سوشل میڈیا پر مذموم مہم
ٹوئٹر ٹرینڈز پر جو طوفان اٹھایا گیا ہے اس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی
کراچی:
پاکستانی فوج کے فارمیشن کمانڈرز کے اجلاس کے بعد پاک فوج کی جانب سے ایک سخت پریس ریلیز جاری کیا گیا ہے۔ جس میں پاک فوج کے خلاف مہم کا سخت نوٹس لیا گیا اور کہا گیا ہے کہ فوج اس مہم کو چلانے والے لوگوں تک پہنچ گئی ہے۔
اس اجلاس میں پاک فوج اور عوام کے درمیان خلیج ڈالنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنانے کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ پاک فوج نے کوئی سمجھوتہ کیے بغیر ریاستی اداروں کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہنے کا اعلان کیا ہے۔ پاک فوج کی جانب سے ایسا پریس ریلیز کم ہی دیکھا گیا ہے، ایسا صرف غیر معمولی حالات میں ہی دیکھا گیا ہے۔
دوسری طرف پاک فوج کے خلاف مہم چلانے پر گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔ لاہور سے بھی لوگ گرفتار ہوئے ہیں۔ ایک ملزم کے پاس ایک نہیں کئی درجن اکاؤنٹ موجود تھے۔ جن سے وہ پاک فوج کے خلاف مہم چلا رہا تھا۔ ویسے تو سابق وزیر اعظم عمران خان کے فوکل پرسن ارسلان خالد بھی گرفتار ہو چکے ہیں۔ وہ وزیر اعظم کے سوشل میڈیا پر فوکل پرسن تھے۔
ان پر پہلے سے ہی الزام تھا کہ وہ تحریک انصاف کے مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلوانے کے ذمے دار سمجھے جاتے تھے۔اس لیے ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ ان کی گرفتاری بھی پاک فوج کے خلاف مہم کے تناظر میں ہی ہوئی ہے۔ ان کی گرفتاری کی تصدیق اسد عمر اور شہباز گل نے ٹوئٹ کے ذریعے کی ہے۔ تاہم ابھی تک سرکاری طور پر ان کی گرفتاری کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ صرف تحریک انصاف ہی الزام لگا رہی ہے، لیکن مخالفین کے خلاف مہم چلانے کے حوالے سے ان کا کردار متنازعہ رہا ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل نے اب تک جو گرفتاریاں ہوئی ہیں ان کو قانونی مدد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا حامیوں کو ہراسگی کا سامنا ہے۔ انصاف لائر ونگ کو ان کی قانونی مدد کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے رد عمل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پاک فوج اور ریاستی اداروں کے خلاف مہم میں اب تک جو گرفتاریاں ہوئی ہیں ان کا تعلق تحریک انصاف سے ہی ہے۔ یہ امر نہایت افسوسناک ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اپیل پر جو احتجاج ہوئے ہیں۔ ان میں ریاستی اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈہ سامنے آیا ہے۔ ایسے پلے کارڈ دیکھے گئے ہیں جن پر افسوس ہی کیاجا سکتا ہے۔ عمران خان نے اس کی کوئی مذمت نہیں کی ہے۔
ٹوئٹر ٹرینڈز پر جو طوفان اٹھایا گیا ہے اس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ تاہم ایک مماثلت ضرور ہے کہ ماضی میں تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ونگ اپنے مخالفین کے خلاف ایسے ٹرینڈ بناتا رہا ہے۔ اب بھی ان ٹرینڈز میں جہاں نئی حکومت کے خلاف ٹرینڈ بنائے گئے ہیں وہاں ریاستی اداروں کے خلاف بھی ٹرینڈ بنائے گئے ہیں۔ یہ مماثلت نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔
یہ ضرور ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے خود نہ تو کوئی ایسا ٹوئٹ کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ کوئی ایسی لائن لے رہے ہیں جس میں ریاستی اداروں کی مخالفت نظر آتی ہو۔ انھوں نے صرف امریکا کی مخالفت کو ہی اپنا ٹارگٹ رکھا ہوا ہے۔
عمران خان اور ان کے ساتھی لیکن اب ریاستی اداروں کے حق میں بیان دینے کے لیے ویسے سامنے نہیں آرہے ہیں جیسے وہ ماضی میں دیتے رہے ہیں۔ ماضی میں تو ایسا لگتا تھا کہ ریاستی اداروں کے دفاع اور حرمت کی تمام ذمے داری تحریک انصاف نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہے۔ شاید اس وقت ان کو اس کا سیاسی فائدہ تھا۔ اور آج ریاستی اداروں کے دفاع کا وہ خود کو سیاسی نقصان سمجھتے ہیں۔
ایک سوال بھی سامنے آرہا ہے کہ کیا تحریک انصاف کی ریاستی اداروں سے محبت صرف تب تک تھی جب تک اقتدار تھا۔
بہر حال پاک فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس مہم کے لوگوں تک پہنچ گئی ہے۔ میری گزارش ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ اپنی معصومیت میں اس منفی مہم میں استعمال ہوئے ہوں۔ اس لیے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کو کس نے استعمال کیا ہے۔
یہ ہدایات کہاں سے ملی تھیں۔ لائن کس نے دی۔ یہ ٹرولنگ اکاؤنٹ ماضی میں کس کس کے خلاف استعمال ہوئے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تحریک انصاف اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ہی نہیں بلکہ مخالفین کو گالیاں دینے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ اس لیے اس ہتھیار کو ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اس سے کسی کی عزت محفوظ نہیں۔
پاکستانی فوج کے فارمیشن کمانڈرز کے اجلاس کے بعد پاک فوج کی جانب سے ایک سخت پریس ریلیز جاری کیا گیا ہے۔ جس میں پاک فوج کے خلاف مہم کا سخت نوٹس لیا گیا اور کہا گیا ہے کہ فوج اس مہم کو چلانے والے لوگوں تک پہنچ گئی ہے۔
اس اجلاس میں پاک فوج اور عوام کے درمیان خلیج ڈالنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنانے کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ پاک فوج نے کوئی سمجھوتہ کیے بغیر ریاستی اداروں کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہنے کا اعلان کیا ہے۔ پاک فوج کی جانب سے ایسا پریس ریلیز کم ہی دیکھا گیا ہے، ایسا صرف غیر معمولی حالات میں ہی دیکھا گیا ہے۔
دوسری طرف پاک فوج کے خلاف مہم چلانے پر گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔ لاہور سے بھی لوگ گرفتار ہوئے ہیں۔ ایک ملزم کے پاس ایک نہیں کئی درجن اکاؤنٹ موجود تھے۔ جن سے وہ پاک فوج کے خلاف مہم چلا رہا تھا۔ ویسے تو سابق وزیر اعظم عمران خان کے فوکل پرسن ارسلان خالد بھی گرفتار ہو چکے ہیں۔ وہ وزیر اعظم کے سوشل میڈیا پر فوکل پرسن تھے۔
ان پر پہلے سے ہی الزام تھا کہ وہ تحریک انصاف کے مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلوانے کے ذمے دار سمجھے جاتے تھے۔اس لیے ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ ان کی گرفتاری بھی پاک فوج کے خلاف مہم کے تناظر میں ہی ہوئی ہے۔ ان کی گرفتاری کی تصدیق اسد عمر اور شہباز گل نے ٹوئٹ کے ذریعے کی ہے۔ تاہم ابھی تک سرکاری طور پر ان کی گرفتاری کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ صرف تحریک انصاف ہی الزام لگا رہی ہے، لیکن مخالفین کے خلاف مہم چلانے کے حوالے سے ان کا کردار متنازعہ رہا ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل نے اب تک جو گرفتاریاں ہوئی ہیں ان کو قانونی مدد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا حامیوں کو ہراسگی کا سامنا ہے۔ انصاف لائر ونگ کو ان کی قانونی مدد کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے رد عمل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پاک فوج اور ریاستی اداروں کے خلاف مہم میں اب تک جو گرفتاریاں ہوئی ہیں ان کا تعلق تحریک انصاف سے ہی ہے۔ یہ امر نہایت افسوسناک ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اپیل پر جو احتجاج ہوئے ہیں۔ ان میں ریاستی اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈہ سامنے آیا ہے۔ ایسے پلے کارڈ دیکھے گئے ہیں جن پر افسوس ہی کیاجا سکتا ہے۔ عمران خان نے اس کی کوئی مذمت نہیں کی ہے۔
ٹوئٹر ٹرینڈز پر جو طوفان اٹھایا گیا ہے اس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ تاہم ایک مماثلت ضرور ہے کہ ماضی میں تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ونگ اپنے مخالفین کے خلاف ایسے ٹرینڈ بناتا رہا ہے۔ اب بھی ان ٹرینڈز میں جہاں نئی حکومت کے خلاف ٹرینڈ بنائے گئے ہیں وہاں ریاستی اداروں کے خلاف بھی ٹرینڈ بنائے گئے ہیں۔ یہ مماثلت نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔
یہ ضرور ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے خود نہ تو کوئی ایسا ٹوئٹ کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ کوئی ایسی لائن لے رہے ہیں جس میں ریاستی اداروں کی مخالفت نظر آتی ہو۔ انھوں نے صرف امریکا کی مخالفت کو ہی اپنا ٹارگٹ رکھا ہوا ہے۔
عمران خان اور ان کے ساتھی لیکن اب ریاستی اداروں کے حق میں بیان دینے کے لیے ویسے سامنے نہیں آرہے ہیں جیسے وہ ماضی میں دیتے رہے ہیں۔ ماضی میں تو ایسا لگتا تھا کہ ریاستی اداروں کے دفاع اور حرمت کی تمام ذمے داری تحریک انصاف نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہے۔ شاید اس وقت ان کو اس کا سیاسی فائدہ تھا۔ اور آج ریاستی اداروں کے دفاع کا وہ خود کو سیاسی نقصان سمجھتے ہیں۔
ایک سوال بھی سامنے آرہا ہے کہ کیا تحریک انصاف کی ریاستی اداروں سے محبت صرف تب تک تھی جب تک اقتدار تھا۔
بہر حال پاک فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس مہم کے لوگوں تک پہنچ گئی ہے۔ میری گزارش ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ اپنی معصومیت میں اس منفی مہم میں استعمال ہوئے ہوں۔ اس لیے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کو کس نے استعمال کیا ہے۔
یہ ہدایات کہاں سے ملی تھیں۔ لائن کس نے دی۔ یہ ٹرولنگ اکاؤنٹ ماضی میں کس کس کے خلاف استعمال ہوئے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تحریک انصاف اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ہی نہیں بلکہ مخالفین کو گالیاں دینے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ اس لیے اس ہتھیار کو ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اس سے کسی کی عزت محفوظ نہیں۔