کورونا وبا کے خاتمے سے سحری جگانے والوں کا کام بحال

سحری جگانے والے دوبارہ متحرک ہوگئے لیکن ان کی تعداد اندازے کے مطابق پہلے کے مقابلے میں 30 فیصد سے بھی کم رہ گئی

جدیدٹیکنالوجی سے قدیم سحری جگانے والوںکاکام متاثر،نئی نسل یہ کام کرنے کوتیارنہیں اسی لیے پیشہ معدوم ہوتا جارہا ہے ۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
کورونا کی وبا کم ہونے کے بعد امسال رمضان میں سحری جگانے والوں کا کام دوبارہ بحال ہوگیا جب کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے قدیم سحری جگانے والوں کا کام متاثر کیا ہے۔

پنجاب کالونی کے رہائشی فیاض یونس نے بتایا کہ امسال رمضان المبارک میں جہاں دیگر روزگار کورونا کے 2 سال بعد بحال ہوئے ہیں وہی سحری جگانے والے بھی دوبارہ متحرک ہوگئے ہیں لیکن اب ان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق پہلے کے مقابلے میں 30 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ سحری جگانے کا کام اب بھی زیادہ تر وہی افراد کررہے ہیں جن کے آباؤ اجداد یہ کام کیا کرتے تھے انھوں نے کہا کہ بعض افراد اضافی آمدنی کے حصول کے لیے بھی سحری جگانے کا کام کرتے ہیں انھوں نے بتایا کہ سحری جگانے والوں کی نئی نسل یہ کام کرنے کو تیار نہیں اسی لیے یہ پیشہ بھی معدوم ہوتا جارہا ہے۔

متوسط وغریب آبادیوں میں سحری جگانے کاکام جاری

فیاض یونس نے بتایا کہ رواں سال رمضان المبارک گرمی میں آیا ہے اس لیے دن بڑے اور راتوں کا دورانیہ کم ہوگیا ہے۔ گرمی میں روزے کا دورانیہ ویسے ہی زیادہ ہوتا ہے انھوں نے کہا کہ طبقہ اشرافیہ کے علاقوں کے بجائے متوسط اور غریب آبادیوں میں سحری جگانے کا کام اب بھی کیا جارہا ہے۔

زیادہ تر سحری جگانے والے اپنے قریبی علاقوں میں یہ کام کرتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ سحری جگانے کے مختلف انداز ہوتے ہیں، کچھ سحری جگانے والے سائیکل پر باجا لگا کر یا لائوڈ اسپیکر کے ذریعے اعلان کرکے یا ڈھول بجا کر سحری جگاتے ہیں۔

سحری جگانے کا کام بس اب روایت کے طورپررہ گیا

لیاقت آباد میں سحری جگانے کا کام کرنے والے حنیف بھائی نے بتایا کہ کراچی میں امسال رمضان کی رونقیں دوبارہ بحال ہوگئی ہیں، کراچی کے شہری ویسے ہی زیادہ تر رات کو دیر تک جاگتے ہیں اس لیے سحری جگانے کا کام بس اب ایک روایت کے طور پر کیا جاتا ہے انھو ں نے بتایا شادی بیاہ پر ڈھول بجانے والے اکثر افراد بھی یہ کام کرتے ہیں، سحری جگانے کے لیے ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ جاگ جائو بھائیوں سحری کا وقت ہو گیا ہے۔


روزہ رکھو اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرو، حنیف بھائی نے بتایا کہ سحری جگانے کے لیے رات کو دو بجے کے بعد ہم اپنے مخصوص علاقوں میں پیدل یا سائیکل پر نکلتے ہیں اور سحری ختم ہونے سے آدھا گھنٹہ قبل اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، سحری کرنے اور نماز پڑھنے کے بعد کچھ گھنٹے آرام کرتے ہیں اور دن میں اپنے روزگار کے لیے پھل دیگر اشیا فروخت کرتے ہیں۔

ٹولی کی شکل میں5افراد پرسوز آوازمیں حمد،نعت اورقوالیاں پڑھتے ہیں

سحری جگانے والے حنیف بھائی نے بتایا کہ کراچی میں سحری جگانے کا ایک انداز بہت قدیم ہے، اس طریقہ کار کے مطابق چار سے پانچ افراد ٹولی کی شکل میں اپنے مخصوص علاقوں میں نکلتے ہیں اور انتہائی پرسوز آواز میں حمد و ثنا ، نعت خوانی اور قوالیاں پڑھتے ہیں، یہ افراد ناپید ہوگئے ہیں، تاہم شہر کے کچھ قدیم علاقوں میں اس پیشے سے منسلک قدیم خاندانی افراد یہ کام کررہے ہیں، سحری جگانے کی یہ روایت بھی اب دم توڑتی جارہی ہے۔

کچھ سال بعد سحری جگانے کا پیشہ کم وبیش ختم ہو جائے گا،نواب قریشی
سینئر صحافی نواب قریشی نے بتایا کہ سحری جگانے کے لیے ماضی میں کراچی میں کئی طریقے استعمال ہوتے تھے ، جس میں بگل بجانا اور دیگر طریقے شامل ہیں تاہم اب یہ طریقے ناپید ہوگئے ہیں اور آئندہ آنے والے سالوں میں سحری جگانے کا پیشہ تقریبا ختم ہو جائے گا کیونکہ جیسے جیسے ٹیکنالوجی بڑھ رہی ہے قدیم پیشے دم توڑتے جا رہے ہیں۔

سحری جگانے کا کام عیدخرچی بنانے کے لیے کیاجاتاہے

حنیف بھائی نے بتایا کہ سحری جگانے کا کام عید خرچی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے، اب تو جدید ٹیکنالوجی آ گئی ہے، موبائل فون میں الارم ہوتے ہیں یا الارم والی گھڑی ہوتی ہے جس کے الارم سے لوگ نیند سے بیدار ہوجاتے ہیں انھوں نے بتایا کہ ہمارا کوئی فکس معاوضہ نہیں ہوتا ہے۔ رمضان کے آخری روزوں میں لوگ اپنی مرضی سے ہمیں سحری جگانے کا معاوضہ دے دیتے ہیں یا چاند رات پر مخیر حضرات کپڑے ، جوتے اور نقد رقوم بھی ہمیں دیتے ہیں۔

مساجد سے شہریوں کوجگانے کیلیے سائرن بجائے جاتے ہیں،موذن

مقامی مسجد کے موذن حاجی بابا نے بتایا کہ رمضان المبارک میں مساجد اور امام بارگاہوں سے شہریوں کو سحری جگانے کے لیے سائرن بجائے جاتے ہیں یا اعلانات کیے جاتے ہیں جو سحری کے اختتام تک جاری رہتے ہیں سحری کے اوقات میں مختلف مساجد میں نعت خوانی کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔
Load Next Story