ترجمان پاک فوج بمقابلہ فیس بکی فلاسفرز
تحریک انصاف کے بھولے کارکن ترجمان پاک فوج کے بیان کو اپنے مؤقف کی تائید سمجھ رہے ہیں
ISLAMABAD:
گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر بھونچال آگیا۔ ایک طرف ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، جب کہ دوسری جانب تحریک انصاف کے جنونی کارکنان نے ترجمان پاک فوج کے بیان کو اپنے مؤقف کی تائید سمجھتے ہوئے اندھادھند پوسٹیں شروع کردیں۔ الغرض ہر فیس بکی فلاسفر نے اپنی مرضی کے نکات جمع کیے اور ان پر اپنی تشریحات لگا کر اپنے حق میں لانے کی کوشش کی جاتی رہی۔
اس تمام صورتحال میں مجھے حیرانی اس وقت ہوئی جب مختلف ٹی وی چینلز میں بحیثیت تجزیہ کار بلائے جانے والے معزز صحافی حضرات اور ٹی وی اینکرز نے بھی ترجمان پاک کے بیان کو سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے مؤقف کی تائید گردانا۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ ان میں سے ایک کو بھی سازش اور مداخلت کا فرق سمجھ نہیں آرہا تھا، کیوں کہ وہ تمام حضرات طنزیہ انداز میں کہتے نظر آئے کہ آئندہ کوئی ملک پاکستان میں مداخلت تو کرسکتا ہے لیکن سازش نہیں کرسکتا۔ کسی نے کہا کہ واضح ہوگیا کہ خط اصلی تھا اور مداخلت کا بیانیہ بھی درست تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ مداخلت ہی کی بنیاد پر نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اعلامیے میں نہ صرف اس پر احتجاج کیا گیا بلکہ اس کو ملکی مداخلت تسلیم کیا گیا۔
اب آجایئے ان دوستوں کی جانب جو سازش اور مداخلت کا فرق جانے بغیر اپنے ناقص علم پر ماتم کرنے کے بجائے ترجمان پاک فوج پر طنز کرتے نظر آئے۔ اصل میں انہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ مداخلت فریق واحد کرتا ہے، جب کہ سازش میں دو یا دو سے زائد فریقین ہوتے ہیں، اور اگر اسی تناظر میں سابق وزیراعظم عمران خان کا بیان ہی سن لیا جاتا تو شاید یہ فرق بتانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ انہوں نے کہا تھا کہ امریکا نے ایک سیٹنگ گورنمنٹ یعنی حکومت کا تختہ الٹنے کی مداخلت کی جب کہ اس سازش میں پاکستان کے اندر بیٹھے ہوئے سیاستدان بھی شامل ہیں۔ عمران خان نے نام لے کر کہا تھا کہ اس سازش میں ن لیگ کے قائد نوازشریف، صدر شہبازشریف، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان شامل ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے واضح الفاظ میں کہا کہ قومی سلامتی کونسل کے اعلامیے میں مداخلت کا ذکر تھا۔ اب اس جملے کو تحریک انصاف کے دوستوں نے ایسے تھاما جیسے ہوا میں جھولتی کٹی پتنگ کے پیچھے قمیض اتارے ہوئے بچے بھاگ کر اسے پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ پتنگ بچوں تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے انجام تک پہنچ جاتی ہے۔ جی ہاں جناب! میں یہ سب اس لیے کہہ رہا ہوں کہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا تھا وہ حکومت پاکستان یعنی تحریک انصاف کی حکومت نے جاری کیا تھا، اور انہوں نے ایک بار پھر اپنے مؤقف کی تجدید کرتے ہوئے وہی بیانیہ اپنے اعلامیے میں جاری کیا تھا۔ لیکن اس میں مزید ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ اس اعلامیے میں صرف مداخلت کا ذکر تھا، یعنی امریکا کو موردِالزام ٹھہرایا گیا تھا، جب کہ سازش کا ذکر نہیں تھا۔ مطلب اپوزیشن کی 3 بڑی جماعتوں کے سربراہان بری الذمہ قرار دے دیے گئے تھے۔
ترجمان پاک فوج کے ان جملوں نے تو مجھ جیسے ہزاروں پاکستانیوں کو حیرت میں مبتلا کردیا جب بتایا گیا کہ عمران خان کا ''ایبسولوٹلی ناٹ'' کا فقرہ جسے ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ کا درجہ بھی مل چکا ہے، فقط ایک انٹرویو میں کہا تھا، جب کہ امریکا نے تو پاکستان سے فوجی اڈوں کا مطالبہ ہی نہیں کیا تھا۔ اور اگر وہ مطالبہ کرتا بھی تو پاک فوج کا بیان بھی ''ایبسولوٹلی ناٹ'' ہی ہوتا۔ اس راز پر سے پردہ اٹھتے ہی مجھے ایک دوست یاد آگیا جسے اس کے باس نے کسی کام کے سلسلے میں گھر بلایا اور چائے تک کا نہ پوچھا۔ اُس نے اس بات کا ذکر مجھ سے بھی کیا، لیکن کچھ دنوں بعد جب اس کے اپنے باس کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے تو کہنے لگا یار خرم میں نے کبھی اس کے گھر سے پانی تک نہیں پیا۔ اب اسے کون بتائے کہ میرے بھائی تجھے پانی کا پوچھا ہی نہیں گیا تھا تو تونے انکار کیا کرنا تھا۔
اب آجایئے عمران خان کے اس بیان پر جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ نے تین آپشنز دیے ہیں۔ (1) اپوزیشن کی عدم اعتماد کا سامنا کرو۔ (2) استعفیٰ دو۔ (3) اسمبلیاں تحلیل کردو۔
سب سے پہلے تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے ان آپشنز کے حوالے سے صاف انکار کردیا اور بتایا کہ عمران خان کو پاک فوج کی جانب سے کوئی آپشنز نہیں دیے گئے بلکہ خود سابق وزیراعظم نے فوج کی مدد طلب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال پر اپوزیشن سے بات کی جائے۔
اب اس پر تحریک انصاف کے دوست نادم ہوں گے یا پھر سے کوئی بیانیہ گھڑ لیں گے، یہ تو وہی جانتے ہیں، لیکن ایک بات تو واضح ہوگئی کہ عمران خان جب تک وزیراعظم نہیں تھے تو فوج کو سیاست میں عمل دخل اور سیاسی معاملات سے دور رہنے کے بیانات دیتے نظر آئے لیکن جب اپنی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کا وقت آیا تو فوج کو گھسیٹ کر سیاست میں لے آئے، اور فوج کو ثالث بنا کر راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بہت سے اہم نکات میں سے ایک اہم اور حساس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے سیاستدانوں کو کوئی بیان نہیں دینا چاہیے، یہ اچھا نہیں ہے (It is not good)۔
یہ بات عمران خان نے اپنے پشاور جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی کہ میں اداروں سے پوچھتا ہوں آپ ان چوروں کے ہاتھوں میں ایٹمی اثاثے دے رہے ہیں؟ اگر عمران خان سے پوچھا جائے کہ ایٹمی پروگرام کب اور کس دور میں شروع ہوا تھا تو یقیناً ان کا جواب پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو ہوگا، اور اگر ان سے پوچھا جائے یہ ایٹمی دھماکے کب اور کس دور میں ہوئے، تو اس کا جواب نوازشریف کا دور ہوگا۔ جی ہاں یہ وہی چور ہیں جو ایٹمی اثاثوں کے مؤجد اور تجربے کرنے والے ہیں۔ تو اس لیے عمران خان کو یہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں یا نہیں۔ اس موجودہ صورتحال میں انہیں یہ فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کب تک وہ بیانیے کے سہارے عوام کو اپنی طرف مائل رکھیں گے، کیوں کہ کارکردگی کی بنیاد پر اگر ووٹ مانگے گئے تو شاید وہ تو صفر نظر آتی ہے۔
اور وہ بیانیہ جس پر وہ عوام کو غلامی سے نجات دلانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ پاکستان کی اسلامی اور سیاسی تنظیم جماعت اسلامی گزشتہ 70 سال سے نہ صرف گلی محلوں اور سڑکوں پر لگاتی نظر آئی، بلکہ قومی و صوبائی اسمبلوں اور امریکن ایمبیسیوں کے باہر بھی احتجاج کرتے اور امریکا مخالف نعرے لگاتے نظر آئے۔ اس کے برعکس جب سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور عمران خان کے موجوہ چیف آف اسٹاف امریکن نیشنلیٹی ہولڈر شہبازگل سے امریکا کا یار غدار کا نعرہ لگانے کا تقاضا کیا گیا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہربار کی طرح پاکستان کے عوام ان سیاستدانوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، اور سیاست دان بر بار کی طرح اپنا مطلب پورا کرکے عوام کو انہی وعدوں اور معاہدوں پر گھیرے رکھیں گے جو کبھی پورے ہوئے تھے اور نہ اب ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر بھونچال آگیا۔ ایک طرف ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، جب کہ دوسری جانب تحریک انصاف کے جنونی کارکنان نے ترجمان پاک فوج کے بیان کو اپنے مؤقف کی تائید سمجھتے ہوئے اندھادھند پوسٹیں شروع کردیں۔ الغرض ہر فیس بکی فلاسفر نے اپنی مرضی کے نکات جمع کیے اور ان پر اپنی تشریحات لگا کر اپنے حق میں لانے کی کوشش کی جاتی رہی۔
اس تمام صورتحال میں مجھے حیرانی اس وقت ہوئی جب مختلف ٹی وی چینلز میں بحیثیت تجزیہ کار بلائے جانے والے معزز صحافی حضرات اور ٹی وی اینکرز نے بھی ترجمان پاک کے بیان کو سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے مؤقف کی تائید گردانا۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ ان میں سے ایک کو بھی سازش اور مداخلت کا فرق سمجھ نہیں آرہا تھا، کیوں کہ وہ تمام حضرات طنزیہ انداز میں کہتے نظر آئے کہ آئندہ کوئی ملک پاکستان میں مداخلت تو کرسکتا ہے لیکن سازش نہیں کرسکتا۔ کسی نے کہا کہ واضح ہوگیا کہ خط اصلی تھا اور مداخلت کا بیانیہ بھی درست تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ مداخلت ہی کی بنیاد پر نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اعلامیے میں نہ صرف اس پر احتجاج کیا گیا بلکہ اس کو ملکی مداخلت تسلیم کیا گیا۔
اب آجایئے ان دوستوں کی جانب جو سازش اور مداخلت کا فرق جانے بغیر اپنے ناقص علم پر ماتم کرنے کے بجائے ترجمان پاک فوج پر طنز کرتے نظر آئے۔ اصل میں انہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ مداخلت فریق واحد کرتا ہے، جب کہ سازش میں دو یا دو سے زائد فریقین ہوتے ہیں، اور اگر اسی تناظر میں سابق وزیراعظم عمران خان کا بیان ہی سن لیا جاتا تو شاید یہ فرق بتانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ انہوں نے کہا تھا کہ امریکا نے ایک سیٹنگ گورنمنٹ یعنی حکومت کا تختہ الٹنے کی مداخلت کی جب کہ اس سازش میں پاکستان کے اندر بیٹھے ہوئے سیاستدان بھی شامل ہیں۔ عمران خان نے نام لے کر کہا تھا کہ اس سازش میں ن لیگ کے قائد نوازشریف، صدر شہبازشریف، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان شامل ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے واضح الفاظ میں کہا کہ قومی سلامتی کونسل کے اعلامیے میں مداخلت کا ذکر تھا۔ اب اس جملے کو تحریک انصاف کے دوستوں نے ایسے تھاما جیسے ہوا میں جھولتی کٹی پتنگ کے پیچھے قمیض اتارے ہوئے بچے بھاگ کر اسے پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ پتنگ بچوں تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے انجام تک پہنچ جاتی ہے۔ جی ہاں جناب! میں یہ سب اس لیے کہہ رہا ہوں کہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا تھا وہ حکومت پاکستان یعنی تحریک انصاف کی حکومت نے جاری کیا تھا، اور انہوں نے ایک بار پھر اپنے مؤقف کی تجدید کرتے ہوئے وہی بیانیہ اپنے اعلامیے میں جاری کیا تھا۔ لیکن اس میں مزید ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ اس اعلامیے میں صرف مداخلت کا ذکر تھا، یعنی امریکا کو موردِالزام ٹھہرایا گیا تھا، جب کہ سازش کا ذکر نہیں تھا۔ مطلب اپوزیشن کی 3 بڑی جماعتوں کے سربراہان بری الذمہ قرار دے دیے گئے تھے۔
ترجمان پاک فوج کے ان جملوں نے تو مجھ جیسے ہزاروں پاکستانیوں کو حیرت میں مبتلا کردیا جب بتایا گیا کہ عمران خان کا ''ایبسولوٹلی ناٹ'' کا فقرہ جسے ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ کا درجہ بھی مل چکا ہے، فقط ایک انٹرویو میں کہا تھا، جب کہ امریکا نے تو پاکستان سے فوجی اڈوں کا مطالبہ ہی نہیں کیا تھا۔ اور اگر وہ مطالبہ کرتا بھی تو پاک فوج کا بیان بھی ''ایبسولوٹلی ناٹ'' ہی ہوتا۔ اس راز پر سے پردہ اٹھتے ہی مجھے ایک دوست یاد آگیا جسے اس کے باس نے کسی کام کے سلسلے میں گھر بلایا اور چائے تک کا نہ پوچھا۔ اُس نے اس بات کا ذکر مجھ سے بھی کیا، لیکن کچھ دنوں بعد جب اس کے اپنے باس کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے تو کہنے لگا یار خرم میں نے کبھی اس کے گھر سے پانی تک نہیں پیا۔ اب اسے کون بتائے کہ میرے بھائی تجھے پانی کا پوچھا ہی نہیں گیا تھا تو تونے انکار کیا کرنا تھا۔
اب آجایئے عمران خان کے اس بیان پر جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ نے تین آپشنز دیے ہیں۔ (1) اپوزیشن کی عدم اعتماد کا سامنا کرو۔ (2) استعفیٰ دو۔ (3) اسمبلیاں تحلیل کردو۔
سب سے پہلے تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے ان آپشنز کے حوالے سے صاف انکار کردیا اور بتایا کہ عمران خان کو پاک فوج کی جانب سے کوئی آپشنز نہیں دیے گئے بلکہ خود سابق وزیراعظم نے فوج کی مدد طلب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال پر اپوزیشن سے بات کی جائے۔
اب اس پر تحریک انصاف کے دوست نادم ہوں گے یا پھر سے کوئی بیانیہ گھڑ لیں گے، یہ تو وہی جانتے ہیں، لیکن ایک بات تو واضح ہوگئی کہ عمران خان جب تک وزیراعظم نہیں تھے تو فوج کو سیاست میں عمل دخل اور سیاسی معاملات سے دور رہنے کے بیانات دیتے نظر آئے لیکن جب اپنی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کا وقت آیا تو فوج کو گھسیٹ کر سیاست میں لے آئے، اور فوج کو ثالث بنا کر راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بہت سے اہم نکات میں سے ایک اہم اور حساس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے سیاستدانوں کو کوئی بیان نہیں دینا چاہیے، یہ اچھا نہیں ہے (It is not good)۔
یہ بات عمران خان نے اپنے پشاور جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی کہ میں اداروں سے پوچھتا ہوں آپ ان چوروں کے ہاتھوں میں ایٹمی اثاثے دے رہے ہیں؟ اگر عمران خان سے پوچھا جائے کہ ایٹمی پروگرام کب اور کس دور میں شروع ہوا تھا تو یقیناً ان کا جواب پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو ہوگا، اور اگر ان سے پوچھا جائے یہ ایٹمی دھماکے کب اور کس دور میں ہوئے، تو اس کا جواب نوازشریف کا دور ہوگا۔ جی ہاں یہ وہی چور ہیں جو ایٹمی اثاثوں کے مؤجد اور تجربے کرنے والے ہیں۔ تو اس لیے عمران خان کو یہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں یا نہیں۔ اس موجودہ صورتحال میں انہیں یہ فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کب تک وہ بیانیے کے سہارے عوام کو اپنی طرف مائل رکھیں گے، کیوں کہ کارکردگی کی بنیاد پر اگر ووٹ مانگے گئے تو شاید وہ تو صفر نظر آتی ہے۔
اور وہ بیانیہ جس پر وہ عوام کو غلامی سے نجات دلانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ پاکستان کی اسلامی اور سیاسی تنظیم جماعت اسلامی گزشتہ 70 سال سے نہ صرف گلی محلوں اور سڑکوں پر لگاتی نظر آئی، بلکہ قومی و صوبائی اسمبلوں اور امریکن ایمبیسیوں کے باہر بھی احتجاج کرتے اور امریکا مخالف نعرے لگاتے نظر آئے۔ اس کے برعکس جب سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور عمران خان کے موجوہ چیف آف اسٹاف امریکن نیشنلیٹی ہولڈر شہبازگل سے امریکا کا یار غدار کا نعرہ لگانے کا تقاضا کیا گیا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہربار کی طرح پاکستان کے عوام ان سیاستدانوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، اور سیاست دان بر بار کی طرح اپنا مطلب پورا کرکے عوام کو انہی وعدوں اور معاہدوں پر گھیرے رکھیں گے جو کبھی پورے ہوئے تھے اور نہ اب ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔