سیاسی بحران کا خاتمہ ضروری ہے
جمہوریت کے نام پرسیاست کرنیوالی سیاسی ومذہبی جماعتیں جوکچھ کررہی ہیں،اس کے نتائج کیاہوں گے،یہ آنے والاوقت ہی بتائے گا
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ملک میں آئینی بحران ختم ہو گیا ہے البتہ سیاسی بحران بدستور جاری ہے۔ ملک کی سیاسی اشرافیہ اپنے مفادات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کوئی قابل قبول میکنزم یا ارینجمنٹ قائم کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہے اور سیاست کی آڑ لے کر ملک میں انارکی پیدا کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
جمہوریت کے نام پر سیاست کرنے والی سیاسی ومذہبی جماعتیں جو کچھ کر رہی ہیں، اس کے نتائج کیا ہوں گے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے عوام خصوصاً مڈل کلاس کے لیے اس محاذآرائی کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ساڑھے تین برس سے زائد عرصے تک اس ملک کے امور کو چلانے والی حکومت نے حزب اختلاف کو آؤٹ کلاس کرنے کے لیے امریکا کے ساتھ تنازع پیدا کر دیا ہے، اندرونی سیاسی لڑائی میں غیرممالک کو فریق بنانے کی پالیسی ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔
حکومت نے امریکا کے ساتھ جو محاذآرائی پیدا کی ہے اس کی فی الحال ضرورت نہیں تھی۔ اگر فوری طور پر کچھ کرنا بھی تھا تو اس کے لیے ملک کے اندر فضا بنانے کی ضرورت تھی۔ تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کو ایک پیج پر لانا ضروری تھا، اداروں کو اعتماد میں لینا ضروری تھا، پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری تھا تاکہ ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈر کوئی بھی مؤقف لینے سے پہلے حقائق سے آگاہ ہوتے۔ اپنے حلیف اور ہمدرد ممالک کی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا جانا ضروری تھا۔ تب جا کر فیصلہ ہوتا کہ کیا کرنا ہے۔
امریکا کی پالیسی کو ہی دیکھ لیں، اس نے اب تک امریکا سے باہر جو بھی کارروائیاں کی ہیں، اس میں کانگریس کو اعتماد میں لیا گیا۔ اگر ڈیموکریٹک پارٹی اقتدار میں ہے تو اس نے ریپلکن پارٹی کی قیادت کو اعتماد میں لیا۔ اس کے بعد اپنے اتحادیوں اور نیٹو کے ساتھ معاملات شیئر کیے، تب کہیں جا کر کوئی کارروائی شروع کی لیکن پاکستان میں سیاسی قیادت نے اعلیٰ ترین فہم وفراست اور دوراندیشی کا کبھی بھی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان سب کچھ لٹانے کے باوجود کسی کا قابل اعتماد اتحادی نہ بن سکا اور نہ ہی کوئی دوسرا ملک پاکستان کا مخلص ساتھی ثابت ہوا۔ اب جو بحران چل رہا ہے، اس نے ریاستی مشینری کو جام کر دیا ہے، سرکاری کام انتہائی سست روی سے ہو رہے ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں حالانکہ عیدالفطر قریب ہے اور اس عرصے میں بازاروں میں خریداری عروج پر ہوتی ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق حالیہ ہفتے کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح میں1.53فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 17.87فیصد ہوگئی ہے۔ ادھر پنجاب میں گندم کی نئی پیداوار منڈی میں آنا شروع ہو گئی ہے۔ اس وقت نجی سطح پر خریداری ہو رہی ہے۔ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 2200 روپے فی من مقرر کی ہے لیکن نجی خریدار 2330 روپے من تک گندم خرید رہا ہے۔
کسان حکومتی قانونی پیچیدگیوں اور باردانہ نہ ملنے کی وجہ سے کھیت میں کھڑی فصل بھی فروخت کر رہا ہے۔ سوچنے والی بات ہے کہ جب سرکار نے کسان کو 2200 روپے فی من کے حساب سے دینے ہیں تو وہ کیوں نہ کھیت میں کھڑی فصل زیادہ قیمت پر نجی تاجر کو فروخت کر دے۔ اس طرح وہ باردانے کے مسائل اور سرکار سے پیسے لینے کے مسائل سے بچا رہتا ہے۔ اس وجہ سے سرکاری خریداری میں مشکلات درپیش ہیں، فلورملز چاہتی ہیں کہ جب تک وہ اپنی خریداری مکمل نہ کر لیں، تب تک گندم کی نجی خریداری کو روکا جائے۔
ایک خبر کے مطابق محکمہ خوراک نے جنوبی پنجاب سے ہزاروں ٹن گندم دوسرے اضلاع اور صوبوں کو لے جانے والی سیکڑوں گاڑیاں سرکاری مراکز پر ان لوڈ کرا دی ہیں۔ سرکار کی طرف سے کہا یہ گیا ہے کہ ان کے پاس پرمٹ نہیں تھا۔ محکمہ خوراک پنجاب نے 35لاکھ ٹن کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ زرعی ماہرین کے مطابق پنجاب میں گندم کی نئی فصل اچھی رہی ہے اورفی ایکڑ پیداوار بھی تسلی بخش ہے۔ نجی خریداری کا مقابلہ کرنے کے لیے سرکاری محکموں کو چاہیے کہ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ پکڑ دھکڑ اور زور زبردستی کرنا درست نہیں ہے۔
حکومت کاشتکاروں کو بروقت اور بغیر الجھنوں اور جھمیلوں کے باردانہ فراہم کرے۔ کسانوں کی گندم کا وزن درست اور ایماندار طریقے سے ہونا چاہیے۔ کسانوں کو پیمنٹ بھی فوری ملنی چاہیے۔ سرکاری محکموں کے افسروں، اہلکاروں کو رولز اور ریگولیشن کا استعمال اپنی طاقت دکھانے کے لیے نہیں بلکہ کاشت کار کے فائدے کے لیے ہونا چاہیے۔ اگر سرکاری محکمے ایمانداری، نیک نیتی اور تندہی سے کام کریں تو پھر کاشت کار نجی شعبے کو کبھی گندم فروخت نہیں کرے گا۔
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ فلورملز کو گندم خریدنے کے لیے سرکاری پرمٹوں کا اجرا آیندہ ہفتے سرکاری کوٹہ بند ہونے کے بعد شروع کیا جائے گا،امکان ہے محکمہ خوراک17اپریل سے سوائے ضلع راولپنڈی کے تمام 35اضلاع کی فلورملز کا سرکاری کوٹہ بند کر دے گا۔
گزرے برس سے اب تک کھادوں کی قیمتوں میں مسلسل فیصد اضافہ زرعی معیشت کا دعویٰ رکھنے والے ملک کے لیے غیر معمولی تشویش کا موجب ہے۔ ایک اور خبر میں مختلف اقسام کی کھادوں کی قیمتوں میں ایک سال کے دوران ہونے والے اضافے کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جو کہ ایک سو بیس فی صد کے بنتا ہے، جس کے مطابق ڈی اے پی، نائٹرو فاس، امونیم نائٹریٹ اور یوریا کی قیمتوں میں بھی قریب دگنا اضافہ ہوا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ دگنا قیمتوں پر بھی اکثر کھادیں مارکیٹ میں دستیاب نہیں اور کاشتکار مسلسل ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی دہائی دے رہے ہیں۔
حکومت نے کھاد کا بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی تھی مگر اس کا اثر کیا ہوا؟ کاشتکار بدستور کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔ صرف دگنا قیمتوں کا مسئلہ ہی نہیں کھادوں کی دستیابی کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے۔ ہماری ناقص منصوبہ بندی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا سب سے اہم شعبہ زراعت بحران کا شکار ہے بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زراعت جسے ہم اپنی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے تھے۔ وہ ہڈی جگہ جگہ سے ٹوٹ بھی چکی ہے اور شکستہ بھی ہو چکی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے ہر آنے والی حکومت نے عوام کو سرسبز انقلاب اور خود کفالت کے سہانے خواب دکھائے لیکن عملاً زراعت کی ترقی کے لیے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں کیا' حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے آج زراعت اور کاشتکار بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے دیہی عوام 16 ویں صدی جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب تک دیہات اور کسان کے مسائل حل نہیں ہوں گے زرعی خود کفالت ایک ڈراؤنے خواب سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔
ہمارا زرعی شعبہ نہ صرف خوراک اور ملک کے سب سے بڑے برآمدی شعبے کے لیے خام مال کی پیداواری کا بنیادی ذریعہ ہے بلکہ روزگار کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ خوراک کی پیداوار، برآمدی صنعت کے لیے خام مال کی فراہمی اور روزگار کی سب سے بڑی مارکیٹ، یہ تین بنیادی اسباب زرعی شعبے کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر زرعی شعبہ کبھی اس قدر حکومتی ترجیح حاصل نہیں کر پایا جس کا یہ حق دار ہے۔
مہنگائی اور زرعی شعبے کی زبوں حالی لازم وملزوم ہے۔ اگر ملک میں سیاسی بحران نہ ہو اور امور مملکت بخوبی چلتے رہیں، قوانین، رولز اینڈ ریگولیشنز، شہریوں اور کسانوں کے فائدے کے لیے بنائے جائیں، بیورو کریسی اور سرکاری ملازموں کی تربیت ان خطوط پر کی جائے کہ ان کا کام لوگوں کے مسائل حل کرنا ہے نہ کہ انھیں قانونی الجھنوں میں پھنسا کر خوار کرنا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر ملک میں جاری سیاسی بحران کو ختم کریں تاکہ ملک میں جاری غیریقینی کا خاتمہ ہو اور کاروباری سرگرمیاں اپنی پوری رفتار سے جاری ہو سکیں، خارجہ معاملات میں بھی پاکستان کو اعتدال پسند اور میانہ رو پالیسی کی ضرورت ہے۔
آزاد خارجہ پالیسی کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ دو متحارب طاقتوں میں سے کسی ایک طاقت کے ساتھ چل کر دوسری کو ناراض کر لیا جائے۔ آزاد خارجہ پالیسی کا مطلب اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور ایسی پالیسی اختیار کرنی ہے کہ ایک دوسرے سے نبردآزما بڑی طاقتوں کی باہمی لڑائی اور آویزش سے اپنے ملک کو باہر رکھنا ہے تاکہ دونوں بڑی طاقتیں ناراض نہ ہوں۔
جمہوریت کے نام پر سیاست کرنے والی سیاسی ومذہبی جماعتیں جو کچھ کر رہی ہیں، اس کے نتائج کیا ہوں گے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے عوام خصوصاً مڈل کلاس کے لیے اس محاذآرائی کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ساڑھے تین برس سے زائد عرصے تک اس ملک کے امور کو چلانے والی حکومت نے حزب اختلاف کو آؤٹ کلاس کرنے کے لیے امریکا کے ساتھ تنازع پیدا کر دیا ہے، اندرونی سیاسی لڑائی میں غیرممالک کو فریق بنانے کی پالیسی ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔
حکومت نے امریکا کے ساتھ جو محاذآرائی پیدا کی ہے اس کی فی الحال ضرورت نہیں تھی۔ اگر فوری طور پر کچھ کرنا بھی تھا تو اس کے لیے ملک کے اندر فضا بنانے کی ضرورت تھی۔ تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کو ایک پیج پر لانا ضروری تھا، اداروں کو اعتماد میں لینا ضروری تھا، پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری تھا تاکہ ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈر کوئی بھی مؤقف لینے سے پہلے حقائق سے آگاہ ہوتے۔ اپنے حلیف اور ہمدرد ممالک کی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا جانا ضروری تھا۔ تب جا کر فیصلہ ہوتا کہ کیا کرنا ہے۔
امریکا کی پالیسی کو ہی دیکھ لیں، اس نے اب تک امریکا سے باہر جو بھی کارروائیاں کی ہیں، اس میں کانگریس کو اعتماد میں لیا گیا۔ اگر ڈیموکریٹک پارٹی اقتدار میں ہے تو اس نے ریپلکن پارٹی کی قیادت کو اعتماد میں لیا۔ اس کے بعد اپنے اتحادیوں اور نیٹو کے ساتھ معاملات شیئر کیے، تب کہیں جا کر کوئی کارروائی شروع کی لیکن پاکستان میں سیاسی قیادت نے اعلیٰ ترین فہم وفراست اور دوراندیشی کا کبھی بھی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان سب کچھ لٹانے کے باوجود کسی کا قابل اعتماد اتحادی نہ بن سکا اور نہ ہی کوئی دوسرا ملک پاکستان کا مخلص ساتھی ثابت ہوا۔ اب جو بحران چل رہا ہے، اس نے ریاستی مشینری کو جام کر دیا ہے، سرکاری کام انتہائی سست روی سے ہو رہے ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں حالانکہ عیدالفطر قریب ہے اور اس عرصے میں بازاروں میں خریداری عروج پر ہوتی ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق حالیہ ہفتے کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح میں1.53فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 17.87فیصد ہوگئی ہے۔ ادھر پنجاب میں گندم کی نئی پیداوار منڈی میں آنا شروع ہو گئی ہے۔ اس وقت نجی سطح پر خریداری ہو رہی ہے۔ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 2200 روپے فی من مقرر کی ہے لیکن نجی خریدار 2330 روپے من تک گندم خرید رہا ہے۔
کسان حکومتی قانونی پیچیدگیوں اور باردانہ نہ ملنے کی وجہ سے کھیت میں کھڑی فصل بھی فروخت کر رہا ہے۔ سوچنے والی بات ہے کہ جب سرکار نے کسان کو 2200 روپے فی من کے حساب سے دینے ہیں تو وہ کیوں نہ کھیت میں کھڑی فصل زیادہ قیمت پر نجی تاجر کو فروخت کر دے۔ اس طرح وہ باردانے کے مسائل اور سرکار سے پیسے لینے کے مسائل سے بچا رہتا ہے۔ اس وجہ سے سرکاری خریداری میں مشکلات درپیش ہیں، فلورملز چاہتی ہیں کہ جب تک وہ اپنی خریداری مکمل نہ کر لیں، تب تک گندم کی نجی خریداری کو روکا جائے۔
ایک خبر کے مطابق محکمہ خوراک نے جنوبی پنجاب سے ہزاروں ٹن گندم دوسرے اضلاع اور صوبوں کو لے جانے والی سیکڑوں گاڑیاں سرکاری مراکز پر ان لوڈ کرا دی ہیں۔ سرکار کی طرف سے کہا یہ گیا ہے کہ ان کے پاس پرمٹ نہیں تھا۔ محکمہ خوراک پنجاب نے 35لاکھ ٹن کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ زرعی ماہرین کے مطابق پنجاب میں گندم کی نئی فصل اچھی رہی ہے اورفی ایکڑ پیداوار بھی تسلی بخش ہے۔ نجی خریداری کا مقابلہ کرنے کے لیے سرکاری محکموں کو چاہیے کہ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ پکڑ دھکڑ اور زور زبردستی کرنا درست نہیں ہے۔
حکومت کاشتکاروں کو بروقت اور بغیر الجھنوں اور جھمیلوں کے باردانہ فراہم کرے۔ کسانوں کی گندم کا وزن درست اور ایماندار طریقے سے ہونا چاہیے۔ کسانوں کو پیمنٹ بھی فوری ملنی چاہیے۔ سرکاری محکموں کے افسروں، اہلکاروں کو رولز اور ریگولیشن کا استعمال اپنی طاقت دکھانے کے لیے نہیں بلکہ کاشت کار کے فائدے کے لیے ہونا چاہیے۔ اگر سرکاری محکمے ایمانداری، نیک نیتی اور تندہی سے کام کریں تو پھر کاشت کار نجی شعبے کو کبھی گندم فروخت نہیں کرے گا۔
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ فلورملز کو گندم خریدنے کے لیے سرکاری پرمٹوں کا اجرا آیندہ ہفتے سرکاری کوٹہ بند ہونے کے بعد شروع کیا جائے گا،امکان ہے محکمہ خوراک17اپریل سے سوائے ضلع راولپنڈی کے تمام 35اضلاع کی فلورملز کا سرکاری کوٹہ بند کر دے گا۔
گزرے برس سے اب تک کھادوں کی قیمتوں میں مسلسل فیصد اضافہ زرعی معیشت کا دعویٰ رکھنے والے ملک کے لیے غیر معمولی تشویش کا موجب ہے۔ ایک اور خبر میں مختلف اقسام کی کھادوں کی قیمتوں میں ایک سال کے دوران ہونے والے اضافے کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جو کہ ایک سو بیس فی صد کے بنتا ہے، جس کے مطابق ڈی اے پی، نائٹرو فاس، امونیم نائٹریٹ اور یوریا کی قیمتوں میں بھی قریب دگنا اضافہ ہوا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ دگنا قیمتوں پر بھی اکثر کھادیں مارکیٹ میں دستیاب نہیں اور کاشتکار مسلسل ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی دہائی دے رہے ہیں۔
حکومت نے کھاد کا بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی تھی مگر اس کا اثر کیا ہوا؟ کاشتکار بدستور کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔ صرف دگنا قیمتوں کا مسئلہ ہی نہیں کھادوں کی دستیابی کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے۔ ہماری ناقص منصوبہ بندی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا سب سے اہم شعبہ زراعت بحران کا شکار ہے بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زراعت جسے ہم اپنی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے تھے۔ وہ ہڈی جگہ جگہ سے ٹوٹ بھی چکی ہے اور شکستہ بھی ہو چکی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے ہر آنے والی حکومت نے عوام کو سرسبز انقلاب اور خود کفالت کے سہانے خواب دکھائے لیکن عملاً زراعت کی ترقی کے لیے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں کیا' حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے آج زراعت اور کاشتکار بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے دیہی عوام 16 ویں صدی جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب تک دیہات اور کسان کے مسائل حل نہیں ہوں گے زرعی خود کفالت ایک ڈراؤنے خواب سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔
ہمارا زرعی شعبہ نہ صرف خوراک اور ملک کے سب سے بڑے برآمدی شعبے کے لیے خام مال کی پیداواری کا بنیادی ذریعہ ہے بلکہ روزگار کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ خوراک کی پیداوار، برآمدی صنعت کے لیے خام مال کی فراہمی اور روزگار کی سب سے بڑی مارکیٹ، یہ تین بنیادی اسباب زرعی شعبے کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر زرعی شعبہ کبھی اس قدر حکومتی ترجیح حاصل نہیں کر پایا جس کا یہ حق دار ہے۔
مہنگائی اور زرعی شعبے کی زبوں حالی لازم وملزوم ہے۔ اگر ملک میں سیاسی بحران نہ ہو اور امور مملکت بخوبی چلتے رہیں، قوانین، رولز اینڈ ریگولیشنز، شہریوں اور کسانوں کے فائدے کے لیے بنائے جائیں، بیورو کریسی اور سرکاری ملازموں کی تربیت ان خطوط پر کی جائے کہ ان کا کام لوگوں کے مسائل حل کرنا ہے نہ کہ انھیں قانونی الجھنوں میں پھنسا کر خوار کرنا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر ملک میں جاری سیاسی بحران کو ختم کریں تاکہ ملک میں جاری غیریقینی کا خاتمہ ہو اور کاروباری سرگرمیاں اپنی پوری رفتار سے جاری ہو سکیں، خارجہ معاملات میں بھی پاکستان کو اعتدال پسند اور میانہ رو پالیسی کی ضرورت ہے۔
آزاد خارجہ پالیسی کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ دو متحارب طاقتوں میں سے کسی ایک طاقت کے ساتھ چل کر دوسری کو ناراض کر لیا جائے۔ آزاد خارجہ پالیسی کا مطلب اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور ایسی پالیسی اختیار کرنی ہے کہ ایک دوسرے سے نبردآزما بڑی طاقتوں کی باہمی لڑائی اور آویزش سے اپنے ملک کو باہر رکھنا ہے تاکہ دونوں بڑی طاقتیں ناراض نہ ہوں۔