شریف آدمی ایک یادگار فلم
فرہاد زیدی اس زمانے میں پاکستانی صحافت کے آسمان پر نمودار ہوئے جو مشکل ترین زمانہ تھا
کراچی:
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے گریجویشن کرلی تھی اور میں جونیئر آفیسر ہوگئی تھی۔ نیشنل بینک آف پاکستان میں آٹھ سو روپے کی ملازمت ان دنوں مردوں کو نہیں ملتی تھی، نہ کہ ایک لڑکی اس عہدے پر فائز ہو جائے ، طبی سہولتیں اس کے سوا تھیں۔ خاندان میں سب ہی بہت خوش تھے، ایک میں تھی جو ناخوش تھی۔ حساب کبھی میرا پسندیدہ موضوع نہ تھا اور یہاں از اول تا آخر حساب کتاب کے معاملات تھے۔
میں اسی غم میں غرق تھی کہ ان ہی دنوں کراچی سے ایک ہفت روزہ ''اخبار خواتین '' نکلا۔ کیا اس کی اٹھان تھی اورکیا اس کی نوک پلک سنواری گئی تھی، جی خوش ہو گیا۔ میں نے ترنت ایک چٹ پٹا سا فیچر تیار کرکے '' اخبار خواتین'' کی مجلس ادارت کو بھیج دیا۔ اس کی پسندیدگی کا خط مجھے ملا جو کسی فرہاد زیدی صاحب نے لکھا تھا۔ عنایت اللہ صاحب ، فرہاد زیدی صاحب نے ملاقات کے لیے بلایا۔
اس کی خاتون مدیر مسرت جبیں صاحبہ کراچی میں نہیں تھیں۔ ان دونوں صاحبان نے مجھے فیچر لکھنے کے بارے میں کچھ نکات تعلیم کیے۔ عنایت صاحب نے مجھے ایک کتاب (باتصویر) عنایت کی اور کہا اس کی مدد سے ہمارے ماحول کے مطابق ایک فیچر لکھو۔ '' اندھا کیا چاہے دو آنکھیں'' میں وہ کتاب لے کر گھر آگئی اور یوں ''اخبار خواتین'' سے رشتہ استوار ہوا۔ ان دنوں ''اخبار خواتین'' کا گھر گھر چرچا تھا۔ میں اس میں چھپنے پر خوش بھی تھی اور اداس بھی۔ اداسی اس بات پر تھی کہ اتنے اچھے پرچے میں میری کوئی گنجائش نہیں ہے۔
وہ گنجائش نکلی اور اس کے لیے مجھے نیشنل بینک کی ملازمت چھوڑنی پڑی، لیکن وہ ایک الگ کہانی ہے۔ اس وقت میں اس شریف النفس اور بردبار انسان کو دل کی گہرائیوں سے یاد کرنا چاہتی ہوں جس کا نام فرہاد زیدی تھا جو مشرقی یوپی کے ایک مردم خیز شہر جون پور میں 1931کو پیدا ہوا۔ زندگی کے ابتدائی برس اورنگ آباد میں گزارے اور پھر پاکستان چلا آیا۔ یہ فرہاد زیدی میرا استاد ، میرا مرشد تھا۔
میں نے صحافت کے میدان خار زار میں ان کی رہنمائی میں قدم رکھا اور ہمیشہ ان کا احترام کیا۔ وہ ''حریت'' میں گئے تو وہاں انھوں نے صحافت کی ایک نئی روش اختیارکی اور لوگوں کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا۔ ویت نام کی جنگ اپنے عروج پر تھی۔ ''حریت'' کے لیے میں نے ایک مشہور کتاب One Morning in War کا قسط وار ترجمہ کیا۔ زیدی صاحب نے ہمارے سماج کو تخلیقی ذہن رکھنے والے دو بیٹے حسن زیدی اور علی فیصل زیدی دیے جو آج بھی صحافت کے میدان میں زیدی صاحب کی پیروی کر رہے ہیں۔
فرہاد زیدی اس زمانے میں پاکستانی صحافت کے آسمان پر نمودار ہوئے جو مشکل ترین زمانہ تھا۔ انھوں نے اسلام آباد میں انگریزی کے اخبار ''مسلم'' کی ادارت کی۔ وہ امروز ، نوائے وقت اور مشرق سے وابستہ رہے۔ ''اخبار خواتین'' نکالا۔ 1970 میں انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کی مسلسل جاری رہنے والی انتخابی مہم میں بہت دلچسپ اور باوقار پروگرام کیے جو دیکھنے والوں کو آج تک یاد ہیں۔ 90 کی دہائی میں وہ بہ طور منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ رہے۔
وہ ایک جمہوریت پسند اور سچے انسان تھے۔ ضیا الحق کا زمانہ تھا جب 1978 میں انھیں 6 مہینے کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا۔ وہ بنیادی طور پر شاعر اور ادیب تھے، زندگی انھیں صحافت کے میدان میں لے گئی۔ بھٹو صاحب کی پھانسی ان کے لیے صدقہ جاں کاہ تھی۔ اسی زمانے میں انھوں نے ایک نظم ''شریف آدمی'' لکھی۔ وہ نہ صرف ان کی شان دار نظم ہے بلکہ ہم سب لوگوں کے لیے کیسے کیسے سوال کھڑے کرتی ہے۔ آپ بھی ملاحظہ کریں:
شریف آدمی
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
حسین ؑ جب دشتِ کربلا میں
یزید سے پنجہ آزما تھے
علیؓ کا بیٹا، خدا کے محبوبؐ کا نواسہ
خلیفۂ وقت کے مقابل
چٹان بن کر ڈٹا ہوا تھا
تو میں کدھر تھا؟
اگر میں سبطِ نبیؐ کے مظلوم جاں نثاروں کی صف میں ہوتا
شہید ہوتا !
یزید کی فوج میں جو ہوتا
تو حق کی آوازکو دبانے پہ خلعتِ فاخرہ ہی پاتا ،
مگر شہادت مرا مقدر نہیں بنی تھی
نہ مجھ کو خلعت ہی مل سکی تھی
تو میں کدھر تھا؟
...
جو میں نے سوچا تو میں نے جانا
نہ میں اُدھر تھا، نہ میں اِدھر تھا
مجھے حسینؑ اور ان کے سارے اصول سب ہی عزیز تھے، پر
میرے مفادات مجھ کو اُن سے عزیز تر تھے،
میرے مفادات جو عبارت تھے مری ذات اور میرے بچوں کی عافیت سے
وہ حاکمِ وقت کی نگاہِ کرم کے محتاج و منتظر تھے
یہی سبب ہے کہ حق و باطل کے معرکے میں
صحیح غلط کی تمیز کے باوجود خاموش ہی رہا میں
مگر جب اک بار کربلا اور یزید سب ہی گزر گئے تو
حسین ؑ پیاسے ہی مر گئے تو
مری حمیت نے جوش مارا
یزید کو میں نے ظلم اور جبرکی علامت بنا کے چھوڑا
حسین ؑ کو میں ہزار برسوں سے رو رہا ہوں
...
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
میرے آئمہ کہ جن کے علم و عمل کی خوشبو
مشامِ جاں میں بسی ہوئی ہے
میرے آئمہ کہ آج بھی جن کے پاک قدموں کی پاک مٹی
کروڑوں آنکھوں کی روشنی ہے،
انھی آئمہ کی پُشت جب ظالموں کے ہاتھوں سے خونچکاں تھی
خلیفۂ وقت کے عقوبت کدوں میں ان کی تمام بستی لہولہاں تھی،
تو میں کدھر تھا ؟
وہ حق پہ ہیں، میں یہ جانتا تھا
امام بھی ان کو مانتا تھا
مگر جب ان پہ عتاب آیا
تو میں نے حاکم کا ہاتھ روکا
نہ میں نے جلاد ہی کو ٹوکا
کہ مجھ کو اپنی اور اپنے بچوں کی عافیت ہی عزیز تھی،
مگر یہ سیلاب ٹل گیا تو
زمانہ کروٹ بدل گیا تو
میری عقیدت بھی لوٹ آئی
میں ان آئمہ کی ذات کو روشنی کا مینار کہہ رہا ہوں
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
کہ جب وہ منصور کو سرِ دار لا رہے تھے
جب اُس کے جُرمِ خود آگہی پہ اپنے فتوے سنا رہے تھے
جب اُس کو زندہ جلا رہے تھے
تو میں کدھر تھا؟
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے
کہ جس خلیفہ نے اُس کے فرمانِ قتل پہ دستخط کیے تھے
وہ میں نہیں تھا
وہ ہاتھ جس نے عظیم انسان کی زندگی کا دیا بجھایا
مرا نہیں تھا
مگر یہ سچ ہے
کہ یہ تماشا بھی میں نے دیکھا
مجھے یہ اچھا نہیں لگا تھا
مگر یہ سچ ہے،
کہ چُپ رہا میں
کہ ہر شریف آدمی کی مانند
مجھے بھی اپنی اور اپنے بچوں کی عافیت ہی عزیز تر تھی،
مگر وہ طوفاں گزر گیا تو
خلیفۂ وقت مر گیا تو
ضمیر میرا بھی جاگ اٹھا
میں ساری دنیا میں اب یہ اعلان کر رہا ہوں
حسینِ منصور میری نظر میں ذی حشم ہے
کہ ہر وہ حق ہے
جو مسندِ دار تک پہنچ جائے محترم ہے!
...
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
کہ سارے نمرود ، سارے شداد
سارے فرعون اور ان کی اولاد
سب صحیح تھے
وہ سب صحیح تھے کہ اپنے اپنے مشن کی تکمیل کر رہے تھے
وہ سب صحیح ہیں کہ اپنے اپنے مشن کی تکمیل کر رہے ہیں
غلط تو میں تھا
غلط تو میں ہوں
کہ ہر زمانے سے اجنبی سا گزر گیا میں
نہ ٹھیک سے جی سکا کبھی میں
نہ ٹھیک سے مر سکا کبھی میں
غلط تو میں تھا
کہ میری تقویمِ روز و شب میں
کبھی کسی فیصلے کی کوئی گھڑی نہیں تھی،
مرے قبیلے کے واسطے تو
کوئی قیامت بڑی نہیں تھی،
کہیں کوئی کربلا بپا ہو،
کسی عقوبت کدے میں زنداں کے، کوئی سورج ہی بُجھ رہا ہو،
فرازِ دار و رسن سے کوئی صدائے حق بھی لگا رہا ہو،
تو ہر شریف آدمی کی مانند
میں اپنے حقِ آگہی کے باوصف سوچتا ہوں
نہ میں اُدھر ہوں، نہ میں اِدھر ہوں۔
فرہاد زیدی صاحب 91 برس گزار کر جا چکے ہیں ، وہ میرے استاد اور مرشد تھے۔ ان کی اس نظم نے مجھے کیا کچھ نہیں سکھایا۔ میں یہ سیکھ گئی کہ ہمیں کسی ایک طرف کھڑے ہونا ہوتا ہے خواہ اس میں ہلاکت ہو، خواہ اس میں دنیا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے گریجویشن کرلی تھی اور میں جونیئر آفیسر ہوگئی تھی۔ نیشنل بینک آف پاکستان میں آٹھ سو روپے کی ملازمت ان دنوں مردوں کو نہیں ملتی تھی، نہ کہ ایک لڑکی اس عہدے پر فائز ہو جائے ، طبی سہولتیں اس کے سوا تھیں۔ خاندان میں سب ہی بہت خوش تھے، ایک میں تھی جو ناخوش تھی۔ حساب کبھی میرا پسندیدہ موضوع نہ تھا اور یہاں از اول تا آخر حساب کتاب کے معاملات تھے۔
میں اسی غم میں غرق تھی کہ ان ہی دنوں کراچی سے ایک ہفت روزہ ''اخبار خواتین '' نکلا۔ کیا اس کی اٹھان تھی اورکیا اس کی نوک پلک سنواری گئی تھی، جی خوش ہو گیا۔ میں نے ترنت ایک چٹ پٹا سا فیچر تیار کرکے '' اخبار خواتین'' کی مجلس ادارت کو بھیج دیا۔ اس کی پسندیدگی کا خط مجھے ملا جو کسی فرہاد زیدی صاحب نے لکھا تھا۔ عنایت اللہ صاحب ، فرہاد زیدی صاحب نے ملاقات کے لیے بلایا۔
اس کی خاتون مدیر مسرت جبیں صاحبہ کراچی میں نہیں تھیں۔ ان دونوں صاحبان نے مجھے فیچر لکھنے کے بارے میں کچھ نکات تعلیم کیے۔ عنایت صاحب نے مجھے ایک کتاب (باتصویر) عنایت کی اور کہا اس کی مدد سے ہمارے ماحول کے مطابق ایک فیچر لکھو۔ '' اندھا کیا چاہے دو آنکھیں'' میں وہ کتاب لے کر گھر آگئی اور یوں ''اخبار خواتین'' سے رشتہ استوار ہوا۔ ان دنوں ''اخبار خواتین'' کا گھر گھر چرچا تھا۔ میں اس میں چھپنے پر خوش بھی تھی اور اداس بھی۔ اداسی اس بات پر تھی کہ اتنے اچھے پرچے میں میری کوئی گنجائش نہیں ہے۔
وہ گنجائش نکلی اور اس کے لیے مجھے نیشنل بینک کی ملازمت چھوڑنی پڑی، لیکن وہ ایک الگ کہانی ہے۔ اس وقت میں اس شریف النفس اور بردبار انسان کو دل کی گہرائیوں سے یاد کرنا چاہتی ہوں جس کا نام فرہاد زیدی تھا جو مشرقی یوپی کے ایک مردم خیز شہر جون پور میں 1931کو پیدا ہوا۔ زندگی کے ابتدائی برس اورنگ آباد میں گزارے اور پھر پاکستان چلا آیا۔ یہ فرہاد زیدی میرا استاد ، میرا مرشد تھا۔
میں نے صحافت کے میدان خار زار میں ان کی رہنمائی میں قدم رکھا اور ہمیشہ ان کا احترام کیا۔ وہ ''حریت'' میں گئے تو وہاں انھوں نے صحافت کی ایک نئی روش اختیارکی اور لوگوں کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا۔ ویت نام کی جنگ اپنے عروج پر تھی۔ ''حریت'' کے لیے میں نے ایک مشہور کتاب One Morning in War کا قسط وار ترجمہ کیا۔ زیدی صاحب نے ہمارے سماج کو تخلیقی ذہن رکھنے والے دو بیٹے حسن زیدی اور علی فیصل زیدی دیے جو آج بھی صحافت کے میدان میں زیدی صاحب کی پیروی کر رہے ہیں۔
فرہاد زیدی اس زمانے میں پاکستانی صحافت کے آسمان پر نمودار ہوئے جو مشکل ترین زمانہ تھا۔ انھوں نے اسلام آباد میں انگریزی کے اخبار ''مسلم'' کی ادارت کی۔ وہ امروز ، نوائے وقت اور مشرق سے وابستہ رہے۔ ''اخبار خواتین'' نکالا۔ 1970 میں انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کی مسلسل جاری رہنے والی انتخابی مہم میں بہت دلچسپ اور باوقار پروگرام کیے جو دیکھنے والوں کو آج تک یاد ہیں۔ 90 کی دہائی میں وہ بہ طور منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ رہے۔
وہ ایک جمہوریت پسند اور سچے انسان تھے۔ ضیا الحق کا زمانہ تھا جب 1978 میں انھیں 6 مہینے کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا۔ وہ بنیادی طور پر شاعر اور ادیب تھے، زندگی انھیں صحافت کے میدان میں لے گئی۔ بھٹو صاحب کی پھانسی ان کے لیے صدقہ جاں کاہ تھی۔ اسی زمانے میں انھوں نے ایک نظم ''شریف آدمی'' لکھی۔ وہ نہ صرف ان کی شان دار نظم ہے بلکہ ہم سب لوگوں کے لیے کیسے کیسے سوال کھڑے کرتی ہے۔ آپ بھی ملاحظہ کریں:
شریف آدمی
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
حسین ؑ جب دشتِ کربلا میں
یزید سے پنجہ آزما تھے
علیؓ کا بیٹا، خدا کے محبوبؐ کا نواسہ
خلیفۂ وقت کے مقابل
چٹان بن کر ڈٹا ہوا تھا
تو میں کدھر تھا؟
اگر میں سبطِ نبیؐ کے مظلوم جاں نثاروں کی صف میں ہوتا
شہید ہوتا !
یزید کی فوج میں جو ہوتا
تو حق کی آوازکو دبانے پہ خلعتِ فاخرہ ہی پاتا ،
مگر شہادت مرا مقدر نہیں بنی تھی
نہ مجھ کو خلعت ہی مل سکی تھی
تو میں کدھر تھا؟
...
جو میں نے سوچا تو میں نے جانا
نہ میں اُدھر تھا، نہ میں اِدھر تھا
مجھے حسینؑ اور ان کے سارے اصول سب ہی عزیز تھے، پر
میرے مفادات مجھ کو اُن سے عزیز تر تھے،
میرے مفادات جو عبارت تھے مری ذات اور میرے بچوں کی عافیت سے
وہ حاکمِ وقت کی نگاہِ کرم کے محتاج و منتظر تھے
یہی سبب ہے کہ حق و باطل کے معرکے میں
صحیح غلط کی تمیز کے باوجود خاموش ہی رہا میں
مگر جب اک بار کربلا اور یزید سب ہی گزر گئے تو
حسین ؑ پیاسے ہی مر گئے تو
مری حمیت نے جوش مارا
یزید کو میں نے ظلم اور جبرکی علامت بنا کے چھوڑا
حسین ؑ کو میں ہزار برسوں سے رو رہا ہوں
...
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
میرے آئمہ کہ جن کے علم و عمل کی خوشبو
مشامِ جاں میں بسی ہوئی ہے
میرے آئمہ کہ آج بھی جن کے پاک قدموں کی پاک مٹی
کروڑوں آنکھوں کی روشنی ہے،
انھی آئمہ کی پُشت جب ظالموں کے ہاتھوں سے خونچکاں تھی
خلیفۂ وقت کے عقوبت کدوں میں ان کی تمام بستی لہولہاں تھی،
تو میں کدھر تھا ؟
وہ حق پہ ہیں، میں یہ جانتا تھا
امام بھی ان کو مانتا تھا
مگر جب ان پہ عتاب آیا
تو میں نے حاکم کا ہاتھ روکا
نہ میں نے جلاد ہی کو ٹوکا
کہ مجھ کو اپنی اور اپنے بچوں کی عافیت ہی عزیز تھی،
مگر یہ سیلاب ٹل گیا تو
زمانہ کروٹ بدل گیا تو
میری عقیدت بھی لوٹ آئی
میں ان آئمہ کی ذات کو روشنی کا مینار کہہ رہا ہوں
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
کہ جب وہ منصور کو سرِ دار لا رہے تھے
جب اُس کے جُرمِ خود آگہی پہ اپنے فتوے سنا رہے تھے
جب اُس کو زندہ جلا رہے تھے
تو میں کدھر تھا؟
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے
کہ جس خلیفہ نے اُس کے فرمانِ قتل پہ دستخط کیے تھے
وہ میں نہیں تھا
وہ ہاتھ جس نے عظیم انسان کی زندگی کا دیا بجھایا
مرا نہیں تھا
مگر یہ سچ ہے
کہ یہ تماشا بھی میں نے دیکھا
مجھے یہ اچھا نہیں لگا تھا
مگر یہ سچ ہے،
کہ چُپ رہا میں
کہ ہر شریف آدمی کی مانند
مجھے بھی اپنی اور اپنے بچوں کی عافیت ہی عزیز تر تھی،
مگر وہ طوفاں گزر گیا تو
خلیفۂ وقت مر گیا تو
ضمیر میرا بھی جاگ اٹھا
میں ساری دنیا میں اب یہ اعلان کر رہا ہوں
حسینِ منصور میری نظر میں ذی حشم ہے
کہ ہر وہ حق ہے
جو مسندِ دار تک پہنچ جائے محترم ہے!
...
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
کہ سارے نمرود ، سارے شداد
سارے فرعون اور ان کی اولاد
سب صحیح تھے
وہ سب صحیح تھے کہ اپنے اپنے مشن کی تکمیل کر رہے تھے
وہ سب صحیح ہیں کہ اپنے اپنے مشن کی تکمیل کر رہے ہیں
غلط تو میں تھا
غلط تو میں ہوں
کہ ہر زمانے سے اجنبی سا گزر گیا میں
نہ ٹھیک سے جی سکا کبھی میں
نہ ٹھیک سے مر سکا کبھی میں
غلط تو میں تھا
کہ میری تقویمِ روز و شب میں
کبھی کسی فیصلے کی کوئی گھڑی نہیں تھی،
مرے قبیلے کے واسطے تو
کوئی قیامت بڑی نہیں تھی،
کہیں کوئی کربلا بپا ہو،
کسی عقوبت کدے میں زنداں کے، کوئی سورج ہی بُجھ رہا ہو،
فرازِ دار و رسن سے کوئی صدائے حق بھی لگا رہا ہو،
تو ہر شریف آدمی کی مانند
میں اپنے حقِ آگہی کے باوصف سوچتا ہوں
نہ میں اُدھر ہوں، نہ میں اِدھر ہوں۔
فرہاد زیدی صاحب 91 برس گزار کر جا چکے ہیں ، وہ میرے استاد اور مرشد تھے۔ ان کی اس نظم نے مجھے کیا کچھ نہیں سکھایا۔ میں یہ سیکھ گئی کہ ہمیں کسی ایک طرف کھڑے ہونا ہوتا ہے خواہ اس میں ہلاکت ہو، خواہ اس میں دنیا۔