نصف صدی کا قصہ
بدقسمتی سے پی ٹی وی نے اس خرگوش کی پیروی کا رستہ اختیار کیا جس نے بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔۔۔
یہ برس یعنی 2014 پی ٹی وی کا گولڈن جوبلی سال ہے اس سال کے گیارہویں مہینے کی 26 تاریخ کو یہ ادارہ پورے پچاس برس کا ہو جائے گا اسی رعایت سے پی ٹی وی نے اس پورے سال میں خصوصی پروگرام ٹیلی کاسٹ کرنے کا اعلان کیا ہے جن میں سے ایک ''نصف صدی کا قصہ'' بھی ہے جو ہر ہفتے اور اتوار کی رات 11 بجے سے ایک بجے تک براہ راست نشر کیا جاتا ہے جس کے کمپیئر عمار مسعود ہیں جو اس سے قبل ''رات گئے'' جیسے مقبول اور منفرد پروگرام کی ابتدائی ٹیم کے سرگرم رکن اور کمپیئر رہ چکے ہیں اور اس بار بھی اس نسبتاً طویل دورانیے کے Live پروگرام کو بڑی محنت اور مہارت سے پیش کر رہے ہیں جس کا مقصد ناظرین کو گزشتہ پچاس برس کی تاریخ' کارناموں' بہترین پروگراموں اور ان میں حصہ لینے والے پیش اور پس پردہ فن کاروں سے متعارف کرانا ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ پی ٹی وی کا یہ سفر کس قدر روشن کامیاب اور درخشندہ ہے۔
یہاں تک تو بات بڑی صاف واضح اور منطقی ہے بلاشبہ پی ٹی وی کا گزرا ہوا کل بہت شاندار اور قابل تعریف ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کا ''آج'' ان روایات کی پاسداری کر رہا ہے جن کی وجہ سے اس ادارے کو یہ عزت اور کامیابیاں ملیں اور یہ کہ کیا اس کا آنے والا ''کل'' بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو گا یا بقول غالب اس کا وہ حال ہو گا کہ ''دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو'' یا پھر اقبال کے لفظوں میں بات کچھ اس طرح سے ہوگی کہ
تھے وہ آبا تو تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
سو پی ٹی وی کے اس نصف صدی کے قصے کو اگر ''کل۔ آج اور کل'' کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک ایسی تصویر سامنے آتی ہے جسے مختصر ترین الفاظ میں ''ایسی بلندی' ایسی پستی'' کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا، 1976 میں پی ٹی وی بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین نشریات کے دور میں داخل ہو گیا اور تکنیکی اعتبار سے اسے تقریباً وہ تمام سہولیات میسر ہونا شروع ہو گئیں جنھیں عالمی معیار کا حامل قرار دیا جا سکتا تھا۔ ان بارہ برسوں میں تجربے اور سہولیات کی کمی کے باوجود بہت اعلیٰ درجے کا کام سامنے آیا (ہر دور کے عمدہ کام کرنے والوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ یہ پورا کالم اس کے لیے کم پڑے گا سو میں فی الوقت اس سے گریز کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں) 1975 سے 1995 تک کے عرصے کو پی ٹی وی کا سنہرا یا بھرپور جوانی کا دور کہا جا سکتا ہے، اس زمانے میں ڈرامے' میوزک اور تفریحی پروگراموں کے ایسے معیارات وضع اور قائم ہوئے جن کی وجہ سے پی ٹی وی کو بے مثال مقبولیت حاصل ہوئی اور یوں لگتا تھا جیسے اب یہ سورج کبھی غروب نہیں ہو گا مگر ہوا یوں کہ پی ٹی وی کے پالیسی سازوں نے اس کامیابی کے نشے میں اس حقیقت کو فراموش کر دیا کہ شہرت اور مقبولیت بھی اس وقت تک دیرپا اور مستقل نہیں ہوتے جب تک ان کے پیچھے مسلسل محنت' تیاری' صلاحیتوں کا بہترین استعمال' مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا شعور اور بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ مثبت انداز میں خود کو بدلنے کی اہلیت شامل نہ ہو۔بدقسمتی سے پی ٹی وی نے اس خرگوش کی پیروی کا رستہ اختیار کیا جس نے بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لی تھیں چنانچہ جب پرائیویٹ چینلز کے سیلابی دور کا آغاز ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے پی ٹی وی ''لیڈر'' کے درجے سے گر کر Also Ran کی صف میں داخل ہونا شروع ہو گیا اور بجائے اس کے کہ نئے اور ناتجربہ کار اور نسبتاً محدود وسائل کے حامل چینل اس کی پیروی کرتے یہ خود ان کے پیچھے پیچھے چلنا شروع ہو گیا۔
اس موضوع پر انشاء اللہ مزید بات بھی ہو گی لیکن فی الوقت میں اس ادارے کے کارپردازان بالخصوص متعلقہ وزیر برادرم پرویز رشید کی توجہ ایک ایسے مسئلے کی جانب منعطف کرانا چاہتا ہوں جو بے حد شرمناک بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں پی ٹی وی وہ واحد چینل ہے جو پاکستان کے ہر اس گھر سے جہاں بجلی کا میٹر نصب ہے 35 روپے مہینہ بالواسطہ ٹیکس لیتا ہے اور یہ رقم غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق تقریباً دو ارب ماہانہ ہے جب کہ اشتہارات کے حوالے سے بھی پی ٹی وی کے ریٹ نہ صرف سب سے زیادہ ہیں بلکہ ملک گیر ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد بھی غیر معمولی ہے لیکن اس سب کے باوجود گزشتہ تقریباً ڈیڑھ برس سے مختلف پروگراموں میں حصہ لینے والے فن کاروں اور مہمانوں کو وہ ادائیگی نہیں کی جا رہی جو ان کا قانونی حق ہے اب اس بحث میں پڑے بغیر کہ اتنی خطیر آمدنی کے باوجود یہ ادائیگی کیوں نہیں کی جا رہی میں دوبارہ اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کی وجہ سے پی ٹی وی کماتا اور اپنے افسروں اور ملازمین کو بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات دیتا ہے ان کے ساتھ ظلم کا یہ سلسلہ بند کیا جائے۔
مجھ سمیت زیادہ سے زیادہ 10% لوگ ایسے ہوں گے جن کے لیے یہ چیک ''روز گار'' کی حیثیت نہیں رکھتے اور وہ اس تاخیر کو ناپسندیدگی ہی سے سہی مگر برداشت کر سکتے ہیں مگر اصل مسئلہ تو ان 90% فن کاروں کا ہے جن کے گھر کا چولہا انھی چھوٹے موٹے کاموں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے جلتا ہے۔ وزیر محترم پرویز رشید صاحب اور سیکریٹری اطلاعات نذیر سعید صاحبان کا شمار پڑھے لکھے' درد مند اور اچھی شہرت رکھنے والے تجربہ کار لوگوں میں ہوتا ہے اور میرے علم کے مطابق وہ اس صوت حال سے مکمل طور پر باخبر بھی ہیں، سو پی ٹی وی کی نصف صدی کے اس قصے کو ظلم زیادتی اور بے انصافی سے پاک رکھنا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت پی ٹی وی کے ملازمین' انتظامیہ اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے فن کار سب کے سب بہت پریشان آزردہ اور کنفیوزڈ ہیں اور اگر یہ بے دلی کی لہر اسی طرح جاری رہی تو عین ممکن ہے کہ 26 نومبر 2014 تک حالات اس قدر خراب ہو جائیں کہ اس عہد ساز دن کا سارا لطف ہی غارت ہو جائے۔
یہاں تک تو بات بڑی صاف واضح اور منطقی ہے بلاشبہ پی ٹی وی کا گزرا ہوا کل بہت شاندار اور قابل تعریف ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کا ''آج'' ان روایات کی پاسداری کر رہا ہے جن کی وجہ سے اس ادارے کو یہ عزت اور کامیابیاں ملیں اور یہ کہ کیا اس کا آنے والا ''کل'' بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو گا یا بقول غالب اس کا وہ حال ہو گا کہ ''دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو'' یا پھر اقبال کے لفظوں میں بات کچھ اس طرح سے ہوگی کہ
تھے وہ آبا تو تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
سو پی ٹی وی کے اس نصف صدی کے قصے کو اگر ''کل۔ آج اور کل'' کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک ایسی تصویر سامنے آتی ہے جسے مختصر ترین الفاظ میں ''ایسی بلندی' ایسی پستی'' کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا، 1976 میں پی ٹی وی بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین نشریات کے دور میں داخل ہو گیا اور تکنیکی اعتبار سے اسے تقریباً وہ تمام سہولیات میسر ہونا شروع ہو گئیں جنھیں عالمی معیار کا حامل قرار دیا جا سکتا تھا۔ ان بارہ برسوں میں تجربے اور سہولیات کی کمی کے باوجود بہت اعلیٰ درجے کا کام سامنے آیا (ہر دور کے عمدہ کام کرنے والوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ یہ پورا کالم اس کے لیے کم پڑے گا سو میں فی الوقت اس سے گریز کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں) 1975 سے 1995 تک کے عرصے کو پی ٹی وی کا سنہرا یا بھرپور جوانی کا دور کہا جا سکتا ہے، اس زمانے میں ڈرامے' میوزک اور تفریحی پروگراموں کے ایسے معیارات وضع اور قائم ہوئے جن کی وجہ سے پی ٹی وی کو بے مثال مقبولیت حاصل ہوئی اور یوں لگتا تھا جیسے اب یہ سورج کبھی غروب نہیں ہو گا مگر ہوا یوں کہ پی ٹی وی کے پالیسی سازوں نے اس کامیابی کے نشے میں اس حقیقت کو فراموش کر دیا کہ شہرت اور مقبولیت بھی اس وقت تک دیرپا اور مستقل نہیں ہوتے جب تک ان کے پیچھے مسلسل محنت' تیاری' صلاحیتوں کا بہترین استعمال' مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا شعور اور بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ مثبت انداز میں خود کو بدلنے کی اہلیت شامل نہ ہو۔بدقسمتی سے پی ٹی وی نے اس خرگوش کی پیروی کا رستہ اختیار کیا جس نے بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لی تھیں چنانچہ جب پرائیویٹ چینلز کے سیلابی دور کا آغاز ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے پی ٹی وی ''لیڈر'' کے درجے سے گر کر Also Ran کی صف میں داخل ہونا شروع ہو گیا اور بجائے اس کے کہ نئے اور ناتجربہ کار اور نسبتاً محدود وسائل کے حامل چینل اس کی پیروی کرتے یہ خود ان کے پیچھے پیچھے چلنا شروع ہو گیا۔
اس موضوع پر انشاء اللہ مزید بات بھی ہو گی لیکن فی الوقت میں اس ادارے کے کارپردازان بالخصوص متعلقہ وزیر برادرم پرویز رشید کی توجہ ایک ایسے مسئلے کی جانب منعطف کرانا چاہتا ہوں جو بے حد شرمناک بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں پی ٹی وی وہ واحد چینل ہے جو پاکستان کے ہر اس گھر سے جہاں بجلی کا میٹر نصب ہے 35 روپے مہینہ بالواسطہ ٹیکس لیتا ہے اور یہ رقم غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق تقریباً دو ارب ماہانہ ہے جب کہ اشتہارات کے حوالے سے بھی پی ٹی وی کے ریٹ نہ صرف سب سے زیادہ ہیں بلکہ ملک گیر ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد بھی غیر معمولی ہے لیکن اس سب کے باوجود گزشتہ تقریباً ڈیڑھ برس سے مختلف پروگراموں میں حصہ لینے والے فن کاروں اور مہمانوں کو وہ ادائیگی نہیں کی جا رہی جو ان کا قانونی حق ہے اب اس بحث میں پڑے بغیر کہ اتنی خطیر آمدنی کے باوجود یہ ادائیگی کیوں نہیں کی جا رہی میں دوبارہ اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کی وجہ سے پی ٹی وی کماتا اور اپنے افسروں اور ملازمین کو بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات دیتا ہے ان کے ساتھ ظلم کا یہ سلسلہ بند کیا جائے۔
مجھ سمیت زیادہ سے زیادہ 10% لوگ ایسے ہوں گے جن کے لیے یہ چیک ''روز گار'' کی حیثیت نہیں رکھتے اور وہ اس تاخیر کو ناپسندیدگی ہی سے سہی مگر برداشت کر سکتے ہیں مگر اصل مسئلہ تو ان 90% فن کاروں کا ہے جن کے گھر کا چولہا انھی چھوٹے موٹے کاموں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے جلتا ہے۔ وزیر محترم پرویز رشید صاحب اور سیکریٹری اطلاعات نذیر سعید صاحبان کا شمار پڑھے لکھے' درد مند اور اچھی شہرت رکھنے والے تجربہ کار لوگوں میں ہوتا ہے اور میرے علم کے مطابق وہ اس صوت حال سے مکمل طور پر باخبر بھی ہیں، سو پی ٹی وی کی نصف صدی کے اس قصے کو ظلم زیادتی اور بے انصافی سے پاک رکھنا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت پی ٹی وی کے ملازمین' انتظامیہ اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے فن کار سب کے سب بہت پریشان آزردہ اور کنفیوزڈ ہیں اور اگر یہ بے دلی کی لہر اسی طرح جاری رہی تو عین ممکن ہے کہ 26 نومبر 2014 تک حالات اس قدر خراب ہو جائیں کہ اس عہد ساز دن کا سارا لطف ہی غارت ہو جائے۔