سیاسی ناراضی کو ملک دشمنی مت بنائیں
عمران خان نے مگر کسی کی ناپسندیدگی کی قطعی کوئی پروا نہیں کی تھی
جناب عمران خان نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے سے قبل، پی ٹی آئی کے ایک جلسے میں، سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں بجلی کے بِل جلائے تھے۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت میں خان صاحب کا یہ احتجاجی عمل اور فعل کسی بھی رُخ سے قابلِ ستائش نہیں تھا۔
ملک بھر کے اہلِ نظر نے بھی اسے پسند نہیں کیا تھا۔ عمران خان نے مگر کسی کی ناپسندیدگی کی قطعی کوئی پروا نہیں کی تھی۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت ہی میں پھر انھوں نے بیرونِ ملک بسنے والے اپنے پیروکاروں اور عشاق کو یہ ''حکم'' بھی دیا تھا کہ وہ پاکستان اگر اپنی رقوم بھجوائیں تو بینکوں کے ذریعے نہیں بلکہ ہنڈی کے ذریعے بھجوائیں۔
مقصد یہ تھا کہ حکومت کو معاشی اعتبار سے زک پہنچائی جائے۔ اپنے سیاسی مخالفین کو تکلیف پہنچانے کی نیت سے کوئی سیاستدان اتنی دُور بھی جا سکتا ہے کہ ملکی معیشت اور قومی وقار کی نشا نیاں بھی اس کی زَد میں آ جائیں؟خان صاحب نے یہ اقدامات کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔
ہم نے اُس وقت بھی جناب عمران خان کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ انھیں نواز حکومت کو گرانے کے شوق میں اس قدر آگے نکلنے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ بھی عرض کیا گیا تھا کہ آج خان صاحب اپنے پیروکاروں اور ووٹروں کو جو پٹی پڑھانے کی کوشش کررہے ہیں، کل کو یہی آموختہ کوئی بھیانک شکل اختیار کر سکتا ہے ۔ اب اس عمرانی ''درس '' کے کئی منفی نتائج سامنے آ نے بھی لگے ہیں ۔
سابق وزیر اعظم جناب عمران خان تقریباً پونے چار سال حکومت کرنے کے بعد اب اقتدار سے محروم ہو چکے ہیں ۔اپوزیشن نے تحریکِ عدم اعتماد کی طاقت سے وزارتِ عظمیٰ کا تاج چھین لیا ہے، اب میاں محمد شہباز شریف صاحب وزیر اعظم بن چکے ہیں۔
عمران خان صاحب اور اُن کے اندرون و بیرونِ ملک عشاق کو زوال کے یہ مناظر آنکھوں میں کانٹوں کی طرح چبھ رہے ہیں ۔ اندرونِ ملک پی ٹی آئی کے وابستگان اور کارکنان اپنے لیڈر کے اشاروں پر احتجاج بھی کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کچھ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس متعینہ حدود سے تجاوز بھی کر چکے ہیں۔ کئی ایک اپنے کیے کی سزا بھی بھگت رہے ہیں ۔
مبینہ طور پر کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں۔ یہ تو مگر ابھی آغاز ہے۔افواجِ پاکستان کی قیادت کی طرف سے بھی تجاوز کنندگان کو ایک واضح وارننگ آئی ہے ۔ اگر اِس شریفانہ انتباہ کوکافی نہ سمجھا گیا تو پھر کوئی مزید سخت ترین قدم اُٹھائے جانے کی ہم سب کو اُمید اور توقع رکھنی چاہیے۔
جناب عمران خان کو اقتدار سے آئینی اسلوب میں محروم کیے جانے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ خان صاحب کے پیروکار اجتماعی قومی مفادات، قومی اداروں اور حساس شخصیات پر بے محابہ حملہ آور ہو جائیں۔ یہ عمل کسی طور بھی قابلِ برداشت نہیں ہے۔ ہم یہ اندوہناک مناظر دیکھ کر اشکبار ہو گئے ہیں کہ خان صاحب کی حکومت کے خاتمے پر امریکا میں مقیم اُن کے چاہنے والوں میں سے کچھ پاکستانی نژاد امریکی عناصر نے پاکستانی پاسپورٹوں کو نذرِ آتش کر دیا ہے ۔ یہ دل دہلا دینے والے مناظر وائرل ہو کر لاکھوں دیکھنے والوں کے لیے طیش کا باعث بن گئے ہیں ۔اور یہ منظر تو اور بھی جانکاہ محسوس ہُوا کہ جب تین پاکستانی پی ٹی آئی کے مذکورہ کارکنان پاکستانی پاسپورٹوں کو جلا رہے تھے تو اُن کے عقب میں امریکی پرچم لہرا رہا تھا ۔
ایک بدبخت نے پاکستانی پرچم بھی جلایا ہے ۔ مزید دکھ بھری بات یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین جناب عمران خان نے ابھی تک ان دلدوز مناظر اور سیاہ عمل کرنے والوں کی مذمت نہیں کی ہے ۔ 13اپریل کی رات پشاور میں پی ٹی آئی کا جلسہ تھا۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد خان صاحب کا یہ پہلا عوامی اجتماع تھا۔ ہمیں اُمید تھی کہ خان صاحب اس جلسے سے خطاب کرتے ہُوئے ان دونوں سانحات کی کھلے اور غیر مبہم الفاظ میں مذمت کریں گے ۔ ایسا مگر نہ ہو سکا ۔ تو پھر اس خاموشی کا ہم کیا مطلب اخذ کریں؟
وطنِ عزیز میں عمران خان صاحب پہلے منتخب وزیر اعظم نہیں ہیں جنھیں وقت سے پہلے ہی مجبوراً اقتدار سے چلتا کیا گیا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے نہ صرف زبردستی رخصت کیا گیا بلکہ انھیں پھانسی پر بھی چڑھنا پڑا۔ پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کے پیروکاروں اور عشاق نے مگر نہ پاکستانی پرچم جلایا اور نہ ہی پاکستانی پاسپورٹ جلانے کی جرأت وجسارت کی ۔ بھٹو کے چاہنے والوں نے احتجاج میں خود کو جلا تو ڈالا تھا لیکن یہ گندی اور دل آزار حرکت نہیں کی تھی۔ جناب نواز شریف کو بھی اقتدار سے نہ صرف تین بار جبراً رخصت کیا گیا بلکہ انھیں حوالہ زندان بھی کیا گیا اور جلاوطنی کے عذابوں میں سے بھی گزارا گیا۔
نون لیگ اور نواز شریف کے وابستگان نے بھی مگر ایسی کوئی حرکت نہ کی کہ دل جل اُٹھیں۔ اور ابھی تو جناب عمران خان کے ساتھ ، ریاستی سطح پر، ہُواہی کچھ نہیں۔ انھیں (خدانخواستہ) نہ جیل کی سزا ہُوئی ہے اور نہ ہی انھیں جلاوطن کیا گیا ہے۔ پھر خان صاحب کے پیروکار طیش میں آکر ٹھنڈے دودھ کو پھونکیں کیوں ماررہے ہیں؟ اوراگلے ہی روز خان صاحب کے ایک ناراض کارکن نے، عین افطاری کے وقت، اسلام آباد کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں جو تماشہ لگایا ، اسے اب تک سوشل میڈیا کے توسط سے لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں ۔
اِس ضمن میں ایم این اے نور عالم، فیصل کریم کنڈی ، سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر اور ندیم افضل چن صاحبان کی طرف سے جو عینی شہادتیں آئی ہیں، انھیں ہم کیسے اور کیونکر نظر انداز کر سکتے ہیں؟ تین دن پہلے جناب عمران خان کے ناراض کارکنان نے لاہور میں ایک سینئر صحافی ( نصراللہ ملک صاحب) کا گھیراؤ کرکے جس بیہودگی کا مظاہرہ کیا ہے ،اس کی بازگشت بھی ابھی تک مدہم نہیں پڑی ہے اور ان سب دلگرفتہ مظاہروں کے بالمقابل عمران خان مہر بہ لب ہیں۔
بیرونِ ملک خان صاحب کے چند چاہنے والوں نے غصے سے مغلوب ہو کر جو دل آزار حرکات کی ہیں ، ہمیں یقیناً معلوم ہے کہ اووَرسیز پاکستانیوں کی اکثریت ایسی نہیں ہے۔ اکثر یت اُن سمندر پار پاکستانیوں کی ہے جو ڈبل پاسپورٹ رکھنے کے باوصف پاکستانی پاسپورٹ سے محبت کرتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میرا دل اس قدر دُکھا ہُوا تھا کہ مَیں نے اپنی تسلی کے لیے نیویارک میں مقیم ایک پاکستانی شخصیت (سردار نصراللہ صاحب ، جو خود لاہور اور نیویارک میں ایک معروف سیاسی و سماجی حیثیت رکھتے ہیں)کو فون کرکے اس سانحہ کا ذکر کیا ۔ سردار صاحب خان صاحب کو چاہنے والوں میں سے ایک ہیں۔
کہنے لگے: '' اس خبر پر افسوس ہُوا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی اکثریت میںپاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانی پرچم کو دل و جاں کے قریب رکھتی ہے ۔''اللہ کرے ایسا ہی ہو ۔ پھر راقم نے برطانیہ میں بروئے کار ایک معروف این جی او کے چیئرمین، عبدالرزاق ساجد صاحب، کو فون کرکے اس سانحہ پر تبصرہ کرنے کو کہا تو انھوں نے ترنت کہا: ''پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانی پرچم نے ہمیں منفرد پہچان سے نواز رکھا ہے ۔ ہم تو دونوں کی توہین کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔'' سیاسی ناراضیاں بہرحال ملک دشمنی میں نہیں ڈھلنی چاہئیں ۔
ملک بھر کے اہلِ نظر نے بھی اسے پسند نہیں کیا تھا۔ عمران خان نے مگر کسی کی ناپسندیدگی کی قطعی کوئی پروا نہیں کی تھی۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت ہی میں پھر انھوں نے بیرونِ ملک بسنے والے اپنے پیروکاروں اور عشاق کو یہ ''حکم'' بھی دیا تھا کہ وہ پاکستان اگر اپنی رقوم بھجوائیں تو بینکوں کے ذریعے نہیں بلکہ ہنڈی کے ذریعے بھجوائیں۔
مقصد یہ تھا کہ حکومت کو معاشی اعتبار سے زک پہنچائی جائے۔ اپنے سیاسی مخالفین کو تکلیف پہنچانے کی نیت سے کوئی سیاستدان اتنی دُور بھی جا سکتا ہے کہ ملکی معیشت اور قومی وقار کی نشا نیاں بھی اس کی زَد میں آ جائیں؟خان صاحب نے یہ اقدامات کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔
ہم نے اُس وقت بھی جناب عمران خان کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ انھیں نواز حکومت کو گرانے کے شوق میں اس قدر آگے نکلنے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ بھی عرض کیا گیا تھا کہ آج خان صاحب اپنے پیروکاروں اور ووٹروں کو جو پٹی پڑھانے کی کوشش کررہے ہیں، کل کو یہی آموختہ کوئی بھیانک شکل اختیار کر سکتا ہے ۔ اب اس عمرانی ''درس '' کے کئی منفی نتائج سامنے آ نے بھی لگے ہیں ۔
سابق وزیر اعظم جناب عمران خان تقریباً پونے چار سال حکومت کرنے کے بعد اب اقتدار سے محروم ہو چکے ہیں ۔اپوزیشن نے تحریکِ عدم اعتماد کی طاقت سے وزارتِ عظمیٰ کا تاج چھین لیا ہے، اب میاں محمد شہباز شریف صاحب وزیر اعظم بن چکے ہیں۔
عمران خان صاحب اور اُن کے اندرون و بیرونِ ملک عشاق کو زوال کے یہ مناظر آنکھوں میں کانٹوں کی طرح چبھ رہے ہیں ۔ اندرونِ ملک پی ٹی آئی کے وابستگان اور کارکنان اپنے لیڈر کے اشاروں پر احتجاج بھی کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کچھ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس متعینہ حدود سے تجاوز بھی کر چکے ہیں۔ کئی ایک اپنے کیے کی سزا بھی بھگت رہے ہیں ۔
مبینہ طور پر کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں۔ یہ تو مگر ابھی آغاز ہے۔افواجِ پاکستان کی قیادت کی طرف سے بھی تجاوز کنندگان کو ایک واضح وارننگ آئی ہے ۔ اگر اِس شریفانہ انتباہ کوکافی نہ سمجھا گیا تو پھر کوئی مزید سخت ترین قدم اُٹھائے جانے کی ہم سب کو اُمید اور توقع رکھنی چاہیے۔
جناب عمران خان کو اقتدار سے آئینی اسلوب میں محروم کیے جانے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ خان صاحب کے پیروکار اجتماعی قومی مفادات، قومی اداروں اور حساس شخصیات پر بے محابہ حملہ آور ہو جائیں۔ یہ عمل کسی طور بھی قابلِ برداشت نہیں ہے۔ ہم یہ اندوہناک مناظر دیکھ کر اشکبار ہو گئے ہیں کہ خان صاحب کی حکومت کے خاتمے پر امریکا میں مقیم اُن کے چاہنے والوں میں سے کچھ پاکستانی نژاد امریکی عناصر نے پاکستانی پاسپورٹوں کو نذرِ آتش کر دیا ہے ۔ یہ دل دہلا دینے والے مناظر وائرل ہو کر لاکھوں دیکھنے والوں کے لیے طیش کا باعث بن گئے ہیں ۔اور یہ منظر تو اور بھی جانکاہ محسوس ہُوا کہ جب تین پاکستانی پی ٹی آئی کے مذکورہ کارکنان پاکستانی پاسپورٹوں کو جلا رہے تھے تو اُن کے عقب میں امریکی پرچم لہرا رہا تھا ۔
ایک بدبخت نے پاکستانی پرچم بھی جلایا ہے ۔ مزید دکھ بھری بات یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین جناب عمران خان نے ابھی تک ان دلدوز مناظر اور سیاہ عمل کرنے والوں کی مذمت نہیں کی ہے ۔ 13اپریل کی رات پشاور میں پی ٹی آئی کا جلسہ تھا۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد خان صاحب کا یہ پہلا عوامی اجتماع تھا۔ ہمیں اُمید تھی کہ خان صاحب اس جلسے سے خطاب کرتے ہُوئے ان دونوں سانحات کی کھلے اور غیر مبہم الفاظ میں مذمت کریں گے ۔ ایسا مگر نہ ہو سکا ۔ تو پھر اس خاموشی کا ہم کیا مطلب اخذ کریں؟
وطنِ عزیز میں عمران خان صاحب پہلے منتخب وزیر اعظم نہیں ہیں جنھیں وقت سے پہلے ہی مجبوراً اقتدار سے چلتا کیا گیا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے نہ صرف زبردستی رخصت کیا گیا بلکہ انھیں پھانسی پر بھی چڑھنا پڑا۔ پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کے پیروکاروں اور عشاق نے مگر نہ پاکستانی پرچم جلایا اور نہ ہی پاکستانی پاسپورٹ جلانے کی جرأت وجسارت کی ۔ بھٹو کے چاہنے والوں نے احتجاج میں خود کو جلا تو ڈالا تھا لیکن یہ گندی اور دل آزار حرکت نہیں کی تھی۔ جناب نواز شریف کو بھی اقتدار سے نہ صرف تین بار جبراً رخصت کیا گیا بلکہ انھیں حوالہ زندان بھی کیا گیا اور جلاوطنی کے عذابوں میں سے بھی گزارا گیا۔
نون لیگ اور نواز شریف کے وابستگان نے بھی مگر ایسی کوئی حرکت نہ کی کہ دل جل اُٹھیں۔ اور ابھی تو جناب عمران خان کے ساتھ ، ریاستی سطح پر، ہُواہی کچھ نہیں۔ انھیں (خدانخواستہ) نہ جیل کی سزا ہُوئی ہے اور نہ ہی انھیں جلاوطن کیا گیا ہے۔ پھر خان صاحب کے پیروکار طیش میں آکر ٹھنڈے دودھ کو پھونکیں کیوں ماررہے ہیں؟ اوراگلے ہی روز خان صاحب کے ایک ناراض کارکن نے، عین افطاری کے وقت، اسلام آباد کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں جو تماشہ لگایا ، اسے اب تک سوشل میڈیا کے توسط سے لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں ۔
اِس ضمن میں ایم این اے نور عالم، فیصل کریم کنڈی ، سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر اور ندیم افضل چن صاحبان کی طرف سے جو عینی شہادتیں آئی ہیں، انھیں ہم کیسے اور کیونکر نظر انداز کر سکتے ہیں؟ تین دن پہلے جناب عمران خان کے ناراض کارکنان نے لاہور میں ایک سینئر صحافی ( نصراللہ ملک صاحب) کا گھیراؤ کرکے جس بیہودگی کا مظاہرہ کیا ہے ،اس کی بازگشت بھی ابھی تک مدہم نہیں پڑی ہے اور ان سب دلگرفتہ مظاہروں کے بالمقابل عمران خان مہر بہ لب ہیں۔
بیرونِ ملک خان صاحب کے چند چاہنے والوں نے غصے سے مغلوب ہو کر جو دل آزار حرکات کی ہیں ، ہمیں یقیناً معلوم ہے کہ اووَرسیز پاکستانیوں کی اکثریت ایسی نہیں ہے۔ اکثر یت اُن سمندر پار پاکستانیوں کی ہے جو ڈبل پاسپورٹ رکھنے کے باوصف پاکستانی پاسپورٹ سے محبت کرتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میرا دل اس قدر دُکھا ہُوا تھا کہ مَیں نے اپنی تسلی کے لیے نیویارک میں مقیم ایک پاکستانی شخصیت (سردار نصراللہ صاحب ، جو خود لاہور اور نیویارک میں ایک معروف سیاسی و سماجی حیثیت رکھتے ہیں)کو فون کرکے اس سانحہ کا ذکر کیا ۔ سردار صاحب خان صاحب کو چاہنے والوں میں سے ایک ہیں۔
کہنے لگے: '' اس خبر پر افسوس ہُوا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی اکثریت میںپاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانی پرچم کو دل و جاں کے قریب رکھتی ہے ۔''اللہ کرے ایسا ہی ہو ۔ پھر راقم نے برطانیہ میں بروئے کار ایک معروف این جی او کے چیئرمین، عبدالرزاق ساجد صاحب، کو فون کرکے اس سانحہ پر تبصرہ کرنے کو کہا تو انھوں نے ترنت کہا: ''پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانی پرچم نے ہمیں منفرد پہچان سے نواز رکھا ہے ۔ ہم تو دونوں کی توہین کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔'' سیاسی ناراضیاں بہرحال ملک دشمنی میں نہیں ڈھلنی چاہئیں ۔