صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ تیسری قسط
بلاشبہ رسول اکرمؐ کے بعد انسانی تاریخ صدیق اکبرؓ جیسا انسان اور ان جیسا حکمران پیدا نہیں کرسکی
ROME:
نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد عرب کے چاروں طرف ارتداد اور بغاوت کی لہریں اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ قبائل کو بغاوت پر اکسانے میں یہودی اور نصرانی پیش پیش تھے۔ فتنے کی یہ آگ مکہ مکرمہ تک پہنچ گئی تو حضرت سہیل بن عمرؓ نے اہل مکہ کو اکٹھا کر کے وارننگ دی کہ ''جو شخص ارتداد اور بغاوت کی راہ پر چلا ہم اس کی گردن اڑا دیں گے۔اسلام ہر حال میں قائم رہے گا اور اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا''۔
اہلِ مکہ نے جب یہ سنا کہ اسلامی سلطنت کی قیادت کا تاج حضرت ابو بکرؓ کے سر پر سجایا گیا ہے تو انھوں نے بڑی خوشی سے خلافت تسلیم کی۔ ارتداد کے راستے پر وہ قبائل چلے جنھوں نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا، ان کی روش سے دوسروں کے عقائد بھی لڑکھڑانے لگے۔
قبائل کا ایک گروہ اسلام پر قائم تھا مگر رسول اللہؐ کے بعد زکوٰۃ کو جزیہ سمجھ رہا تھا، وہ لوگ مال کی محبّت میں بری طرح گرفتار تھے اس لیے انھوں نے یہ کہہ کر زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا کہ ''حضرت محمدؐ تو اﷲ کے نبی تھے مگر اہلِ مدینہ ان کے حاکم اور مالک کیسے بن گئے کہ ہم انھیں جزیہ دیں؟''منکرینِ زکوٰۃ میں عبس، ذبیان، بنو کنانہ، غطفان اور فرازہ جیسے قبائل شامل تھے۔
ان ابتر حالات میں نبوت کے جھوٹے دعوے دار بھی پیدا ہوگئے، جن میں طلیحہ، سجاح بنتِ حارث، مسیلمہ بن حبیب، ذوالناج بن مالک اور اسود عنسی نمایاں تھے، صدیق اکبرؓ خلافت کی ذمے داریاں سنبھالتے ہی مختلف قسم کے فتنوں میں گھر گئے۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ ان فتنوں کی آگ پر قابو پانے کے لیے جس بے مثال بہادری، تدبر، ثابت قدمی اور غیر متزلزل عزم کی ضرورت تھی، مسلمانوں میں اس کے حامل صرف صدیقِ اکبرؓ تھے۔
وہ ان تمام فتنوں کے خلاف حکمت اور جرأت کے ساتھ نبرد آزما ہوئے اور ایک ایک کا خاتمہ کرتے چلے گئے۔ خلیفۂ اوّل کے بڑے بڑے مشیر اس سوچ میں تھے کہ رسول اللہؐ کے فرمان کے مطابق سلطنتِ روما کے خلاف اسلامی لشکر کو حضرت اسامہؓ کی کمان میں روانہ کیا جائے یا اس لشکر کو نئے اٹھنے والے فتنوں کے خلاف استعمال کیا جائے۔
مگر ابو بکرؓ کہ جن کے لیے رفاقتِ رسالتمآبؐ ہی سرمایۂ جاں تھا، ایک لمحہ کے لیے بھی متامل نہ ہوئے اور حلف اٹھاتے ہی لشکرِ اُسامہؓ کو روانگی کا حکم دیتے ہوئے کہا ''میرے آقاؐ جس چیز کا حکم دیں، ابو بکرؓ اسے روک دے یا اس میں تاخیر کرے، ایسا سوچنے سے پہلے میرا خالق مجھے موت دے دے، اگر مجھے یقین ہو کہ درندے مجھے پھاڑ کھائیں گے یا مدینہ میں میں اکیلا رہ جاؤں تب بھی میں اس لشکر کو روانہ کروںگا کہ آقاؐ نے اس کا حکم دیا تھا۔''
لشکر روانہ ہونے لگا تو سپریم کمانڈر نے کھڑے ہو کر ہدایات دیں ''کبھی خیانت نہ کرنا، کبھی بدعہدی نہ کرنا، مقتولوں کے اعضاء نہ کاٹنا، بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا، فصلوں اور پھلدار درختوں کو نہ کاٹنا اور نہ ہی جلانا، کسی بھیڑ، گائے یا اونٹ کو بلاضرورت ذبح نہ کرنا، گرجا گھروں میں عبادت کرنے والوں سے بالکل زیادتی نہ کرنا، انھیں ان کے حال پر چھوڑدینا''۔ اس طرح اسلام کے خلیفہ اوّل نے صدیوں پہلے وہ حقوق طے کردیے جنھیں جدید تہذیب کے چیمپیئن آج بھی کھلم کھلا روند رہے ہیں۔
حضرت اسامہؓ نے اپنا مشن مکمل کیا اور کامیا ب و کامران لوٹے۔ اس کامیابی سے باغی قبائل کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ حضرت ابوبکرؓ خود نرم دل انسان تھے مگر دین کے معاملے میں نرمی روا نہیں رکھتے تھے۔ دراصل وہ مومنِ کامل تھے۔
ہو حلقہٗ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہوتو فولاد ہے صدیق ؓ
مرتدین کے خلاف جنگوں کا شمار، اسلام کی فیصلہ کن جنگوں میں ہوتا ہے۔ اگر ان جنگوں میں مسلمان فتحیاب نہ ہوتے تو جزیرہ نمائے عرب کے دوبارہ جاہلیّت کے اندھیروں میں چلے جانے کا خطرہ تھامگراﷲ کا یہ فیصلہ تھاکہ اس کا دین غالب رہے گا، اور پھراﷲ کے تمام وعدے پورے ہوتے گئے۔
لیڈر شپ کا ایک بنیادی وصف یہ بھی ہے کہ اہم عہدوں کے لیے اس کا انتخاب بہترین ہو۔ مرتدوں اور باغیوں کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکرؓ نے اس جرنیل کا انتخاب کیاجسے مورخ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جرنیل تسلیم کرتے ہیں اور جسے خود رسول اللہؐ نے اﷲ کی تلوار قرار دیا، خالد بن ولیدؓ بلاشبہ اسلام کے باغیوں پر قہر ِ الٰہی بن کر نازل ہوئے اور انھیں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا۔ حضرت خالدؓ کی کسی غلطی پر حضرت ابوبکرؓ نے انھیں سرزنش کی۔
حضرت عمرؓ نے انھیں سخت سزا دینے کا مشورہ دیا، جس پر صدیق اکبرؓ نے باآواز بلند فرمایا ''میں اس تلوار کو نیام میں نہیں ڈال سکتا جسے اﷲ نے کافروں پر مسلط کیا ہو''۔ ایک بہت بڑی سلطنت کے حکمران کے رہن سہن کے معیار کا یہ عالم تھا کہ خلیفۂ اوّل مدینہ کی مضافاتی بستی میں قیام پذیر تھے، مکان معمولی نوعیت کا تھا۔
خلافت کے پورے عہد میں مکان جوں کا توں رہا اور اس میں معمولی سی بھی renovation نہ کرائی گئی۔ اسلامی سلطنت کے حکمران مدینہ سے پیدل آتے جاتے رہے اور پہلے چھ مہینے سواری کے لیے گھوڑا بھی استعمال نہ کیا۔ خلافت کی ذمے داریاں ملنے سے پہلے آپؓ کپڑے کی تجارت کیا کرتے تھے، جس سے کنبے کی کفالت ہوتی تھی۔ خلافت ملنے کے بعد دکان کا قصد کیا تو حضرت عمرؓ نے روکا کہ ''دونوں کام اکٹھے نہیں ہوسکتے''آپؓ نے کہا کہ ''کوئی کام نہیں کروںگا تو بال بچوں کے لیے روزی کا بندوبست کیسے ہوگا؟''حضرت عمرؓ آپؓ کو حضرت عبیدہ بن جراح (انچارج بیت المال) کے پاس لے گئے اورخلیفہ المسلمین کی تنخواہ مقرر کرنے کا فیصلہ ہوا۔
وزیرِ خزانہ نے خلیفہ کے مقام اور مرتبے کے مطابق تنخواہ مقرر کرنا چاہی مگر خلیفہ نے خود حکم دیا کہ ''میری تنخواہ اتنی ہوگی جتنی ایک عام مزدور کی تنخواہ ہے''۔ خلیفہٗ اوّل نے سادگی کا ایسا معیار مقرر کردیا جس کا آج بھی مورخ اور حکمران دونوں حیرانی اور رشک سے ذکر کرتے ہیں۔
حضرت ابو بکر کے دور میں عراق اور شام جیسے عظیم ملک فتح ہوئے اور ارتداد، جھوٹے نبیوں اور منکرینِ زکوٰۃ کے فتنوں کا مکمل خاتمہ ہوگیا مگر اس کے لیے قیمتی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ صرف جنگِ یمامہ میں سیکڑوں حفاظ شہید ہوگئے، جس کے بعد حضرت عمرؓ نے خلیفۂ اوّل کو مشورہ دیا کہ ''تمام قرآنی آیات کو جمع کرنے کا حکم دیں تاکہ قرآن محفوظ ہوجائے''۔ عاشقِ رسولؐ نے جواب دیا ''جو کام رسول اللہؐ نے نہیں کیا، وہ میں کیسے کرسکتا ہوں''۔
اس پر دونوں کے درمیان طویل میٹنگ ہوئی جس کے بعد حضرت ابو بکرؓ قائل ہوگئے اور انھی کی زیرِ نگرانی یہ عظیم کارنامہ انجام پذیر ہوا جس کی تکمیل پر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ''قرآن پاک جمع کرکے حضرت ابوبکرؓ نے بڑی عظیم خدمت سرانجام دی ہے لہٰذا وہ بارگاہِ الٰہی میں سب سے زیادہ اجر کے مستحق ہیں۔'' حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دل میں اﷲ کے ہاں جوابدہی کا احساس اس قدر شدید تھا کہ ایک روز ٹھنڈی آہ بھر کر کہا ''کاش! میں درخت ہوتا اور کاٹ دیا جاتا ، کاش! میں سبزہ ہوتا جسے جانور چرلیتے اور میرا کوئی حساب نہ ہوتا۔''
ایک روایت ہے کہ اسلامی سلطنت کے اس بے مثال حکمران کویہودیوں نے کھانے میں زہر دے دیا تھا ، جس سے وہ بیمار پڑگئے مگر ابن عمرؓ کے مطابق رسول اللہؐ کے فراق کا صدمہ آپؓ سے برداشت نہیں ہوا اورآپؓ ہر روز لاغر ہوتے چلے گئے اور سفرِ آخرت اختیار کیا۔ وفاتِ نبویؐ پر آپؓ نے سب کو حوصلے کا پیغام دیا مگر اپنے دل کی بیقراری کم نہ ہوئی ۔ مرض نے غلبہ پالیا تو حضرت عمرؓ کو بلا کر نماز پڑھانے کی ہدایت کی ۔ بعض صحابہ نے پوچھا کہ ''اجازت دیں تو طبیب بلالیں''۔ فرمایا ''طبیب نے مجھے دیکھ لیا ہے''۔ صحابہ نے پوچھا طبیب نے کیا کہا ہے؟ فرمایا ''وہ کہتا ہے فعال لما یُرید 'میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں'(القرآن)''۔ موت کے تصور سے خوش تھے کہ نبی کریمؐ سے ملاقات جلد ہونے والی ہے۔
مرض الموت میں آپؓ نے اپنے اہلِ خانہ کو بلا کر کہا ''میں نے اپنی تنخواہ سمیت آج تک بیت المال سے جو کچھ وصول کیا ہے اس کا حساب کیا جائے'' حساب ہوا اور کل رقم چھ ہزار درہم نکلی۔ فرمایا ''میری زمین فروخت کرکے تمام رقم بیت المال میں جمع کرادی جائے'' چنانچہ زمین فروحت کرکے رسول اللہؐ کے یارِ غار کو سرکاری خزانے کی ایک ایک پائی سے سبکدوش کردیا گیا۔
پھر پوچھا دورانِ خلافت میرے اثاثوں میں کیا اضافہ ہوا۔ بتایا گیا کہ ایک غلام، ایک اونٹ اور ایک چادر۔ فرمایا ''میری وفات کے بعد یہ چیزیں اسلامی سلطنت کے نئے امانتدار کے حوالے کردی جائیں۔'' حضرت عمرؓ نے سنا تو اُن جیسے پُرجلال شخص کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہوگئے اور آپؓ روتے ہوئے کہنے لگے ''ابوبکرؓ نے اپنے بعد آنے والے پر بہت بھاری بوجھ ڈال دیا ہے''۔
بلاشبہ رسول اکرمؐ کے بعد انسانی تاریخ صدیق اکبرؓ جیسا انسان اور ان جیسا حکمران پیدا نہیں کرسکی۔ آپؓ روئے زمین کے تمام حکمرانوں کے لیے ایک رول ماڈل ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد عرب کے چاروں طرف ارتداد اور بغاوت کی لہریں اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ قبائل کو بغاوت پر اکسانے میں یہودی اور نصرانی پیش پیش تھے۔ فتنے کی یہ آگ مکہ مکرمہ تک پہنچ گئی تو حضرت سہیل بن عمرؓ نے اہل مکہ کو اکٹھا کر کے وارننگ دی کہ ''جو شخص ارتداد اور بغاوت کی راہ پر چلا ہم اس کی گردن اڑا دیں گے۔اسلام ہر حال میں قائم رہے گا اور اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا''۔
اہلِ مکہ نے جب یہ سنا کہ اسلامی سلطنت کی قیادت کا تاج حضرت ابو بکرؓ کے سر پر سجایا گیا ہے تو انھوں نے بڑی خوشی سے خلافت تسلیم کی۔ ارتداد کے راستے پر وہ قبائل چلے جنھوں نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا، ان کی روش سے دوسروں کے عقائد بھی لڑکھڑانے لگے۔
قبائل کا ایک گروہ اسلام پر قائم تھا مگر رسول اللہؐ کے بعد زکوٰۃ کو جزیہ سمجھ رہا تھا، وہ لوگ مال کی محبّت میں بری طرح گرفتار تھے اس لیے انھوں نے یہ کہہ کر زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا کہ ''حضرت محمدؐ تو اﷲ کے نبی تھے مگر اہلِ مدینہ ان کے حاکم اور مالک کیسے بن گئے کہ ہم انھیں جزیہ دیں؟''منکرینِ زکوٰۃ میں عبس، ذبیان، بنو کنانہ، غطفان اور فرازہ جیسے قبائل شامل تھے۔
ان ابتر حالات میں نبوت کے جھوٹے دعوے دار بھی پیدا ہوگئے، جن میں طلیحہ، سجاح بنتِ حارث، مسیلمہ بن حبیب، ذوالناج بن مالک اور اسود عنسی نمایاں تھے، صدیق اکبرؓ خلافت کی ذمے داریاں سنبھالتے ہی مختلف قسم کے فتنوں میں گھر گئے۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ ان فتنوں کی آگ پر قابو پانے کے لیے جس بے مثال بہادری، تدبر، ثابت قدمی اور غیر متزلزل عزم کی ضرورت تھی، مسلمانوں میں اس کے حامل صرف صدیقِ اکبرؓ تھے۔
وہ ان تمام فتنوں کے خلاف حکمت اور جرأت کے ساتھ نبرد آزما ہوئے اور ایک ایک کا خاتمہ کرتے چلے گئے۔ خلیفۂ اوّل کے بڑے بڑے مشیر اس سوچ میں تھے کہ رسول اللہؐ کے فرمان کے مطابق سلطنتِ روما کے خلاف اسلامی لشکر کو حضرت اسامہؓ کی کمان میں روانہ کیا جائے یا اس لشکر کو نئے اٹھنے والے فتنوں کے خلاف استعمال کیا جائے۔
مگر ابو بکرؓ کہ جن کے لیے رفاقتِ رسالتمآبؐ ہی سرمایۂ جاں تھا، ایک لمحہ کے لیے بھی متامل نہ ہوئے اور حلف اٹھاتے ہی لشکرِ اُسامہؓ کو روانگی کا حکم دیتے ہوئے کہا ''میرے آقاؐ جس چیز کا حکم دیں، ابو بکرؓ اسے روک دے یا اس میں تاخیر کرے، ایسا سوچنے سے پہلے میرا خالق مجھے موت دے دے، اگر مجھے یقین ہو کہ درندے مجھے پھاڑ کھائیں گے یا مدینہ میں میں اکیلا رہ جاؤں تب بھی میں اس لشکر کو روانہ کروںگا کہ آقاؐ نے اس کا حکم دیا تھا۔''
لشکر روانہ ہونے لگا تو سپریم کمانڈر نے کھڑے ہو کر ہدایات دیں ''کبھی خیانت نہ کرنا، کبھی بدعہدی نہ کرنا، مقتولوں کے اعضاء نہ کاٹنا، بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا، فصلوں اور پھلدار درختوں کو نہ کاٹنا اور نہ ہی جلانا، کسی بھیڑ، گائے یا اونٹ کو بلاضرورت ذبح نہ کرنا، گرجا گھروں میں عبادت کرنے والوں سے بالکل زیادتی نہ کرنا، انھیں ان کے حال پر چھوڑدینا''۔ اس طرح اسلام کے خلیفہ اوّل نے صدیوں پہلے وہ حقوق طے کردیے جنھیں جدید تہذیب کے چیمپیئن آج بھی کھلم کھلا روند رہے ہیں۔
حضرت اسامہؓ نے اپنا مشن مکمل کیا اور کامیا ب و کامران لوٹے۔ اس کامیابی سے باغی قبائل کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ حضرت ابوبکرؓ خود نرم دل انسان تھے مگر دین کے معاملے میں نرمی روا نہیں رکھتے تھے۔ دراصل وہ مومنِ کامل تھے۔
ہو حلقہٗ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہوتو فولاد ہے صدیق ؓ
مرتدین کے خلاف جنگوں کا شمار، اسلام کی فیصلہ کن جنگوں میں ہوتا ہے۔ اگر ان جنگوں میں مسلمان فتحیاب نہ ہوتے تو جزیرہ نمائے عرب کے دوبارہ جاہلیّت کے اندھیروں میں چلے جانے کا خطرہ تھامگراﷲ کا یہ فیصلہ تھاکہ اس کا دین غالب رہے گا، اور پھراﷲ کے تمام وعدے پورے ہوتے گئے۔
لیڈر شپ کا ایک بنیادی وصف یہ بھی ہے کہ اہم عہدوں کے لیے اس کا انتخاب بہترین ہو۔ مرتدوں اور باغیوں کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکرؓ نے اس جرنیل کا انتخاب کیاجسے مورخ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جرنیل تسلیم کرتے ہیں اور جسے خود رسول اللہؐ نے اﷲ کی تلوار قرار دیا، خالد بن ولیدؓ بلاشبہ اسلام کے باغیوں پر قہر ِ الٰہی بن کر نازل ہوئے اور انھیں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا۔ حضرت خالدؓ کی کسی غلطی پر حضرت ابوبکرؓ نے انھیں سرزنش کی۔
حضرت عمرؓ نے انھیں سخت سزا دینے کا مشورہ دیا، جس پر صدیق اکبرؓ نے باآواز بلند فرمایا ''میں اس تلوار کو نیام میں نہیں ڈال سکتا جسے اﷲ نے کافروں پر مسلط کیا ہو''۔ ایک بہت بڑی سلطنت کے حکمران کے رہن سہن کے معیار کا یہ عالم تھا کہ خلیفۂ اوّل مدینہ کی مضافاتی بستی میں قیام پذیر تھے، مکان معمولی نوعیت کا تھا۔
خلافت کے پورے عہد میں مکان جوں کا توں رہا اور اس میں معمولی سی بھی renovation نہ کرائی گئی۔ اسلامی سلطنت کے حکمران مدینہ سے پیدل آتے جاتے رہے اور پہلے چھ مہینے سواری کے لیے گھوڑا بھی استعمال نہ کیا۔ خلافت کی ذمے داریاں ملنے سے پہلے آپؓ کپڑے کی تجارت کیا کرتے تھے، جس سے کنبے کی کفالت ہوتی تھی۔ خلافت ملنے کے بعد دکان کا قصد کیا تو حضرت عمرؓ نے روکا کہ ''دونوں کام اکٹھے نہیں ہوسکتے''آپؓ نے کہا کہ ''کوئی کام نہیں کروںگا تو بال بچوں کے لیے روزی کا بندوبست کیسے ہوگا؟''حضرت عمرؓ آپؓ کو حضرت عبیدہ بن جراح (انچارج بیت المال) کے پاس لے گئے اورخلیفہ المسلمین کی تنخواہ مقرر کرنے کا فیصلہ ہوا۔
وزیرِ خزانہ نے خلیفہ کے مقام اور مرتبے کے مطابق تنخواہ مقرر کرنا چاہی مگر خلیفہ نے خود حکم دیا کہ ''میری تنخواہ اتنی ہوگی جتنی ایک عام مزدور کی تنخواہ ہے''۔ خلیفہٗ اوّل نے سادگی کا ایسا معیار مقرر کردیا جس کا آج بھی مورخ اور حکمران دونوں حیرانی اور رشک سے ذکر کرتے ہیں۔
حضرت ابو بکر کے دور میں عراق اور شام جیسے عظیم ملک فتح ہوئے اور ارتداد، جھوٹے نبیوں اور منکرینِ زکوٰۃ کے فتنوں کا مکمل خاتمہ ہوگیا مگر اس کے لیے قیمتی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ صرف جنگِ یمامہ میں سیکڑوں حفاظ شہید ہوگئے، جس کے بعد حضرت عمرؓ نے خلیفۂ اوّل کو مشورہ دیا کہ ''تمام قرآنی آیات کو جمع کرنے کا حکم دیں تاکہ قرآن محفوظ ہوجائے''۔ عاشقِ رسولؐ نے جواب دیا ''جو کام رسول اللہؐ نے نہیں کیا، وہ میں کیسے کرسکتا ہوں''۔
اس پر دونوں کے درمیان طویل میٹنگ ہوئی جس کے بعد حضرت ابو بکرؓ قائل ہوگئے اور انھی کی زیرِ نگرانی یہ عظیم کارنامہ انجام پذیر ہوا جس کی تکمیل پر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ''قرآن پاک جمع کرکے حضرت ابوبکرؓ نے بڑی عظیم خدمت سرانجام دی ہے لہٰذا وہ بارگاہِ الٰہی میں سب سے زیادہ اجر کے مستحق ہیں۔'' حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دل میں اﷲ کے ہاں جوابدہی کا احساس اس قدر شدید تھا کہ ایک روز ٹھنڈی آہ بھر کر کہا ''کاش! میں درخت ہوتا اور کاٹ دیا جاتا ، کاش! میں سبزہ ہوتا جسے جانور چرلیتے اور میرا کوئی حساب نہ ہوتا۔''
ایک روایت ہے کہ اسلامی سلطنت کے اس بے مثال حکمران کویہودیوں نے کھانے میں زہر دے دیا تھا ، جس سے وہ بیمار پڑگئے مگر ابن عمرؓ کے مطابق رسول اللہؐ کے فراق کا صدمہ آپؓ سے برداشت نہیں ہوا اورآپؓ ہر روز لاغر ہوتے چلے گئے اور سفرِ آخرت اختیار کیا۔ وفاتِ نبویؐ پر آپؓ نے سب کو حوصلے کا پیغام دیا مگر اپنے دل کی بیقراری کم نہ ہوئی ۔ مرض نے غلبہ پالیا تو حضرت عمرؓ کو بلا کر نماز پڑھانے کی ہدایت کی ۔ بعض صحابہ نے پوچھا کہ ''اجازت دیں تو طبیب بلالیں''۔ فرمایا ''طبیب نے مجھے دیکھ لیا ہے''۔ صحابہ نے پوچھا طبیب نے کیا کہا ہے؟ فرمایا ''وہ کہتا ہے فعال لما یُرید 'میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں'(القرآن)''۔ موت کے تصور سے خوش تھے کہ نبی کریمؐ سے ملاقات جلد ہونے والی ہے۔
مرض الموت میں آپؓ نے اپنے اہلِ خانہ کو بلا کر کہا ''میں نے اپنی تنخواہ سمیت آج تک بیت المال سے جو کچھ وصول کیا ہے اس کا حساب کیا جائے'' حساب ہوا اور کل رقم چھ ہزار درہم نکلی۔ فرمایا ''میری زمین فروخت کرکے تمام رقم بیت المال میں جمع کرادی جائے'' چنانچہ زمین فروحت کرکے رسول اللہؐ کے یارِ غار کو سرکاری خزانے کی ایک ایک پائی سے سبکدوش کردیا گیا۔
پھر پوچھا دورانِ خلافت میرے اثاثوں میں کیا اضافہ ہوا۔ بتایا گیا کہ ایک غلام، ایک اونٹ اور ایک چادر۔ فرمایا ''میری وفات کے بعد یہ چیزیں اسلامی سلطنت کے نئے امانتدار کے حوالے کردی جائیں۔'' حضرت عمرؓ نے سنا تو اُن جیسے پُرجلال شخص کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہوگئے اور آپؓ روتے ہوئے کہنے لگے ''ابوبکرؓ نے اپنے بعد آنے والے پر بہت بھاری بوجھ ڈال دیا ہے''۔
بلاشبہ رسول اکرمؐ کے بعد انسانی تاریخ صدیق اکبرؓ جیسا انسان اور ان جیسا حکمران پیدا نہیں کرسکی۔ آپؓ روئے زمین کے تمام حکمرانوں کے لیے ایک رول ماڈل ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔