حقیقت کیا ہے
روسی حملے نے یوکرین کے کسی بھی شہرکو نہیں بخشا ہے ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے
یوکرین اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس پر روس نے پوری قوت سے جنگ مسلط کر دی ہے۔ روسی حملے نے یوکرین کے کسی بھی شہرکو نہیں بخشا ہے ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔
مرنے والوں میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے، تاہم یہ بات اب تک معمہ بنی ہوئی ہے کہ روس جیسی بڑی طاقت اب ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس چھوٹے سے ملک پر قبضہ نہیں کر پائی ہے۔ اس میں کیا صدر پیوٹن کی کوئی حکمت عملی پنہاں ہے یا پھر یوکرینی عوام کی بہادری اور حب الوطنی نے روسی حملے کو بے اثر بنا دیا ہے ، جو بھی ہو بہرحال یوکرین کے صدر زیلنسکی کو ماننا پڑے گا کہ انھوں نے روسی حملے کا مردانہ وار مقابلہ کیا ، وہ کسی لمحے بھی روسی طاقت سے مرعوب نہیں ہوئے اور ایک ایسے خطرناک وقت میں بھی ایک سنجیدہ اور ذہین لیڈر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ وہ ایک کامیڈین ہیں۔
وہ ٹی وی پر مزاحیہ پروگرام پیش کر کے اپنے عوام کو زبردست تفریح مہیا کرتے رہے ہیں۔ ان کی ایک مزاحیہ ٹی وی سیریل نے انھیں پورے یوکرین میں اتنی مقبولیت بخشی کہ پچھلے صدارتی الیکشن میں وہ ایک پرانے تجربہ کار سیاستدان کو شکست دے کر ملک کے صدر بن گئے۔ گوکہ وہ ایک کامیڈین ہیں اور ملک کو چلانے سے بالکل ناواقف تھے مگر شان دار طریقے سے ملک کو چلایا۔ تاہم ان کی حکومت کے ابتدائی دور میں ہی ملک روسی حملے کا شکار ہو گیا ہے ، روسی فوج نے پوری قوت کے ساتھ حملہ کرکے یوکرین کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ کچھ ملکی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ وہ ایک روایتی کامیڈین ہونے کی وجہ سے جنگی حالات سے گھبرا جائیں گے اور ملک کا نظم و نسق کسی سیاستدان کے حوالے کردیں گے مگر انھوں نے ہرگز ایسا نہیں کیا۔ آج پوری دنیا میں انھیں ایک آئرن مین کے نام پکارا جا رہا ہے۔
یوکرین کی جنگ صرف یورپ اور امریکا پر اثرانداز نہیں ہوئی ہے بلکہ پوری دنیا اس سے متاثر ہوئی ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے غذائی قلت کے ساتھ تیل کی قیمتیں بڑھنے سے غریب ممالک مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ خاص طور پر ان کی معیشتیں مشکلات کا شکار ہوگئی ہیں۔ پھرکئی ممالک کی خارجہ پالیسیاں بھی امتحان کا شکار ہوگئی ہیں۔ اس زمرے میں بھارت اور پاکستان بھی آئے ہیں۔ بھارت جو خود کو امریکی بلاک سے جوڑ چکا تھا اب روسی دھمکی کی وجہ سے روس کی جانب مائل ہو گیا ہے۔ اس کے اس رویے نے مغربی ممالک کو ناراض کردیا ہے۔ ادھر بائیڈن بھی پاکستان سے ناراض ہوگئے ہیں۔ پاکستان گوکہ ایک زمانے سے امریکی بلاک میں ہے۔ وہ شروع سے ہی امریکی احکامات کو من و عن مانتا چلا آیا ہے اور کبھی روگردانی کا مرتکب نہیں ہوا ہے۔
پاکستان کی جدوجہد سے امریکا نے روس کو افغانستان سے نکالا تھا۔ افغانستان پر قبضے کے وقت بھی وہ اس کے حکم کے مطابق طالبان سے نبرد آزما رہا مگر اپنا بہت کچھ نقصان کرا بیٹھا۔ بھاری مالی نقصان کے ساتھ ساتھ قیمتی جانی نقصان بھی اٹھایا۔ اس فرما برداری کے باوجود بھی امریکا نے پاکستان پر اتنے ڈرون حملے کیے کہ جتنے اس نے افغانستان پر بھی نہیں کیے تھے۔ افغان جنگ میں بھرپور ساتھ دینے کے باوجود بھی امریکا پاکستان سے ڈو مورکے کرخت مطالبے کرتا رہا جب کہ بھارت کی پیٹھ تھپتھپاتا رہا۔
بھارت افغانستان کا پڑوسی نہیں ہے مگر اس کے باوجود اسے افغانستان میں داخل کیا اور اس نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی آبیاری کرکے پاکستان پر دہشت گردانہ حملے کراتا رہا۔ افغانستان کا امن تباہ ہوا اور وہاں امریکی فوجوں کے لیے بھارت کی وجہ سے مشکلات پیدا ہوئیں مگر امریکا پاکستان کو اس کا ذمے دار قرار دیتا رہا اور اب افغانستان سے امریکی فوجوں کے نکلنے اور وہاں اپنے مقصد کے حصول میں ناکامی کا ذمے دار پاکستان کو قرار دے رہا ہے جب کہ اسے افغانستان میں ناکام بنانے کا ذمے دار سراسر بھارت ہے۔
پاکستان میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے اقتدار سنبھالا۔ انھوں نے پاکستان کے لیے ایک آزاد خارجہ پالیسی منتخب کی اور کسی بھی بلاک کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا اس کے ساتھ ہی روس سے تعلقات کو بڑھانے پر بھی بھرپور توجہ مرکوز کی اور پھر یہ تعلقات عروج پر پہنچ گئے۔ پاکستان کسی بھی صورت میں مغرب سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرسکتا کیونکہ ہماری معیشت کا انحصار مغربی ممالک پر ہے۔ اس کا خیال رکھے بغیر عمران خان اس وقت روس کے دورے پر جا پہنچے جب روس یوکرین پر حملہ کر چکا تھا۔ اس دورے سے روس سے ضرور ہمارے تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں مگر امریکا سے ہم دور ہوگئے ہیں۔
عمران خان نے امریکی ناراضگی کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد سے ملادیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا نے مالی چمک سے حزب اختلاف اور ان کے اپنے کچھ ممبران کو اپنی طرف کرلیا ہے۔ وہ ایک خط کو بھی اپنی حکومت کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس دھمکی آمیز خط میں درج ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو پاکستان کو نہیں بخشا جائے گا چنانچہ ان کے مطابق یہی خط حزب اختلاف کو ان کے خلاف اکسانے کا سبب بنا ہے اب جب کہ شہباز شریف اقتدار سنبھال چکے ہیں انھیں پہلی فرصت میں اس خط کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔
مرنے والوں میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے، تاہم یہ بات اب تک معمہ بنی ہوئی ہے کہ روس جیسی بڑی طاقت اب ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس چھوٹے سے ملک پر قبضہ نہیں کر پائی ہے۔ اس میں کیا صدر پیوٹن کی کوئی حکمت عملی پنہاں ہے یا پھر یوکرینی عوام کی بہادری اور حب الوطنی نے روسی حملے کو بے اثر بنا دیا ہے ، جو بھی ہو بہرحال یوکرین کے صدر زیلنسکی کو ماننا پڑے گا کہ انھوں نے روسی حملے کا مردانہ وار مقابلہ کیا ، وہ کسی لمحے بھی روسی طاقت سے مرعوب نہیں ہوئے اور ایک ایسے خطرناک وقت میں بھی ایک سنجیدہ اور ذہین لیڈر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ وہ ایک کامیڈین ہیں۔
وہ ٹی وی پر مزاحیہ پروگرام پیش کر کے اپنے عوام کو زبردست تفریح مہیا کرتے رہے ہیں۔ ان کی ایک مزاحیہ ٹی وی سیریل نے انھیں پورے یوکرین میں اتنی مقبولیت بخشی کہ پچھلے صدارتی الیکشن میں وہ ایک پرانے تجربہ کار سیاستدان کو شکست دے کر ملک کے صدر بن گئے۔ گوکہ وہ ایک کامیڈین ہیں اور ملک کو چلانے سے بالکل ناواقف تھے مگر شان دار طریقے سے ملک کو چلایا۔ تاہم ان کی حکومت کے ابتدائی دور میں ہی ملک روسی حملے کا شکار ہو گیا ہے ، روسی فوج نے پوری قوت کے ساتھ حملہ کرکے یوکرین کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ کچھ ملکی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ وہ ایک روایتی کامیڈین ہونے کی وجہ سے جنگی حالات سے گھبرا جائیں گے اور ملک کا نظم و نسق کسی سیاستدان کے حوالے کردیں گے مگر انھوں نے ہرگز ایسا نہیں کیا۔ آج پوری دنیا میں انھیں ایک آئرن مین کے نام پکارا جا رہا ہے۔
یوکرین کی جنگ صرف یورپ اور امریکا پر اثرانداز نہیں ہوئی ہے بلکہ پوری دنیا اس سے متاثر ہوئی ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے غذائی قلت کے ساتھ تیل کی قیمتیں بڑھنے سے غریب ممالک مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ خاص طور پر ان کی معیشتیں مشکلات کا شکار ہوگئی ہیں۔ پھرکئی ممالک کی خارجہ پالیسیاں بھی امتحان کا شکار ہوگئی ہیں۔ اس زمرے میں بھارت اور پاکستان بھی آئے ہیں۔ بھارت جو خود کو امریکی بلاک سے جوڑ چکا تھا اب روسی دھمکی کی وجہ سے روس کی جانب مائل ہو گیا ہے۔ اس کے اس رویے نے مغربی ممالک کو ناراض کردیا ہے۔ ادھر بائیڈن بھی پاکستان سے ناراض ہوگئے ہیں۔ پاکستان گوکہ ایک زمانے سے امریکی بلاک میں ہے۔ وہ شروع سے ہی امریکی احکامات کو من و عن مانتا چلا آیا ہے اور کبھی روگردانی کا مرتکب نہیں ہوا ہے۔
پاکستان کی جدوجہد سے امریکا نے روس کو افغانستان سے نکالا تھا۔ افغانستان پر قبضے کے وقت بھی وہ اس کے حکم کے مطابق طالبان سے نبرد آزما رہا مگر اپنا بہت کچھ نقصان کرا بیٹھا۔ بھاری مالی نقصان کے ساتھ ساتھ قیمتی جانی نقصان بھی اٹھایا۔ اس فرما برداری کے باوجود بھی امریکا نے پاکستان پر اتنے ڈرون حملے کیے کہ جتنے اس نے افغانستان پر بھی نہیں کیے تھے۔ افغان جنگ میں بھرپور ساتھ دینے کے باوجود بھی امریکا پاکستان سے ڈو مورکے کرخت مطالبے کرتا رہا جب کہ بھارت کی پیٹھ تھپتھپاتا رہا۔
بھارت افغانستان کا پڑوسی نہیں ہے مگر اس کے باوجود اسے افغانستان میں داخل کیا اور اس نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی آبیاری کرکے پاکستان پر دہشت گردانہ حملے کراتا رہا۔ افغانستان کا امن تباہ ہوا اور وہاں امریکی فوجوں کے لیے بھارت کی وجہ سے مشکلات پیدا ہوئیں مگر امریکا پاکستان کو اس کا ذمے دار قرار دیتا رہا اور اب افغانستان سے امریکی فوجوں کے نکلنے اور وہاں اپنے مقصد کے حصول میں ناکامی کا ذمے دار پاکستان کو قرار دے رہا ہے جب کہ اسے افغانستان میں ناکام بنانے کا ذمے دار سراسر بھارت ہے۔
پاکستان میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے اقتدار سنبھالا۔ انھوں نے پاکستان کے لیے ایک آزاد خارجہ پالیسی منتخب کی اور کسی بھی بلاک کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا اس کے ساتھ ہی روس سے تعلقات کو بڑھانے پر بھی بھرپور توجہ مرکوز کی اور پھر یہ تعلقات عروج پر پہنچ گئے۔ پاکستان کسی بھی صورت میں مغرب سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرسکتا کیونکہ ہماری معیشت کا انحصار مغربی ممالک پر ہے۔ اس کا خیال رکھے بغیر عمران خان اس وقت روس کے دورے پر جا پہنچے جب روس یوکرین پر حملہ کر چکا تھا۔ اس دورے سے روس سے ضرور ہمارے تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں مگر امریکا سے ہم دور ہوگئے ہیں۔
عمران خان نے امریکی ناراضگی کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد سے ملادیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا نے مالی چمک سے حزب اختلاف اور ان کے اپنے کچھ ممبران کو اپنی طرف کرلیا ہے۔ وہ ایک خط کو بھی اپنی حکومت کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس دھمکی آمیز خط میں درج ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو پاکستان کو نہیں بخشا جائے گا چنانچہ ان کے مطابق یہی خط حزب اختلاف کو ان کے خلاف اکسانے کا سبب بنا ہے اب جب کہ شہباز شریف اقتدار سنبھال چکے ہیں انھیں پہلی فرصت میں اس خط کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔