میرے پاس کھڑے ہیں۔میں اُٹھ کر بیٹھ گیا تو وہ بھی میرے پاس بیٹھ گئے۔سلام دعا ہوئی۔انھوں نے میری خیریت پوچھی۔میں نے ان کا شکریہ ادا کیا تو وہ کہنے لگے کہ میں اس مسجد میں آخری عشرے کا اعتکاف کر رہا ہوں۔


آپ کو مشغولِ عبادت دیکھتا رہا ہوں۔ آپ دوسروں کے ساتھ گپ شپ میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے اس لیے مجھے آپ سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ میں آپ کو دو باتیں تحفتاً بتانا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ رمضان کی راتوں میں ان پر عمل پیرا ہو کر فائدے میں رہیں گے۔میرے دوست کہنے لگے کہ میں نے کہا کہ آپ نے اپنا تعارف تو کرایا ہی نہیں جس کے جواب میں کہنے لگے کہ تعارف اتنا اہم نہیں ہے جتنی اہم میری باتیں ہیں۔میرے دوست نے کہا کہ میں آپ کی بات پوری توجہ سے سن رہا ہوں،آپ فرمائیے۔

اﷲ کے اُس بھلے آدمی نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ لذت کا حصول ہمارے اکثر افعال و اعمال کی بنیاد اور محرک بنتا ہے۔لذت کا جائز طریقوں سے حصول بہت اچھی بات ہے لیکن اگر لذت کا حصول ناجائز طریقوں سے ہو تو یہ فرد کو بہت بڑی مشکل میں ڈال دیتا ہے۔کہنے لگے کہ کسی بھی لذت کا دورانیہ بہت محدود اور مختصر ہوتا ہے۔چاہے یہ لذت،کھانے کی ہو،چاہے پینے کی ہو یا پھر جسمانی ہو، دورانیہ بہت تھوڑا ہوتا ہے لیکن اس کے نقوش انمٹ ہوتے ہیں۔

یہ تمام عمل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ کے نامہ اعمال پر ثبت ہو کر آپ کے اُخروی مستقبل پر بہت گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے لیکن اگر آپ کی دسترس میں ہوتے ہوئے بھی آپ صرف اور صرف اس لیے ناجائز طریقوں سے حصول لذت سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں کہ یہ ناجائز ہے تو یہ بھی آپ کے نامہء اعمال میں مرتب ہو جاتا ہے اور بہت ممکن ہے کہ آپ کی اخروی نجات میں ممدو معاون ہو۔ کہنے لگے کہ ہر لذت کے حصول سے پہلے بس ایک منٹ رک کر یہ ضرور دیکھ لیا کریں کہ محدود سے وقت کی لذت اٹھا کر ہمیشہ کے لیے داغ لگوا لینا کیا ٹھیک ہے یا اس سے رک کر محدود دورانیے کی لذت سے منہ موڑ کر ہمیشہ کے لیے اپنے کھاتے میں خیر کا اندراج کرا لینا قرینِ مصلحت ہے۔

فرمانے لگے دوسری اہم بات یہ ہے کہ اچھا کام کرنے میں کچھ مشقتیں اُٹھانی پڑتی ہیں۔ مثلاً آپ صرف دو نوافل کی ادائیگی چاہتے ہیں، اس کے لیے آپ کو بستر،کرسی یا صوفہ یعنی اپنی آرام کی جگہ چھوڑنی پڑے گی،اپنی مشغولیت سے وقتی طور پر کنارہ کش ہونا پڑے گا،اپنے آرام کو چھوڑنا پڑے گا اور اُٹھ کر وضو کرنا ہو گا۔اگر موسم شدید سرد ہے اور پانی بھی معمول سے ٹھنڈا ہے تو آپ کو مزید مشکل درپیش ہو گی تب کہیں جا کر وضو کا مرحلہ عبور ہو گا۔فرض کیجیے کہ آپ کا کوئی پسندیدہ ٹی وی پروگرام چل رہا ہے.

کوئی نہایت مفید ڈاکو منٹری آپ کے اسمارٹ ٹی وی پر چل رہی ہے، آپ کا کوئی بہت ہی عزیز دوست آیا ہوا ہے اور آپ اس کی کمپنی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں،آپ کی بہت پسندیدہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے آپ کو اسے وقتی طور پر ایک طرف رکھنا ہوگا۔آپ کا انتہائی پسندیدہ لذیز کھانا تیار ہے،آپ کو شدید بھوک بھی لگی ہے لیکن آپ ان سب سے منہ موڑ کر اﷲ کے حضور دو نوافل کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

یہ سب کچھ آسان نہیں ہے۔اس میں مشقت درپیش ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ آپ نے صرف چند ساعتوں کے لیے مشقت اُٹھائی لیکن اس کا بہترین ثمر ملنے کے امیدوار ہو گئے۔یہ تو دینی مثال تھی دنیاوی کامیابی کے لیے بھی مشقت اُٹھانی پڑتی ہے۔ایک طالب علم اپنے ارد گرد ہر قسم کی دلچسپی کی چیزیں پاتا ہے لیکن وہ مشقت اُٹھا کر،دلچسپی کی ہر چیز سے منہ موڑ کر اپنی پڑھائی میں جُت جاتا ہے۔

ایسے میں یہ یقینی امر ہے کہ کامیابی اس کا قدم چومے گی اور اس کے لیے ایک بہتر مستقبل کی نوید لے کر آئے گی لیکن طالب علم نے اگر مشقت نہ اٹھائی تو کامیابی اس سے کوسوں دور ہو جائے گی۔ فرمانے لگے کہ مشقت تو صرف کچھ محدود دورانیے کے لیے ہوتی ہے۔جس عمل کے لیے مشقت اٹھائی جاتی ہے اس کے مکمل ہوتے ہی مشقت ختم ہو جاتی ہے لیکن اس کا ثمر میٹھا بھی ہوتا ہے اور شاید لمبے یا لا محدود وقت کے لیے بھی ہو، اس لیے کبھی مشقت سے منہ نہیں موڑنا چاہیے بلکہ اس کو خوش آمدید کہتے ہوئے گلے لگانا چاہیے کیونکہ اسی میں کامیابی اور نجات ہے۔امید ہے کہ یہ دونوں باتیں ہم میں سے ہر ایک کے لیے مفید ہوں گی۔
Load Next Story