بازیچۂ اطفال
پاکستان کی قومی سیاسی زندگی نے گزشتہ سات دہائیوں میں بے شمار کروٹیں بدلیں
پاکستان کی قومی سیاسی زندگی نے گزشتہ سات دہائیوں میں بے شمار کروٹیں بدلیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے سیاست دانوں اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان افہام و تفہیم کے گہرے فقدان ، دو طرفہ رنجشوں ، تلخیوں کی خلیج اور عدم برداشت کے بودے رویوں کے باعث عوامی مسائل سے لے کر قومی مفادات تک اور سیاسی معاملات سے لے کر آئینی تضادات تک حکومت اور اپوزیشن ہر دو فریق نے اپنے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ملک و قوم اور آئین و قانون کے ساتھ وہ کھلواڑ کیے کہ غیر جمہوری قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کے آسان مواقع ملتے رہے جو جمہوریت پر شب خون مارنے کا سبب بنتے رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے، آج بھی ملک میں جمہوریت کے استحکام ، آئین و قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب تشنہ تعبیر نظر نہیں آتا ہے۔ کاروبار سلطنت چلانے کے لیے آئین ہی سب سے مستند اور مقدس دستاویز ہوتی ہے۔
آئین و قانون کے اس کی روح کے مطابق عملی نفاذ ہی سے ریاستی اداروں کے امورکی انجام دہی میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے مہذب و عادلانہ جمہوری معاشروں میں آئین و قانون کی حکمرانی اور پاسداری سب سے پہلا رہنما اصول ہوتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انصاف معاشرے کی تعمیر میں صحت مند اور بنیادی عامل کا کردار ادا کرتا ہے ، جب کہ ناانصافی، حق تلفی، ظلم ، انا پرستی، ذاتی عناد، باہمی رنجشیں اور شخصی تضادات سے نہ صرف قومی سطح پر لاتعداد مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ یہ معاشرے، نظام زندگی، حکومتی معاملات اور اقتدارکے ایوانوں میں انتشار اور زوال کا سبب بھی بنتے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جہاں طاقت، ضد، اختیارات کے ناجائز اور غلط استعمال اور آمرانہ طرز عمل کے ذریعے اپنی بات منوانے، رہنما آئینی و قانونی اصولوں کو پامال کرنے اور خود کو ہر صورت درست ثابت کرنے اور دوسروں کو غلط قرار دینے کی روایت پڑ جائے وہاں باوقار جمہوری نظام ، عادلانہ معاشرتی ماحول کے قیام اور ریاستی اداروں کے استحکام پر سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں تمام ادارے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں مصروف نظر آتے ہیں۔
طاقتور اداروں کے درمیان گھری حکومتیں کبھی طاقتور اورکبھی کمزور و بے بس ہو کر اپنے فیصلوں اور احکامات کو واپس لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں آئین سازی ، آئینی ترامیم اور آئین کا نفاذ تینوں کام تضادات کا شکار رہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت میں 1950 میں آئین نافذ ہوگیا اور 1952 میں پہلے عام انتخابات بھی منعقد ہوگئے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں آئین سازی کا کام ابتدا ہی سے گورکھ دھندے میں پھنسا رہا۔ پاکستان کے قیام کے تقریباً 9 سال بعد 23 مارچ 1956 کو ملک میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ عوام کو یہ توقع ہو چلی کہ اب ملک میں سیاسی استحکام آئے گا کیوں کہ آئین میں وہ ساری دفعات موجود تھیں جو امور سلطنت کی انجام دہی کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔
ملک غلام محمد کے بعد جب میجر جنرل سکندر مرزا گورنر جنرل بنے تو انھوں نے محض ڈھائی سال کے قلیل عرصے بعد ہی ملک کے پہلے آئین کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے 7 اکتوبر 1958 کو منسوخ کردیا حالانکہ انھوں نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا۔ یوں ملک میں پہلے مارشل لا کا نفاذ ہوا ۔ یہ آئین کی ناکامی نہیں تھی بلکہ ملک کی سیاسی قیادت کی آپس کی چپقلش، نااہلی اور ناکامی تھی جو محض اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ اور اقتدار قائم رکھنے کے لیے محلاتی سازشوں ، دھوکہ دہی اور گٹھ جوڑ کے غلط حربے استعمال کرنے لگی تھیں۔ جنرل ایوب خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیے گئے۔
شومئی قسمت دیکھیے کہ صرف 20دن بعد ہی 27 اکتوبر 1958 کو جنرل ایوب نے سکندر مرزا کو برطرف کر کے صدر کا عہدہ جلیلہ بھی خود سنبھال لیا۔ پھر بلاشرکت غیرے وہ ایک عشرے سے زائد عرصے تک ملک پر حکمرانی کرتے رہے۔ انھوں نے 1962 میں ملک کو ایک نیا آئین دیا جس کے تحت پاکستان میں امریکا کی طرح صدارتی طرز حکومت رائج کیا گیا۔ مذکورہ آئین کی ساخت صریحاً آمرانہ تھی۔
تمام اختیارات اور طاقت صدر کی ذات اور اس کے نامزد کردہ گورنروں میں مرکز ہوکر رہ گئے تھے جب کہ اسمبلیاں ربڑکی مہریں تھیں۔ 1969 میں ایوب خان نے اپنے اقتدارکا دس سالہ جشن منایا جو جشن مرگ اقتدار ثابت ہوا۔ ایوب خان نے بہ امر مجبوری و رسوائی 25 مارچ 1969 کو اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردیا جنھوں نے 1962 کا آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ جنرل یحییٰ کے دور میں مشرقی پاکستان میں ایکشن ہوا۔
موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے 3 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا۔ 13 دن کی جنگ کے بعد 16 دسمبر 1971 کو سقوط بنگال کا دل خراش سانحہ پیش آیا۔ بددلی، شکست اور مایوسی کے عالم میں جنرل یحییٰ خان نے 20 دسمبر 1971 کو اقتدار مغربی پاکستان میں اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھٹو کے حوالے کردیا۔ بھٹو نے ملک میں سیاستدانوں سے طویل مشاورت کے بعد 1973 کا آئین اسمبلی سے منظور کرایا جسے ان کا ایک بڑا کارنامہ شمار کیا جاتا ہے۔
یہی آئین درجنوں ترامیم کے بعد آج بھی ملک میں نافذ العمل ہے اور امور سلطنت کا ضامن ہے۔ یہی وہ آئین ہے جسے ایک آمر مطلق نے کاغذ کا ٹکڑا قرار دیا تھا اور یہی وہ آئین ہے کہ جس میں ایوان عدل نے ایک آمر کو ترامیم کے اختیارات بھی تفویض کردیے تھے۔آج پھر اسی آئین کی شق 5 کا سہارا لے کر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ انھوں نے اپنی رولنگ میں قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت کسی بھی غیر ملکی طاقت کے کہنے پر حکومت تبدیل نہیں کی جاسکتی ، لہٰذا اسے مسترد کیا جاتا ہے۔
بعدازاں چند منٹ بعد وزیر اعظم ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں اور اپنے مختصر ترین خطاب میں قوم کو غیر ملکی سازش کی ناکامی کی خوش خبری سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انھوں نے اسی آئین کے تحت صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دی ۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم، ڈپٹی اسپیکر اور صدر عارف علوی کے اقدام کو آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ آئین کے ساتھ یہ کھلواڑ کب تک ہوتا رہے گا کچھ پتا نہیں۔ ہر ادارہ آئینی دائرہ کار میں اپنے فرائض ادا کرے۔ آئین کو بازیچۂ اطفال نہ بنایا جائے۔
یہی وجہ ہے، آج بھی ملک میں جمہوریت کے استحکام ، آئین و قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب تشنہ تعبیر نظر نہیں آتا ہے۔ کاروبار سلطنت چلانے کے لیے آئین ہی سب سے مستند اور مقدس دستاویز ہوتی ہے۔
آئین و قانون کے اس کی روح کے مطابق عملی نفاذ ہی سے ریاستی اداروں کے امورکی انجام دہی میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے مہذب و عادلانہ جمہوری معاشروں میں آئین و قانون کی حکمرانی اور پاسداری سب سے پہلا رہنما اصول ہوتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انصاف معاشرے کی تعمیر میں صحت مند اور بنیادی عامل کا کردار ادا کرتا ہے ، جب کہ ناانصافی، حق تلفی، ظلم ، انا پرستی، ذاتی عناد، باہمی رنجشیں اور شخصی تضادات سے نہ صرف قومی سطح پر لاتعداد مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ یہ معاشرے، نظام زندگی، حکومتی معاملات اور اقتدارکے ایوانوں میں انتشار اور زوال کا سبب بھی بنتے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جہاں طاقت، ضد، اختیارات کے ناجائز اور غلط استعمال اور آمرانہ طرز عمل کے ذریعے اپنی بات منوانے، رہنما آئینی و قانونی اصولوں کو پامال کرنے اور خود کو ہر صورت درست ثابت کرنے اور دوسروں کو غلط قرار دینے کی روایت پڑ جائے وہاں باوقار جمہوری نظام ، عادلانہ معاشرتی ماحول کے قیام اور ریاستی اداروں کے استحکام پر سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں تمام ادارے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں مصروف نظر آتے ہیں۔
طاقتور اداروں کے درمیان گھری حکومتیں کبھی طاقتور اورکبھی کمزور و بے بس ہو کر اپنے فیصلوں اور احکامات کو واپس لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں آئین سازی ، آئینی ترامیم اور آئین کا نفاذ تینوں کام تضادات کا شکار رہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت میں 1950 میں آئین نافذ ہوگیا اور 1952 میں پہلے عام انتخابات بھی منعقد ہوگئے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں آئین سازی کا کام ابتدا ہی سے گورکھ دھندے میں پھنسا رہا۔ پاکستان کے قیام کے تقریباً 9 سال بعد 23 مارچ 1956 کو ملک میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ عوام کو یہ توقع ہو چلی کہ اب ملک میں سیاسی استحکام آئے گا کیوں کہ آئین میں وہ ساری دفعات موجود تھیں جو امور سلطنت کی انجام دہی کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔
ملک غلام محمد کے بعد جب میجر جنرل سکندر مرزا گورنر جنرل بنے تو انھوں نے محض ڈھائی سال کے قلیل عرصے بعد ہی ملک کے پہلے آئین کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے 7 اکتوبر 1958 کو منسوخ کردیا حالانکہ انھوں نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا۔ یوں ملک میں پہلے مارشل لا کا نفاذ ہوا ۔ یہ آئین کی ناکامی نہیں تھی بلکہ ملک کی سیاسی قیادت کی آپس کی چپقلش، نااہلی اور ناکامی تھی جو محض اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ اور اقتدار قائم رکھنے کے لیے محلاتی سازشوں ، دھوکہ دہی اور گٹھ جوڑ کے غلط حربے استعمال کرنے لگی تھیں۔ جنرل ایوب خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیے گئے۔
شومئی قسمت دیکھیے کہ صرف 20دن بعد ہی 27 اکتوبر 1958 کو جنرل ایوب نے سکندر مرزا کو برطرف کر کے صدر کا عہدہ جلیلہ بھی خود سنبھال لیا۔ پھر بلاشرکت غیرے وہ ایک عشرے سے زائد عرصے تک ملک پر حکمرانی کرتے رہے۔ انھوں نے 1962 میں ملک کو ایک نیا آئین دیا جس کے تحت پاکستان میں امریکا کی طرح صدارتی طرز حکومت رائج کیا گیا۔ مذکورہ آئین کی ساخت صریحاً آمرانہ تھی۔
تمام اختیارات اور طاقت صدر کی ذات اور اس کے نامزد کردہ گورنروں میں مرکز ہوکر رہ گئے تھے جب کہ اسمبلیاں ربڑکی مہریں تھیں۔ 1969 میں ایوب خان نے اپنے اقتدارکا دس سالہ جشن منایا جو جشن مرگ اقتدار ثابت ہوا۔ ایوب خان نے بہ امر مجبوری و رسوائی 25 مارچ 1969 کو اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردیا جنھوں نے 1962 کا آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ جنرل یحییٰ کے دور میں مشرقی پاکستان میں ایکشن ہوا۔
موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے 3 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا۔ 13 دن کی جنگ کے بعد 16 دسمبر 1971 کو سقوط بنگال کا دل خراش سانحہ پیش آیا۔ بددلی، شکست اور مایوسی کے عالم میں جنرل یحییٰ خان نے 20 دسمبر 1971 کو اقتدار مغربی پاکستان میں اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھٹو کے حوالے کردیا۔ بھٹو نے ملک میں سیاستدانوں سے طویل مشاورت کے بعد 1973 کا آئین اسمبلی سے منظور کرایا جسے ان کا ایک بڑا کارنامہ شمار کیا جاتا ہے۔
یہی آئین درجنوں ترامیم کے بعد آج بھی ملک میں نافذ العمل ہے اور امور سلطنت کا ضامن ہے۔ یہی وہ آئین ہے جسے ایک آمر مطلق نے کاغذ کا ٹکڑا قرار دیا تھا اور یہی وہ آئین ہے کہ جس میں ایوان عدل نے ایک آمر کو ترامیم کے اختیارات بھی تفویض کردیے تھے۔آج پھر اسی آئین کی شق 5 کا سہارا لے کر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ انھوں نے اپنی رولنگ میں قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت کسی بھی غیر ملکی طاقت کے کہنے پر حکومت تبدیل نہیں کی جاسکتی ، لہٰذا اسے مسترد کیا جاتا ہے۔
بعدازاں چند منٹ بعد وزیر اعظم ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں اور اپنے مختصر ترین خطاب میں قوم کو غیر ملکی سازش کی ناکامی کی خوش خبری سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انھوں نے اسی آئین کے تحت صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دی ۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم، ڈپٹی اسپیکر اور صدر عارف علوی کے اقدام کو آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ آئین کے ساتھ یہ کھلواڑ کب تک ہوتا رہے گا کچھ پتا نہیں۔ ہر ادارہ آئینی دائرہ کار میں اپنے فرائض ادا کرے۔ آئین کو بازیچۂ اطفال نہ بنایا جائے۔