پاکستان میں کہیں بھی دہشتگردی ہوئی تو اس کا ردعمل دہشت گردوں کے ہیڈ کوارٹر پر کریں گے قومی سلامتی پالیسی
ہمارا مقصد نیک ہے اور ہم ملک کو فساد سے نجات دلانا چاہتے ہیں، چوہدری نثار
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں سلامتی پالیسی پیش کردی، 3 حصوں پر مشتمل پالیسی کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان بہتر رابطے کے لئے مشترکہ ڈائریکٹوریٹ اور ریپڈ رسپانس فورس قائم کی جائے گی۔
قومی اسمبلی میں قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ 13 برس سے ملک کو گھمبیر حالات کا سامنا ہے، ایسی صورتحال میں 4 حکومتیں آئیں لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ موجودہ حکومت نے وزیر اعظم کی رہنمائی میں جس طرح معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ گزشتہ روز کابینہ میں منظور کی جانے والی سیکیورٹی پالیسی کو ایوان میں پیش کیا جائے تاکہ ایوان کا ایک ایک رکن مجوزہ پالیسی پر بات کرسکے۔
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پہلے مرحلے میں مذاکرات کا راستہ بنایا، علما کی کمیٹی بنائی گئی جس کے بارے میں سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز کو آگاہ کیا لیکن حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد یہ عمل ختم ہوگیا جس کے بعد خفیہ مذاکرات شروع ہوئے جس کے بڑے فائدے تھے لیکن بنوں واقعے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب مذاکرات خفیہ نہیں ہوں گے لہذا ایک اور کمیٹی بنی جس نے 17 دن کام کیا، اسی دوران کراچی میں پولیس اہلکاروں اور مہمند ایجنسی کے 23 مغوی اہلکاروں کو قتل کیا گیا۔ مذاکراتی عمل کے دوران ہی پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا تو وزیراعظم نے خود کہا کہ بس بہت ہوگیا اور حکومت نے فیصلہ کیا کہ اگر پاکستان کے کسی بھی حصے میں دہشتگردی کی کارروائی ہوئی تو اس کا ردعمل ہم ان کے ہیڈ کوارٹر پر کریں گے۔ ہم نے اس بات پر زور دیا کہ کارروائی میں کوئی بے گناہ نہ مارا جائے اور مسلح افواج نے احکامات کے عین مطابق انٹیلی جنس رپورٹس کے تحت دہشتگردوں کے ٹھکانوں اور گھروں پر حملے کئے۔
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ دہشتگردی صرف پاکستان میں امن و عامہ کا مسئلہ نہیں، یہ ملک کے وجود اور مستقبل کا مسئلہ ہے، حکومت نیک نیتی سے سیاست کو ایک جانب رکھتے ہوئے اس پورے عمل کو آگے بڑھا رہی ہے، لیکن انہیں اس بات پر افسوس ہوا کہ کچھ سیاسی جماعتیں اب کہہ رہی ہیں کہ انہیں اعتماد میں لیا ہی نہیں گیا۔ عمران خان کی منظوری کے بعد حکومت نے مذاکرات میں ان کا نمائندہ شامل کیا لیکن اس کے باوجود ان کی جانب سے الزامات لگائے جارہے ہیں کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تو یہ بہت غلط بات ہے۔ اس مسئلے کو اللہ کے کرم سے سیاسی ہم آہنگی سے ہی حل ہونا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور میڈیا سے التجا ہے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں، میڈیا دوسرے فریق کو اتنی اہمیت نہ دے اور صرف تنقید نہ کی جائے بلکہ ہمیں راستہ بھی بتایا جائے، اگر حکومت کے اقدامات میں کوئی غلطی ہوئی تو ہم اس کی تصحیح کریں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان میں26 انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں اور ان کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہے ان کے درمیان بہتر رابطے قائم کرنے کے لئے نیکٹا کے جوائنٹ ڈائریکٹوریٹ میں تمام ایجنسیوں کی کوآرڈینیشن ہوگی اور ایجنسیوں کی رپورٹس پر کارروائیاں کی جائیں گی، اس کے علاووہ ریپڈ رسپانس فورس قائم کی جائے گی۔
قومی اسمبلی میں قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ 13 برس سے ملک کو گھمبیر حالات کا سامنا ہے، ایسی صورتحال میں 4 حکومتیں آئیں لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ موجودہ حکومت نے وزیر اعظم کی رہنمائی میں جس طرح معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ گزشتہ روز کابینہ میں منظور کی جانے والی سیکیورٹی پالیسی کو ایوان میں پیش کیا جائے تاکہ ایوان کا ایک ایک رکن مجوزہ پالیسی پر بات کرسکے۔
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پہلے مرحلے میں مذاکرات کا راستہ بنایا، علما کی کمیٹی بنائی گئی جس کے بارے میں سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز کو آگاہ کیا لیکن حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد یہ عمل ختم ہوگیا جس کے بعد خفیہ مذاکرات شروع ہوئے جس کے بڑے فائدے تھے لیکن بنوں واقعے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب مذاکرات خفیہ نہیں ہوں گے لہذا ایک اور کمیٹی بنی جس نے 17 دن کام کیا، اسی دوران کراچی میں پولیس اہلکاروں اور مہمند ایجنسی کے 23 مغوی اہلکاروں کو قتل کیا گیا۔ مذاکراتی عمل کے دوران ہی پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا تو وزیراعظم نے خود کہا کہ بس بہت ہوگیا اور حکومت نے فیصلہ کیا کہ اگر پاکستان کے کسی بھی حصے میں دہشتگردی کی کارروائی ہوئی تو اس کا ردعمل ہم ان کے ہیڈ کوارٹر پر کریں گے۔ ہم نے اس بات پر زور دیا کہ کارروائی میں کوئی بے گناہ نہ مارا جائے اور مسلح افواج نے احکامات کے عین مطابق انٹیلی جنس رپورٹس کے تحت دہشتگردوں کے ٹھکانوں اور گھروں پر حملے کئے۔
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ دہشتگردی صرف پاکستان میں امن و عامہ کا مسئلہ نہیں، یہ ملک کے وجود اور مستقبل کا مسئلہ ہے، حکومت نیک نیتی سے سیاست کو ایک جانب رکھتے ہوئے اس پورے عمل کو آگے بڑھا رہی ہے، لیکن انہیں اس بات پر افسوس ہوا کہ کچھ سیاسی جماعتیں اب کہہ رہی ہیں کہ انہیں اعتماد میں لیا ہی نہیں گیا۔ عمران خان کی منظوری کے بعد حکومت نے مذاکرات میں ان کا نمائندہ شامل کیا لیکن اس کے باوجود ان کی جانب سے الزامات لگائے جارہے ہیں کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تو یہ بہت غلط بات ہے۔ اس مسئلے کو اللہ کے کرم سے سیاسی ہم آہنگی سے ہی حل ہونا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور میڈیا سے التجا ہے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں، میڈیا دوسرے فریق کو اتنی اہمیت نہ دے اور صرف تنقید نہ کی جائے بلکہ ہمیں راستہ بھی بتایا جائے، اگر حکومت کے اقدامات میں کوئی غلطی ہوئی تو ہم اس کی تصحیح کریں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان میں26 انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں اور ان کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہے ان کے درمیان بہتر رابطے قائم کرنے کے لئے نیکٹا کے جوائنٹ ڈائریکٹوریٹ میں تمام ایجنسیوں کی کوآرڈینیشن ہوگی اور ایجنسیوں کی رپورٹس پر کارروائیاں کی جائیں گی، اس کے علاووہ ریپڈ رسپانس فورس قائم کی جائے گی۔