کیا پانچویں قوت کا ’’ایک اور اشارہ‘‘ مل گیا ہے
نئے تجربات کے نتائج سے پارٹیکل فزکس کے 50 سال پرانے اسٹینڈرڈ ماڈل میں دراڑیں مزید نمایاں ہوگئی ہیں
ماہرین کی عالمی ٹیم نے ایک اہم بنیادی ذرّے ''ڈبلیو بوسون'' (W Boson) کی درست ترین کمیت معلوم کرلی ہے جو ہمارے اب تک کے بہترین اور محتاط ترین تخمینوں سے 0.1 فیصد زیادہ ہے؛ جبکہ اس پیمائش میں غلطی کا امکان بھی صرف 0.01 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
بعض سائنسدان اس فرق کو ''پانچویں کائناتی قوت'' کا ایک اور اشارہ قرار دے رہے ہیں۔
اس پیمائش کا اعلان گزشتہ ہفتے امریکا کی ''فرمی نیشنل ایکسلریٹر لیبارٹری'' المعروف ''فرمی لیب'' میں تقریباً بیس سال سے جاری ایک عالمی منصوبے ''سی ڈی ایف کولیبوریشن'' کی جانب سے کیا گیا ہے۔
سی ڈی ایف کولیبوریشن میں 23 ملکوں سے 54 تحقیقی اداروں کے 400 سائنسدان شامل ہیں جس کی تازہ ترین تحقیق کی تفصیل ریسرچ جرنل ''سائنس'' کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
یہ خبر اپنے آپ میں اتنی بڑی ہے کہ ''سائنس'' نے اسے اپنے سرورق پر بھی نمایاں کیا ہے۔
ڈبلیو بوسون کی کمیت میں سامنے آنے والا یہ فرق بظاہر بہت معمولی ہے لیکن ذرّاتی طبیعیات (پارٹیکل فزکس) میں اتنا اہم ہے کہ اگر مزید تجربات سے اس کی حتمی تصدیق ہوگئی تو ذرّاتی طبیعیات کے مروجہ فریم ورک ''اسٹینڈرڈ ماڈل'' میں بڑی تبدیلی بھی آسکتی ہے۔
بتاتے چلیں کہ پارٹیکل فزکس میں اسٹینڈرڈ ماڈل کو تقریباً پچھلے 50 سال سے ایک اہم نظریئے کا مقام حاصل ہے۔
اس کے تحت چار کائناتی قوتوں میں سے تین (برقی مقناطیسی قوت، مضبوط نیوکلیائی قوت اور کمزور نیوکلیائی قوت) یکجا کی جاچکی ہیں۔ (البتہ چوتھی اور سب سے اہم قوت (ثقل/ گریویٹی) باقی تین قوتوں کے ساتھ یکجا نہیں کی جاسکی۔)
اسٹینڈر ماڈل میں گزشتہ بیس پچیس سال کے دوران کچھ ایسی خامیاں سامنے آئی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس ضمن میں ایک اہم پیش رفت گزشتہ سال ہوئی تھی جب 'سرن' میں ایک نئے بنیادی ذرّے کے ممکنہ شواہد ملے تھے جسے ''لیپٹوکوارک'' کا نام دیا گیا تھا۔ لیپٹوکوارک کی ممکنہ موجودگی بھی اسٹینڈرڈ ماڈل کی خامیوں اور حدود کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: کیا سائنسدانوں نے کائنات کی ''پانچویں قوت'' دریافت کرلی ہے؟
''ہمیں ابتداء ہی سے یہ معلوم تھا کہ اسٹینڈرڈ ماڈل مکمل نہیں اور جلد یا بدیر اس میں تبدیلی کی ضرورت پڑے گی،'' پاکستان کے ممتاز طبیعیات داں، پروفیسر ڈاکٹر پرویز امیر علی ہودبھائی نے ایکسپریس نیوز کو بتایا۔
بعض ماہرین اس فرق کو ''پانچویں کائناتی قوت'' کا ایک اور اشارہ بھی قرار دے رہے ہیں، جس کی کچھ امید افزاء لیکن تصدیق طلب شہادتیں گزشتہ چند سال سے مسلسل سامنے آتی جارہی ہیں۔ البتہ، ماہرین کی بڑی تعداد پانچویں کائناتی قوت کے مفروضے سے متفق نہیں۔
''پانچویں کائناتی قوت کے بارے میں پہلے بھی باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن عملاً ایسا کچھ ثابت نہیں ہوسکا۔ میرا خیال ہے کہ ڈبلیو بوسون کی زیادہ کمیت کو اس چیز (پانچویں کائناتی قوت) سے جوڑنا مناسب نہیں،'' ڈاکٹر ہودبھائی نے کہا۔
واضح رہے کہ ڈبلیو بوسون کا شمار بنیادی ذرّات (fundamental particles) میں کیا جاتا ہے۔ یہ اور ''زیڈ بوسون'' مشترکہ طور پر ''کمزور نیوکلیائی قوت'' کے ذمہ دار ہیں۔ اسی قوت کی وجہ سے ایٹمی مرکزے (اٹامک نیوکلیئس) میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے اور تابکار اشعاع (ریڈیو ایکٹیویٹی) کا اخراج بھی ہوتا ہے۔
ڈبلیو بوسون کی پیش گوئی 1960 کے عشرے میں ڈاکٹر عبدالسلام، شیلڈن لی گلاشو اور اسٹیون وائن برگ نے جداگانہ طور پر کی تھی جس پر ان تینوں سائنسدانوں کو 1979 میں مشترکہ طور پر طبیعیات (فزکس) کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔
بعد ازاں یہ ذرہ 1983 میں ذراتی طبیعیات کی یورپی تجربہ گاہ (CERN) میں دریافت بھی کرلیا گیا۔ تب سے آج تک لاکھوں کروڑوں مرتبہ اس کی کمیت (mass) کی پیمائش بھی کی جاچکی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتی رہی ہے۔
پروٹون کے مقابلے میں ڈبلیو بوسون کی کمیت تقریباً 80 گنا زیادہ، یعنی لگ بھگ 80 ہزار ملین الیکٹرون وولٹ (80,000 MeV) ہوتی ہے۔
اسٹینڈرڈ ماڈل کے تحت کی گئی محتاط ترین پیش گوئیوں کے مطابق، ڈبلیو بوسون کی کمیت 80,357 ملین الیکٹرون وولٹ ہونی چاہیے جبکہ اس میں 6 ملین الیکٹرون وولٹ کمی بیشی کی گنجائش ہوسکتی ہے۔
سی ڈی ایف کولیبوریشن میں پچھلے 20 سال کے دوران لاکھوں تجربات سے ڈبلیو بوسون کی کمیت معلوم کی جاچکی ہے۔ یہ مشاہدات فرمی لیب میں نصب ''ٹیواٹرون کولائیڈر'' استعمال کرتے ہوئے کوئی 42 لاکھ مرتبہ انجام دیئے گئے ہیں۔
ان تمام مشاہدات کو استعمال کرتے ہوئے جب سی ڈی ایف کولیبوریشن کی ٹیم نے ڈبلیو بوسون کی کمیت معلوم کی تو وہ 80,433 ملین الیکٹرون وولٹ نکلی جبکہ اس میں غلطی (کمی بیشی) کی ممکنہ گنجائش 9 ملین الیکٹرون وولٹ ہے۔
بہترین پیش گوئی اور اب تک کے بہترین مشاہدات میں اگرچہ صرف 0.1 فیصد کا فرق ہے لیکن پارٹیکل فزکس میں یہی معمولی فرق بہت معنی خیز ہے کیونکہ فی الحال ہم نہیں جانتے کہ آخر یہ فرق کیوں آرہا ہے۔
سی ڈی ایف کولیبوریشن کے شریک ترجمان، ڈاکٹر ڈیوڈ ٹوبیک کا کہنا ہے کہ اسٹینڈرڈ ماڈل کی درستگی جانچنے کے ضمن میں یہ نتائج کسی اہم کارنامے سے کم نہیں۔
''اب یہ نظری (تھیوریٹیکل) طبیعیات دانوں اور تجربات کرنے والوں پر ہے کہ وہ اس پراسراریت پر روشنی ڈالیں اور اس کی وضاحت کریں،'' انہوں نے کہا۔ ''اگر پیش گوئی اور تجرباتی طور پر معلوم کی گئی قیمتوں میں فرق کسی قسم کے نئے ذرّے یا ذیل ایٹمی (سب اٹامک) عمل کی وجہ سے ہوا، جو کئی ممکنات میں سے ایک امکان ہے، تو ہوسکتا ہے کہ مستقبل کے تجربات میں کچھ نیا دریافت کرلیا جائے۔''
ڈبلیو بوسون کی کمیت میں اتنی درستگی اور باریک بینی سے فرق معلوم کرنے کے باوجود، سی ڈی ایف کولیبوریشن کے ماہرین کسی نئے ذرّے یا کسی نئی ''پانچویں'' قوت کا اعلان کرنے کےلیے تیار نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں جب تک ان پیمائشوں اور نتائج پر مناسب حد تک بھروسہ نہیں ہوجاتا، تب تک وہ نئی دریافت کا اعلان بھی نہیں کرسکتے۔
اگرچہ اس وقت بھی ان کی پیمائشوں میں غلطی کا امکان صرف 0.01 فیصد، یعنی دس ہزار میں سے ایک جتنا ہے، لیکن کسی نئے ذرّے کی دریافت کا اعلان کرنے کےلیے مشاہدات/ پیمائشیں غلط ہونے کا امکان 35 لاکھ میں سے ایک یعنی 0.00002857142 فیصد، یا اس سے بھی کم ہونا ضروری ہے۔
یہی وہ چیز ہے جسے سائنس کی زبان میں ''فائیو سگما'' (Five Sigma) کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب تک یہ نئے مشاہدات اور پیمائشیں ''فائیو سگما'' جتنے قابلِ بھروسہ نہیں ہوجاتے، تب تک سائنسدان بھی کسی نئے ذرّے یا کسی نئی قوت کا اعلان نہیں کریں گے۔
''یہی تو سائنس کا حسن ہے کہ کسی بھی چیز کو خوب اچھی طرح چھان پھٹک کرنے اور ہر پہلو سے پرکھنے کے بعد ہی قبول یا ردّ کیا جائے،'' ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے کہا۔
بعض سائنسدان اس فرق کو ''پانچویں کائناتی قوت'' کا ایک اور اشارہ قرار دے رہے ہیں۔
اس پیمائش کا اعلان گزشتہ ہفتے امریکا کی ''فرمی نیشنل ایکسلریٹر لیبارٹری'' المعروف ''فرمی لیب'' میں تقریباً بیس سال سے جاری ایک عالمی منصوبے ''سی ڈی ایف کولیبوریشن'' کی جانب سے کیا گیا ہے۔
سی ڈی ایف کولیبوریشن میں 23 ملکوں سے 54 تحقیقی اداروں کے 400 سائنسدان شامل ہیں جس کی تازہ ترین تحقیق کی تفصیل ریسرچ جرنل ''سائنس'' کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
یہ خبر اپنے آپ میں اتنی بڑی ہے کہ ''سائنس'' نے اسے اپنے سرورق پر بھی نمایاں کیا ہے۔
چھوٹا فرق، بڑی خبر اور اسٹینڈرڈ ماڈل
ڈبلیو بوسون کی کمیت میں سامنے آنے والا یہ فرق بظاہر بہت معمولی ہے لیکن ذرّاتی طبیعیات (پارٹیکل فزکس) میں اتنا اہم ہے کہ اگر مزید تجربات سے اس کی حتمی تصدیق ہوگئی تو ذرّاتی طبیعیات کے مروجہ فریم ورک ''اسٹینڈرڈ ماڈل'' میں بڑی تبدیلی بھی آسکتی ہے۔
بتاتے چلیں کہ پارٹیکل فزکس میں اسٹینڈرڈ ماڈل کو تقریباً پچھلے 50 سال سے ایک اہم نظریئے کا مقام حاصل ہے۔
اس کے تحت چار کائناتی قوتوں میں سے تین (برقی مقناطیسی قوت، مضبوط نیوکلیائی قوت اور کمزور نیوکلیائی قوت) یکجا کی جاچکی ہیں۔ (البتہ چوتھی اور سب سے اہم قوت (ثقل/ گریویٹی) باقی تین قوتوں کے ساتھ یکجا نہیں کی جاسکی۔)
اسٹینڈر ماڈل میں گزشتہ بیس پچیس سال کے دوران کچھ ایسی خامیاں سامنے آئی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس ضمن میں ایک اہم پیش رفت گزشتہ سال ہوئی تھی جب 'سرن' میں ایک نئے بنیادی ذرّے کے ممکنہ شواہد ملے تھے جسے ''لیپٹوکوارک'' کا نام دیا گیا تھا۔ لیپٹوکوارک کی ممکنہ موجودگی بھی اسٹینڈرڈ ماڈل کی خامیوں اور حدود کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: کیا سائنسدانوں نے کائنات کی ''پانچویں قوت'' دریافت کرلی ہے؟
''ہمیں ابتداء ہی سے یہ معلوم تھا کہ اسٹینڈرڈ ماڈل مکمل نہیں اور جلد یا بدیر اس میں تبدیلی کی ضرورت پڑے گی،'' پاکستان کے ممتاز طبیعیات داں، پروفیسر ڈاکٹر پرویز امیر علی ہودبھائی نے ایکسپریس نیوز کو بتایا۔
بعض ماہرین اس فرق کو ''پانچویں کائناتی قوت'' کا ایک اور اشارہ بھی قرار دے رہے ہیں، جس کی کچھ امید افزاء لیکن تصدیق طلب شہادتیں گزشتہ چند سال سے مسلسل سامنے آتی جارہی ہیں۔ البتہ، ماہرین کی بڑی تعداد پانچویں کائناتی قوت کے مفروضے سے متفق نہیں۔
''پانچویں کائناتی قوت کے بارے میں پہلے بھی باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن عملاً ایسا کچھ ثابت نہیں ہوسکا۔ میرا خیال ہے کہ ڈبلیو بوسون کی زیادہ کمیت کو اس چیز (پانچویں کائناتی قوت) سے جوڑنا مناسب نہیں،'' ڈاکٹر ہودبھائی نے کہا۔
پیش گوئی اور مشاہدے میں فرق
واضح رہے کہ ڈبلیو بوسون کا شمار بنیادی ذرّات (fundamental particles) میں کیا جاتا ہے۔ یہ اور ''زیڈ بوسون'' مشترکہ طور پر ''کمزور نیوکلیائی قوت'' کے ذمہ دار ہیں۔ اسی قوت کی وجہ سے ایٹمی مرکزے (اٹامک نیوکلیئس) میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے اور تابکار اشعاع (ریڈیو ایکٹیویٹی) کا اخراج بھی ہوتا ہے۔
ڈبلیو بوسون کی پیش گوئی 1960 کے عشرے میں ڈاکٹر عبدالسلام، شیلڈن لی گلاشو اور اسٹیون وائن برگ نے جداگانہ طور پر کی تھی جس پر ان تینوں سائنسدانوں کو 1979 میں مشترکہ طور پر طبیعیات (فزکس) کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔
بعد ازاں یہ ذرہ 1983 میں ذراتی طبیعیات کی یورپی تجربہ گاہ (CERN) میں دریافت بھی کرلیا گیا۔ تب سے آج تک لاکھوں کروڑوں مرتبہ اس کی کمیت (mass) کی پیمائش بھی کی جاچکی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتی رہی ہے۔
پروٹون کے مقابلے میں ڈبلیو بوسون کی کمیت تقریباً 80 گنا زیادہ، یعنی لگ بھگ 80 ہزار ملین الیکٹرون وولٹ (80,000 MeV) ہوتی ہے۔
اسٹینڈرڈ ماڈل کے تحت کی گئی محتاط ترین پیش گوئیوں کے مطابق، ڈبلیو بوسون کی کمیت 80,357 ملین الیکٹرون وولٹ ہونی چاہیے جبکہ اس میں 6 ملین الیکٹرون وولٹ کمی بیشی کی گنجائش ہوسکتی ہے۔
سی ڈی ایف کولیبوریشن میں پچھلے 20 سال کے دوران لاکھوں تجربات سے ڈبلیو بوسون کی کمیت معلوم کی جاچکی ہے۔ یہ مشاہدات فرمی لیب میں نصب ''ٹیواٹرون کولائیڈر'' استعمال کرتے ہوئے کوئی 42 لاکھ مرتبہ انجام دیئے گئے ہیں۔
ان تمام مشاہدات کو استعمال کرتے ہوئے جب سی ڈی ایف کولیبوریشن کی ٹیم نے ڈبلیو بوسون کی کمیت معلوم کی تو وہ 80,433 ملین الیکٹرون وولٹ نکلی جبکہ اس میں غلطی (کمی بیشی) کی ممکنہ گنجائش 9 ملین الیکٹرون وولٹ ہے۔
بہترین پیش گوئی اور اب تک کے بہترین مشاہدات میں اگرچہ صرف 0.1 فیصد کا فرق ہے لیکن پارٹیکل فزکس میں یہی معمولی فرق بہت معنی خیز ہے کیونکہ فی الحال ہم نہیں جانتے کہ آخر یہ فرق کیوں آرہا ہے۔
سی ڈی ایف کولیبوریشن کے شریک ترجمان، ڈاکٹر ڈیوڈ ٹوبیک کا کہنا ہے کہ اسٹینڈرڈ ماڈل کی درستگی جانچنے کے ضمن میں یہ نتائج کسی اہم کارنامے سے کم نہیں۔
''اب یہ نظری (تھیوریٹیکل) طبیعیات دانوں اور تجربات کرنے والوں پر ہے کہ وہ اس پراسراریت پر روشنی ڈالیں اور اس کی وضاحت کریں،'' انہوں نے کہا۔ ''اگر پیش گوئی اور تجرباتی طور پر معلوم کی گئی قیمتوں میں فرق کسی قسم کے نئے ذرّے یا ذیل ایٹمی (سب اٹامک) عمل کی وجہ سے ہوا، جو کئی ممکنات میں سے ایک امکان ہے، تو ہوسکتا ہے کہ مستقبل کے تجربات میں کچھ نیا دریافت کرلیا جائے۔''
ایک آنچ کی کسر
ڈبلیو بوسون کی کمیت میں اتنی درستگی اور باریک بینی سے فرق معلوم کرنے کے باوجود، سی ڈی ایف کولیبوریشن کے ماہرین کسی نئے ذرّے یا کسی نئی ''پانچویں'' قوت کا اعلان کرنے کےلیے تیار نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں جب تک ان پیمائشوں اور نتائج پر مناسب حد تک بھروسہ نہیں ہوجاتا، تب تک وہ نئی دریافت کا اعلان بھی نہیں کرسکتے۔
اگرچہ اس وقت بھی ان کی پیمائشوں میں غلطی کا امکان صرف 0.01 فیصد، یعنی دس ہزار میں سے ایک جتنا ہے، لیکن کسی نئے ذرّے کی دریافت کا اعلان کرنے کےلیے مشاہدات/ پیمائشیں غلط ہونے کا امکان 35 لاکھ میں سے ایک یعنی 0.00002857142 فیصد، یا اس سے بھی کم ہونا ضروری ہے۔
یہی وہ چیز ہے جسے سائنس کی زبان میں ''فائیو سگما'' (Five Sigma) کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب تک یہ نئے مشاہدات اور پیمائشیں ''فائیو سگما'' جتنے قابلِ بھروسہ نہیں ہوجاتے، تب تک سائنسدان بھی کسی نئے ذرّے یا کسی نئی قوت کا اعلان نہیں کریں گے۔
''یہی تو سائنس کا حسن ہے کہ کسی بھی چیز کو خوب اچھی طرح چھان پھٹک کرنے اور ہر پہلو سے پرکھنے کے بعد ہی قبول یا ردّ کیا جائے،'' ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے کہا۔