ناکام شب خون
خان صاحب کو جنھوں نے مشورہ دیا کہ جناب ایسا کر گذرو، انھوں نے خان صاحب کے ساتھ اچھا نہیں کیا
سپریم کورٹ کا جو مختصر فیصلہ ہے، اس میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد والا اجلاس اس وقت تک چلتا رہے گا، جب تک اس میں ووٹوں کی گنتی مکمل نہ ہو۔ عمران خان کرنے کو تو کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ جتنا وہ بال کو ٹمپر کریں گے، اتنا اپنی سیاسی ساکھ اور وقار کھوئیں گے۔ لگتا ہے اس بات کی خان صاحب کو فکر بھی نہیں۔
عدالتی فیصلے کے بعد حکومتی ترجمانوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اس ملک میں پارلیمنٹ کی بالادستی نہ رہی، اب تو اس ملک میں جوڈیشل مارشل لاء آگیا۔ دوسری طرف اپوزیشن اور تمام تر وکلا برادری یہ سمجھتی ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ، ایسا فیصلہ ہے، جس میں نظریہ ضرورت کی ذرہ برابر بھی ملاوٹ نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ آئین اور قانون کی روح کے پس منظر میں دیا ہے۔ کئی زمانوں سے جو نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے سنائے ہیں، وہ داغ دھلتے نظر آئے۔عدالت کا وقار بلند ہوتا ہوا نظر آیا۔
دراصل ہمارا آئین تحریری ہے، یہ برطانیہ کے آئین کی طرح غیر تحریری نہیں ہے ، جن جمہوری ملکوں میں آئین تحریری شکل میں ہوتا ہے، وہاں پارلیمنٹ سپریم نہیں ہوتی، بلکہ آئین سپریم ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ ، عدلیہ اور مقننہ اپنی پاورایکسرسائز کرنے میں خود مختار ہوتے ہیں لیکن یہ آئین کے تابع ہوتے ہیں ۔ آئین کے یہ تین بڑے ستون ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں۔ نہ عدلیہ پارلیمنٹ سے کمتر درجہ رکھتی اور نہ پارلیمنٹ عدلیہ کے نیچے آتی ہے۔
پھر ہمارے آئین کی ''بنیادی ڈھانچے'' والی تھیوری بھی ہے، جس کے تحت پارلیمنٹ ایسی کوئی آئینی ترمیم نہیں کرسکتی جس سے عدالت کے جوڈیشل ریویو والے اختیار یا یوں کہیے کہ پارلمینٹ کوئی ایسا کام نہیں کرسکتی جس سے عدلیہ کی آزادی اور اختیار کو ٹھیس پہنچے۔ آرٹیکل 69 کے تحت عدالت پارلیمنٹ کے اندر کسی بھی بحث یا فیصلے میں مداخلت نہیں کرسکتی، بھلے کیوں نہ اس کے اندر کوئی نامناسب یا یوں کہیے irregularity ہوئی ہو، مگر دوسری طرف جوڈیشل ریویو کی آفاقی زبان یہ کہتی ہے کہ کوئی بھی اقدام جو آئین سے متصادم ہو، وہ غیر آئینی ہے۔
آرٹیکل 95کے تحت جب تحریک عدم اعتماد کا اجلاس قومی اسمبلی میں چل رہا ہو۔ ایسا اجلاس جب زیر التوا ہو تو اس دوران وزیراعظم آرٹیکل 58(i) کے تحت صدر کو یہ نہیں لکھ سکتے کہ قومی اسمبلی کو تحلیل کرے اور ایسی کسی بھی وزیر اعظم کی سفارش کو صدر خاطر میں نہیں لاسکتے۔ 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیراعظم پر عدم اعتماد کے لیے بلایا گیا ، اجلاس بغیر منطقی انجام تک پہچانے کے برخاست کردیا۔ وزیر قانون اٹھ کر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اپوزیشن غداری کی مرتکب ہوئی ہے، یہ امریکا کے ساتھ اس سازش میں ملوث ہیں جسکے تحت پاکستان کی موجودہ محب وطن وزیراعظم اور ان کی حکومت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
ڈپٹی اسپیکر نے اپوزیشن لیڈر سے کوئی رائے نہیں لی کہ وہ کیا کہتے ہیں ،وزیر قانون کے الزام پر۔اور جو وزیر قانون نے کہا ،اس کی کوئی تصدیق نہیں ہے۔ یوں اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہوا۔ عدم اعتماد کی تحریک خارج کی گئی، اس لیے کہ اپوزیشن غدار ہے اور دو منٹ بھی نہ گزرے، بظاہر براہ راست غیر اعلانیہ تقریر خان صاحب نے کی اور یہ کہا کہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سفارش انھوںنے صدر کو دی ہے۔ یہ کہے وزیر اعظم کو بھی دو منٹ بھی نہ گذرے تھے کہ صدر نے وزیر اعظم کی بھیجی ہوئی اس سمری کو منظور بھی کرلیا اور پھر ایک نوٹیفیکیشن صدر کے طرف سے آیا جس میں خان صاحب کو نگران وزیر اعظم بھی بنادیا گیا۔
ذرا وزیر قانون سے کوئی پوچھے کہ اگر عدالت اس اقدام کو جائز قرار دے دیتی تو پھرا سپیکرکا ادارہ آمر نہ بن جاتا، وہ آئین کے ہر آرٹیکل کی من مرضی کی تشریح کرکے آئین کا حلیہ نہ بگاڑ دیتا؟ اور کسی بھی وزیراعظم اور صدر کے ساتھ مل کر ایک نئی طرز کی آمریت قائم نہ کردیتا؟ ۔ اگر عدالت اسپیکر کی رولنگ اور اس کے بعد ہونے والے سارے اقدامات کو درست مان لیتی ، تب نظریہ ضرورت پھر زندہ ہوجاتا اور لوگوں کی جو تھوڑی بہت عدلیہ سے امید یں وابستہ تھیں، وہ بھی ختم ہوجاتیں۔
دراصل اس بار لوگوں میں بیداری بہت آئی ہوئی ہے۔ لوگوں میں غصہ بھی تھا جو خان صاحب کی ناقص کاکردگی کی وجہ سے تھا۔ خان صاحب کا یہ اقدام دراصل ایک سول حکمران کا آئین پر شب خون مارنے کے برابر تھا،جو کامیاب نہیں ہوسکا۔ جسٹس منیر نے ڈوسو کیس میں یہ کہا تھا کہ ہر کامیاب شب خون خود اپنا لیگل نظام بھی لے کر آتا ہے اور اس کے پیچھے بندوق کی طاقت ہوتی ہے۔
خان صاحب کے اس ناکام شب خون کے پیچھے کوئی بندوق کا زور نہ تھا۔ فوجی آمر شب خون مارنے کے بعد جو پہلا کام کرتا ہے، وہ اعلیٰ عدالتوں کے تمام جج صاحبان کو اپنے جاری کردہ لیگل آرڈر کے تحت حلف اٹھانے کو کہتا ہے جو حلف اٹھاتے ہیں، ان کی نوکری چلتی ہے اور جو نہیں اٹھاتے، ان کو گھر بھیج دیا جاتا ہے، اور پھر جب ایسی آمریت کو کوئی دلیر شخص چیلنج کرتا ہے تو چونکہ ایسے جج صاحبان کا آئین کے تحت حلف باقی نہیں رہتا اور وہ آئین کے محافظ نہیں رہتے اور پھر نظریہ ضرورت کا استعمال کرنا لازم ہوجاتا ہے۔
اس چند دن کے سول آمر سے کوئی پوچھے تو کیا آپ نگران حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش اس نیت سے کہ آپ 2018 والے الیکشن سے بھی اکثریت حاصل کرنے میںکامیاب جائیں گے، تو آپ نے پھر ایک لیگل آرڈر بھی صدر کے حکم سے صادر کرنا تھا ، تو کیا جج صاحبان آپ کے لیگل آرڈر پر قسم اٹھا لیتے؟خان صاحب ، کوئی سویلین آمر ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ آمر بننے کے لیے تلوار اور بندوق کی طاقت ہونا لازم ہوتا ہے، آپ کے پاس یہ طاقت پہلے کبھی تھی نہ اب ہے اور نہ آیندہ ہوگی۔
اگر کسی بھی ایرے غیرے سول جتھے کو اجازت دی جائے کہ وہ آئین توڑے اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اس پر جائز ہونے کا ٹھپہ لگادے تو پھر کل کوئی بھی سول لباس میں شخص یہ کام کرسکتا ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ یہاں کوئی کوئی بھی شب خون نہیں مارسکتا، اس لیے اس ملک میں ہائبرڈ جمہوریت لائی گئی تھی کیونکہ اب کے بار شب خون مارنا آسان نہیں تھا ، جب طاقتوروں کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں رہا تو آپ کس اور آپ کے ساتھ کس باغ کی مولی ہیں ۔
ایسے حالات میں وزیران اور مشیران نام کی جو مخلوق ہوتی ہے ، وہ غلط مشورے دیتی ہے اور ''صاحب ''کو بھی وہ مشورے بہت اچھے لگتے ہیں، جس کے ذریعے وہ اپنے اقتدار کو دوام دے سکے۔ خان صاحب کو جنھوں نے مشورہ دیا کہ جناب ایسا کر گذرو، انھوں نے خان صاحب کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ خیر اب تک تو خان صاحب کو سمجھ آگئی ہوگی کہ غیر آئینی قدم اٹھانا ناممکن ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد حکومتی ترجمانوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اس ملک میں پارلیمنٹ کی بالادستی نہ رہی، اب تو اس ملک میں جوڈیشل مارشل لاء آگیا۔ دوسری طرف اپوزیشن اور تمام تر وکلا برادری یہ سمجھتی ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ، ایسا فیصلہ ہے، جس میں نظریہ ضرورت کی ذرہ برابر بھی ملاوٹ نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ آئین اور قانون کی روح کے پس منظر میں دیا ہے۔ کئی زمانوں سے جو نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے سنائے ہیں، وہ داغ دھلتے نظر آئے۔عدالت کا وقار بلند ہوتا ہوا نظر آیا۔
دراصل ہمارا آئین تحریری ہے، یہ برطانیہ کے آئین کی طرح غیر تحریری نہیں ہے ، جن جمہوری ملکوں میں آئین تحریری شکل میں ہوتا ہے، وہاں پارلیمنٹ سپریم نہیں ہوتی، بلکہ آئین سپریم ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ ، عدلیہ اور مقننہ اپنی پاورایکسرسائز کرنے میں خود مختار ہوتے ہیں لیکن یہ آئین کے تابع ہوتے ہیں ۔ آئین کے یہ تین بڑے ستون ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں۔ نہ عدلیہ پارلیمنٹ سے کمتر درجہ رکھتی اور نہ پارلیمنٹ عدلیہ کے نیچے آتی ہے۔
پھر ہمارے آئین کی ''بنیادی ڈھانچے'' والی تھیوری بھی ہے، جس کے تحت پارلیمنٹ ایسی کوئی آئینی ترمیم نہیں کرسکتی جس سے عدالت کے جوڈیشل ریویو والے اختیار یا یوں کہیے کہ پارلمینٹ کوئی ایسا کام نہیں کرسکتی جس سے عدلیہ کی آزادی اور اختیار کو ٹھیس پہنچے۔ آرٹیکل 69 کے تحت عدالت پارلیمنٹ کے اندر کسی بھی بحث یا فیصلے میں مداخلت نہیں کرسکتی، بھلے کیوں نہ اس کے اندر کوئی نامناسب یا یوں کہیے irregularity ہوئی ہو، مگر دوسری طرف جوڈیشل ریویو کی آفاقی زبان یہ کہتی ہے کہ کوئی بھی اقدام جو آئین سے متصادم ہو، وہ غیر آئینی ہے۔
آرٹیکل 95کے تحت جب تحریک عدم اعتماد کا اجلاس قومی اسمبلی میں چل رہا ہو۔ ایسا اجلاس جب زیر التوا ہو تو اس دوران وزیراعظم آرٹیکل 58(i) کے تحت صدر کو یہ نہیں لکھ سکتے کہ قومی اسمبلی کو تحلیل کرے اور ایسی کسی بھی وزیر اعظم کی سفارش کو صدر خاطر میں نہیں لاسکتے۔ 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیراعظم پر عدم اعتماد کے لیے بلایا گیا ، اجلاس بغیر منطقی انجام تک پہچانے کے برخاست کردیا۔ وزیر قانون اٹھ کر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اپوزیشن غداری کی مرتکب ہوئی ہے، یہ امریکا کے ساتھ اس سازش میں ملوث ہیں جسکے تحت پاکستان کی موجودہ محب وطن وزیراعظم اور ان کی حکومت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
ڈپٹی اسپیکر نے اپوزیشن لیڈر سے کوئی رائے نہیں لی کہ وہ کیا کہتے ہیں ،وزیر قانون کے الزام پر۔اور جو وزیر قانون نے کہا ،اس کی کوئی تصدیق نہیں ہے۔ یوں اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہوا۔ عدم اعتماد کی تحریک خارج کی گئی، اس لیے کہ اپوزیشن غدار ہے اور دو منٹ بھی نہ گزرے، بظاہر براہ راست غیر اعلانیہ تقریر خان صاحب نے کی اور یہ کہا کہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سفارش انھوںنے صدر کو دی ہے۔ یہ کہے وزیر اعظم کو بھی دو منٹ بھی نہ گذرے تھے کہ صدر نے وزیر اعظم کی بھیجی ہوئی اس سمری کو منظور بھی کرلیا اور پھر ایک نوٹیفیکیشن صدر کے طرف سے آیا جس میں خان صاحب کو نگران وزیر اعظم بھی بنادیا گیا۔
ذرا وزیر قانون سے کوئی پوچھے کہ اگر عدالت اس اقدام کو جائز قرار دے دیتی تو پھرا سپیکرکا ادارہ آمر نہ بن جاتا، وہ آئین کے ہر آرٹیکل کی من مرضی کی تشریح کرکے آئین کا حلیہ نہ بگاڑ دیتا؟ اور کسی بھی وزیراعظم اور صدر کے ساتھ مل کر ایک نئی طرز کی آمریت قائم نہ کردیتا؟ ۔ اگر عدالت اسپیکر کی رولنگ اور اس کے بعد ہونے والے سارے اقدامات کو درست مان لیتی ، تب نظریہ ضرورت پھر زندہ ہوجاتا اور لوگوں کی جو تھوڑی بہت عدلیہ سے امید یں وابستہ تھیں، وہ بھی ختم ہوجاتیں۔
دراصل اس بار لوگوں میں بیداری بہت آئی ہوئی ہے۔ لوگوں میں غصہ بھی تھا جو خان صاحب کی ناقص کاکردگی کی وجہ سے تھا۔ خان صاحب کا یہ اقدام دراصل ایک سول حکمران کا آئین پر شب خون مارنے کے برابر تھا،جو کامیاب نہیں ہوسکا۔ جسٹس منیر نے ڈوسو کیس میں یہ کہا تھا کہ ہر کامیاب شب خون خود اپنا لیگل نظام بھی لے کر آتا ہے اور اس کے پیچھے بندوق کی طاقت ہوتی ہے۔
خان صاحب کے اس ناکام شب خون کے پیچھے کوئی بندوق کا زور نہ تھا۔ فوجی آمر شب خون مارنے کے بعد جو پہلا کام کرتا ہے، وہ اعلیٰ عدالتوں کے تمام جج صاحبان کو اپنے جاری کردہ لیگل آرڈر کے تحت حلف اٹھانے کو کہتا ہے جو حلف اٹھاتے ہیں، ان کی نوکری چلتی ہے اور جو نہیں اٹھاتے، ان کو گھر بھیج دیا جاتا ہے، اور پھر جب ایسی آمریت کو کوئی دلیر شخص چیلنج کرتا ہے تو چونکہ ایسے جج صاحبان کا آئین کے تحت حلف باقی نہیں رہتا اور وہ آئین کے محافظ نہیں رہتے اور پھر نظریہ ضرورت کا استعمال کرنا لازم ہوجاتا ہے۔
اس چند دن کے سول آمر سے کوئی پوچھے تو کیا آپ نگران حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش اس نیت سے کہ آپ 2018 والے الیکشن سے بھی اکثریت حاصل کرنے میںکامیاب جائیں گے، تو آپ نے پھر ایک لیگل آرڈر بھی صدر کے حکم سے صادر کرنا تھا ، تو کیا جج صاحبان آپ کے لیگل آرڈر پر قسم اٹھا لیتے؟خان صاحب ، کوئی سویلین آمر ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ آمر بننے کے لیے تلوار اور بندوق کی طاقت ہونا لازم ہوتا ہے، آپ کے پاس یہ طاقت پہلے کبھی تھی نہ اب ہے اور نہ آیندہ ہوگی۔
اگر کسی بھی ایرے غیرے سول جتھے کو اجازت دی جائے کہ وہ آئین توڑے اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اس پر جائز ہونے کا ٹھپہ لگادے تو پھر کل کوئی بھی سول لباس میں شخص یہ کام کرسکتا ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ یہاں کوئی کوئی بھی شب خون نہیں مارسکتا، اس لیے اس ملک میں ہائبرڈ جمہوریت لائی گئی تھی کیونکہ اب کے بار شب خون مارنا آسان نہیں تھا ، جب طاقتوروں کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں رہا تو آپ کس اور آپ کے ساتھ کس باغ کی مولی ہیں ۔
ایسے حالات میں وزیران اور مشیران نام کی جو مخلوق ہوتی ہے ، وہ غلط مشورے دیتی ہے اور ''صاحب ''کو بھی وہ مشورے بہت اچھے لگتے ہیں، جس کے ذریعے وہ اپنے اقتدار کو دوام دے سکے۔ خان صاحب کو جنھوں نے مشورہ دیا کہ جناب ایسا کر گذرو، انھوں نے خان صاحب کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ خیر اب تک تو خان صاحب کو سمجھ آگئی ہوگی کہ غیر آئینی قدم اٹھانا ناممکن ہے۔