انیس سو تینتیس کے جرمنی میں ایسا کیا ہوا تھا

سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ پارلیمانی امور اس کے دائرہِ کار سے باہر ہیں

کراچی:
باقی لوگ تو سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے پر لڈیاں ڈال رہے ہیں مگر مجھے اس لال بھجکڑ کی تلاش ہے جس نے سرکارِ عمرانیہ کو آئین کی پانچویں شق کے تالاب میں دھکا دے کر چھٹی شق کی کگار تک پہنچا دیا۔

مقدمے کی سماعت کے دوران دلچسپ بحثیں بھی ہوئیں۔ایک سرکردہ وکیل صلاح الدین احمد سے جب عدالت نے پوچھا کہ جس عجلت میں اکثریت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر نے تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کیا اور اقلیتی فیصلے کو نافذ کرنے کی کوشش میں ایک آئینی وبال کھڑا کر دیا تو کیا پہلے بھی کہیں ایسی کوئی مثال ملتی ہے۔

وکیل صلاح الدین احمد نے اس بابت سن انیس سو تیس کے عشرے کی جرمن پارلیمان کی مثال پیش کی جہاں اقلیت کے بل بوتے پر اکثریت کو بلڈوز کرنے کی کوشش کامیاب ہوئی اور اس کامیابی کے نتیجے میں جو کچھ ہوا اس سے تاریخ کا ادنیٰ سے ادنیٰ طالبِ علم بھی واقف ہے۔

ہم نے کھوج لگانے کی کوشش کی کہ آخر جرمن پارلیمان (ریشتاغ ) میں ایسا کیا ہوا تھا۔اس بابت جو معلوم ہوا وہ بعینہ پیشِ خدمت ہے۔

پہلی عالمی جنگ (انیس سو چودہ تا اٹھارہ) کے بعد انیس سو انیس میں جرمنی نے وائمر ریپبلک کے لیے ایک نیا کثیر جماعتی پارلیمانی آئین اختیار کیا۔ چیف ایگزیکٹو چانسلر ( وزیرِ اعظم ) کہلاتا تھا۔ قانون سازی کا اختیار دو ایوانی پارلیمنٹ کے پاس تھا۔ آئین میں کسی بھی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی شرط تھی۔اس آئین کے تحت جو انتخابات ہوتے رہے ان میں سوشل ڈیموکریٹس اور کیمونسٹوں کو غلبہ حاصل ہوتا رہا اور ملی جلی سرکار بنتی رہی۔

جنگ کے بعد جرمن اقتصادیات زوالِ مسلسل کی کیفیت میں تھی۔چنانچہ انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست و نسل پرست تنظیموں نے رفتہ رفتہ زور پکڑنا شروع کیا۔انھی میں سے ایک تنظیم جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی ( نازی ) کے نام سے ابھری۔اس کی قیادت ایڈولف ہٹلر کے ہاتھ میں تھی۔

نازی پارٹی نے دگرگوں اقتصادی حالات کا ذمے دار جنگِ عظیم اول کے غیرملکی فاتحین کے مسلط کردہ ورسائے معاہدے کو تو قرار دیا مگر جرمن کیمونسٹوں اور مالدار یہودی کمیونٹی کو بطورِ خاص سیاسی ہدف بناتے ہوئے ان سے نجات کو جرمن قوم پرستی کا مرکزیہ بنانے کی کوشش کی۔یعنی دونوں سے جان چھوٹ جائے تو جرمنی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ حاصل کر کے ایک بار پھر یورپ کا اقتصادی و عسکری امام بن سکتا ہے۔

ابتدا میں ووٹروں نے نازی پارٹی کو خاص گھاس نہیں ڈالی۔بلکہ صوبہ بویریا میں بزور اقتدار ہتھیانے کی ناکام کوشش کے بعد ہٹلر سمیت نازی جماعت کے کئی عہدیدار پابندِ سلاسل بھی ہوئے۔دورانِ اسیری ہٹلر نے مائن کیمپف '' میری جدوجہد '' کے نام سے کتاب بھی لکھی جس میں نہ صرف جرمنوں کے آریائی حسب نسب کی اہمیت اجاگر کی گئی بلکہ یہ نظریہ بھی وضع کیا گیا کہ خون چوس یہودی کاروباریوں اور ملحد و بیرونی ایجنٹ کیمونسٹ پارٹی سے گلو خلاصی جرمنی کو عظیم بنانے کے لیے کس قدر ضروری ہے۔

انیس سو اٹھائیس کے عام انتخابات میں نازی پارٹی کو صرف بارہ نشستیں حاصل ہوئیں۔مگر جولائی انیس سو بتیس میں ہونے والے انتخابات میں نازی پارٹی حیرت انگیز طور پر عددی اعتبار سے سب سے بڑی جماعت بن کے ابھری۔اس نے چھ سو سینتالیس کے ایوان میں دو سو بتیس نشستیں جیت لیں۔اس فتح کا سبب عالمی کساد بازاری کے نتیجے میں عام جرمن ووٹر کے غصے کا رخ جرمنی کا خون چوسنے والی اندرونی قوتوں کی جانب موڑنا تھا کہ جن کے ڈانڈے جرمنی کے بیرونی دشمنوں سے ملائے گئے۔

اکثریتی پارٹی ہونے کے ناتے نازی رہنما ایڈولف ہٹلر کو صدر وان ہنڈن برگ نے نیا چانسلر نامزد کیا۔چانسلر بنتے ہی نازی نوجوانوں کی دو نیم عسکری تنظیموں ایس ایس اور ایس اے نے ملگ گیر غنڈہ گردی کا بازار گرم کر دیا۔ان کا ہدف کیمونسٹ ہمدرد اور یہودی املاک تھیں۔

نازی پارٹی کے ہمدردوں میں پہلی عالمی جنگ میں شکست کھانے والی فوج کے ریٹائرڈ نچلے اور متوسط درجے کے افسر ، بے روزگاری سے تنگ درمیانہ و نیم درمیانہ طبقہ اور فاتح اتحادی ممالک کی اقتصادی ناکہ بندی سے اجیرن جرمن صنعت کاروں کی ایک تعداد شامل تھی۔مگر یہ تعداد سوشل ڈیموکریٹس اور کیمونسٹوں کے حامی صنعتی مزدوروں اور چھوٹے کاروباریوں کے مقابلے میں پھر بھی کم تھی۔

تیس کے عشرے کی عالمی اقتصادی کساد بازاری نے نازیوں کی مقبولیت کو مہمیز لگا دی اور اس کا نتیجہ انیس سو بتیس کی کامیابی کی شکل میں برآمد ہوا۔تب تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ نازیوں نے انتخابی نظام کو محض برسرِاقتدار آنے کی سیڑھی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ان کا اس سیڑھی سے اترنے کا کوئی ارادہ نہیں۔بلکہ کوشش یہی ہو گی کہ ایک بار چھت پر پہنچ کر سیڑھی بھی اوپر کھینچ لی جائے۔

برسرِ اقتدار آنے کے لگ بھگ چھ ماہ بعد جنوری انیس سو تینتیس میں ایک دن اچانک جرمن پارلیمنٹ میں آگ لگ گئی اور عمارت کے ایک حصے کو شدید نقصان پہنچا۔نازی انتظامیہ نے اس واردات کا ذمے دار کیمونسٹوں کو قرار دیا اور پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔دو ماہ بعد مارچ انیس سو تینتیس میں نازیوں نے آئین میں ترمیم کے لیے اینیبلنگ ایکٹ کا مسودہ تیار کیا۔


اگر یہ ایکٹ منظور ہو جاتا تو چانسلر کو اختیار مل جاتا کہ وہ پارلیمنٹ اور صدرِ مملکت کو خاطر میں لائے بغیر اندرونی و بیرونی سلامتی کے نام پر بالا بالا قوانین نافذ کر سکتا ہے اور بعد میں پارلیمنٹ سے رسمی منظوری لے سکتا ہے۔اس ایکٹ کی صورت میں پارلیمنٹ کا ربڑ اسٹیمپ بننا یقینی تھا۔

مگر دو تہائی اکثریت کے بغیر اس ایکٹ کا منظور ہونا بھی ناممکن تھا۔یعنی چھ سو سینتالیس کے ایوان میں سے چار سو بتیس ارکان کی تائید ضروری تھی۔ایوان میں چھوٹی بڑی ملا کر گیارہ جماعتوں کی نمایندگی تھی۔

نازی پارٹی کے بعد سب سے بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ایک سو بیس نشستیں تھی۔کیمونسٹ پارٹی کے پاس اکیاسی نشستیں تھی۔ کیتھولک مذہبی جماعت سینٹر پارٹی کے تہتر ارکان تھے۔باقی نشستیں دیگر سات جماعتوں کے درمیان بٹی ہوئی تھی۔نازیوں نے دائیں بازو کی چند چھوٹی جماعتوں کو مخلوط حکومت میں چھوٹی موٹی وزارتیں دے کر شامل کر لیا۔مگر دو تہائی اکثریت پھر بھی دستیاب نہیں تھی۔

سوشل ڈیموکریٹ اور کیمونسٹ کسی طور بھی اس ایکٹ کی حمایت کے لیے آمادہ نہیں تھے۔چنانچہ تمام اکیاسی کیمونسٹ ارکانِ کو پارلیمنٹ کی عمارت نذرِ آتش کرنے کی غیر ملکی سازش کا آلہ کار بننے اور ریاست سے بغاوت کے جرم میں مقدمات بنا کر حراست میں لے لیا گیا جب کہ ایک سو بیس میں سے چھبیس سوشل ڈیموکریٹس کو کرپشن اور حکومت کے خلاف عام لوگوں کو اکسانے کے الزامات کے تحت جیلوں میں منتقل کر دیا گیا۔

کیتھولک مذہبی جماعت سینٹر پارٹی کے سربراہ پادری لڈوگ کاز سے نازی قیادت نے حمایت کی درخواست کی اور انھیں یقین دہانی کروائی گئی کہ وزارتوں میں حصہ دینے کے ساتھ ساتھ کیتھولک چرچ اور اس سے متصل مذہبی تعلیمی اداروں کی مراعات میں اضافہ کیا جائے گا۔

سینٹر پارٹی کی قیادت نے نازیوں سے تحریری سمجھوتے کا مطالبہ کیا۔فوری طور پر سمجھوتہ ٹائپ کیا گیا اور یقین دلایا گیا کہ ووٹنگ کے فوراً بعد فیوہرر چانسلر ( ہٹلر) اس پر دستخط کر دیں گے۔ہٹلر نے تئیس مارچ انیس سو تینتیس کو ایکٹ کی منظوری کے لیے ووٹنگ سے قبل جو خطاب کیا اس میں جرمنی اور مسیحت کے تاریخی رشتے پر خاص زور دیا۔

چونکہ نازی سب سے بڑی اکثریتی جماعت تھی لہٰذا اسمبلی کا اسپیکر بھی ہٹلر کے دستِ راست ہرمن گوئرنگ کو چنا گیا۔سینٹر پارٹی کو ساتھ ملانے کے باوجود بھی دو تہائی اکثریت نہیں بن پا رہی تھی۔اس کا حل اسپیکر نے یہ نکالا کہ غداری و تخریب کاری کے الزام میں زیرِ حراست اکیاسی کیمونسٹ ارکان کو پارلیمنٹ میں ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے کی رولنگ جاری کی اور دو تہائی اکثریت کے لیے چار سو بتیس ارکان کی شرط کو بدل کر درکار ووٹوں کی تعداد تین سو اٹہتر کر دی۔

ووٹنگ کے عمل کے دوران ایس ایس اور ایس اے کی باوردی یوتھ فورس نے ایوان کا کنٹرول سنبھال لیا۔ان کی ایک ایک ممبر پر عقابی نگاہ تھی۔اس فضا میں ووٹنگ ہوئی تو چھوٹی جماعتوں کے ارکان نے ایکٹ کے حق میں ووٹ دیا۔کیمونسٹ نشستیں خالی رہیں۔ ایکٹ چار سو چوالیس ووٹوں سے منظور ہو گیا۔مخالفت میں چورانوے ووٹ آئے جو سب کے سب سوشل ڈیموکریٹس کے تھے۔

سپریم کورٹ میں جب اس رائے شماری کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی تو اس نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ پارلیمانی امور اس کے دائرہِ کار سے باہر ہیں۔ ریٹائرڈ ججوں کی اکثریت بھی نازی پارٹی کی رکن بن گئی۔ایک ریٹائرڈ جج جسٹس ایرک شلٹز بعد ازاں امورِ قانون سازی کے مشیر بھی بن گئے۔

اینیببلنگ ایکٹ منظور ہوتے ہی جرمنی راتوں رات یک جماعتی ریاست میں تبدیل ہو گیا۔سینٹر پارٹی سے جو تحریری وعدے کیے گئے ان پر چانسلر نے کبھی دستخط نہیں کیے۔اگلے تین ماہ کے دوران چھوٹی سیاسی جماعتیں یا تو حکمران نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی میں ضم ہو گئیں۔یا ان کی قیادت حراست میں لے لی گئی یا جلاوطن ہو گئی۔کیمونسٹ پارٹی کالعدم قرار پائی اور سوشل ڈیموکریٹ تتر بتر ہو گئے۔

اینیبلنگ ایکٹ چار سال کی مدت کے لیے منظور ہوا تھا۔مگر بعد میں بننے والی یک جماعتی پارلیمانوں نے یکے بعد دیگرے چار چار برس کی مزید دو مدتوں تک اس قانون کو توسیع دی۔جب ہٹلر نے خود کشی کی تب بھی یہ ایکٹ جرمنی میں نافذ تھا۔

اسمبلی کے اسپیکر ہرمن گوئرنگ کو بعد ازاں ہٹلر نے اپنا سیاسی جانشین مقرر کیا۔وہ دفاعی پیداوار ، ہوابازی اور اقتصادیات کے وزیر بھی رہے۔جنگ کے خاتمے کے بعد گوئرنگ کو بھی جنگی جرائم کے لیے قائم کردہ نورمبرگ عدالت نے سزائے موت سنائی۔مگر اس نے کال کوٹھڑی میں زہریلا کیپسول نگل لیا۔وماعلینا اللبلاغ۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
Load Next Story