جنگ اور امن کے درمیان
کالنگا کی فتح کے بعد اشوک اعظم نے کبھی گوشت نہیں چکھا۔ کسی فوجی مہم پر نہیں گیا
کراچی:
پانچ چھ برس کی عمر میں اردو پڑھنا سیکھی تو اس کے فوائد بے شمار ہوئے لیکن نقصان یہ ہوا کہ جو چیز ہاتھ لگی وہ پڑھ ڈالی۔ اس روش نے طلسم ہوش ربا کے دفتر مولانا عبدالحلیم شرر کے طبل جنگ بجاتے ہوئے اور مولانا صادق حسین سردھنوی کی فوجوں کے پرے ہٹتے ہوئے ناولوں نے دل میں جنگ سے ایسی محبت جگائی کہ جس کے بارے میں کیا کہا جائے۔
آپ خود ہی سوچیے کہ جب میدان جنگ میں قرنا پھنک رہا ہو، سنکھ بجائے جا رہے ہوں اور جادوگروں اور جادوگرنیوں کی لاکھوں پر مشتمل سپاہ اپنے گھوڑے دوڑاتی اور تیروں کی برسات سے دن کو رات بناتی ہوئی ، میدان میں کشتیوں کے پشتے لگا رہی ہو تو کس کا دل چاہے گا گلی سے گزرتے ہوئے سبزی یا پھل والے کی ہانک سنے۔
ادھر ابا جان تھے جو پکچر ہاؤس میں ''بن حُر'' اور ''ہیلن آف ٹرائے'' دکھانے لے جاتے اور میں میدان جنگ میں لڑتے ہوئے زریں کمر شہزادوں اور سولہ سنگھار کیے ہوئے شہزادیوں پر کیوں فدا نہ ہوتے۔ یہ شہزادیاں قید ہوتیں تو مال غنیمت کے طور پر جیتنے والے لشکروں کے شہزادوں کو ملتیں اور وہاں بھی رقص و سرود کے وہی منظر ہوتے۔
''ٹیپو سلطان'' ہمارا ہارا ہوا جرنیل تھا لیکن اس کی فوج کا تزک و احتشام بھی وہی تھا۔ میں نے اسکول میگزین ''ارم'' کے لیے مضمون ٹیپو سلطان لکھا۔ اسے پہلا انعام ملا اور یوں اسکول میں داخلہ ملتے ہی میری مشہوری ہوگئی۔ اس زمانے میں کرکٹ اور ہاکی میچ جیتنے پر بھی ایسے انعام نہیں ملتے تھے کہ جیتنے والوں کے دماغ خراب ہوجائیں اور وہ ایسے انوکھے لاڈلے بن جائیں کہ جوکھیلن کو چاند مانگیں۔
آہستہ آہستہ خون کے تزک و احتشام اور ان کی مار کاٹ سے جی بھرگیا۔ یہ سمجھ میں آنے لگا کہ انسان کے لیے امن سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ امن، شیر خوار بچوں کے لبوں سے ٹپکتے ہوئے دودھ کے قطروں سے زیادہ کچھ ضروری نہیں اور بھٹی میں تپتے ہوئے لوہے سے زیادہ کوئی تپش خوب صورت نہیں جسے کوٹ کر چھریاں اور چاقو بنائے جائیں۔ ان سے سبزی کاٹی جائے گی اور پیاز کے لچھے۔ آنسو بہائے جائیں لیکن یہ کسی موت پر نہ ہوں۔
پھر امن مجھے مصری فرعون اخناطون نے سمجھایا اور اشوک کے اس نوحے نے جو کالنگا کے میدان میں بکھری ہوئی لاشوں اور زخمیوں کے درمیان اس نے کھڑے ہوکر بہائے۔
مگدھ (بہار) کے موریہ خاندان کا تیسرا بادشاہ اشوک، اخناطون کے ایک ہزار برس بعد پیدا ہوا۔ بندوسار کا یہ بیٹا اور چندر گپت موریہ کا پوتا 273 ق م برسرِ اقتدار آیا۔ اپنے دادا چندر گپت موریہ اور باپ بندوسار نے اس کے لیے ایک عظیم سلطنت چھوڑی تھی۔ وہ اپنا وقت عیش اور شکار میں گزارتا رہا۔
تاج شاہی سر پر سجانے کے 8 برس بعد وہ اپنے عظیم لشکر کے ساتھ پڑوس کی طاقت ور اور دولت مند ریاست کالنگا (جنوبی اڑیسہ) پر حملہ آور ہوا اور اسے تہس نہس کردیا۔ یہ اس کا پہلا حملہ اور پہلی فتح تھی۔ کہا جاتا ہے کہ طاقت کے نشے میں سرشار اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگاہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے۔ بہت سے نیم مردہ تھے۔ کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے۔ قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے ڈھونڈتی تھیں اور آہ و بکا کرتی تھیں۔
کالنگا کے میدان میں اس نے دیکھا کہ فتح کا چہرہ کتنا بھیانک ہے۔ اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا۔ وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور اس کے ساتھ چلنے والا شاہی دستہ بھی گھوڑوں سے اتر گیا۔ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا۔ اس کا گریہ تاریخ میں محفوظ ہو گیا:
یہ میں نے کیا کردیا؟ اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں؟
یہ فتح ہے یا شکست؟
یہ انصاف ہے یا ناانصافی؟
یہ شجاعت ہے یا بزدلی؟
کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے؟
کیا میں نے یہ سب کچھ اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور دولت مند کرنے کے لیے کیا یا
دوسری بادشاہت کی شان و شوکت کو غارت کرنے کے لیے؟
کسی نے اپنا شوہر کھو دیا، کسی نے اپنا باپ اور کسی نے اپنا بچہ
اور کوئی بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی قتل ہوا۔ لاشوں کے یہ انبار کیا ہیں؟
یہ فتح کے نشان ہیں یا شکست کے؟
اشوک کا یہ نوحہ اور کالنگا کے میدان سے لوٹ کر آنے کے بعد اس کے لکھوائے وہ فرامین جو پتھروں پر کندہ کیے گئے اور اشوک کی وسیع و عریض سلطنت کی حدوں کے اندر نصب کیے گئے، انھیں پڑھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم عدم تشدد پر راسخ یقین رکھنے والے ایک ایسے امن پسند اور انسان پرست فلسفی کے خیالات سے ملاقات کر رہے ہیں جو رواداری کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ وہ بدھ مت اختیار کرچکا تھا لیکن دوسرے تمام مذاہب کا اور اپنی رعایا کی مذہبی روایات اور ثقافت کا احترام لازمی سمجھتا تھا۔
کالنگا کی فتح کے بعد اشوک اعظم نے کبھی گوشت نہیں چکھا۔ کسی فوجی مہم پر نہیں گیا۔ اس کے سپاہیوں کی تلواروں کو زنگ لگتا رہا اور اس کی سلطنت میں چوکڑیاں بھرتے ہوئے جانوروں اور اڑتے ہوئے پرندوں کو بھی جان کی امان ملی۔
کچھ واقعات انسانوں کی زندگی کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ اسی نوعیت کی صورت حال اشوک کے ساتھ بھی ہوئی اور آج اس کی پیروی کرتے ہوئے لاکھوں افراد جانور بھی نہیں ذبح کرتے۔
اس وقت یوکرین میں جو تباہی ہو رہی ہے، روسی افواج یوکرینی شہروں اور انسانوں کو جس طرح تہس نہس کر رہی ہیں، اسے دیکھیے تو جی چاہتا ہے کہ کسی اشوک کا پھر سے جنم ہوتا کہ ہمارے کرۂ ارض پر اس نوعیت کی خوں ریزی نہ ہو جیسی ہو رہی ہے۔
پانچ چھ برس کی عمر میں اردو پڑھنا سیکھی تو اس کے فوائد بے شمار ہوئے لیکن نقصان یہ ہوا کہ جو چیز ہاتھ لگی وہ پڑھ ڈالی۔ اس روش نے طلسم ہوش ربا کے دفتر مولانا عبدالحلیم شرر کے طبل جنگ بجاتے ہوئے اور مولانا صادق حسین سردھنوی کی فوجوں کے پرے ہٹتے ہوئے ناولوں نے دل میں جنگ سے ایسی محبت جگائی کہ جس کے بارے میں کیا کہا جائے۔
آپ خود ہی سوچیے کہ جب میدان جنگ میں قرنا پھنک رہا ہو، سنکھ بجائے جا رہے ہوں اور جادوگروں اور جادوگرنیوں کی لاکھوں پر مشتمل سپاہ اپنے گھوڑے دوڑاتی اور تیروں کی برسات سے دن کو رات بناتی ہوئی ، میدان میں کشتیوں کے پشتے لگا رہی ہو تو کس کا دل چاہے گا گلی سے گزرتے ہوئے سبزی یا پھل والے کی ہانک سنے۔
ادھر ابا جان تھے جو پکچر ہاؤس میں ''بن حُر'' اور ''ہیلن آف ٹرائے'' دکھانے لے جاتے اور میں میدان جنگ میں لڑتے ہوئے زریں کمر شہزادوں اور سولہ سنگھار کیے ہوئے شہزادیوں پر کیوں فدا نہ ہوتے۔ یہ شہزادیاں قید ہوتیں تو مال غنیمت کے طور پر جیتنے والے لشکروں کے شہزادوں کو ملتیں اور وہاں بھی رقص و سرود کے وہی منظر ہوتے۔
''ٹیپو سلطان'' ہمارا ہارا ہوا جرنیل تھا لیکن اس کی فوج کا تزک و احتشام بھی وہی تھا۔ میں نے اسکول میگزین ''ارم'' کے لیے مضمون ٹیپو سلطان لکھا۔ اسے پہلا انعام ملا اور یوں اسکول میں داخلہ ملتے ہی میری مشہوری ہوگئی۔ اس زمانے میں کرکٹ اور ہاکی میچ جیتنے پر بھی ایسے انعام نہیں ملتے تھے کہ جیتنے والوں کے دماغ خراب ہوجائیں اور وہ ایسے انوکھے لاڈلے بن جائیں کہ جوکھیلن کو چاند مانگیں۔
آہستہ آہستہ خون کے تزک و احتشام اور ان کی مار کاٹ سے جی بھرگیا۔ یہ سمجھ میں آنے لگا کہ انسان کے لیے امن سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ امن، شیر خوار بچوں کے لبوں سے ٹپکتے ہوئے دودھ کے قطروں سے زیادہ کچھ ضروری نہیں اور بھٹی میں تپتے ہوئے لوہے سے زیادہ کوئی تپش خوب صورت نہیں جسے کوٹ کر چھریاں اور چاقو بنائے جائیں۔ ان سے سبزی کاٹی جائے گی اور پیاز کے لچھے۔ آنسو بہائے جائیں لیکن یہ کسی موت پر نہ ہوں۔
پھر امن مجھے مصری فرعون اخناطون نے سمجھایا اور اشوک کے اس نوحے نے جو کالنگا کے میدان میں بکھری ہوئی لاشوں اور زخمیوں کے درمیان اس نے کھڑے ہوکر بہائے۔
مگدھ (بہار) کے موریہ خاندان کا تیسرا بادشاہ اشوک، اخناطون کے ایک ہزار برس بعد پیدا ہوا۔ بندوسار کا یہ بیٹا اور چندر گپت موریہ کا پوتا 273 ق م برسرِ اقتدار آیا۔ اپنے دادا چندر گپت موریہ اور باپ بندوسار نے اس کے لیے ایک عظیم سلطنت چھوڑی تھی۔ وہ اپنا وقت عیش اور شکار میں گزارتا رہا۔
تاج شاہی سر پر سجانے کے 8 برس بعد وہ اپنے عظیم لشکر کے ساتھ پڑوس کی طاقت ور اور دولت مند ریاست کالنگا (جنوبی اڑیسہ) پر حملہ آور ہوا اور اسے تہس نہس کردیا۔ یہ اس کا پہلا حملہ اور پہلی فتح تھی۔ کہا جاتا ہے کہ طاقت کے نشے میں سرشار اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگاہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے۔ بہت سے نیم مردہ تھے۔ کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے۔ قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے ڈھونڈتی تھیں اور آہ و بکا کرتی تھیں۔
کالنگا کے میدان میں اس نے دیکھا کہ فتح کا چہرہ کتنا بھیانک ہے۔ اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا۔ وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور اس کے ساتھ چلنے والا شاہی دستہ بھی گھوڑوں سے اتر گیا۔ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا۔ اس کا گریہ تاریخ میں محفوظ ہو گیا:
یہ میں نے کیا کردیا؟ اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں؟
یہ فتح ہے یا شکست؟
یہ انصاف ہے یا ناانصافی؟
یہ شجاعت ہے یا بزدلی؟
کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے؟
کیا میں نے یہ سب کچھ اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور دولت مند کرنے کے لیے کیا یا
دوسری بادشاہت کی شان و شوکت کو غارت کرنے کے لیے؟
کسی نے اپنا شوہر کھو دیا، کسی نے اپنا باپ اور کسی نے اپنا بچہ
اور کوئی بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی قتل ہوا۔ لاشوں کے یہ انبار کیا ہیں؟
یہ فتح کے نشان ہیں یا شکست کے؟
اشوک کا یہ نوحہ اور کالنگا کے میدان سے لوٹ کر آنے کے بعد اس کے لکھوائے وہ فرامین جو پتھروں پر کندہ کیے گئے اور اشوک کی وسیع و عریض سلطنت کی حدوں کے اندر نصب کیے گئے، انھیں پڑھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم عدم تشدد پر راسخ یقین رکھنے والے ایک ایسے امن پسند اور انسان پرست فلسفی کے خیالات سے ملاقات کر رہے ہیں جو رواداری کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ وہ بدھ مت اختیار کرچکا تھا لیکن دوسرے تمام مذاہب کا اور اپنی رعایا کی مذہبی روایات اور ثقافت کا احترام لازمی سمجھتا تھا۔
کالنگا کی فتح کے بعد اشوک اعظم نے کبھی گوشت نہیں چکھا۔ کسی فوجی مہم پر نہیں گیا۔ اس کے سپاہیوں کی تلواروں کو زنگ لگتا رہا اور اس کی سلطنت میں چوکڑیاں بھرتے ہوئے جانوروں اور اڑتے ہوئے پرندوں کو بھی جان کی امان ملی۔
کچھ واقعات انسانوں کی زندگی کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ اسی نوعیت کی صورت حال اشوک کے ساتھ بھی ہوئی اور آج اس کی پیروی کرتے ہوئے لاکھوں افراد جانور بھی نہیں ذبح کرتے۔
اس وقت یوکرین میں جو تباہی ہو رہی ہے، روسی افواج یوکرینی شہروں اور انسانوں کو جس طرح تہس نہس کر رہی ہیں، اسے دیکھیے تو جی چاہتا ہے کہ کسی اشوک کا پھر سے جنم ہوتا کہ ہمارے کرۂ ارض پر اس نوعیت کی خوں ریزی نہ ہو جیسی ہو رہی ہے۔