چارٹر آف رائٹس
وفاقی حکومت کا رویہ ایم کیو ایم کی قیادت کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دے سکا
ایم کیو ایم نے اس دفعہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے الگ الگ معاہدے کیے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا معاہدہ 18اور مسلم لیگ سے ہونے والا معاہدہ 27 نکات پر مشتمل ہے۔
اس معاہدہ کو ''چارٹر آف رائٹس '' کا نام دیا گیا ہے اور دونوں معاہدوں کے تحت نئے انتظامی یونٹ کے لیے ٹائم فریم پر اتفاق، جعلی ڈومیسائل منسوخ کرنے، مقامی پولیسنگ کا نظام متعارف کرانے، سرکاری ملازمتوں کے لیے شہری اور دیہی کوٹہ پر عمل، نئی مردم شماری کے بعد الیکشن، لاپتہ افراد کی واپسی اور سندھ میں اعلیٰ عہدوں پر تقرر کو دونوں جماعتوں کی مشاورت سے کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
اس چارٹر میں شفاف نظامِ حکومت کے لیے خودمختار انفارمیشن کمیشن کا ذکر موجود نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے معاہدہ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے اس معاہدہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ نکات پر عملدرآمد میں دیر ہوگی۔ ایم کیو ایم نے اس معاہدہ پر دستخطوں کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی کے ایجنڈا میں شامل تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔
ایم کیو ایم کی جانب سے ''چارٹر آف رائٹس '' میں شامل کیے گئے نکات میں سے کوئی بھی نکتہ نیا نہیں ہے۔ یہ وہ نکات ہیں جس پر اس صدی کے آغاز سے سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی جدید شہروںکے طریقہ کے لیے ان نکات پر زور دیتی رہی ہیں۔ بلدیاتی نظام جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نوجوانوں میں جمہوری رویہ کے لیے طلبہ یونین اور نچلی سطح تک اختیار کے بلدیاتی ادارے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں 80ء کی دہائی میں طلبہ یونین ختم کردی گئی۔ جنرل پرویز مشرف نے نچلی سطح کا بلدیاتی نظام رائج کیا۔ شہری ماہرین کا متفقہ بیانیہ ہے کہ نچلی سطح کے بلدیاتی نظام اور کونسلر کے ادارہ کو مضبوط کیا۔ ابھی یہ نظام ارتقائی منزلیں طے کررہا تھا اور اس کی خوبیاں اجاگر ہورہی تھیں اور خامیاں ظاہر ہورہی تھیں کہ پرویز مشرف حکومت کا اختتام ہوا۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت جو 1972 سے 1977 تک قائم رہی اس کا ایک بڑا کارنامہ 1973 کے آئین پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے تھا۔ اس آئین میں بلدیاتی نظام کے قیام کی شق شامل تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1988 میں پیپلز پارٹی کا جو انتخابی منشور تیار کرایا تھا اس میں نئے سوشل کنٹریکٹ کا قیام شامل تھا۔ نئے سوشل کنٹریکٹ سے مراد برطانیہ کے کاؤنٹی کی طرز کے بلدیاتی نظام کا قیام تھا۔
2008 کے انتخابات کے بعد ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی وفاق اور سندھ کی حکومتوں میں جن نکات پر اتفاق رائے بعد میں ہوا تھا ان میں نچلی سطح کا بلدیاتی نظام، کوٹہ سسٹم پر مکمل عملدرآمد اور حیدرآباد میں یونیورسٹی کا قیام وغیرہ کے نکات شامل تھے، مگر ایم کیو ایم کراچی میں امن و امان کو یقینی نہ بناسکی تھی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بلدیاتی نظام قائم نہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کو نظرانداز کیا۔ صوبائی وزیر اعلیٰ کوڑے اور سیوریج کے مسائل کو حل کرنے کی جستجو میں لگ گئے جس کے نتیجہ میں سندھ میں نئے تضادات پیدا ہوگئے۔ شہری عوام اور صوبائی حکومت کے درمیان فاصلے بڑھ گئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خلیج بڑھتی چلی گئی۔
اس دوران 2018کے انتخابات میں کراچی کے شہری علاقوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی اکثریتی نشستیں تحریک انصاف نے جیت لیں۔ اب سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔ وفاق نے صرف کراچی میں گرین لائن کے منصوبہ کی تکمیل پر توجہ دی۔
وفاق نے کراچی اور حیدرآباد کی ترقی کے لیے جن فنڈز کا اعلان کیا تھا وہ ریلیز نہ ہوئے نہ ایم کیو ایم کے دفاتر کھلے نہ ہی لاپتہ افراد کی واپسی کے لیے کچھ ہوسکا۔ یوں ایم کیو ایم کے وفاق میں تحریک انصاف سے تعاون کے لیے کوئی زیادہ مفید نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
وفاقی حکومت کا رویہ ایم کیو ایم کی قیادت کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دے سکا۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا تعلق کراچی سے ہے، وہ ضلع جنوبی میں کلفٹن کے قومی اسمبلی کے حلقہ سے دو بار منتخب ہوئے مگر وہ اسلام آباد کی بیوروکریسی کو کراچی اور حیدرآباد میں نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز کے اجراء کے لیے متحرک نہ کرسکے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء بھی بے اثر ثابت ہوئے۔ ایک وزیر جن کے بارے میں 2018میں یہ تاثر قائم کیا گیا تھا کہ بلدیہ ٹاؤن کے قومی اسمبلی کے حلقہ میں جہاں سے وہ منتخب ہوئے تھے وہاں انھوں نے اپنے خاندانی وسائل سے ترقیاتی کام شروع کرا دیے ہیں مگر الیکشن کمیشن نے ان کو جھوٹا حلف نامہ جمع کرانے پر نااہل قرار دیا تو اس حلقہ میں ضمنی انتخاب کے دوران ووٹر پانی، بجلی اور گیس کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر کے لیے دہائی دیتے رہے۔ جمہوری نظام میں وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ پر عدم اعتماد کی تحریک معمول کی بات ہے۔
متحدہ حزب اختلاف نے جب قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو پھر مسلم لیگ، جمعیت علماء اسلام اور پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کی قیادت سے مذاکرات کیے اور طویل مذاکرات کے بعد تینوں جماعتیں ''چارٹر آف رائٹس'' پر متفق ہوئیں۔ ایم کیو ایم ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے علیحدہ علیحدہ معاہدے کرچکی ہے مگر یہ معاہدے ناکام ہوئے۔ البتہ اس دفعہ تبدیلی یہ آئی ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدہ میں مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام (ف )کی قیادت نے ضامن کے فرائض انجام دیے۔
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے جن نکات پر اتفاق کیاہے وہ سب قانونی نوعیت کے ہیں۔ 14 سال سے ان نکات پر عمل نہ ہونے سے سندھ میں دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک جامع فیصلہ میں بلدیاتی قانون کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ صوبائی حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر عملدرآمد کی پابند ہے۔ صوبائی حکومت نے جماعت اسلامی کے ایک ماہ کے قریب چلنے والے دھرنا کے خاتمہ کے لیے ایسی ہی نوعیت کا معاہدہ کیا تھا۔ اس صورتحال میں معاہدہ کے تمام نکات پر عملدرآمد کا فوری طور پر آغاز ہونا چاہیے۔
اس معاہدہ کو ''چارٹر آف رائٹس '' کا نام دیا گیا ہے اور دونوں معاہدوں کے تحت نئے انتظامی یونٹ کے لیے ٹائم فریم پر اتفاق، جعلی ڈومیسائل منسوخ کرنے، مقامی پولیسنگ کا نظام متعارف کرانے، سرکاری ملازمتوں کے لیے شہری اور دیہی کوٹہ پر عمل، نئی مردم شماری کے بعد الیکشن، لاپتہ افراد کی واپسی اور سندھ میں اعلیٰ عہدوں پر تقرر کو دونوں جماعتوں کی مشاورت سے کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
اس چارٹر میں شفاف نظامِ حکومت کے لیے خودمختار انفارمیشن کمیشن کا ذکر موجود نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے معاہدہ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے اس معاہدہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ نکات پر عملدرآمد میں دیر ہوگی۔ ایم کیو ایم نے اس معاہدہ پر دستخطوں کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی کے ایجنڈا میں شامل تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔
ایم کیو ایم کی جانب سے ''چارٹر آف رائٹس '' میں شامل کیے گئے نکات میں سے کوئی بھی نکتہ نیا نہیں ہے۔ یہ وہ نکات ہیں جس پر اس صدی کے آغاز سے سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی جدید شہروںکے طریقہ کے لیے ان نکات پر زور دیتی رہی ہیں۔ بلدیاتی نظام جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نوجوانوں میں جمہوری رویہ کے لیے طلبہ یونین اور نچلی سطح تک اختیار کے بلدیاتی ادارے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں 80ء کی دہائی میں طلبہ یونین ختم کردی گئی۔ جنرل پرویز مشرف نے نچلی سطح کا بلدیاتی نظام رائج کیا۔ شہری ماہرین کا متفقہ بیانیہ ہے کہ نچلی سطح کے بلدیاتی نظام اور کونسلر کے ادارہ کو مضبوط کیا۔ ابھی یہ نظام ارتقائی منزلیں طے کررہا تھا اور اس کی خوبیاں اجاگر ہورہی تھیں اور خامیاں ظاہر ہورہی تھیں کہ پرویز مشرف حکومت کا اختتام ہوا۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت جو 1972 سے 1977 تک قائم رہی اس کا ایک بڑا کارنامہ 1973 کے آئین پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے تھا۔ اس آئین میں بلدیاتی نظام کے قیام کی شق شامل تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1988 میں پیپلز پارٹی کا جو انتخابی منشور تیار کرایا تھا اس میں نئے سوشل کنٹریکٹ کا قیام شامل تھا۔ نئے سوشل کنٹریکٹ سے مراد برطانیہ کے کاؤنٹی کی طرز کے بلدیاتی نظام کا قیام تھا۔
2008 کے انتخابات کے بعد ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی وفاق اور سندھ کی حکومتوں میں جن نکات پر اتفاق رائے بعد میں ہوا تھا ان میں نچلی سطح کا بلدیاتی نظام، کوٹہ سسٹم پر مکمل عملدرآمد اور حیدرآباد میں یونیورسٹی کا قیام وغیرہ کے نکات شامل تھے، مگر ایم کیو ایم کراچی میں امن و امان کو یقینی نہ بناسکی تھی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بلدیاتی نظام قائم نہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کو نظرانداز کیا۔ صوبائی وزیر اعلیٰ کوڑے اور سیوریج کے مسائل کو حل کرنے کی جستجو میں لگ گئے جس کے نتیجہ میں سندھ میں نئے تضادات پیدا ہوگئے۔ شہری عوام اور صوبائی حکومت کے درمیان فاصلے بڑھ گئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خلیج بڑھتی چلی گئی۔
اس دوران 2018کے انتخابات میں کراچی کے شہری علاقوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی اکثریتی نشستیں تحریک انصاف نے جیت لیں۔ اب سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔ وفاق نے صرف کراچی میں گرین لائن کے منصوبہ کی تکمیل پر توجہ دی۔
وفاق نے کراچی اور حیدرآباد کی ترقی کے لیے جن فنڈز کا اعلان کیا تھا وہ ریلیز نہ ہوئے نہ ایم کیو ایم کے دفاتر کھلے نہ ہی لاپتہ افراد کی واپسی کے لیے کچھ ہوسکا۔ یوں ایم کیو ایم کے وفاق میں تحریک انصاف سے تعاون کے لیے کوئی زیادہ مفید نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
وفاقی حکومت کا رویہ ایم کیو ایم کی قیادت کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دے سکا۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا تعلق کراچی سے ہے، وہ ضلع جنوبی میں کلفٹن کے قومی اسمبلی کے حلقہ سے دو بار منتخب ہوئے مگر وہ اسلام آباد کی بیوروکریسی کو کراچی اور حیدرآباد میں نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز کے اجراء کے لیے متحرک نہ کرسکے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء بھی بے اثر ثابت ہوئے۔ ایک وزیر جن کے بارے میں 2018میں یہ تاثر قائم کیا گیا تھا کہ بلدیہ ٹاؤن کے قومی اسمبلی کے حلقہ میں جہاں سے وہ منتخب ہوئے تھے وہاں انھوں نے اپنے خاندانی وسائل سے ترقیاتی کام شروع کرا دیے ہیں مگر الیکشن کمیشن نے ان کو جھوٹا حلف نامہ جمع کرانے پر نااہل قرار دیا تو اس حلقہ میں ضمنی انتخاب کے دوران ووٹر پانی، بجلی اور گیس کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر کے لیے دہائی دیتے رہے۔ جمہوری نظام میں وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ پر عدم اعتماد کی تحریک معمول کی بات ہے۔
متحدہ حزب اختلاف نے جب قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو پھر مسلم لیگ، جمعیت علماء اسلام اور پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کی قیادت سے مذاکرات کیے اور طویل مذاکرات کے بعد تینوں جماعتیں ''چارٹر آف رائٹس'' پر متفق ہوئیں۔ ایم کیو ایم ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے علیحدہ علیحدہ معاہدے کرچکی ہے مگر یہ معاہدے ناکام ہوئے۔ البتہ اس دفعہ تبدیلی یہ آئی ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدہ میں مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام (ف )کی قیادت نے ضامن کے فرائض انجام دیے۔
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے جن نکات پر اتفاق کیاہے وہ سب قانونی نوعیت کے ہیں۔ 14 سال سے ان نکات پر عمل نہ ہونے سے سندھ میں دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک جامع فیصلہ میں بلدیاتی قانون کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ صوبائی حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر عملدرآمد کی پابند ہے۔ صوبائی حکومت نے جماعت اسلامی کے ایک ماہ کے قریب چلنے والے دھرنا کے خاتمہ کے لیے ایسی ہی نوعیت کا معاہدہ کیا تھا۔ اس صورتحال میں معاہدہ کے تمام نکات پر عملدرآمد کا فوری طور پر آغاز ہونا چاہیے۔