قومی سلامتی کو لاحق خطرات
آرمی چیف اور پاک فوج کے کے خلاف ٹویٹر پر ٹرینڈ چلانے والے گروہ کے سرغنہ کو لاہور سے گرفتار کر لیا گیا ہے
LONDON:
پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت فارمیشنز کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، فارمیشنز کمانڈرز کانفرنس میں شرکاء کو پیشہ ورانہ امور، قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق کچھ حلقوں کی جانب سے پاک فوج کو بدنام کرنے، ادارے اور معاشرے کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی حالیہ پروپیگنڈا مہم کا نوٹس لیا گیا اور واضح پیغام دیا گیا کہ فارمیشنز کمانڈرز کانفرنس پوری فوج کی آواز ہے، پوری فوج آئین اور قانون پر عمل پیرا ہے، ہم پروپیگنڈا مہم چلانے والوں تک پہنچ گئے ہیں، کچھ بھی ہو جائے فوج قومی سلامتی پرکبھی کمپرو مائز نہیں کرے گی۔
اس ساری صورت حال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت معاملے کی نزاکت کا ادراک نہیں کر سکی ہے۔ دبئی، برطانیہ، امریکا اور جنوبی افریقہ سے چلائے جانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بظاہر مخصوص ایک سیاسی جماعت کے حامی دکھائی دیتے ہیں مگر ان سے ریاست مخالف سوچ کو پھیلایا جا رہا ہے۔
درحقیقت اس منفی پروپیگنڈا مہم کا مقصد پاکستانی نوجوانوں کو ریاست اور ریاستی اداروں کے متعلق گمراہ کر کے ان کے ذہن کو دشمن نواز سوچ میں ڈھالنے کی منصوبہ بندی ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ اور ایمو جیسے سوشل میڈیا ٹولزکا پہلا مقصد انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور ہم خیال افراد کو باہمی رابطے کی بہتر سہولیات فراہم کرنا ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے یہ سارے ٹولز پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔
ملک کے محافظ ادارے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرتے ہیں تو ان کارروائیوں کو کبھی مذہبی اورکبھی قوم پرستی کی ایسی تاویلات کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے کہ شہری ریاست کو ظالم اور فرد دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ انھیں باورکرایا جاتا ہے کہ ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کر رہی ہے۔
ریاستی اداروں نے ایسے ہزاروں سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا پتہ چلا کر انھیں غیر موثر بنایا ہے جہاں سے پاکستانی صارفین کو گمراہ کیا جا رہا تھا۔ ایسے زیادہ تر اکاؤنٹس جعلی ہوتے ہیں۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت بعض مشکوک تنظیمیں اور شخصیات اس وقت اظہار رائے کی آزادی مجروح ہونے کا شور مچاتے ہیں جب ریاست کے خلاف زہر اگلنے والا کوئی اکاؤنٹ ہولڈر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ آ جاتا ہے۔
کسی شرپسند کی تقریری ویڈیو ، پاکستان کی بنیاد، دو قومی نظریے، فوج کے کردار، ریاست کو ناکام ظاہر کرنے اور مستقبل کی مایوس کن تصویر پیش کرنے کی مذموم کوششیں ایک تواتر سے سوشل میڈیا پر ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ اکاؤنٹ بنا کر بہت سے لوگوں کو فالوورز یا فرینڈ لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے، پھر اس اکاؤنٹ سے مخصوص نظریات کا پرچار کیا جانے لگتا ہے۔
آہستہ آہستہ کچھ اور لوگ نئے اکاؤنٹ بنا کر اس اکاؤنٹ سے جاری مواد کو آگے پھیلاتے اور اس کی تائید کرتے ہیں۔ ایک عام قاری اور صارف یہی سمجھتا ہے کہ اس کے سامنے غیر جانبدار حقائق رکھے جا رہے ہیں مگر یہ اپنے گھر کو اپنے ہاتھوں آگ لگانے کی ترغیب دینے کے مترادف ہے۔ چند برس قبل گرفتار ہونے والے بعض غیر ملکی جاسوسوں سے تحقیقات کے دوران یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ پاکستان کو داخلی طور پر عدم استحکام کا شکار بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
آرمی چیف اور پاک فوج کے کے خلاف ٹویٹر پر ٹرینڈ چلانے والے گروہ کے سرغنہ کو لاہور سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے چھاپہ مار کارروائی کے دوران ایک ملزم کو لاہور سے گرفتار کیا ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ ملزم سوشل میڈیا پر 2100 سے زائد جعلی اکاؤنٹس سے آرمی چیف اور پاک فوج کے خلاف مہم چلا رہا تھا ، ان اکاؤنٹس سے پاک فوج کے خلاف اڑھائی لاکھ سے زائد ٹویٹس کی گئیں، پانچ اکاؤنٹس بلواسطہ یا بلا واسطہ ایک ہی سیاسی جماعت کے ہیں جب کہ 200 سے زائد اکاؤنٹس بیرون ملک سے چلائے جارہے ہیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال شروع دن ہی سے غالب ہے۔ فیس بک سمیت بیش تر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر نازیبا زبان استعمال کرنے اور اسی نوعیت کی تصاویر اور ویڈیوز اَپ لوڈ کرنے کی مکمل آزادی ہے، اور اسی رجحان کے باعث نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ عملی زندگی میں بھی مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان کدورتیں اور دوریاں بڑھ گئی ہیں،جس کی روک تھام اشد ضروری ہے۔
اظہار رائے کی آزادی چونکہ مہذب دنیا میں بنیادی انسانی حقوق کی ذیل میں آتی ہے ، اس لیے اس حق کی آڑ میں سوشل میڈیا پر منفی مہم چلا کر ملک میں مذہبی ، نسلی ، لسانی اور نسلی تعصب کو شدید بنانے پر کام ہو رہا ہے۔
یہ نئی حکومت کے لیے بھی ایک چیلنج ہی ہے کہ معاشرے میں منفی پراپیگنڈے کی روک تھام یقینی بنائے۔ اسی طرح عوام کو بھی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ایسا کوئی بھی مواد شیئر نہ کریں، جس سے ملک کی سالمیت پر آنچ آئے۔ بد قسمتی سے اتنے برسوں میں کسی بھی حکومت کی طرف سے ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی پالیسی بنائی ہی نہیں گئی۔ اب اُمید ہے کہ سوشل میڈیا پر معاشرے اور ملک کے لیے نقصان دہ چیزوں کی روک تھام کا بندوبست کیا جاسکے گا۔
دوسری جانب جنوبی وزیرستان کے علاقے انگور اڈا میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد ہلاک جب کہ میجر سمیت دو جوان شہید ہوگئے، فورسز نے موثر کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا ، ہلاک ہونیوالے دہشت گرد فورسزکے خلاف کارروائیوں میں ملوث تھے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے خیبر پختون خوا اور بلوچستان سمیت ملک بھر میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور پولیس پر بیشتر حملوں کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی جب کہ عام شہریوں پر ہوئے زیادہ تر حملوں کے قاتل نامعلوم بتائے گئے۔
اگرچہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان سرزمین کا استعمال کوئی نئی بات نہیں لیکن افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی آنا کئی وجوہ کی بنا پر تشویش ناک قرار دی جا سکتی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ گزشتہ کئی سال سے ہمارے ہاں ریاستی بیانیہ یہ قائم کیا گیا کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور کالعدم ٹی ٹی پی کو بھارت اور سابق افغان حکومت کی سرپرستی و حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا مکمل خاتمہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اس کے علاوہ ریاستی و حکومتی سطح پر ہمارے ہاں یہ بیانیہ بھی بڑے وثوق سے بیان کیا جاتا رہا کہ جیسے ہی افغانستان میں طالبان حکمران بنیں گے تو یا تو وہ راتوں رات وہاں سے ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سمیت دیگر ملک دشمن گروہوں کا صفایا کر دیں گے یا کم از کم افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کسی مسلح گروہ کو کارروائیوں کی اجازت کسی بھی صورت نہیں دیں گے لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو گیا ہے۔
دہشت گردی کے واقعات میں استعمال ہونے والا یہ وہی اسلحہ ہے جو امریکی افواج افغانستان میں استعمال کرتی رہی ہیں ، قرین قیاس بات یہ ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل یہ ہتھیار بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' کی وساطت سے اس کے آلہ کار تخریب کاروں کو فراہم کیے گئے ہوں کیوں کہ جس مہارت سے تخریب کاروں نے ان ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دہشت گردوں کو ان ہتھیاروں کے استعمال کی اچھی طرح تربیت دی گئی تھی اور یہ یقین کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت نہیں کہ یہ کام ''را'' اور بھارتی فوج کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا کیونکہ افغانستان میں قائم کیے گئے، درجنوں بھارتی سفارتی مراکز میں کیا کچھ کیا جاتا تھا یہ اب کوئی راز نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ان مراکز میں سفارتی سرگرمیوں کی آڑ میں پاکستان کے خلاف تخریبی کاروائیوں کی منصوبہ بندی اور تربیت ہی اصل مقصد تھا۔
حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ انتہائی خوفناک حالیہ کارروائیوں میں جدید ترین امریکی اسلحے کے استعمال کا معاملہ امریکی حکام کے سامنے بھی اٹھائیں اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت کا منافقانہ کردار اور دہشت گردوں کی تربیت و سرپرستی پر اس کا حقیقی چہرہ عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔
پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت فارمیشنز کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، فارمیشنز کمانڈرز کانفرنس میں شرکاء کو پیشہ ورانہ امور، قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق کچھ حلقوں کی جانب سے پاک فوج کو بدنام کرنے، ادارے اور معاشرے کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی حالیہ پروپیگنڈا مہم کا نوٹس لیا گیا اور واضح پیغام دیا گیا کہ فارمیشنز کمانڈرز کانفرنس پوری فوج کی آواز ہے، پوری فوج آئین اور قانون پر عمل پیرا ہے، ہم پروپیگنڈا مہم چلانے والوں تک پہنچ گئے ہیں، کچھ بھی ہو جائے فوج قومی سلامتی پرکبھی کمپرو مائز نہیں کرے گی۔
اس ساری صورت حال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت معاملے کی نزاکت کا ادراک نہیں کر سکی ہے۔ دبئی، برطانیہ، امریکا اور جنوبی افریقہ سے چلائے جانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بظاہر مخصوص ایک سیاسی جماعت کے حامی دکھائی دیتے ہیں مگر ان سے ریاست مخالف سوچ کو پھیلایا جا رہا ہے۔
درحقیقت اس منفی پروپیگنڈا مہم کا مقصد پاکستانی نوجوانوں کو ریاست اور ریاستی اداروں کے متعلق گمراہ کر کے ان کے ذہن کو دشمن نواز سوچ میں ڈھالنے کی منصوبہ بندی ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ اور ایمو جیسے سوشل میڈیا ٹولزکا پہلا مقصد انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور ہم خیال افراد کو باہمی رابطے کی بہتر سہولیات فراہم کرنا ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے یہ سارے ٹولز پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔
ملک کے محافظ ادارے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرتے ہیں تو ان کارروائیوں کو کبھی مذہبی اورکبھی قوم پرستی کی ایسی تاویلات کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے کہ شہری ریاست کو ظالم اور فرد دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ انھیں باورکرایا جاتا ہے کہ ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کر رہی ہے۔
ریاستی اداروں نے ایسے ہزاروں سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا پتہ چلا کر انھیں غیر موثر بنایا ہے جہاں سے پاکستانی صارفین کو گمراہ کیا جا رہا تھا۔ ایسے زیادہ تر اکاؤنٹس جعلی ہوتے ہیں۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت بعض مشکوک تنظیمیں اور شخصیات اس وقت اظہار رائے کی آزادی مجروح ہونے کا شور مچاتے ہیں جب ریاست کے خلاف زہر اگلنے والا کوئی اکاؤنٹ ہولڈر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ آ جاتا ہے۔
کسی شرپسند کی تقریری ویڈیو ، پاکستان کی بنیاد، دو قومی نظریے، فوج کے کردار، ریاست کو ناکام ظاہر کرنے اور مستقبل کی مایوس کن تصویر پیش کرنے کی مذموم کوششیں ایک تواتر سے سوشل میڈیا پر ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ اکاؤنٹ بنا کر بہت سے لوگوں کو فالوورز یا فرینڈ لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے، پھر اس اکاؤنٹ سے مخصوص نظریات کا پرچار کیا جانے لگتا ہے۔
آہستہ آہستہ کچھ اور لوگ نئے اکاؤنٹ بنا کر اس اکاؤنٹ سے جاری مواد کو آگے پھیلاتے اور اس کی تائید کرتے ہیں۔ ایک عام قاری اور صارف یہی سمجھتا ہے کہ اس کے سامنے غیر جانبدار حقائق رکھے جا رہے ہیں مگر یہ اپنے گھر کو اپنے ہاتھوں آگ لگانے کی ترغیب دینے کے مترادف ہے۔ چند برس قبل گرفتار ہونے والے بعض غیر ملکی جاسوسوں سے تحقیقات کے دوران یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ پاکستان کو داخلی طور پر عدم استحکام کا شکار بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
آرمی چیف اور پاک فوج کے کے خلاف ٹویٹر پر ٹرینڈ چلانے والے گروہ کے سرغنہ کو لاہور سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے چھاپہ مار کارروائی کے دوران ایک ملزم کو لاہور سے گرفتار کیا ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ ملزم سوشل میڈیا پر 2100 سے زائد جعلی اکاؤنٹس سے آرمی چیف اور پاک فوج کے خلاف مہم چلا رہا تھا ، ان اکاؤنٹس سے پاک فوج کے خلاف اڑھائی لاکھ سے زائد ٹویٹس کی گئیں، پانچ اکاؤنٹس بلواسطہ یا بلا واسطہ ایک ہی سیاسی جماعت کے ہیں جب کہ 200 سے زائد اکاؤنٹس بیرون ملک سے چلائے جارہے ہیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال شروع دن ہی سے غالب ہے۔ فیس بک سمیت بیش تر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر نازیبا زبان استعمال کرنے اور اسی نوعیت کی تصاویر اور ویڈیوز اَپ لوڈ کرنے کی مکمل آزادی ہے، اور اسی رجحان کے باعث نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ عملی زندگی میں بھی مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان کدورتیں اور دوریاں بڑھ گئی ہیں،جس کی روک تھام اشد ضروری ہے۔
اظہار رائے کی آزادی چونکہ مہذب دنیا میں بنیادی انسانی حقوق کی ذیل میں آتی ہے ، اس لیے اس حق کی آڑ میں سوشل میڈیا پر منفی مہم چلا کر ملک میں مذہبی ، نسلی ، لسانی اور نسلی تعصب کو شدید بنانے پر کام ہو رہا ہے۔
یہ نئی حکومت کے لیے بھی ایک چیلنج ہی ہے کہ معاشرے میں منفی پراپیگنڈے کی روک تھام یقینی بنائے۔ اسی طرح عوام کو بھی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ایسا کوئی بھی مواد شیئر نہ کریں، جس سے ملک کی سالمیت پر آنچ آئے۔ بد قسمتی سے اتنے برسوں میں کسی بھی حکومت کی طرف سے ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی پالیسی بنائی ہی نہیں گئی۔ اب اُمید ہے کہ سوشل میڈیا پر معاشرے اور ملک کے لیے نقصان دہ چیزوں کی روک تھام کا بندوبست کیا جاسکے گا۔
دوسری جانب جنوبی وزیرستان کے علاقے انگور اڈا میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد ہلاک جب کہ میجر سمیت دو جوان شہید ہوگئے، فورسز نے موثر کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا ، ہلاک ہونیوالے دہشت گرد فورسزکے خلاف کارروائیوں میں ملوث تھے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے خیبر پختون خوا اور بلوچستان سمیت ملک بھر میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور پولیس پر بیشتر حملوں کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی جب کہ عام شہریوں پر ہوئے زیادہ تر حملوں کے قاتل نامعلوم بتائے گئے۔
اگرچہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان سرزمین کا استعمال کوئی نئی بات نہیں لیکن افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی آنا کئی وجوہ کی بنا پر تشویش ناک قرار دی جا سکتی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ گزشتہ کئی سال سے ہمارے ہاں ریاستی بیانیہ یہ قائم کیا گیا کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور کالعدم ٹی ٹی پی کو بھارت اور سابق افغان حکومت کی سرپرستی و حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا مکمل خاتمہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اس کے علاوہ ریاستی و حکومتی سطح پر ہمارے ہاں یہ بیانیہ بھی بڑے وثوق سے بیان کیا جاتا رہا کہ جیسے ہی افغانستان میں طالبان حکمران بنیں گے تو یا تو وہ راتوں رات وہاں سے ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سمیت دیگر ملک دشمن گروہوں کا صفایا کر دیں گے یا کم از کم افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کسی مسلح گروہ کو کارروائیوں کی اجازت کسی بھی صورت نہیں دیں گے لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو گیا ہے۔
دہشت گردی کے واقعات میں استعمال ہونے والا یہ وہی اسلحہ ہے جو امریکی افواج افغانستان میں استعمال کرتی رہی ہیں ، قرین قیاس بات یہ ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل یہ ہتھیار بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' کی وساطت سے اس کے آلہ کار تخریب کاروں کو فراہم کیے گئے ہوں کیوں کہ جس مہارت سے تخریب کاروں نے ان ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دہشت گردوں کو ان ہتھیاروں کے استعمال کی اچھی طرح تربیت دی گئی تھی اور یہ یقین کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت نہیں کہ یہ کام ''را'' اور بھارتی فوج کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا کیونکہ افغانستان میں قائم کیے گئے، درجنوں بھارتی سفارتی مراکز میں کیا کچھ کیا جاتا تھا یہ اب کوئی راز نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ان مراکز میں سفارتی سرگرمیوں کی آڑ میں پاکستان کے خلاف تخریبی کاروائیوں کی منصوبہ بندی اور تربیت ہی اصل مقصد تھا۔
حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ انتہائی خوفناک حالیہ کارروائیوں میں جدید ترین امریکی اسلحے کے استعمال کا معاملہ امریکی حکام کے سامنے بھی اٹھائیں اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت کا منافقانہ کردار اور دہشت گردوں کی تربیت و سرپرستی پر اس کا حقیقی چہرہ عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔