نفسیات مصائب سے نجات کیسے ممکن ہے
زندگی کی مشکلات اور پریشانیوں سے خود کو کیسے ہم آہنگ کیا جائے
پریشانیاں، ناکامی، شکست، ہار مشکلات، خطرات، تکلیفیں، رکاوٹیں زندگی کے ذائقے، مختلف رنگ ہیں، دنیائے عالم میں عموماً کسی کی زندگی اس کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، دکھ، سکھ، غم، خوشی، آسانی مشکل، جدائی، موت جیسے جذبوں سے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ اور جب یہ طے ہے کہ زندگی پریشانیوں، دشواریوں اور مصائب سے خالی نہیں تو آخر اس کا کیا حل نکالا جائے جس کے ذریعے انسان ان مزاجوں، جذبوں و حالتوں سے ہم آہنگ ہوجائے، انہیں قبول کرلے، عادی ہوجائے، ان فکروں، اندیشوں اور غموں کو خود پر حاوی نہ ہونے دے، اور ان کے زیراثر ہونے والی تباہی سے اپنی روحانی، جسمانی اور اعصابی طاقت بچالے۔
ایسا کیوں ہے۔۔۔۔ پریشانیاں اور الجھنیں قطرہ قطرہ پانی ٹپکنے کی مانند ہیں، پریشانیوں کی یہ مسلسل ٹپ ٹپ ٹپ انسانوں کو جنون اور خودکشی کی طرف دھکیل دیتی ہے (ڈیل کارنیگی)
تحقیق کے مطابق امریکا میں اوسطاً تیس منٹ میں ایک شخص خودکشی کرتا ہے، ایک سو بیس سیکنڈ میں ایک شخص پاگل ہوجاتا ہے۔ مسائل اور الجھنوں میں گرفتار اکثر و بیشتر اپنے ہاتھوں جان لینے والی اموات غیرمسلم معاشرے میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟
وجہ فکر، پریشانی، افسردگی ہے، جو انسان کی جان لے لیتی ہے۔ خودکشی کا رجحان اگرچہ مسلمانوں میں کم ہے اس لیے کہ مسلمانوں کے پاس عقیدہ، مذہب، دینِ اسلام، روحانی قوت ایمان کی دولت موجود ہے، جو مصائب سے لڑنے کے لیے ان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ ایمان کی عدم موجودگی میں، انسان کا اپنے رب سے تعلق کم زور پڑ جاتا ہے۔
نتیجتاً ایسا شخص دنیا کی مشکلات سے جلد ہمت ہار بیٹھتا ہے، قوتِ مدافعت کم زور پڑ جاتی ہے، یہاں تک کہ اعصابی شکست سے دوچار ہوجاتا ہے، جسمانی طور پر بھی مستقل مریض بن جاتا ہے۔ پریشانی اگر اعصاب پر طاری ہوجائے، تو سکون اور راحت کے ساتھ ساتھ یہ صحت و تن درستی بھی چھین لیتی ہے۔
ریسرچ کہتی ہے کہ"زمانے کی تلخیاں، انسان کو بدحواس اس لیے کردیتی ہے کیوںکہ مذہب، ایمان اور خدا پر ان کا یقین کامل نہیں ہوتا، جو انسان کو ثابت قدمی سے صبر کے ساتھ دشواریوں کا سامنا نہیں کرنے دیتی۔"
ویلیم جیمز کہتا ہے"ایمان ان قوتوں میں سے ایک قوت ہے جن کے سہارے انسان زندہ رہتا ہے اور اس کی کامل عدم موجودگی کا نتیجہ شکست اور انحطاط ہوتا ہے۔" How to Stop Worrying and Start Living کتاب کے مصنف ڈیل کارنیگی اپنی کتاب میں مسائل سے نمٹنے اور جینے کے اصول بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "میری والدہ کی دعائیں اور ایمان شامل حال نہ ہوتا تو خود میرے والد مصائب سے گھبرا کر دریا میں کب کا چھلانگ لگا کر ڈوب چکے ہوتے۔ ہزاروں مصیبت زدہ روحیں جو ہمارے پاگل خانوں میں چلا رہی ہیں غالباً امن وسکون کی زندگی بسر کر سکتی تھیں اگر انہوں نے اپنی جنگ تنہا لڑنے کے بجائے کسی اعلٰی اور بلند و برتر طاقت سے مدد مانگی ہوتی۔"
تاریخ میں ایسی سیکڑوں کہانیاں ہیں، جب لوگوں نے اپنی زندگی کے خاتمے کے دوران آخری دوراہے پر جیسے ہی اپنے رب کو پکارا اس سے ربط قائم کیا، مدد طلب کی، اور ساری الجھنیں اس کے گوش گزار کیں، تو انہیں اپنی روح تروتازہ اور جرأت و ہمت بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی، مقابلے کا حوصلہ ملا، افسردگی مِٹ گئی، بے چینی، اضطراب کی جگہ اطمینان نے لے لی، جینے کی امنگ پھر سے جاگ اٹھی۔
یعنی مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زندگی کی جنگ جیتنے، اور خطرات کا ثابت قدمی سے مقابلے کے لیے جس عالی ہمت وحوصلے کی ضرورت ہوتی ہے، قُربِ خدا کے بغیر وہ ممکن نہیں ہے، مصائب سے وہی شخص گھبراتا اور اطمینان سے محروم رہتا ہے، جس کا عقیدہ، خدا سے تعلق، دعاؤں سے رشتہ کم زور ہوگا۔ وہ اپنی التجائیں اپنے رب سے نہیں مانگتا اور اپنے غموں کو دور کرنے کی فریاد اس تک نہیں پہنچاتا، جو کہ اس کے لیے تسکین کا واحد ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ناامیدی اور مایوسی میں اس حد تک آگے نکل جاتا ہے کہ راہ فرار موت میں تلاش کرنے لگتا ہے۔
عصر حاضر کے ممتاز ترین ماہر علم المراض النفس ڈاکٹر کارل جنگ اپنی کتاب "جدید انسان روح کی تلاش میں" میں کہتے ہیں"پچھلے تیس سالوں کے دوران میں، روئے زمین کے تقریباً تمام مہذب ممالک کے لوگوں نے مجھ سے مشورہ حاصل کیا ہے۔
زندگی کے دوسرے نصف یعنی پینتیس سال سے اوپر کے میرے سارے مریضوں میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کے مسئلے کا آخری حل زندگی کے مذہبی نقطہ نظر میں نہ ملتا ہو۔ یہ نہایت آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ اس لیے بیمار ہوئے کیوںکہ وہ اس چیز سے محروم ہوچکے تھے جو ہر زمانے کے زندہ مذاہب نے اپنے پیروکاروں کو دی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس وقت تک صحت یاب نہ ہوا جب تک کہ اس نے دوبارہ مذہب کی طرف رجوع نہیں کیا۔"
رجوع الی اللہ۔۔۔۔۔ترجمہ"اور جو شخص اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کو ہدایت فرماتے ہیں، وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور اللہ کے ذکر سے ان کے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر (میں ایسی خاصیت ہے کہ اس) سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے۔" (سورۂ رعد رکوع 4)
رجوع الی اللہ میں ہی قلب کا نور دلوں کا سکون اور روح کی تسکین پوشیدہ ہے، یہی تاریک لمحات میں روشنی کی کرن اور مسائل سے نمٹنے، اور جینے کا اصل طریقہ ہے۔ جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں، وہ غم نہیں کھاتے، پُرسکون رہتے ہیں متعدد مقامات پر قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے یہ حکم فرمایا ہے جس کا مفہوم ہے "اس کی رسی مضبوطی سے تھام لو، اپنے پروردگار کے راستے پر خود کو ڈھال لو، غم نہ کرو، اس پر بھروسا کرو، اس کی رحمت سے مایوس اور ناامید نہ ہو، نافرمانی سے بچو توبہ کو لازم کرلو، اسے پکارو، وہ تمہاری سنتا ہے توبہ قبول کرتا ہے، شکر کرو ناشکری نہ کرو، اللہ تمہارے غم دور کر دے گا، تمہیں غنی کردے گا، آسانی و عافیت سے نوازے گا، مشکلوں کو دور کر دے گا۔"
پریشانیوں کا علاج اور تسکین حاصل کرنے کی راہ رجوع الی اللہ ہے، رب سے تعلق ہے، دعا ہے، ایمان ہے۔ اس دولت کے ہوتے ہوئے ایک مسلمان کو کسی کتھارسس کی قطعاً ضرورت نہیں، اس کے نزدیک ڈپریشن، تناؤ اعصابی کشمکش اور مایوسی جیسے عارضے کا کوئی تصور نہیں ہونا چاہیے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، وہ پریشان حال مصیبت زدہ اور بے بسی سے دوچار ہے، اس کی وجہ مذہب سے دوری، رب سے لاتعلقی، اور ایمان کی کم زوری ہے۔
سائنس بھی یہ تسلیم کرتی ہے، چناںچہ ایک ممتازامریکی ماہرنفسیات ڈاکٹرایایہرل کہتے ہیں"جو شخص صحیح معنوں میں مذہب کا پابند ہوتا ہے کبھی اعصابی اور ذہنی امراض کا شکار نہیں ہوتا۔"غرض کے تمام مسائل کا حل اور عافیت کے ساتھ زندگی دنیا کے تمام انسانوں کو رجوع الی اللہ میں ملے گی۔ اور دعا رجوع الہی کی ایک صورت ہے۔
دعا سے رشتہ جوڑیں۔۔۔۔۔یہ روحانی طاقت ہے، جس کے پاس ایسی طاقت موجود ہو کوئی بھی دکھ، رنج، تکلیف اسے توڑ نہیں سکتی۔ انسان مضطرب، خوف زدہ اور پریشان اس وقت ہی ہوتا ہے جب وہ اپنے رب سے دور چلا جاتا ہے اور اپنا مقصدِحیات فراموش کر ڈالتا ہے۔ دعا مصیبت و تکلیفوں میں راہ نجات ہے، دعا ہتھیار ہے، امید ہے، یقین ہے، حوصلہ ہے، ہمت ہے، طاقت ہے، توانائی ہے اور اس کی توفیق رب کا انعام ہے۔ دعا مشکل اور دشوار گھاٹیوں سے بہ آسانی منزل تک پہنچاتی ہے۔
مصیبتوں سے نجات، اعصابی سکون، دلوں کا قرار، روح کا چین اس میں ہے کہ ہم اللہ سے دوستی کرلیں اس سے باتیں کریں، اس کی یاد سے اپنے قلب و ذہن کو منور رکھیں، اس کی اطاعت میں آئیں اور نافرمانی سے توبہ کرلیں، اپنی عرضی پیش کریں، مشکلات و غم دور کرنے کی آس اسی سے رکھیں، خدا بھی یہ چاہتا ہے کہ اسے پکارا جائے، اس سے مدد طلب کی جائے، اس کا بندہ اس کی رحمت سے مایوس اور اس سے غافل نہ ہوجائے، اور ایمان والے کی نشانی ہے کہ "وہ اپنے رب کی رحمت پر یقین رکھتا ہے۔"
قبل اس کے کہ زندگی میں ایسا مقام آئے کہ الجھنوں سے راہ فرار مشکل محسوس ہو، ہمیں چاہیے کہ سارا معاملہ خدا کے سپرد کرکے خود کو اس کی امان کے حوالے کردیا کریں، اس بوجھ کو اتاردیں اور خود ہلکے ہوجائیں۔
ایمان کو طاقت دیں۔۔۔۔۔"ماضی کے پچھتاوے، مستقبل کی فکرواندیشوں اور حال کی پریشانی و دقتوں سے ہمیں ہمارا ایمان بچا سکتا ہے۔" اور ایمان گناہوں کی نحوست سے پرانا ہوجاتا ہے یعنی کم زور پڑ جاتا ہے۔ اسے بنانے، سنوارنے اور نیا کرنے کی ضرورت ہے، رب کی یاد اور اس کے ذکر سے قلب کو منور کرنے کی ضرورت ہے، اس کی بارگاہ میں خود کو پیش کرکے اپنی نافرمانیوں پر آنسو بہانے کی ضرورت ہے۔
اس کی اطاعت و فرماں برداری میں آنے کی ہمت طاقت اور توانائی کی بحالی کی فریاد کی ضرورت ہے۔ ایمان کے بھی درجے ہیں اللہ ہمیں ایمان بڑھانے اور اسے تازہ رکھنے کی محنت کا حکم دیتا ہے۔ بے شک نیکی اور بھلائی قوت ایمان میں اضافہ کرتی ہے جب کہ گناہ اس نعمت کو ماند کردیتا ہے، لیکن توبہ اور ندامت پھر سے رب سے جوڑ دیتی ہے، دامنِ رحمت میں جگہ دے دیتی ہے۔
بس زندگی کا لطف، قرار، سکون کا حاصل اسی میں ہے کہ ہم دعا سے منسلک ہوجائیں، رجوع الہی بڑھادیں اور ایمان کو طاقت ور بنائیں، اس کے علاوہ زندگی دشوار گزرے گی۔ قدم بہ قدم زخموں سے گھائل کرکے، موت کی آرزو میں مبتلا کر دے گی۔ اور نجات تو موت کے بعد بھی نہیں ملے گی، کیوں کہ اس جہاں کے بعد ایک اور جہاں ہے، جس کا سب کو سامنا کرنا ہے اپنے معاملات کا حساب دینا ہے۔ چناؓںچہ اصل مقصدِزندگی اور مصائب سے نجات کا طریقہ یہی ہے کہ زندگی دینے والے کہ مطابق زندگی کو ڈھال لیا جائے۔ اپنی ساری پریشانیاں اس سے بیان کرکے، اس پر بھروسا کامل کیا جائے اور اپنے اعصاب کو پرسکون رکھا جائے۔
ایسا کیوں ہے۔۔۔۔ پریشانیاں اور الجھنیں قطرہ قطرہ پانی ٹپکنے کی مانند ہیں، پریشانیوں کی یہ مسلسل ٹپ ٹپ ٹپ انسانوں کو جنون اور خودکشی کی طرف دھکیل دیتی ہے (ڈیل کارنیگی)
تحقیق کے مطابق امریکا میں اوسطاً تیس منٹ میں ایک شخص خودکشی کرتا ہے، ایک سو بیس سیکنڈ میں ایک شخص پاگل ہوجاتا ہے۔ مسائل اور الجھنوں میں گرفتار اکثر و بیشتر اپنے ہاتھوں جان لینے والی اموات غیرمسلم معاشرے میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟
وجہ فکر، پریشانی، افسردگی ہے، جو انسان کی جان لے لیتی ہے۔ خودکشی کا رجحان اگرچہ مسلمانوں میں کم ہے اس لیے کہ مسلمانوں کے پاس عقیدہ، مذہب، دینِ اسلام، روحانی قوت ایمان کی دولت موجود ہے، جو مصائب سے لڑنے کے لیے ان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ ایمان کی عدم موجودگی میں، انسان کا اپنے رب سے تعلق کم زور پڑ جاتا ہے۔
نتیجتاً ایسا شخص دنیا کی مشکلات سے جلد ہمت ہار بیٹھتا ہے، قوتِ مدافعت کم زور پڑ جاتی ہے، یہاں تک کہ اعصابی شکست سے دوچار ہوجاتا ہے، جسمانی طور پر بھی مستقل مریض بن جاتا ہے۔ پریشانی اگر اعصاب پر طاری ہوجائے، تو سکون اور راحت کے ساتھ ساتھ یہ صحت و تن درستی بھی چھین لیتی ہے۔
ریسرچ کہتی ہے کہ"زمانے کی تلخیاں، انسان کو بدحواس اس لیے کردیتی ہے کیوںکہ مذہب، ایمان اور خدا پر ان کا یقین کامل نہیں ہوتا، جو انسان کو ثابت قدمی سے صبر کے ساتھ دشواریوں کا سامنا نہیں کرنے دیتی۔"
ویلیم جیمز کہتا ہے"ایمان ان قوتوں میں سے ایک قوت ہے جن کے سہارے انسان زندہ رہتا ہے اور اس کی کامل عدم موجودگی کا نتیجہ شکست اور انحطاط ہوتا ہے۔" How to Stop Worrying and Start Living کتاب کے مصنف ڈیل کارنیگی اپنی کتاب میں مسائل سے نمٹنے اور جینے کے اصول بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "میری والدہ کی دعائیں اور ایمان شامل حال نہ ہوتا تو خود میرے والد مصائب سے گھبرا کر دریا میں کب کا چھلانگ لگا کر ڈوب چکے ہوتے۔ ہزاروں مصیبت زدہ روحیں جو ہمارے پاگل خانوں میں چلا رہی ہیں غالباً امن وسکون کی زندگی بسر کر سکتی تھیں اگر انہوں نے اپنی جنگ تنہا لڑنے کے بجائے کسی اعلٰی اور بلند و برتر طاقت سے مدد مانگی ہوتی۔"
تاریخ میں ایسی سیکڑوں کہانیاں ہیں، جب لوگوں نے اپنی زندگی کے خاتمے کے دوران آخری دوراہے پر جیسے ہی اپنے رب کو پکارا اس سے ربط قائم کیا، مدد طلب کی، اور ساری الجھنیں اس کے گوش گزار کیں، تو انہیں اپنی روح تروتازہ اور جرأت و ہمت بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی، مقابلے کا حوصلہ ملا، افسردگی مِٹ گئی، بے چینی، اضطراب کی جگہ اطمینان نے لے لی، جینے کی امنگ پھر سے جاگ اٹھی۔
یعنی مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زندگی کی جنگ جیتنے، اور خطرات کا ثابت قدمی سے مقابلے کے لیے جس عالی ہمت وحوصلے کی ضرورت ہوتی ہے، قُربِ خدا کے بغیر وہ ممکن نہیں ہے، مصائب سے وہی شخص گھبراتا اور اطمینان سے محروم رہتا ہے، جس کا عقیدہ، خدا سے تعلق، دعاؤں سے رشتہ کم زور ہوگا۔ وہ اپنی التجائیں اپنے رب سے نہیں مانگتا اور اپنے غموں کو دور کرنے کی فریاد اس تک نہیں پہنچاتا، جو کہ اس کے لیے تسکین کا واحد ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ناامیدی اور مایوسی میں اس حد تک آگے نکل جاتا ہے کہ راہ فرار موت میں تلاش کرنے لگتا ہے۔
عصر حاضر کے ممتاز ترین ماہر علم المراض النفس ڈاکٹر کارل جنگ اپنی کتاب "جدید انسان روح کی تلاش میں" میں کہتے ہیں"پچھلے تیس سالوں کے دوران میں، روئے زمین کے تقریباً تمام مہذب ممالک کے لوگوں نے مجھ سے مشورہ حاصل کیا ہے۔
زندگی کے دوسرے نصف یعنی پینتیس سال سے اوپر کے میرے سارے مریضوں میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کے مسئلے کا آخری حل زندگی کے مذہبی نقطہ نظر میں نہ ملتا ہو۔ یہ نہایت آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ اس لیے بیمار ہوئے کیوںکہ وہ اس چیز سے محروم ہوچکے تھے جو ہر زمانے کے زندہ مذاہب نے اپنے پیروکاروں کو دی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس وقت تک صحت یاب نہ ہوا جب تک کہ اس نے دوبارہ مذہب کی طرف رجوع نہیں کیا۔"
رجوع الی اللہ۔۔۔۔۔ترجمہ"اور جو شخص اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کو ہدایت فرماتے ہیں، وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور اللہ کے ذکر سے ان کے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر (میں ایسی خاصیت ہے کہ اس) سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے۔" (سورۂ رعد رکوع 4)
رجوع الی اللہ میں ہی قلب کا نور دلوں کا سکون اور روح کی تسکین پوشیدہ ہے، یہی تاریک لمحات میں روشنی کی کرن اور مسائل سے نمٹنے، اور جینے کا اصل طریقہ ہے۔ جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں، وہ غم نہیں کھاتے، پُرسکون رہتے ہیں متعدد مقامات پر قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے یہ حکم فرمایا ہے جس کا مفہوم ہے "اس کی رسی مضبوطی سے تھام لو، اپنے پروردگار کے راستے پر خود کو ڈھال لو، غم نہ کرو، اس پر بھروسا کرو، اس کی رحمت سے مایوس اور ناامید نہ ہو، نافرمانی سے بچو توبہ کو لازم کرلو، اسے پکارو، وہ تمہاری سنتا ہے توبہ قبول کرتا ہے، شکر کرو ناشکری نہ کرو، اللہ تمہارے غم دور کر دے گا، تمہیں غنی کردے گا، آسانی و عافیت سے نوازے گا، مشکلوں کو دور کر دے گا۔"
پریشانیوں کا علاج اور تسکین حاصل کرنے کی راہ رجوع الی اللہ ہے، رب سے تعلق ہے، دعا ہے، ایمان ہے۔ اس دولت کے ہوتے ہوئے ایک مسلمان کو کسی کتھارسس کی قطعاً ضرورت نہیں، اس کے نزدیک ڈپریشن، تناؤ اعصابی کشمکش اور مایوسی جیسے عارضے کا کوئی تصور نہیں ہونا چاہیے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، وہ پریشان حال مصیبت زدہ اور بے بسی سے دوچار ہے، اس کی وجہ مذہب سے دوری، رب سے لاتعلقی، اور ایمان کی کم زوری ہے۔
سائنس بھی یہ تسلیم کرتی ہے، چناںچہ ایک ممتازامریکی ماہرنفسیات ڈاکٹرایایہرل کہتے ہیں"جو شخص صحیح معنوں میں مذہب کا پابند ہوتا ہے کبھی اعصابی اور ذہنی امراض کا شکار نہیں ہوتا۔"غرض کے تمام مسائل کا حل اور عافیت کے ساتھ زندگی دنیا کے تمام انسانوں کو رجوع الی اللہ میں ملے گی۔ اور دعا رجوع الہی کی ایک صورت ہے۔
دعا سے رشتہ جوڑیں۔۔۔۔۔یہ روحانی طاقت ہے، جس کے پاس ایسی طاقت موجود ہو کوئی بھی دکھ، رنج، تکلیف اسے توڑ نہیں سکتی۔ انسان مضطرب، خوف زدہ اور پریشان اس وقت ہی ہوتا ہے جب وہ اپنے رب سے دور چلا جاتا ہے اور اپنا مقصدِحیات فراموش کر ڈالتا ہے۔ دعا مصیبت و تکلیفوں میں راہ نجات ہے، دعا ہتھیار ہے، امید ہے، یقین ہے، حوصلہ ہے، ہمت ہے، طاقت ہے، توانائی ہے اور اس کی توفیق رب کا انعام ہے۔ دعا مشکل اور دشوار گھاٹیوں سے بہ آسانی منزل تک پہنچاتی ہے۔
مصیبتوں سے نجات، اعصابی سکون، دلوں کا قرار، روح کا چین اس میں ہے کہ ہم اللہ سے دوستی کرلیں اس سے باتیں کریں، اس کی یاد سے اپنے قلب و ذہن کو منور رکھیں، اس کی اطاعت میں آئیں اور نافرمانی سے توبہ کرلیں، اپنی عرضی پیش کریں، مشکلات و غم دور کرنے کی آس اسی سے رکھیں، خدا بھی یہ چاہتا ہے کہ اسے پکارا جائے، اس سے مدد طلب کی جائے، اس کا بندہ اس کی رحمت سے مایوس اور اس سے غافل نہ ہوجائے، اور ایمان والے کی نشانی ہے کہ "وہ اپنے رب کی رحمت پر یقین رکھتا ہے۔"
قبل اس کے کہ زندگی میں ایسا مقام آئے کہ الجھنوں سے راہ فرار مشکل محسوس ہو، ہمیں چاہیے کہ سارا معاملہ خدا کے سپرد کرکے خود کو اس کی امان کے حوالے کردیا کریں، اس بوجھ کو اتاردیں اور خود ہلکے ہوجائیں۔
ایمان کو طاقت دیں۔۔۔۔۔"ماضی کے پچھتاوے، مستقبل کی فکرواندیشوں اور حال کی پریشانی و دقتوں سے ہمیں ہمارا ایمان بچا سکتا ہے۔" اور ایمان گناہوں کی نحوست سے پرانا ہوجاتا ہے یعنی کم زور پڑ جاتا ہے۔ اسے بنانے، سنوارنے اور نیا کرنے کی ضرورت ہے، رب کی یاد اور اس کے ذکر سے قلب کو منور کرنے کی ضرورت ہے، اس کی بارگاہ میں خود کو پیش کرکے اپنی نافرمانیوں پر آنسو بہانے کی ضرورت ہے۔
اس کی اطاعت و فرماں برداری میں آنے کی ہمت طاقت اور توانائی کی بحالی کی فریاد کی ضرورت ہے۔ ایمان کے بھی درجے ہیں اللہ ہمیں ایمان بڑھانے اور اسے تازہ رکھنے کی محنت کا حکم دیتا ہے۔ بے شک نیکی اور بھلائی قوت ایمان میں اضافہ کرتی ہے جب کہ گناہ اس نعمت کو ماند کردیتا ہے، لیکن توبہ اور ندامت پھر سے رب سے جوڑ دیتی ہے، دامنِ رحمت میں جگہ دے دیتی ہے۔
بس زندگی کا لطف، قرار، سکون کا حاصل اسی میں ہے کہ ہم دعا سے منسلک ہوجائیں، رجوع الہی بڑھادیں اور ایمان کو طاقت ور بنائیں، اس کے علاوہ زندگی دشوار گزرے گی۔ قدم بہ قدم زخموں سے گھائل کرکے، موت کی آرزو میں مبتلا کر دے گی۔ اور نجات تو موت کے بعد بھی نہیں ملے گی، کیوں کہ اس جہاں کے بعد ایک اور جہاں ہے، جس کا سب کو سامنا کرنا ہے اپنے معاملات کا حساب دینا ہے۔ چناؓںچہ اصل مقصدِزندگی اور مصائب سے نجات کا طریقہ یہی ہے کہ زندگی دینے والے کہ مطابق زندگی کو ڈھال لیا جائے۔ اپنی ساری پریشانیاں اس سے بیان کرکے، اس پر بھروسا کامل کیا جائے اور اپنے اعصاب کو پرسکون رکھا جائے۔