منفی مگر کامیاب پروپیگنڈے
پاکستان میں سیاسی مخالفین کے خلاف منفی پروپیگنڈا کوئی نئی بات نہیں ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے
CHAMAN:
پی ٹی آئی کی سابق حکومت کے وزیروں نے آئینی طور پر ہٹائی جانے والی اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی اپنا پرانا موقف دہرایا ہے کہ کرپٹ لوگوں نے ہماری حکومت ختم کرائی ہے اس لیے ہم ان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔
عمران خان اقتدار میں رہنے کے بعد اب حکومت سے باہر آگئے ہیں اور قومی اسمبلی میں رہ کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا نہیں چاہتے۔ اس لیے پی ٹی آئی نے پہلے کی طرح مستعفی ہونے کا اعلان کرکے ایوان چھوڑ دیا ہے۔
پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل پروپیگنڈے کی صلاحیت اور بغیر ثبوت اپنے سیاسی مخالفین پر الزامات لگانے میں تمام سیاسی پارٹیوں اور مخالف سیاسی رہنماؤں سے آگے رہا ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی رہنما اور سیاسی پارٹی اس کا مقابلہ کرسکی ہے اور نہ ہی پروپیگنڈوں میں اتنی کامیاب رہی جتنے پی ٹی آئی رہی اور حکومت جانے کے بعد بھی سابق وزیر اعظم اپنے دعوؤں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی مخالفین کے خلاف منفی پروپیگنڈا کوئی نئی بات نہیں ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ 1973 کے نئے آئین کے نفاذ میں اس سلسلے میں کوئی بات شامل نہیں کی گئی تھی کہ ملک میں سیاست کو جھوٹوں سے پاک اور سیاسی الزام تراشیوں سے سیاسی رہنماؤں کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی ملک میں کوئی قانون سازی کی جاتی یا ملکی آئین میں ایسی شقیں شامل کی جاتیں جس سے ملکی سیاست اور سیاستدانوں کو منفی الزامات اور گمراہ کن پروپیگنڈے سے محفوظ رکھا جاسکتا ۔
جنرل ایوب خان کے طویل مارشل لا اور بعد میں ملک دولخت ہوجانے سے قبل بھی مشرقی پاکستان کے خلاف مغربی پاکستان میں پروپیگنڈا کیا جاتا تھا جس سے دونوں صوبوں کے عوام میں دوریاں پیدا ہونا شروع ہوئی تھیں جو 2022 تک بقایا پاکستان میں عروج پر پہنچا دی گئیں اور قوم اب واضح طور پر تقسیم ہو چکی ہے۔
پہلے صوبوں پر ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے کے الزامات لگائے جاتے تھے جن میں سب جھوٹ نہیں بلکہ کچھ حقیقت بھی تھی اور بعض صوبوں کے ساتھ زیادتی ہوئی بھی تھی جس کا توڑ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں 18 ویں ترمیم کی صورت میں کرلیا گیا تھا اور صوبوں کی وفاق سے شکایات کچھ کم ہوئی تھیں۔ نواز شریف دور میں جنوبی پنجاب کو نظرانداز کرنے کے الزامات لگتے رہے اور سندھ سے بھی پنجاب پر پانی کے حوالے سے الزامات لگتے رہے اور اس سلسلے میں بلوچستان کو بھی سندھ سے شکایات رہیں۔
صوبائی شکایات کے ازالے کے لیے تو ملک میں اقدامات ہوئے مگر ملک کے سیاستدانوں نے خود کو منفی پروپیگنڈے اور جھوٹے الزامات سے محفوظ رکھنے کے لیے کچھ نہیں کیا جس کا نتیجہ ہے کہ ملک کی سیاست میں سیاستدانوں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا عروج پر پہنچا دیا گیا ہے اور سیاستدانوں پر ایسے ایسے منفی الزامات لگے کہ کوئی بھی محفوظ نہ رہا۔
ملک میں ہتک عزت کا قانون موجود ہے جس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے کیونکہ ایسے مقدمات کے فیصلے سالوں نہیں ہوتے جب کہ دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہے وہاں جھوٹے الزامات پر عدالتیں جلد فیصلے کرتی ہیں مگر یہاں تو سیاستدان صرف اپنی مرضی کے فیصلے تسلیم کرتے ہیں اور اپنے خلاف فیصلہ آنے پر عدالتوں پر بھی الزامات لگاتے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی 1998 تک باری باری بننے والی حکومتوں میں ایک دوسرے پر کرپشن کے مقدمات بنائے گئے جس کا فائدہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اٹھایا اور دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کو چور ڈاکو قرار دیا۔ عمران خان نے اپنی پارٹی کی بنیاد ہی دونوں پارٹیوں کی مبینہ کرپشن پر رکھی اور دونوں کے خلاف کامیاب پروپیگنڈا کرکے اقتدار میں آئے اور اپنے دور میں کسی ایک اپنے مخالف کو کرپشن میں سزا نہ دلا سکے اور خود وزیر اعظم ہوتے ہوئے چور ڈاکو، چور ڈاکو کہتے رہے مگر عدالت میں ثبوت پیش نہیں کر سکے اور ان کے چور ڈاکو قرار دیے گئے سب مخالف ضمانتوں پر باہر آگئے اور عمران خانجس پر تنقید کرتے رہے۔
اس کو ہی پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا تو ان کے پروپیگنڈے کا پول کھل گیا اور ثابت ہو گیا کہ انھوں نے منفی پروپیگنڈے سے حکومت حاصل کی اور اب ویسا ہی کرپشن کا پروپیگنڈا عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومتوں سے متعلق شروع ہو گیا ہے۔ سیاستدانوں نے اپنے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کا توڑ کرلیا ہوتا تو پی پی اور (ن) لیگ کے بعد پی ٹی آئی کو بھی ویسے ہی منفی پروپیگنڈے کا سامنا نہ ہوتا اور جو کچھ اس نے دوسروں کے خلاف کیا اب وہ خود بھی بھگت رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی سابق حکومت کے وزیروں نے آئینی طور پر ہٹائی جانے والی اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی اپنا پرانا موقف دہرایا ہے کہ کرپٹ لوگوں نے ہماری حکومت ختم کرائی ہے اس لیے ہم ان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔
عمران خان اقتدار میں رہنے کے بعد اب حکومت سے باہر آگئے ہیں اور قومی اسمبلی میں رہ کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا نہیں چاہتے۔ اس لیے پی ٹی آئی نے پہلے کی طرح مستعفی ہونے کا اعلان کرکے ایوان چھوڑ دیا ہے۔
پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل پروپیگنڈے کی صلاحیت اور بغیر ثبوت اپنے سیاسی مخالفین پر الزامات لگانے میں تمام سیاسی پارٹیوں اور مخالف سیاسی رہنماؤں سے آگے رہا ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی رہنما اور سیاسی پارٹی اس کا مقابلہ کرسکی ہے اور نہ ہی پروپیگنڈوں میں اتنی کامیاب رہی جتنے پی ٹی آئی رہی اور حکومت جانے کے بعد بھی سابق وزیر اعظم اپنے دعوؤں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی مخالفین کے خلاف منفی پروپیگنڈا کوئی نئی بات نہیں ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ 1973 کے نئے آئین کے نفاذ میں اس سلسلے میں کوئی بات شامل نہیں کی گئی تھی کہ ملک میں سیاست کو جھوٹوں سے پاک اور سیاسی الزام تراشیوں سے سیاسی رہنماؤں کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی ملک میں کوئی قانون سازی کی جاتی یا ملکی آئین میں ایسی شقیں شامل کی جاتیں جس سے ملکی سیاست اور سیاستدانوں کو منفی الزامات اور گمراہ کن پروپیگنڈے سے محفوظ رکھا جاسکتا ۔
جنرل ایوب خان کے طویل مارشل لا اور بعد میں ملک دولخت ہوجانے سے قبل بھی مشرقی پاکستان کے خلاف مغربی پاکستان میں پروپیگنڈا کیا جاتا تھا جس سے دونوں صوبوں کے عوام میں دوریاں پیدا ہونا شروع ہوئی تھیں جو 2022 تک بقایا پاکستان میں عروج پر پہنچا دی گئیں اور قوم اب واضح طور پر تقسیم ہو چکی ہے۔
پہلے صوبوں پر ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے کے الزامات لگائے جاتے تھے جن میں سب جھوٹ نہیں بلکہ کچھ حقیقت بھی تھی اور بعض صوبوں کے ساتھ زیادتی ہوئی بھی تھی جس کا توڑ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں 18 ویں ترمیم کی صورت میں کرلیا گیا تھا اور صوبوں کی وفاق سے شکایات کچھ کم ہوئی تھیں۔ نواز شریف دور میں جنوبی پنجاب کو نظرانداز کرنے کے الزامات لگتے رہے اور سندھ سے بھی پنجاب پر پانی کے حوالے سے الزامات لگتے رہے اور اس سلسلے میں بلوچستان کو بھی سندھ سے شکایات رہیں۔
صوبائی شکایات کے ازالے کے لیے تو ملک میں اقدامات ہوئے مگر ملک کے سیاستدانوں نے خود کو منفی پروپیگنڈے اور جھوٹے الزامات سے محفوظ رکھنے کے لیے کچھ نہیں کیا جس کا نتیجہ ہے کہ ملک کی سیاست میں سیاستدانوں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا عروج پر پہنچا دیا گیا ہے اور سیاستدانوں پر ایسے ایسے منفی الزامات لگے کہ کوئی بھی محفوظ نہ رہا۔
ملک میں ہتک عزت کا قانون موجود ہے جس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے کیونکہ ایسے مقدمات کے فیصلے سالوں نہیں ہوتے جب کہ دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہے وہاں جھوٹے الزامات پر عدالتیں جلد فیصلے کرتی ہیں مگر یہاں تو سیاستدان صرف اپنی مرضی کے فیصلے تسلیم کرتے ہیں اور اپنے خلاف فیصلہ آنے پر عدالتوں پر بھی الزامات لگاتے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی 1998 تک باری باری بننے والی حکومتوں میں ایک دوسرے پر کرپشن کے مقدمات بنائے گئے جس کا فائدہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اٹھایا اور دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کو چور ڈاکو قرار دیا۔ عمران خان نے اپنی پارٹی کی بنیاد ہی دونوں پارٹیوں کی مبینہ کرپشن پر رکھی اور دونوں کے خلاف کامیاب پروپیگنڈا کرکے اقتدار میں آئے اور اپنے دور میں کسی ایک اپنے مخالف کو کرپشن میں سزا نہ دلا سکے اور خود وزیر اعظم ہوتے ہوئے چور ڈاکو، چور ڈاکو کہتے رہے مگر عدالت میں ثبوت پیش نہیں کر سکے اور ان کے چور ڈاکو قرار دیے گئے سب مخالف ضمانتوں پر باہر آگئے اور عمران خانجس پر تنقید کرتے رہے۔
اس کو ہی پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا تو ان کے پروپیگنڈے کا پول کھل گیا اور ثابت ہو گیا کہ انھوں نے منفی پروپیگنڈے سے حکومت حاصل کی اور اب ویسا ہی کرپشن کا پروپیگنڈا عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومتوں سے متعلق شروع ہو گیا ہے۔ سیاستدانوں نے اپنے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کا توڑ کرلیا ہوتا تو پی پی اور (ن) لیگ کے بعد پی ٹی آئی کو بھی ویسے ہی منفی پروپیگنڈے کا سامنا نہ ہوتا اور جو کچھ اس نے دوسروں کے خلاف کیا اب وہ خود بھی بھگت رہے ہیں۔