معاشی استحکام بحوالہ سیاسی عدم استحکام
پاکستان میں سیاسی بے یقینی سیاسی عدم استحکام فوری طور پر معاشی استحکام پر اثرانداز ہوتا ہے
QUETTA:
جوں جوں ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، اسی طرح ڈالر کی قدر بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ملکی سیاسی کشیدگی نے ڈالر پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں جب کہ ملکی کرنسی پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مارچ کے مہینے سے اب تک ڈالر کی قدر میں تقریباً 10 فی صد اضافہ ہو چکا ہے گزشتہ دنوں ایک ڈالر 189روپے تک پہنچ چکا تھا۔
ملک میں مارچ کے اوائل سے اپریل کے اوائل تک جس قدر سیاسی بے یقینی پیدا ہوتی چلی گئی تھی اسی لحاظ سے روپیہ بھی انتہائی بے قدر ہوتا رہا۔ گزشتہ دنوں روپے کی قدر مزید کم ہو کر اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر 189 روپے 70 پیسے کا ہو گیا تھا، اگر اسی طرح ملک میں سیاسی عدم استحکام رہا تو یہ معاشی استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی بجانے کے مترادف ہوگا اور اس کے مہیب اثرات روپے کی قدر کو مزید بے قدر کردیں گے اس طرح ڈالر کا سفر 200 روپے فی ڈالر کی جانب گامزن ہونے کے امکانات ہیں۔
پاکستان میں سیاسی بے یقینی سیاسی عدم استحکام فوری طور پر معاشی استحکام پر اثرانداز ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک کا غریب طبقہ دیہاڑی دار مزدور طبقہ اور تنخواہ دار و پنشن یافتہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ ڈالر ریٹ بڑھنے سے جہاں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کی ایک اہم وجہ عالمی مارکیٹ میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ اور پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کے علاوہ ماہ رمضان المبارک میں ہر سال کا یہ معمول رہا ہے کہ اشیا خوراک و ضروریات سے لے کر سفری اخراجات تک میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ چند ہفتوں سے سیاسی بے یقینی کے حالات کے باعث مزدور طبقہ سب سے زیادہ پریشان ہے۔
اس کے علاوہ اشیائے خوراک و کپڑے اور ادویات کی تجارت کرنے والوں کے علاوہ دیگر ہر شعبے کے تاجر، دکاندار، ہول سیلر سب پریشانی کے عالم میں ہیں، کیونکہ زبردست کاروباری مندی ہے اور یہ مندی ملکی معیشت کو کساد بازاری کی جانب گامزن کر رہی ہے، کیونکہ ملک میں سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے۔
ماہ رمضان المبارک کے دوران شہریوں کے لیے مہنگائی کا مقابلہ کرنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں موجودہ ملکی سیاسی صورتحال اور اس کے معاشی اثرات کے باعث ہر جانب مندی کا رجحان غالب نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں چھوٹا تاجر طبقہ سب سے زیادہ پریشان ہے۔ ہر سال ماہ رمضان المبارک میں تعمیراتی سرگرمیاں بھی ماند پڑ جاتی ہیں جس کے باعث تعمیراتی صنعت سے وابستہ مزدوروں میں بے کاری پھیل جاتی ہے۔
یہ وہ وسیع شعبہ ہے جس میں ہر قسم کا فرد چاہے وہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ہو کھپ جاتا ہے اور اسے کسی نہ کسی طور پر روزگار مل جاتا ہے۔ ان دنوں اس شعبے کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ ملک بھر میں شدید بے روزگاری کے باعث مستقل کام کا حصول یا کم عرصے کے لیے عارضی ملازمت کا حصول بھی مشکل ہے۔
مثلاً کارخانوں، ملوں میں مزدوری کا ملنا مشکل ہو رہا ہے وہاں پر بھی اقربا پروری اور سفارش کے باعث4 فی صد افراد کو ملازمت پر رکھا جاتا ہے جب کہ تعمیراتی کاموں کے لیے چاہے مکان بن رہے ہوں یا بنگلے یا پھر ٹھیکیدار کے ساتھ کام کرنا پڑ جائے تمام صورتوں میں آزادانہ ملازمت یا پھر مزدوری کرنے کے مواقع حاصل ہو جاتے ہیں۔ اب ان لوگوں کے لیے بھی شدید مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں۔
بیورو آف شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 8 فیصد لیبر فورس ہاؤسنگ سے وابستہ ہے اگرچہ یہ رپورٹ 2020-21 کے بارے میں ہے لیکن اس رپورٹ سے معلوم ہوا کہ تعمیراتی صنعت جی ڈی پی میں 2.5 فیصد حصہ ڈالتی ہے اور 7.61 فیصد لیبر فورس کو ملازمت فراہم کرتی ہے اس طرح سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ لیبر فورس کا 8 فیصد کے لیے آزادانہ طور پر ایسے مواقع ہیں کہ اگر اس کی جسمانی ساخت اور صحت زیادہ کمزور نہیں ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنے لیے باآسانی مزدوری حاصل کرسکتا ہے اور باآسانی ہزار روپے سے زائد یومیہ کما سکتا ہے۔
اگر قدرے ہنرمند ہے یا تعمیرات کے کسی بھی شعبے میں معمولی یا بہتر شدبد رکھتا ہے یا کچھ مزید مہارت رکھتا ہے تو دیہاڑی دو ہزار روپے سے زائد بھی کما سکتا ہے اب اس شعبے کو زیادہ سے زیادہ فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ سال حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے زبردست پیکیج کا اعلان کیا تھا، جس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے جس سے جی ڈی پی میں اس شعبے کا حصہ بڑھا ہے۔ ملک کی معاشی ترقی میں اضافے کی خاطر اس شعبے کو مزید مراعات اور پیکیج دینے کی ضرورت ہے تاکہ معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ کیا جاسکے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی اپنی تازہ جاری کردہ رپورٹ میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ معاشی ترقی کی شرح 4 فیصد رہے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سخت معاشی اور مانیٹری پالیسی کے باعث معیشت سست روی کی شکار رہے گی۔
گزشتہ چند ماہ سے ملکی معیشت خاص طور پر چھوٹے کاروبار کرنے والے سخت مندی سے دوچار تھے،لیکن اب سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے بعد امید ہے کہ سیاسی عدم استحکام میں کمی آئے گی کیونکہ ملکی سیاسی صورتحال ملکی معیشت پر اپنا اثر ڈالتی ہے۔
نئی حکومت کے لیے ڈالر کو پچھلی سطح پر لے کر جانا ترجیحی اقدام ہونا چاہیے۔ ملک کے معاشی مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ اس کے اثرات کے سبب عوام کی اکثریت اب غربت کی لکیر سے نیچے کی طرف جا رہی ہے۔ ملک میں بہتر روزگار کی فراہمی اور مہنگائی کم کرنے کے اقدامات اور معاشی شرح افزائش کی خاطر ملک کو کاروبار دوست ماحول فراہم کیا جانا ضروری ہے۔ اس وقت مندی اور معاشی سست رفتاری کے رجحان کو معاشی سرگرمیوں میں اضافے میں بدلنے کی ضرورت ہے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ معاشی ترقی کی شرح 4 فیصد سے زائد حاصل ہو۔
جوں جوں ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، اسی طرح ڈالر کی قدر بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ملکی سیاسی کشیدگی نے ڈالر پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں جب کہ ملکی کرنسی پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مارچ کے مہینے سے اب تک ڈالر کی قدر میں تقریباً 10 فی صد اضافہ ہو چکا ہے گزشتہ دنوں ایک ڈالر 189روپے تک پہنچ چکا تھا۔
ملک میں مارچ کے اوائل سے اپریل کے اوائل تک جس قدر سیاسی بے یقینی پیدا ہوتی چلی گئی تھی اسی لحاظ سے روپیہ بھی انتہائی بے قدر ہوتا رہا۔ گزشتہ دنوں روپے کی قدر مزید کم ہو کر اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر 189 روپے 70 پیسے کا ہو گیا تھا، اگر اسی طرح ملک میں سیاسی عدم استحکام رہا تو یہ معاشی استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی بجانے کے مترادف ہوگا اور اس کے مہیب اثرات روپے کی قدر کو مزید بے قدر کردیں گے اس طرح ڈالر کا سفر 200 روپے فی ڈالر کی جانب گامزن ہونے کے امکانات ہیں۔
پاکستان میں سیاسی بے یقینی سیاسی عدم استحکام فوری طور پر معاشی استحکام پر اثرانداز ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک کا غریب طبقہ دیہاڑی دار مزدور طبقہ اور تنخواہ دار و پنشن یافتہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ ڈالر ریٹ بڑھنے سے جہاں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کی ایک اہم وجہ عالمی مارکیٹ میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ اور پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کے علاوہ ماہ رمضان المبارک میں ہر سال کا یہ معمول رہا ہے کہ اشیا خوراک و ضروریات سے لے کر سفری اخراجات تک میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ چند ہفتوں سے سیاسی بے یقینی کے حالات کے باعث مزدور طبقہ سب سے زیادہ پریشان ہے۔
اس کے علاوہ اشیائے خوراک و کپڑے اور ادویات کی تجارت کرنے والوں کے علاوہ دیگر ہر شعبے کے تاجر، دکاندار، ہول سیلر سب پریشانی کے عالم میں ہیں، کیونکہ زبردست کاروباری مندی ہے اور یہ مندی ملکی معیشت کو کساد بازاری کی جانب گامزن کر رہی ہے، کیونکہ ملک میں سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے۔
ماہ رمضان المبارک کے دوران شہریوں کے لیے مہنگائی کا مقابلہ کرنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں موجودہ ملکی سیاسی صورتحال اور اس کے معاشی اثرات کے باعث ہر جانب مندی کا رجحان غالب نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں چھوٹا تاجر طبقہ سب سے زیادہ پریشان ہے۔ ہر سال ماہ رمضان المبارک میں تعمیراتی سرگرمیاں بھی ماند پڑ جاتی ہیں جس کے باعث تعمیراتی صنعت سے وابستہ مزدوروں میں بے کاری پھیل جاتی ہے۔
یہ وہ وسیع شعبہ ہے جس میں ہر قسم کا فرد چاہے وہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ہو کھپ جاتا ہے اور اسے کسی نہ کسی طور پر روزگار مل جاتا ہے۔ ان دنوں اس شعبے کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ ملک بھر میں شدید بے روزگاری کے باعث مستقل کام کا حصول یا کم عرصے کے لیے عارضی ملازمت کا حصول بھی مشکل ہے۔
مثلاً کارخانوں، ملوں میں مزدوری کا ملنا مشکل ہو رہا ہے وہاں پر بھی اقربا پروری اور سفارش کے باعث4 فی صد افراد کو ملازمت پر رکھا جاتا ہے جب کہ تعمیراتی کاموں کے لیے چاہے مکان بن رہے ہوں یا بنگلے یا پھر ٹھیکیدار کے ساتھ کام کرنا پڑ جائے تمام صورتوں میں آزادانہ ملازمت یا پھر مزدوری کرنے کے مواقع حاصل ہو جاتے ہیں۔ اب ان لوگوں کے لیے بھی شدید مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں۔
بیورو آف شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 8 فیصد لیبر فورس ہاؤسنگ سے وابستہ ہے اگرچہ یہ رپورٹ 2020-21 کے بارے میں ہے لیکن اس رپورٹ سے معلوم ہوا کہ تعمیراتی صنعت جی ڈی پی میں 2.5 فیصد حصہ ڈالتی ہے اور 7.61 فیصد لیبر فورس کو ملازمت فراہم کرتی ہے اس طرح سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ لیبر فورس کا 8 فیصد کے لیے آزادانہ طور پر ایسے مواقع ہیں کہ اگر اس کی جسمانی ساخت اور صحت زیادہ کمزور نہیں ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنے لیے باآسانی مزدوری حاصل کرسکتا ہے اور باآسانی ہزار روپے سے زائد یومیہ کما سکتا ہے۔
اگر قدرے ہنرمند ہے یا تعمیرات کے کسی بھی شعبے میں معمولی یا بہتر شدبد رکھتا ہے یا کچھ مزید مہارت رکھتا ہے تو دیہاڑی دو ہزار روپے سے زائد بھی کما سکتا ہے اب اس شعبے کو زیادہ سے زیادہ فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ سال حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے زبردست پیکیج کا اعلان کیا تھا، جس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے جس سے جی ڈی پی میں اس شعبے کا حصہ بڑھا ہے۔ ملک کی معاشی ترقی میں اضافے کی خاطر اس شعبے کو مزید مراعات اور پیکیج دینے کی ضرورت ہے تاکہ معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ کیا جاسکے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی اپنی تازہ جاری کردہ رپورٹ میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ معاشی ترقی کی شرح 4 فیصد رہے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سخت معاشی اور مانیٹری پالیسی کے باعث معیشت سست روی کی شکار رہے گی۔
گزشتہ چند ماہ سے ملکی معیشت خاص طور پر چھوٹے کاروبار کرنے والے سخت مندی سے دوچار تھے،لیکن اب سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے بعد امید ہے کہ سیاسی عدم استحکام میں کمی آئے گی کیونکہ ملکی سیاسی صورتحال ملکی معیشت پر اپنا اثر ڈالتی ہے۔
نئی حکومت کے لیے ڈالر کو پچھلی سطح پر لے کر جانا ترجیحی اقدام ہونا چاہیے۔ ملک کے معاشی مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ اس کے اثرات کے سبب عوام کی اکثریت اب غربت کی لکیر سے نیچے کی طرف جا رہی ہے۔ ملک میں بہتر روزگار کی فراہمی اور مہنگائی کم کرنے کے اقدامات اور معاشی شرح افزائش کی خاطر ملک کو کاروبار دوست ماحول فراہم کیا جانا ضروری ہے۔ اس وقت مندی اور معاشی سست رفتاری کے رجحان کو معاشی سرگرمیوں میں اضافے میں بدلنے کی ضرورت ہے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ معاشی ترقی کی شرح 4 فیصد سے زائد حاصل ہو۔