سیّدۃ النساء العالمین سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا
حضور ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک! فاطمہؓ میری جان کا حصہ ہے، جس نے اُسے ستایا، اُس نے مجھے ستایا۔‘‘
خاتون جنّت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا: فاطمہؓ جنّت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ ؓ سب سے پہلے جنّت میں داخل ہوں گی۔ احادیث مبارکہ میں حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے بہت زیادہ فضائل و مناقب آئے ہیں۔ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ رسول کریم ﷺ کی لاڈلی اور چہیتی بیٹی ہیں، آپؓ جنّتی نوجوانوں کے سردار سیّدنا حضرت حسنؓ اور سیّدنا حضرت حسینؓ کی والدہ اور سیّدنا حضرت علیؓ کی زوجہ محترمہ ہیں۔
ام المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے طور طریق کی خوبی، اخلاق و کردار کی پاکیزگی، نشست و برخاست، طرز گفت گُو اور لب و لہجہ میں حضور ﷺ کے مشابہہ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔ حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کے سوا سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ سے سچا اور انصاف گو کسی کو نہیں دیکھا۔ ام المؤمنین حضرت سیّدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ رفتار و گفتار میں حضور ﷺ کی بہترین نمونہ تھیں۔
حضور ﷺ نے فرمایا: ''بے شک! فاطمہؓ میری جان کا حصہ ہے، جس نے اُسے ستایا، اُس نے مجھے ستایا۔'' مشہور روایت کے مطابق بعثت نبوت کے وقت جب حضور ﷺ کی عمر مبارک اکتالیس سال تھی تو حضرت سیّدہ فاطمۃؓ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ حضور اکرم ﷺ سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے ہر رنج و راحت میں شریک ہوتے، ہر روز ان کے گھر تشریف لے جاتے، ان کی خبر گیری کرتے، کوئی تکلیف ہوتی تو اسے دُور کرنے کی کوشش فرماتے، اگر حضور ﷺ کے گھر میں کوئی چیز پکتی تو آپ ﷺ اس میں سے کچھ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓؓ کو بھی بجھواتے تھے۔
ام المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو آپ ﷺ ازراہ محبت کھڑے ہو جاتے اور شفقت سے ان کی پیشانی کا بوسہ لیتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب آپ ﷺ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں، محبّت سے آپ ﷺ کے سر مبارک کو چومتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (ابودائود) حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں سیّدہ فاطمۃ الزہراؓ سے رخصت ہوتے اور سفر سے واپسی پر خاندان بھر میں سب سے پہلے حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓ ہی سے ملاقات کرتے پھر اپنے گھر تشریف لے جاتے۔
ایک بار حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ کو بخار ہوگیا، رات انہوں نے سخت بے چینی میں کاٹی، سیّدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کا بیان ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ جاگتا رہا، پچھلے پہر ہم دونوں کی آنکھ لگ گئی۔ فجر کی اذان سن کر بیدار ہوا تو دیکھا کہ سیّدہ فاطمہؓ معمول کے مطابق چکی پیس رہی ہیں، میں نے کہا کہ فاطمہؓؓ تمہیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا، رات بھر تمہیں بخار رہا، صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کر لیا اب چکی پیس رہی ہو، خدا نہ کرے زیادہ بیمار ہو جائو۔
حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓؓ نے جواب دیا کہ اگر میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے مر بھی جائوں تو کچھ پروا نہیں ہے، میں نے وضو کیا نماز پڑھی اﷲ کی اطاعت کے لیے اور چکی پیسی آپ کی اطاعت و فرماں برداری اور بچوں کی خدمت کے لیے۔ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لیے کبھی اپنی کسی رشتہ دار یا ہمسایہ کو اپنی مدد کے لیے نہیں بلاتی تھیں۔ کام کی کثرت اور نہ ہی کسی قسم کی محنت و مشقت سے گھبراتی تھیں۔ ساری عمر شوہر کے سامنے حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اور نہ ان سے کسی چیز کی فرمائش کی۔
حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کو عبادت الٰہی سے بے انتہاء شغف تھا۔ خوفِ الٰہی سے ہر وقت لرزاں اور ترساں رہتی تھیں۔ مسجد نبوی ﷺ کے پہلو میں گھر تھا، سرور عالم ﷺ کے ارشادات و مواعظ گھر بیٹھے سنا کرتی تھیں۔ ان میں عقوبت اور محاسبۂ آخرت کا ذکر آتا تو ان پر ایسی رقّت طاری ہوتی کہ روتے روتے غش آ جاتا تھا۔ تلاوتِ قرآن کرتے وقت عقوبت و عذاب کی آیات آ جاتیں تو جسم اطہر پر کپکپی طاری ہو جاتی تھیں۔
عبادت کرتے وقت سیّدہ فاطمہؓ کا نورانی چہرہ زعفرانی ہو جاتا اور لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ اﷲ تعالیٰ کی عبادت، اس کے احکامات کی تعمیل، اس کی رضا جوئی اور سنّت نبوی ﷺ کی پیروی ان کے رگ و ریشے میں سما گئی تھی۔ وہ دنیا میں رہتے ہوئے اور گھر کے کام کاج کرتے ہوئے بھی ایک اﷲ کی ہو کر رہ گئی تھیں، اسی لیے حضرت فاطمہؓ کا لقب بتول پڑگیا تھا۔
حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓؓ کے یہی اوصاف حمیدہ تھے کہ ان کی وفات کے بعد جب کسی نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ آپؓ کے ساتھ حضرت سیّدہ فاطمہؓ کا حسنِ معاشرت کیسا تھا تو حضرت علیؓ نے آبدیدہ ہو کر جواب میں فرمایا: ''فاطمہؓؓ جنّت کا ایک ایسا خُوش بُودار پھول تھیں کہ جس کی خُوش بُو سے اب تک میرا دماغ معطر ہے، انہوں نے اپنی زندگی میں مجھے کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔
آپؓ جُود و سخا کی پیکر تھیں۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ پردے کی نہایت ہی پابند اور حد درجہ حیادار تھیں۔ شرم و حیا کی انتہاء یہ تھی کہ عورتوں کا جنازہ بھی بغیر پردہ کے نکلنا پسند نہ تھا۔ اسی بنا پر اپنی وفات سے پہلے وصیت کی کہ میرے جنازہ پر کھجور کی شاخوں سے پردہ ڈال دیا جائے اور جنازہ رات کے وقت اٹھایا جائے تاکہ اس پر غیر مردوں کی نظر نہ پڑے۔
حضور ﷺ جہاں خاتون جنّت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓ سے محبّت و شفقت کا معاملہ فرماتے وہاں آپؐ جگر گوشہ بتولؓ سیّدنا حضرت حسنؓ اور سیّدنا حسینؓ سے بھی بے پناہ شفقت و محبت کا اظہار فرماتے۔ حضور ﷺ حسنین کریمینؓ کو گود میں اٹھاتے، سینہ مبارک پر کھلاتے، کاندھے پر بٹھاتے اور ہونٹوں پر بوسہ دیتے اور رخسار چومتے۔ سیّدنا حضرت علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں کہ سیّدنا حضرت حسنؓ سینہ سے لے کر سر مبارک تک حضور ؓ کے مشابہہ تھے اور سیّدنا حضرت حسینؓ قدموں سے لے کر سینہ تک حضور ﷺ کے مشابہہ تھے اور آپ ﷺ کے حسن و جمال کی عکاسی کرتے تھے۔
حضرت ابُو ایوب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حسنین کریمینؓ حضور اقدس ﷺ کے سینۂ مبارک پر چڑھے کھیل رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! کیا آپؐ ان دونوں سے اس درجہ محبت فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا: کیوں نہیں! یہ دونوں میرے پُھول ہیں۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔'' (ابن ماجہ)
ایک مرتبہ حضور ﷺ نے سیّدنا حضرت حسینؓ کے رونے کی آواز سنی تو آپ ﷺ نے خاتونِ جنّت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ سے فرمایا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ ان کا رونا مجھے غمگین کر دیتا ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ ؓ سب سے پہلے جنّت میں داخل ہوں گی۔ احادیث مبارکہ میں حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے بہت زیادہ فضائل و مناقب آئے ہیں۔ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ رسول کریم ﷺ کی لاڈلی اور چہیتی بیٹی ہیں، آپؓ جنّتی نوجوانوں کے سردار سیّدنا حضرت حسنؓ اور سیّدنا حضرت حسینؓ کی والدہ اور سیّدنا حضرت علیؓ کی زوجہ محترمہ ہیں۔
ام المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے طور طریق کی خوبی، اخلاق و کردار کی پاکیزگی، نشست و برخاست، طرز گفت گُو اور لب و لہجہ میں حضور ﷺ کے مشابہہ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔ حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کے سوا سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ سے سچا اور انصاف گو کسی کو نہیں دیکھا۔ ام المؤمنین حضرت سیّدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ رفتار و گفتار میں حضور ﷺ کی بہترین نمونہ تھیں۔
حضور ﷺ نے فرمایا: ''بے شک! فاطمہؓ میری جان کا حصہ ہے، جس نے اُسے ستایا، اُس نے مجھے ستایا۔'' مشہور روایت کے مطابق بعثت نبوت کے وقت جب حضور ﷺ کی عمر مبارک اکتالیس سال تھی تو حضرت سیّدہ فاطمۃؓ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ حضور اکرم ﷺ سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے ہر رنج و راحت میں شریک ہوتے، ہر روز ان کے گھر تشریف لے جاتے، ان کی خبر گیری کرتے، کوئی تکلیف ہوتی تو اسے دُور کرنے کی کوشش فرماتے، اگر حضور ﷺ کے گھر میں کوئی چیز پکتی تو آپ ﷺ اس میں سے کچھ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓؓ کو بھی بجھواتے تھے۔
ام المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو آپ ﷺ ازراہ محبت کھڑے ہو جاتے اور شفقت سے ان کی پیشانی کا بوسہ لیتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب آپ ﷺ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں، محبّت سے آپ ﷺ کے سر مبارک کو چومتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (ابودائود) حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں سیّدہ فاطمۃ الزہراؓ سے رخصت ہوتے اور سفر سے واپسی پر خاندان بھر میں سب سے پہلے حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓ ہی سے ملاقات کرتے پھر اپنے گھر تشریف لے جاتے۔
ایک بار حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ کو بخار ہوگیا، رات انہوں نے سخت بے چینی میں کاٹی، سیّدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کا بیان ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ جاگتا رہا، پچھلے پہر ہم دونوں کی آنکھ لگ گئی۔ فجر کی اذان سن کر بیدار ہوا تو دیکھا کہ سیّدہ فاطمہؓ معمول کے مطابق چکی پیس رہی ہیں، میں نے کہا کہ فاطمہؓؓ تمہیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا، رات بھر تمہیں بخار رہا، صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کر لیا اب چکی پیس رہی ہو، خدا نہ کرے زیادہ بیمار ہو جائو۔
حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓؓ نے جواب دیا کہ اگر میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے مر بھی جائوں تو کچھ پروا نہیں ہے، میں نے وضو کیا نماز پڑھی اﷲ کی اطاعت کے لیے اور چکی پیسی آپ کی اطاعت و فرماں برداری اور بچوں کی خدمت کے لیے۔ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لیے کبھی اپنی کسی رشتہ دار یا ہمسایہ کو اپنی مدد کے لیے نہیں بلاتی تھیں۔ کام کی کثرت اور نہ ہی کسی قسم کی محنت و مشقت سے گھبراتی تھیں۔ ساری عمر شوہر کے سامنے حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اور نہ ان سے کسی چیز کی فرمائش کی۔
حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کو عبادت الٰہی سے بے انتہاء شغف تھا۔ خوفِ الٰہی سے ہر وقت لرزاں اور ترساں رہتی تھیں۔ مسجد نبوی ﷺ کے پہلو میں گھر تھا، سرور عالم ﷺ کے ارشادات و مواعظ گھر بیٹھے سنا کرتی تھیں۔ ان میں عقوبت اور محاسبۂ آخرت کا ذکر آتا تو ان پر ایسی رقّت طاری ہوتی کہ روتے روتے غش آ جاتا تھا۔ تلاوتِ قرآن کرتے وقت عقوبت و عذاب کی آیات آ جاتیں تو جسم اطہر پر کپکپی طاری ہو جاتی تھیں۔
عبادت کرتے وقت سیّدہ فاطمہؓ کا نورانی چہرہ زعفرانی ہو جاتا اور لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ اﷲ تعالیٰ کی عبادت، اس کے احکامات کی تعمیل، اس کی رضا جوئی اور سنّت نبوی ﷺ کی پیروی ان کے رگ و ریشے میں سما گئی تھی۔ وہ دنیا میں رہتے ہوئے اور گھر کے کام کاج کرتے ہوئے بھی ایک اﷲ کی ہو کر رہ گئی تھیں، اسی لیے حضرت فاطمہؓ کا لقب بتول پڑگیا تھا۔
حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓؓ کے یہی اوصاف حمیدہ تھے کہ ان کی وفات کے بعد جب کسی نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ آپؓ کے ساتھ حضرت سیّدہ فاطمہؓ کا حسنِ معاشرت کیسا تھا تو حضرت علیؓ نے آبدیدہ ہو کر جواب میں فرمایا: ''فاطمہؓؓ جنّت کا ایک ایسا خُوش بُودار پھول تھیں کہ جس کی خُوش بُو سے اب تک میرا دماغ معطر ہے، انہوں نے اپنی زندگی میں مجھے کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔
آپؓ جُود و سخا کی پیکر تھیں۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ پردے کی نہایت ہی پابند اور حد درجہ حیادار تھیں۔ شرم و حیا کی انتہاء یہ تھی کہ عورتوں کا جنازہ بھی بغیر پردہ کے نکلنا پسند نہ تھا۔ اسی بنا پر اپنی وفات سے پہلے وصیت کی کہ میرے جنازہ پر کھجور کی شاخوں سے پردہ ڈال دیا جائے اور جنازہ رات کے وقت اٹھایا جائے تاکہ اس پر غیر مردوں کی نظر نہ پڑے۔
حضور ﷺ جہاں خاتون جنّت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓ سے محبّت و شفقت کا معاملہ فرماتے وہاں آپؐ جگر گوشہ بتولؓ سیّدنا حضرت حسنؓ اور سیّدنا حسینؓ سے بھی بے پناہ شفقت و محبت کا اظہار فرماتے۔ حضور ﷺ حسنین کریمینؓ کو گود میں اٹھاتے، سینہ مبارک پر کھلاتے، کاندھے پر بٹھاتے اور ہونٹوں پر بوسہ دیتے اور رخسار چومتے۔ سیّدنا حضرت علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں کہ سیّدنا حضرت حسنؓ سینہ سے لے کر سر مبارک تک حضور ؓ کے مشابہہ تھے اور سیّدنا حضرت حسینؓ قدموں سے لے کر سینہ تک حضور ﷺ کے مشابہہ تھے اور آپ ﷺ کے حسن و جمال کی عکاسی کرتے تھے۔
حضرت ابُو ایوب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حسنین کریمینؓ حضور اقدس ﷺ کے سینۂ مبارک پر چڑھے کھیل رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! کیا آپؐ ان دونوں سے اس درجہ محبت فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا: کیوں نہیں! یہ دونوں میرے پُھول ہیں۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔'' (ابن ماجہ)
ایک مرتبہ حضور ﷺ نے سیّدنا حضرت حسینؓ کے رونے کی آواز سنی تو آپ ﷺ نے خاتونِ جنّت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ سے فرمایا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ ان کا رونا مجھے غمگین کر دیتا ہے۔