اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے
بدلتے واقعات ، روتے ہوئے شب و روز، انصاف کا قتل جو روز ہوتا ہے لیکن اس بار وہ ہوا جو اس سے پہلے اس طرز سے نہیں ہوا تھا
حالات اس قدر تیزی سے بدلے ہیں کہ ہر شخص ششدر اور حیران ہے، ایک طرف وہ ہیں جو دنیا سمیٹنے کے فن سے اچھی طرح واقف ہیں تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے حضور اپنا دامن پھیلائے ان لوگوں کے لیے دعا گو ہیں جو سب کچھ سمجھنے کے باوجود کچھ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ حاصل مراد کے لیے یہی انداز سب سے بہتر ہے۔
بدلتے واقعات ، روتے ہوئے شب و روز ، انصاف کا قتل جو روز ہوتا ہے لیکن اس بار وہ ہوا جو اس سے پہلے اس طرز سے نہیں ہوا تھا۔ پاکستان میں بارہا ایسے مواقع آئے جب انصاف کو سولی پر چڑھایا گیا اور جرائم پیشہ افراد کو باعزت رہا کردیا گیا، آج بھی قاتل دندناتے پھر رہے ہیں جب کہ مقتولین گہری نیند سوگئے ہیں، اٹھیں گے اس وقت جب حشر بپا ہو جائے گا اور اللہ کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کریں گے کہ اس شخص کے ہاتھوں اور انصاف کرنے والوں کی قلم کی جنبش نے کذب کو عزت بخشی اور میں سچ بولتے ہوئے بھی جھوٹا قرار دیا گیا۔
ہمارے ملک میں شروع ہی سے ہی یہ ہوتا رہا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، ملک کے دشمن اغیار کے ہاتھوں خوب کھیلے محض سونے، چاندی کے حصول کی خاطر، ہمارے ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو کس قدر سفاکی سے قتل کردیا گیا، یہ اس جرم کی سزا تھی کہ وہ نواب تھے اپنے محلات، جائیداد، زمینیں آزادی کی خاطر دان کر آئے تھے ایک دھیلا ساتھ نہیں لائے، اور جب انھیں شہید کیا گیا تو اچکن کے نیچے پھٹی ہوئی بنیان تھی اور جیب میں حقیر سی رقم۔
پاکستان کی بنیادوں میں شگاف ڈالنے والی بیرونی قوتیں، اور ہمارے ملک کے میر و جعفر صادق کمر بستہ رہے آخر کار آدھا ملک اور پاکستان کا ایک بازو توڑ دیا گیا۔ کتنے عبرت انگیز اور درد ناک حقائق سامنے آئے، ظلم کے پہاڑ توڑے گئے انسانیت کانپ گئی۔ اس کے بعد بھی حکمرانوں نے نہ صرف یہ کہ حلف کو توڑا بلکہ بار بار آئین شکنی کی۔ پاکستان میں جنگل کا قانون رائج کیا گیا یہ سب مقتدر حضرات کی دین تھی لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہماری عدالتیں اس وقت کہاں تھیں اورکہاں ہیں؟
ہماری فوج جس پر ہر پاکستانی کو ناز ہے، فخر ہے اللہ افواج پاکستان کو سلامتی عطا فرمائے ہر محب وطن پاکستانی اپنی فوج کو سلام پیش کرتا ہے، پاکستان میں تین بار مارشل لا لگایا گیا، اس کے دوررس نتائج بھی سامنے آئے، عوام کو تحفظ حاصل ہوا، کسی کو نقصان نہیں پہنچایا گیا، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی، رہی جمہوریت تو آمریت اور جمہوریت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے موروثی طرز پر عہدوں کی بندربانٹ ہوتی ہے۔ جسے ہم جمہوریت کہتے ہیں کیا وہ حقیقی معنوں میں جمہوری عمل ہے؟
ہزاروں بچے، عورتیں، اغوا اور قتل کی جاتی ہیں، فروخت کی جاتی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، وزیر اعظم اور بادشاہ سلامت ہمیشہ سے ہی اپنے فرائض سے ذرا پرے پرے رہے، عوام رلتے رہے ، درسگاہوں میں تالے ڈال دیے گئے، اسپتالوں کی حالت زار نے مریضوں کو جیتے جی مرنے پر مجبور کیا۔ انصاف کی تنزلی نے بے قصور لوگوں اور بے شمار نوجوانوں کو جن کا کوئی قصور نہیں تھا ، موت کے منہ میں دھکیل دیا ، یہ پاکستان کے شہری ہیں ان کا اس ملک پر اس ملک کی تمام سہولیات پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ کسی امیر زادے یا حاکمین کا ہے۔ یہ ملک کسی ایک طبقے کی ملکیت نہیں یہ اللہ کی زمین ہے، جسے بڑی مشکل میں ہمارے قائدین نے آزاد کرایا تھا۔ آزادی سے پہلے اور بعد کے حالات بھی بد سے بد ترین ہو چکے تھے، تکلیف اٹھانے والے محب وطن پاکستانی تھے۔
تعیشات زندگی بسر کرنیوالے انگریزوں کے غلام تھے، محکوم تھے، غلامی کے نتیجے میں بے شمار مراعات سے نوازا گیا۔سب جانتے ہیں کون سپر طاقتوں کی جی حضوری کر کے اپنے ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے؟ میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مواقعوں پر قانون اپنی آنکھوں کو سیاہ شیشوں سے کیوں محروم نہیں کرتا ہے جس کا حق اسے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اسے ملنا چاہیے جب ہی قانونی تقاضے پورے ہوسکتے ہیں، جب کہ نفی کی صورت میں سخت سزائیں سنائی گئی ہیں دنیا میں بھی ذلت کے سوا کچھ نہیں ملتا ہے لیکن یہ بات ہم جیسے لوگ کہتے ہیں، جب کہ حقیقی نگاہ سے دیکھا جائے تو دولت کے انبار ہاتھ آتے ہیں ۔ یہ بات دروغ گوئی پر مبنی نہیں ہے اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
ہم مشرق کے مکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
واں کنٹر سب بلوری ہیں یاں ایک پرانا مٹکا ہے
اے شیخ و برہمن' سنتے ہو! کیا اہل بصیرت کہتے ہیں
گردوں نے کتنی بلندی سے ان قوموں کو دے پٹکا ہے
ہوئی دین و دولت میں جس دن جدائی
ہوس کی امیری ہوس کی وزیری
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ایک سوال ذہن کے گوشوں میں مچل رہا ہے جسے قلم کی نوک پر لانا اللہ کے حکم کیمطابق ہوگا۔ پاکستان میں زلزلہ آئے، طوفان آئے، کوئی بھی حادثہ ہو ہماری فوج اپنی عوام کو بچانے کے لیے پیش پیش رہتی ہے۔ لیکن جب دیانت دار، محب وطن اسلام کا سچا چہرہ پوری دنیا کو دکھانے والا، بازی ہار رہا تھا اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں نے کیا جرم کیا تھا جو رات 12 بجے عدالتیں لگائی گئیں؟ پاکستان کو جری و بہادر، نڈر اور سچے مسلمان کی ضرورت ہے جو نہ بکے اور نہ جھکے، میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ عمران خان کے دور حکومت میں ڈرون حملے ختم کردیے گئے تھے لیکن ایک بار پھر احکامات جاری کیے گئے ہیں.
عرض کیا ہے کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی روکے، ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے مجرموں کو سزا دے۔بے شک مہنگائی بہت بڑھی تھی لیکن اس کے ساتھ عمران خان نے پاکستان کا چہرہ روشن کیا تھا پوری دنیا میں اسے وقار ملا تھا، اس کی وجہ ان کا مضبوط اور مثبت کردار دنیا کے سامنے تھا، پہلی بار رحمت اللعالمین کمیٹی بنائی گئی، رحمت اللعالمین وظائف جاری ہوئے، پہلی بار مدینہ کے طرز پر عورت کو وراثتی حقوق اور اسے وراثتی حق دیا جا رہا ہے سرکاری وکیل کے 40 سال بعد او آئی سی کو قومی اسمبلی میں اکٹھا کردیا۔ اسلاموفوبیا کے خلاف اقوام متحدہ میں دھواں دھار تقریر کی اور 15 مارچ کا دن ڈکلیئر کردیا۔ یونیورسٹیوں میں قرآنی تعلیم کو لازمی قرار دیا اور بھی بہت سی خدمات ہیں۔
بدلتے واقعات ، روتے ہوئے شب و روز ، انصاف کا قتل جو روز ہوتا ہے لیکن اس بار وہ ہوا جو اس سے پہلے اس طرز سے نہیں ہوا تھا۔ پاکستان میں بارہا ایسے مواقع آئے جب انصاف کو سولی پر چڑھایا گیا اور جرائم پیشہ افراد کو باعزت رہا کردیا گیا، آج بھی قاتل دندناتے پھر رہے ہیں جب کہ مقتولین گہری نیند سوگئے ہیں، اٹھیں گے اس وقت جب حشر بپا ہو جائے گا اور اللہ کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کریں گے کہ اس شخص کے ہاتھوں اور انصاف کرنے والوں کی قلم کی جنبش نے کذب کو عزت بخشی اور میں سچ بولتے ہوئے بھی جھوٹا قرار دیا گیا۔
ہمارے ملک میں شروع ہی سے ہی یہ ہوتا رہا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، ملک کے دشمن اغیار کے ہاتھوں خوب کھیلے محض سونے، چاندی کے حصول کی خاطر، ہمارے ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو کس قدر سفاکی سے قتل کردیا گیا، یہ اس جرم کی سزا تھی کہ وہ نواب تھے اپنے محلات، جائیداد، زمینیں آزادی کی خاطر دان کر آئے تھے ایک دھیلا ساتھ نہیں لائے، اور جب انھیں شہید کیا گیا تو اچکن کے نیچے پھٹی ہوئی بنیان تھی اور جیب میں حقیر سی رقم۔
پاکستان کی بنیادوں میں شگاف ڈالنے والی بیرونی قوتیں، اور ہمارے ملک کے میر و جعفر صادق کمر بستہ رہے آخر کار آدھا ملک اور پاکستان کا ایک بازو توڑ دیا گیا۔ کتنے عبرت انگیز اور درد ناک حقائق سامنے آئے، ظلم کے پہاڑ توڑے گئے انسانیت کانپ گئی۔ اس کے بعد بھی حکمرانوں نے نہ صرف یہ کہ حلف کو توڑا بلکہ بار بار آئین شکنی کی۔ پاکستان میں جنگل کا قانون رائج کیا گیا یہ سب مقتدر حضرات کی دین تھی لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہماری عدالتیں اس وقت کہاں تھیں اورکہاں ہیں؟
ہماری فوج جس پر ہر پاکستانی کو ناز ہے، فخر ہے اللہ افواج پاکستان کو سلامتی عطا فرمائے ہر محب وطن پاکستانی اپنی فوج کو سلام پیش کرتا ہے، پاکستان میں تین بار مارشل لا لگایا گیا، اس کے دوررس نتائج بھی سامنے آئے، عوام کو تحفظ حاصل ہوا، کسی کو نقصان نہیں پہنچایا گیا، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی، رہی جمہوریت تو آمریت اور جمہوریت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے موروثی طرز پر عہدوں کی بندربانٹ ہوتی ہے۔ جسے ہم جمہوریت کہتے ہیں کیا وہ حقیقی معنوں میں جمہوری عمل ہے؟
ہزاروں بچے، عورتیں، اغوا اور قتل کی جاتی ہیں، فروخت کی جاتی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، وزیر اعظم اور بادشاہ سلامت ہمیشہ سے ہی اپنے فرائض سے ذرا پرے پرے رہے، عوام رلتے رہے ، درسگاہوں میں تالے ڈال دیے گئے، اسپتالوں کی حالت زار نے مریضوں کو جیتے جی مرنے پر مجبور کیا۔ انصاف کی تنزلی نے بے قصور لوگوں اور بے شمار نوجوانوں کو جن کا کوئی قصور نہیں تھا ، موت کے منہ میں دھکیل دیا ، یہ پاکستان کے شہری ہیں ان کا اس ملک پر اس ملک کی تمام سہولیات پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ کسی امیر زادے یا حاکمین کا ہے۔ یہ ملک کسی ایک طبقے کی ملکیت نہیں یہ اللہ کی زمین ہے، جسے بڑی مشکل میں ہمارے قائدین نے آزاد کرایا تھا۔ آزادی سے پہلے اور بعد کے حالات بھی بد سے بد ترین ہو چکے تھے، تکلیف اٹھانے والے محب وطن پاکستانی تھے۔
تعیشات زندگی بسر کرنیوالے انگریزوں کے غلام تھے، محکوم تھے، غلامی کے نتیجے میں بے شمار مراعات سے نوازا گیا۔سب جانتے ہیں کون سپر طاقتوں کی جی حضوری کر کے اپنے ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے؟ میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مواقعوں پر قانون اپنی آنکھوں کو سیاہ شیشوں سے کیوں محروم نہیں کرتا ہے جس کا حق اسے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اسے ملنا چاہیے جب ہی قانونی تقاضے پورے ہوسکتے ہیں، جب کہ نفی کی صورت میں سخت سزائیں سنائی گئی ہیں دنیا میں بھی ذلت کے سوا کچھ نہیں ملتا ہے لیکن یہ بات ہم جیسے لوگ کہتے ہیں، جب کہ حقیقی نگاہ سے دیکھا جائے تو دولت کے انبار ہاتھ آتے ہیں ۔ یہ بات دروغ گوئی پر مبنی نہیں ہے اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
ہم مشرق کے مکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
واں کنٹر سب بلوری ہیں یاں ایک پرانا مٹکا ہے
اے شیخ و برہمن' سنتے ہو! کیا اہل بصیرت کہتے ہیں
گردوں نے کتنی بلندی سے ان قوموں کو دے پٹکا ہے
ہوئی دین و دولت میں جس دن جدائی
ہوس کی امیری ہوس کی وزیری
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ایک سوال ذہن کے گوشوں میں مچل رہا ہے جسے قلم کی نوک پر لانا اللہ کے حکم کیمطابق ہوگا۔ پاکستان میں زلزلہ آئے، طوفان آئے، کوئی بھی حادثہ ہو ہماری فوج اپنی عوام کو بچانے کے لیے پیش پیش رہتی ہے۔ لیکن جب دیانت دار، محب وطن اسلام کا سچا چہرہ پوری دنیا کو دکھانے والا، بازی ہار رہا تھا اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں نے کیا جرم کیا تھا جو رات 12 بجے عدالتیں لگائی گئیں؟ پاکستان کو جری و بہادر، نڈر اور سچے مسلمان کی ضرورت ہے جو نہ بکے اور نہ جھکے، میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ عمران خان کے دور حکومت میں ڈرون حملے ختم کردیے گئے تھے لیکن ایک بار پھر احکامات جاری کیے گئے ہیں.
عرض کیا ہے کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی روکے، ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے مجرموں کو سزا دے۔بے شک مہنگائی بہت بڑھی تھی لیکن اس کے ساتھ عمران خان نے پاکستان کا چہرہ روشن کیا تھا پوری دنیا میں اسے وقار ملا تھا، اس کی وجہ ان کا مضبوط اور مثبت کردار دنیا کے سامنے تھا، پہلی بار رحمت اللعالمین کمیٹی بنائی گئی، رحمت اللعالمین وظائف جاری ہوئے، پہلی بار مدینہ کے طرز پر عورت کو وراثتی حقوق اور اسے وراثتی حق دیا جا رہا ہے سرکاری وکیل کے 40 سال بعد او آئی سی کو قومی اسمبلی میں اکٹھا کردیا۔ اسلاموفوبیا کے خلاف اقوام متحدہ میں دھواں دھار تقریر کی اور 15 مارچ کا دن ڈکلیئر کردیا۔ یونیورسٹیوں میں قرآنی تعلیم کو لازمی قرار دیا اور بھی بہت سی خدمات ہیں۔