عمران خان کی سیاست کیا رنگ لائے گی
ہم نے آپسی لڑائیاں لڑ لڑ کر ملک کی ہر چیز بیچ ڈالی ہے
BRUSSELS:
آج کل ہماری سیاست کا کیا حال ہے؟ ہم نے آپسی لڑائیاں لڑ لڑ کر ملک کی ہر چیز بیچ ڈالی ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ ہم اب بھی باز آنے سے گریزاں ہے۔ ابھی بھی اگر اپوزیشن خاص تو پر تحریک انصاف احتجاجی سیاست کے لیے جلسے جلوس کر رہی ہے تو حکمران جماعتیں یعنی پی ڈی ایم اُس سے بڑے جلسے کرنے کا اعلان کر رہی ہیں۔
یقیناً اس قسم کی سیاست ملکی مفاد میں نہیں مگر انھیں سمجھائے کون؟ اور پھر عمران خان ہی کی اگر بات کریں تو وہ آج بھی کریز سے باہر نکل کر کھیل رہے ہیں، مثلاََ اُن کا حالیہ بیانیہ ''امریکا غدار ہے'' یا جو امریکا کا یار ہے وہ غدار ہے غدار ہے، ایسے بیانیے عوام میں مقبول تو ہور ہے ہیں اور ماضی میں بھی ایسے نعرے بلند ہوتے رہے اور سیاسی لیڈر وقتی مقبولیت کے لیے ملک کو نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ، یہ سب کچھ ہماری تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔لیکن ایسا کرنے والے سیاسی قائد اور سیاسی جماعت کو سوچنا چاہیے کہ ہم تیسری دنیا کے لوگ ہیںاور تھرڈ ورلڈ کنٹری یعنی تیسری دنیا کے ممالک میں سے ہیں۔
اس وقت تیسری دنیا(یعنی تھڑڈ ورلڈ) کے 170 کے لگ بھگ ترقی پذیر ،پسماندہ اور بدحال ممالک، امریکا، مغربی یورپ،کینیڈا ، آسٹریلیا،جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ترقی یافتہ ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی مدد کے محتاج ہیں۔
لہٰذاان تیسری دنیا کے تمام ممالک کا مسئلہ یہ ہے ان کی ہر بڑی شخصیت اور اشرافیہ کے مفادات امریکا اور یورپی یونین اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ جڑے ہیں، کہیں اُن کے بچے زیر تعلیم ہیں، تو کہیں جائیداد خریدی گئی ہیں، ریٹائرڈ بیوروکریسی وہاں شفٹ ہو چکی ہے اور اب یہ سب لوگ وہیں پر رہنا پسند کرتے ہیں۔اس لیے عمران خان جلسے وغیرہ کرکے شاید عوام میں مقبول تو ہو جائیں مگر بعض جگہوں پر آپ کو محتاط ہو کر کھیلنا پڑتا ہے۔ کسی سیاسی لیڈر کو اپنی کھال بچانے کے لیے ملک اور عوام کی کھال نہیں کھنچوانی چاہیے۔
رہی عوام کی بات تو یہ حقیقت ہے کہ ہمارے شہری جو امریکا جانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا لیتے ہیں، وہ امریکا پہنچ کر بھی غدار ہے امریکا غدار کے نعرے لگانے سے باز نہیں آتے۔ اور پھر خان صاحب سے اس قوم کی ابھی بہت سی توقعات ہیں، اُن کی پاکستانی سیاست میں انٹری واقعی کسی خواب سے کم نہیں، وہ حقیقت بن چکے ہیں۔
ابھی بہت سے لوگ اُن کے گرویدہ ہیں۔ جن کے ذریعے وہ اگلا الیکشن بھی جیت سکتے ہیں، مگر مسئلہ یہ بھی ہے کہ اُس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا ہم نے اپنی قوم کی تربیت کی ہے؟ کہ وہ گھاس کھا کر گزارہ کرلیں گے؟وہ بھوک کو برداشت کر لیں گے؟ یقین مانیں کہ یہاں تو 90فیصد لوگ کرپشن کے مارے ہوئے ہیں، اس لیے یہاں انقلاب کیسے لایا جا سکتا ہے؟ اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں اس سے پہلے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ابھی تو ہم ایک قوم بھی نہیں بنے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ ساری قوم مختلف طبقات اور گروہوں میں بٹ کر رہ گئی ہے۔ سبھی ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں۔
ملک میں جاری طاقت کی کشمکش کی بدولت سیاسی درجہ حرارت بلندیوں کو چھو رہا ہے اور یہ درجہ حرارت صرف طاقت کے ایوانوں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے دْور دراز کے تمام علاقوں،گلی کوچوں، قصبوں اور شہروں میں ایک ناسور کی طرح پھیل چکا ہے۔ گلی گلی' قریہ قریہ ایک نہ ختم ہو نے والی لاحاصل بحث جاری ہے۔لوگ باہم دست و گریباں ہیں۔سوشل میڈیا پرمختلف سیاسی وابستگی رکھنے والے لوگوں کے درمیان ایک مخاصمت کی فضا برقرار ہے۔ ہر شخص دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔
ہر ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تلا ہے۔ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ جو موقف وہ اختیار کیے ہوئے ہے، وہ مدلل، جامع اور وزنی ہے اور مخالف فریق کی بات لفظوں کی شعبدہ بازی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس ساری صورتحال کا ایک منطقی نتیجہ تو یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم' جو پہلے ہی مختلف طبقوں، گروہوں، فرقوں اور ذاتوں میں منقسم چلے آرہے تھے، مزید تقسیم کا شکار ہوچکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بات سبھی جانتے ہیں مگر کوئی بھی اس قوم کی تربیت کرنے اور اسے اپنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور پھر رہی بات خان صاحب کی تو بقول شاعر
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے
باغ تو سارا جانے ہے
بہرکیف بات عمران کی درست ہے کہ ہمیں کسی کی فرمانبرداری کی ضرورت نہیں، ہمیں کسی سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں وغیرہ وغیرہ لیکن اس کے لیے ہمیں تیاری تو کرنی چاہیے، اس کے لیے لائحہ عمل تو بنانا چاہیے، اس کے لیے ملک کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہیے، اس کے لیے ملکی پیداوار کو بڑھانا چاہیے، اس کے لیے ہمیں ہر حوالے سے خود مختار ہونا چاہیے، اس کے لیے ہمیں چین،روس یا امریکا کے تابع نہیں ہونا چاہیے، تب جا کر ہم انقلاب کی باتیں کریں تو وہ ہمیں زیب دیتی ہیں۔
اور یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ یہ خود خان صاحب کے ہوا کرتے تھے۔ 2018سے پہلے جب وہ اپوزیشن میں تھے تو پاکستانیوں کا جوش بڑھانے کے لیے بات بات پر یورپی ملکوں کا حوالہ دیتے تھے کہ فلاں یورپی ملک نے اس مشکل میں اپنی عوام کے لیے یہ کر دیا وہ کر دیا۔ ایسی مثالیں سن سن کر لوگوں کو اشتیاق ہوا کہ خان صاحب وزیراعظم بن گئے تو ہمارا ملک بھی یورپ کی طرح ہو جائے گا۔
جو کچھ وہاں ہوتا ہے ہمارے ہاں بھی ہوگا۔ لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد خان صاحب نے لائن بدل لی ۔اور ہر بات پر کہتے: دیکھیں اٹلی، برطانیہ اور امریکا کچھ نہیں کر سکے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ پھر فرماتے کہ آپ تھرڈ ورلڈ کے شہری ہیں اور تھرڈ ورلڈ کے شہری کی طرح ہی رہیں۔لہٰذااب اُن کی حکومت ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر اُن کا بیانیہ تبدیل ہو چکا ہے۔ اس لیے لگتا ہے کہ وہ بھی روایتی سیاستدان بن گئے ہیں۔
ہمارا کیا ہے ہم تو پہلے ہی 74 سال سے تھرڈ ورلڈ چلے آ رہے ہیں، اب چند سال مزید بھی رہ لیں گے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ لیکن خان صاحب اپنا بیانیہ بیان کرتے ہوئے یہ ضرور تسلیم کریں کہ فی الوقت نہ تو ہم ایک قوم ہیں، نہ ہم ایماندار ہیں، نہ ہمارے ادارے ٹھیک ہیں، نہ اس وقت ملک ترقی کر رہا ہے، نہ معیشت ٹھیک ہے، نہ حکمران ٹھیک ہیں اور نہ ہی اس فیصلہ کرنے والی قوتوں میں ملکی ترقی کے لیے سنجیدگی کا عنصر پایا جاتا ہے، لہٰذا ہمیں سب سے پہلے ترقی کرنی چاہیے، پھر اس قسم کے نعرے لگانے چاہیے ورنہ ہم دنیا سے کٹ کر رہ جائیں گے۔
آج کل ہماری سیاست کا کیا حال ہے؟ ہم نے آپسی لڑائیاں لڑ لڑ کر ملک کی ہر چیز بیچ ڈالی ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ ہم اب بھی باز آنے سے گریزاں ہے۔ ابھی بھی اگر اپوزیشن خاص تو پر تحریک انصاف احتجاجی سیاست کے لیے جلسے جلوس کر رہی ہے تو حکمران جماعتیں یعنی پی ڈی ایم اُس سے بڑے جلسے کرنے کا اعلان کر رہی ہیں۔
یقیناً اس قسم کی سیاست ملکی مفاد میں نہیں مگر انھیں سمجھائے کون؟ اور پھر عمران خان ہی کی اگر بات کریں تو وہ آج بھی کریز سے باہر نکل کر کھیل رہے ہیں، مثلاََ اُن کا حالیہ بیانیہ ''امریکا غدار ہے'' یا جو امریکا کا یار ہے وہ غدار ہے غدار ہے، ایسے بیانیے عوام میں مقبول تو ہور ہے ہیں اور ماضی میں بھی ایسے نعرے بلند ہوتے رہے اور سیاسی لیڈر وقتی مقبولیت کے لیے ملک کو نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ، یہ سب کچھ ہماری تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔لیکن ایسا کرنے والے سیاسی قائد اور سیاسی جماعت کو سوچنا چاہیے کہ ہم تیسری دنیا کے لوگ ہیںاور تھرڈ ورلڈ کنٹری یعنی تیسری دنیا کے ممالک میں سے ہیں۔
اس وقت تیسری دنیا(یعنی تھڑڈ ورلڈ) کے 170 کے لگ بھگ ترقی پذیر ،پسماندہ اور بدحال ممالک، امریکا، مغربی یورپ،کینیڈا ، آسٹریلیا،جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ترقی یافتہ ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی مدد کے محتاج ہیں۔
لہٰذاان تیسری دنیا کے تمام ممالک کا مسئلہ یہ ہے ان کی ہر بڑی شخصیت اور اشرافیہ کے مفادات امریکا اور یورپی یونین اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ جڑے ہیں، کہیں اُن کے بچے زیر تعلیم ہیں، تو کہیں جائیداد خریدی گئی ہیں، ریٹائرڈ بیوروکریسی وہاں شفٹ ہو چکی ہے اور اب یہ سب لوگ وہیں پر رہنا پسند کرتے ہیں۔اس لیے عمران خان جلسے وغیرہ کرکے شاید عوام میں مقبول تو ہو جائیں مگر بعض جگہوں پر آپ کو محتاط ہو کر کھیلنا پڑتا ہے۔ کسی سیاسی لیڈر کو اپنی کھال بچانے کے لیے ملک اور عوام کی کھال نہیں کھنچوانی چاہیے۔
رہی عوام کی بات تو یہ حقیقت ہے کہ ہمارے شہری جو امریکا جانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا لیتے ہیں، وہ امریکا پہنچ کر بھی غدار ہے امریکا غدار کے نعرے لگانے سے باز نہیں آتے۔ اور پھر خان صاحب سے اس قوم کی ابھی بہت سی توقعات ہیں، اُن کی پاکستانی سیاست میں انٹری واقعی کسی خواب سے کم نہیں، وہ حقیقت بن چکے ہیں۔
ابھی بہت سے لوگ اُن کے گرویدہ ہیں۔ جن کے ذریعے وہ اگلا الیکشن بھی جیت سکتے ہیں، مگر مسئلہ یہ بھی ہے کہ اُس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا ہم نے اپنی قوم کی تربیت کی ہے؟ کہ وہ گھاس کھا کر گزارہ کرلیں گے؟وہ بھوک کو برداشت کر لیں گے؟ یقین مانیں کہ یہاں تو 90فیصد لوگ کرپشن کے مارے ہوئے ہیں، اس لیے یہاں انقلاب کیسے لایا جا سکتا ہے؟ اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں اس سے پہلے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ابھی تو ہم ایک قوم بھی نہیں بنے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ ساری قوم مختلف طبقات اور گروہوں میں بٹ کر رہ گئی ہے۔ سبھی ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں۔
ملک میں جاری طاقت کی کشمکش کی بدولت سیاسی درجہ حرارت بلندیوں کو چھو رہا ہے اور یہ درجہ حرارت صرف طاقت کے ایوانوں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے دْور دراز کے تمام علاقوں،گلی کوچوں، قصبوں اور شہروں میں ایک ناسور کی طرح پھیل چکا ہے۔ گلی گلی' قریہ قریہ ایک نہ ختم ہو نے والی لاحاصل بحث جاری ہے۔لوگ باہم دست و گریباں ہیں۔سوشل میڈیا پرمختلف سیاسی وابستگی رکھنے والے لوگوں کے درمیان ایک مخاصمت کی فضا برقرار ہے۔ ہر شخص دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔
ہر ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تلا ہے۔ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ جو موقف وہ اختیار کیے ہوئے ہے، وہ مدلل، جامع اور وزنی ہے اور مخالف فریق کی بات لفظوں کی شعبدہ بازی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس ساری صورتحال کا ایک منطقی نتیجہ تو یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم' جو پہلے ہی مختلف طبقوں، گروہوں، فرقوں اور ذاتوں میں منقسم چلے آرہے تھے، مزید تقسیم کا شکار ہوچکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بات سبھی جانتے ہیں مگر کوئی بھی اس قوم کی تربیت کرنے اور اسے اپنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور پھر رہی بات خان صاحب کی تو بقول شاعر
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے
باغ تو سارا جانے ہے
بہرکیف بات عمران کی درست ہے کہ ہمیں کسی کی فرمانبرداری کی ضرورت نہیں، ہمیں کسی سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں وغیرہ وغیرہ لیکن اس کے لیے ہمیں تیاری تو کرنی چاہیے، اس کے لیے لائحہ عمل تو بنانا چاہیے، اس کے لیے ملک کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہیے، اس کے لیے ملکی پیداوار کو بڑھانا چاہیے، اس کے لیے ہمیں ہر حوالے سے خود مختار ہونا چاہیے، اس کے لیے ہمیں چین،روس یا امریکا کے تابع نہیں ہونا چاہیے، تب جا کر ہم انقلاب کی باتیں کریں تو وہ ہمیں زیب دیتی ہیں۔
اور یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ یہ خود خان صاحب کے ہوا کرتے تھے۔ 2018سے پہلے جب وہ اپوزیشن میں تھے تو پاکستانیوں کا جوش بڑھانے کے لیے بات بات پر یورپی ملکوں کا حوالہ دیتے تھے کہ فلاں یورپی ملک نے اس مشکل میں اپنی عوام کے لیے یہ کر دیا وہ کر دیا۔ ایسی مثالیں سن سن کر لوگوں کو اشتیاق ہوا کہ خان صاحب وزیراعظم بن گئے تو ہمارا ملک بھی یورپ کی طرح ہو جائے گا۔
جو کچھ وہاں ہوتا ہے ہمارے ہاں بھی ہوگا۔ لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد خان صاحب نے لائن بدل لی ۔اور ہر بات پر کہتے: دیکھیں اٹلی، برطانیہ اور امریکا کچھ نہیں کر سکے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ پھر فرماتے کہ آپ تھرڈ ورلڈ کے شہری ہیں اور تھرڈ ورلڈ کے شہری کی طرح ہی رہیں۔لہٰذااب اُن کی حکومت ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر اُن کا بیانیہ تبدیل ہو چکا ہے۔ اس لیے لگتا ہے کہ وہ بھی روایتی سیاستدان بن گئے ہیں۔
ہمارا کیا ہے ہم تو پہلے ہی 74 سال سے تھرڈ ورلڈ چلے آ رہے ہیں، اب چند سال مزید بھی رہ لیں گے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ لیکن خان صاحب اپنا بیانیہ بیان کرتے ہوئے یہ ضرور تسلیم کریں کہ فی الوقت نہ تو ہم ایک قوم ہیں، نہ ہم ایماندار ہیں، نہ ہمارے ادارے ٹھیک ہیں، نہ اس وقت ملک ترقی کر رہا ہے، نہ معیشت ٹھیک ہے، نہ حکمران ٹھیک ہیں اور نہ ہی اس فیصلہ کرنے والی قوتوں میں ملکی ترقی کے لیے سنجیدگی کا عنصر پایا جاتا ہے، لہٰذا ہمیں سب سے پہلے ترقی کرنی چاہیے، پھر اس قسم کے نعرے لگانے چاہیے ورنہ ہم دنیا سے کٹ کر رہ جائیں گے۔