بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کے لیے…
تاریخ نویسی ادب کے تمام شعبوں میں سب سے زیادہ دقت طلب، محنت طلب اور پتہ مارنے والا کام ہے
OKARA:
دنیائے علم و ادب کے مہر منور ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی عمر طبعی گزار کر دنیا سے 18،اپریل 2019 کو رخصت ہو گئے۔
علم و ادب کے میدان میں ہرمحقق، ادیب ، شاعر اور طالبعلم کو فیض پہنچانیوالے، اپنے بے داغ کردار کی وجہ سے تمام لوگوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے والے فنا فی ادب ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی اپنے حصے کا کام کیا،ان کا سارا کام تحقیق ،تنقید،فکشن، تراجم اور تاریخ ادب اردو پر مشتمل ہے اور اردو ادب کی تاریخ انھی شعبوں پر قائم ہے ۔ انھوں نے علم و ادب کے میدان میں جو بھی کام کیا وہ نہ صرف مستند ہے ،معتبر ہے ، معیاری ہے بلکہ مفید بھی ہے۔
تاریخ نویسی ادب کے تمام شعبوں میں سب سے زیادہ دقت طلب، محنت طلب اور پتہ مارنے والا کام ہے کیونکہ قدیم ادب کا ایک بڑا حصہ کتب خانوں میں بند ہے ،بیشتر مخطوطے کی شکل میں ہیں اور پھر یہ کسی ایک شہر یا ایک لائبریری میں بھی نہیں ہیں۔ پورے برصغیر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جالبی صاحب نے جب تاریخ ادب اردو لکھنے کی ابتدا کی تو سب سے پہلے ان کے سامنے جو پہاڑ آیا وہ یہی تھا کہ قدیم مخطوطے کیسے حاصل کیے جائیں اوریہ کہاں کہاں سے دستیاب ہوں گے ۔ تاریخ لکھنے والے مورخ حضرات کے لیے مشفق خواجہ نے کیا خوب لکھا ہے۔
''ہمارے ادبی مورخوں نے کبھی ان مشکلات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا ،کچھ تو اس وجہ سے کہ انھوں نے ادب کے براہ راست مطالعہ کی زحمت ہی گوارا نہیں کی اور کچھ اس وجہ سے کہ ادبی ذخیرہ ان کی دسترس سے باہر تھا اس بنا پر اردو ادب کی تاریخوں میں نقل در نقل کی روایت پا گئی ''مگر ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب نے ایک ایسا ناممکن کام کر دکھایا جو ایک فرد واحد کا کام تھا ہی نہیں مگر جب عزم راسخ ہو ،ارادہ پختہ ہو، علم سے سینہ بھرا ہو اور طبیعت میں انکسار اور طینت غیر متعصب ہو تو پھر ایسے ہفت آسماں سر کیے جا سکتے ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے 1970سے تاریخ ادب اردو لکھنا شروع کیا اور ثابت قدمی سے اس کام میں مصروف رہے۔
ایک تو خود ان کی ذاتی لائبریری میں لاکھ سے زیادہ اردو، انگریزی، عربی اور فارسی ادب کے علاوہ مخطوطے ، قدیم کتب ، مسودات اور قلمی نسخے موجود ہیںاس کے علاوہ انھیں جس کتاب کی ضرورت پڑی کراچی کی قدیم لائبریریوں سے استفادہ کیا، مزید قدیم کتابوں کے لیے بیرون ملک کی لائبریریوں سے مخطوطوں کی میکرو فلم بنوائی اور جب تاریخ ادب اردو کی پہلی جلد آئی تو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اردو ادب کی تاریخ کیسے لکھی جاتی ہے اور ایسی باثروت اردو ادب کی تاریخ جو تمام تر تعصبات سے پاک اور مستند حوالوں سے مرتب کردہ ایک شان دار تاریخ ہے ۔
تاریخ ادب اردو واحد تاریخ کی کتاب ہے جس کے چار ضخیم حصے شایع ہوئے ہیں ،ضخامت کی وجہ سے اس کی قیمت بھی زیادہ ہے اس کے باوجود آج تک اس تاریخ ادب اردو کے ہر حصے کے کئی ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں۔ یہ اردو ادب کی واحد تاریخ ہے جس کا طرز تحریر اس قدر دل نشیں اور دلچسپ ہے کہ اس کو پڑھنے والے نہ بوریت کا شکار ہوتے ہیں نہ اکتاہٹ کا بلکہ اس کا کوئی باب بھی پڑھنے بیٹھ جائیں تو ایک ہی نشست میں ختم کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب اگر 60کے قریب ادب کے مختلف موضوعات پر ایک کتاب بھی نہیں لکھتے صرف تاریخ ادب اردو ہی لکھ دیتے تو بھی رہتی دنیا تک ان کانہ صرف نام رہتا بلکہ ان کے اس کارنامے کی کوئی گرد تک بھی نہ پہنچ پاتا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب نے ہیڈ ماسٹری سے اپنا کیرئیر شروع کیا اور پھر عزت و احترام کی سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے ، کمشنر انکم ٹیکس ہوئے ، جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ ہوئے، مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین ہوئے۔
1990سے 2017 تک ستائیس برسوں کی میری ان سے نیاز مندی تھی ۔ سہ ماہی علمی ،تحقیقی اور ادبی جریدہ سفیر اردو،لیوٹن (برطانیہ) کی ادارت میرے ذمے تھی اس حوالے سے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور پھرادبی ،علمی رسالہ ' 'ماہنامہ پرواز ، لندن'' کی ادارت بھی کرتا ہوں تو اس کے لیے بھی ڈاکٹر جمیل جالبی سے مضامین لیتا تھا یوں ان کی قربت میسر آتی گئی اور اس حد تک مجھ پر ان کا اعتماد بحال ہوا کہ کراچی میں تاریخ ادب اردو کی تیسری جلد کی کمپوزنگ مجھ سے کرائی ،اس کا اشاریہ بھی مجھ سے بنوایا ،کتاب مجلس ترقی ادب لاہور سے چھپی کہ احمد ندیم قاسمی سے ان کا وعدہ تھا پھر تاریخ ادب اردو کی چوتھی جلد کی بھی کمپوزنگ میں نے کرائی اور اس کا اشاریہ بھی بنایا اور یہ کتاب بھی مجلس ترقی ادب لاہور نے چھاپی اس وقت مجلس ترقی ادب لاہو رکے چیئر مین شہزاد احمد تھے۔
نیشنل بک فائونڈیشن کے تحت ان کی ایک کتاب''ارسطو سے ایلیٹ تک'' کا غالباً ساتوں ایڈیشن جو پہلی مرتبہ مشینی کتابت میں آیا ہے اس کی کمپوزنگ بھی مجھ سے کرائی ۔ یہ بات بتانے کی وجہ اپنی اہمیت ظاہر کرنا نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب جب کسی پر اعتماد کر تے تھے تو پھر خود اس کے بہت قریب آ جاتے تھے ۔ ہم تو ان کے نیاز مندوں میں سے ہیں، ان کا مجھ پر اتنا بھروسہ اور اس قدر محبت میرے لیے ظاہر ہے ایک فخر اور انبساط کی بات تھی۔
جب تاریخ ادب اردو کی چوتھی جلد چھپ گئی ۔ اب انھیں پانچویں جلد پر کام کرنا تھا مگر وہ کام کرتے کرتے بہت تھک گئے تھے او رکچھ عناصر بھی مضمحل ہونے لگے تھے ،اگرچہ انھوں نے پانچویں جلد پر کام کرنے کے لیے کافی کتابیں اور سادے دستے اپنی میز پر رکھ لیے تھے مگر ان کی طبیعت مزید کام کی طرف مائل نہیں ہو رہی تھی کیونکہ کمزوری اور بیماری کی شدت بڑھتی جا رہی تھی۔
ہمت کرتے مگر ہمت جواب دے جاتی تھی۔ میں تقریباً ہر دوسرے تیسرے دن ڈاکٹر صاحب کے ہاں جاتا تھا تاریخ ادب اردو کی پانچویں جلد پر کام کرنے کے لیے ان سے درخواست کرتا ،میں ان سے مزید کہتا کہ ڈاکٹر صاحب اب بیسویں صدی کے چند شعرا اور ادبا ہی تو رہ گئے ہیں ان پر آپ لکھ کر اس تاریخ کو مکمل کر دیں کیونکہ آپ کے بعد جو بھی لکھے گا وہ اپنے مسلک کے مطابق ان شعرا و ادبا سے سلوک کرے گا اور اس طرح حق دار کا حق غصب ہو جائے گا ۔خود انھیں بھی اس بات کا احساس تھا وہ انکار بھی نہیں کرتے تھے مگر کمزوری روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔
ایک تو ڈاکٹروں نے صبح، دوپہر شام اتنی گولیاں او رٹیبلٹس کھانے کے لیے ان کو دے دی تھیں کہ ان گولیوں اور ٹیبلٹس سے وہ عالم خمارمیں رہتے تھے ۔ان پر غنودگی کا عالم طاری رہتا تھا ایسی صورت میں وہ چاہتے ہوئے بھی میز پر بیٹھ کر کام کرنے سے قاصر تھے ۔ دراصل ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنے حصے سے بڑھ کر کام کیا تھا اس لیے قدرت انھیں آرام دینا چاہتی تھی اور یوں سال بھر وہ بستر پر فراش رہے اور 18،اپریل 2019 ان کی عمر کی نقدی پوری ہوئی اور وہ اس کلبہ احزاںسے باغ عدن کی جانب روانہ ہوئے ۔جالبی صاحب واقعی ودیا ساگر تھے ،مخمورؔ دہلوی کا یہ شعر واقعی ایسے ہی نابغہ روزگار عالم کے لیے ہے ۔
ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں
بہت چراغ جلائو گے روشنی کے لیے
دنیائے علم و ادب کے مہر منور ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی عمر طبعی گزار کر دنیا سے 18،اپریل 2019 کو رخصت ہو گئے۔
علم و ادب کے میدان میں ہرمحقق، ادیب ، شاعر اور طالبعلم کو فیض پہنچانیوالے، اپنے بے داغ کردار کی وجہ سے تمام لوگوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے والے فنا فی ادب ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی اپنے حصے کا کام کیا،ان کا سارا کام تحقیق ،تنقید،فکشن، تراجم اور تاریخ ادب اردو پر مشتمل ہے اور اردو ادب کی تاریخ انھی شعبوں پر قائم ہے ۔ انھوں نے علم و ادب کے میدان میں جو بھی کام کیا وہ نہ صرف مستند ہے ،معتبر ہے ، معیاری ہے بلکہ مفید بھی ہے۔
تاریخ نویسی ادب کے تمام شعبوں میں سب سے زیادہ دقت طلب، محنت طلب اور پتہ مارنے والا کام ہے کیونکہ قدیم ادب کا ایک بڑا حصہ کتب خانوں میں بند ہے ،بیشتر مخطوطے کی شکل میں ہیں اور پھر یہ کسی ایک شہر یا ایک لائبریری میں بھی نہیں ہیں۔ پورے برصغیر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جالبی صاحب نے جب تاریخ ادب اردو لکھنے کی ابتدا کی تو سب سے پہلے ان کے سامنے جو پہاڑ آیا وہ یہی تھا کہ قدیم مخطوطے کیسے حاصل کیے جائیں اوریہ کہاں کہاں سے دستیاب ہوں گے ۔ تاریخ لکھنے والے مورخ حضرات کے لیے مشفق خواجہ نے کیا خوب لکھا ہے۔
''ہمارے ادبی مورخوں نے کبھی ان مشکلات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا ،کچھ تو اس وجہ سے کہ انھوں نے ادب کے براہ راست مطالعہ کی زحمت ہی گوارا نہیں کی اور کچھ اس وجہ سے کہ ادبی ذخیرہ ان کی دسترس سے باہر تھا اس بنا پر اردو ادب کی تاریخوں میں نقل در نقل کی روایت پا گئی ''مگر ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب نے ایک ایسا ناممکن کام کر دکھایا جو ایک فرد واحد کا کام تھا ہی نہیں مگر جب عزم راسخ ہو ،ارادہ پختہ ہو، علم سے سینہ بھرا ہو اور طبیعت میں انکسار اور طینت غیر متعصب ہو تو پھر ایسے ہفت آسماں سر کیے جا سکتے ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے 1970سے تاریخ ادب اردو لکھنا شروع کیا اور ثابت قدمی سے اس کام میں مصروف رہے۔
ایک تو خود ان کی ذاتی لائبریری میں لاکھ سے زیادہ اردو، انگریزی، عربی اور فارسی ادب کے علاوہ مخطوطے ، قدیم کتب ، مسودات اور قلمی نسخے موجود ہیںاس کے علاوہ انھیں جس کتاب کی ضرورت پڑی کراچی کی قدیم لائبریریوں سے استفادہ کیا، مزید قدیم کتابوں کے لیے بیرون ملک کی لائبریریوں سے مخطوطوں کی میکرو فلم بنوائی اور جب تاریخ ادب اردو کی پہلی جلد آئی تو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اردو ادب کی تاریخ کیسے لکھی جاتی ہے اور ایسی باثروت اردو ادب کی تاریخ جو تمام تر تعصبات سے پاک اور مستند حوالوں سے مرتب کردہ ایک شان دار تاریخ ہے ۔
تاریخ ادب اردو واحد تاریخ کی کتاب ہے جس کے چار ضخیم حصے شایع ہوئے ہیں ،ضخامت کی وجہ سے اس کی قیمت بھی زیادہ ہے اس کے باوجود آج تک اس تاریخ ادب اردو کے ہر حصے کے کئی ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں۔ یہ اردو ادب کی واحد تاریخ ہے جس کا طرز تحریر اس قدر دل نشیں اور دلچسپ ہے کہ اس کو پڑھنے والے نہ بوریت کا شکار ہوتے ہیں نہ اکتاہٹ کا بلکہ اس کا کوئی باب بھی پڑھنے بیٹھ جائیں تو ایک ہی نشست میں ختم کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب اگر 60کے قریب ادب کے مختلف موضوعات پر ایک کتاب بھی نہیں لکھتے صرف تاریخ ادب اردو ہی لکھ دیتے تو بھی رہتی دنیا تک ان کانہ صرف نام رہتا بلکہ ان کے اس کارنامے کی کوئی گرد تک بھی نہ پہنچ پاتا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب نے ہیڈ ماسٹری سے اپنا کیرئیر شروع کیا اور پھر عزت و احترام کی سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے ، کمشنر انکم ٹیکس ہوئے ، جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ ہوئے، مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین ہوئے۔
1990سے 2017 تک ستائیس برسوں کی میری ان سے نیاز مندی تھی ۔ سہ ماہی علمی ،تحقیقی اور ادبی جریدہ سفیر اردو،لیوٹن (برطانیہ) کی ادارت میرے ذمے تھی اس حوالے سے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور پھرادبی ،علمی رسالہ ' 'ماہنامہ پرواز ، لندن'' کی ادارت بھی کرتا ہوں تو اس کے لیے بھی ڈاکٹر جمیل جالبی سے مضامین لیتا تھا یوں ان کی قربت میسر آتی گئی اور اس حد تک مجھ پر ان کا اعتماد بحال ہوا کہ کراچی میں تاریخ ادب اردو کی تیسری جلد کی کمپوزنگ مجھ سے کرائی ،اس کا اشاریہ بھی مجھ سے بنوایا ،کتاب مجلس ترقی ادب لاہور سے چھپی کہ احمد ندیم قاسمی سے ان کا وعدہ تھا پھر تاریخ ادب اردو کی چوتھی جلد کی بھی کمپوزنگ میں نے کرائی اور اس کا اشاریہ بھی بنایا اور یہ کتاب بھی مجلس ترقی ادب لاہور نے چھاپی اس وقت مجلس ترقی ادب لاہو رکے چیئر مین شہزاد احمد تھے۔
نیشنل بک فائونڈیشن کے تحت ان کی ایک کتاب''ارسطو سے ایلیٹ تک'' کا غالباً ساتوں ایڈیشن جو پہلی مرتبہ مشینی کتابت میں آیا ہے اس کی کمپوزنگ بھی مجھ سے کرائی ۔ یہ بات بتانے کی وجہ اپنی اہمیت ظاہر کرنا نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب جب کسی پر اعتماد کر تے تھے تو پھر خود اس کے بہت قریب آ جاتے تھے ۔ ہم تو ان کے نیاز مندوں میں سے ہیں، ان کا مجھ پر اتنا بھروسہ اور اس قدر محبت میرے لیے ظاہر ہے ایک فخر اور انبساط کی بات تھی۔
جب تاریخ ادب اردو کی چوتھی جلد چھپ گئی ۔ اب انھیں پانچویں جلد پر کام کرنا تھا مگر وہ کام کرتے کرتے بہت تھک گئے تھے او رکچھ عناصر بھی مضمحل ہونے لگے تھے ،اگرچہ انھوں نے پانچویں جلد پر کام کرنے کے لیے کافی کتابیں اور سادے دستے اپنی میز پر رکھ لیے تھے مگر ان کی طبیعت مزید کام کی طرف مائل نہیں ہو رہی تھی کیونکہ کمزوری اور بیماری کی شدت بڑھتی جا رہی تھی۔
ہمت کرتے مگر ہمت جواب دے جاتی تھی۔ میں تقریباً ہر دوسرے تیسرے دن ڈاکٹر صاحب کے ہاں جاتا تھا تاریخ ادب اردو کی پانچویں جلد پر کام کرنے کے لیے ان سے درخواست کرتا ،میں ان سے مزید کہتا کہ ڈاکٹر صاحب اب بیسویں صدی کے چند شعرا اور ادبا ہی تو رہ گئے ہیں ان پر آپ لکھ کر اس تاریخ کو مکمل کر دیں کیونکہ آپ کے بعد جو بھی لکھے گا وہ اپنے مسلک کے مطابق ان شعرا و ادبا سے سلوک کرے گا اور اس طرح حق دار کا حق غصب ہو جائے گا ۔خود انھیں بھی اس بات کا احساس تھا وہ انکار بھی نہیں کرتے تھے مگر کمزوری روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔
ایک تو ڈاکٹروں نے صبح، دوپہر شام اتنی گولیاں او رٹیبلٹس کھانے کے لیے ان کو دے دی تھیں کہ ان گولیوں اور ٹیبلٹس سے وہ عالم خمارمیں رہتے تھے ۔ان پر غنودگی کا عالم طاری رہتا تھا ایسی صورت میں وہ چاہتے ہوئے بھی میز پر بیٹھ کر کام کرنے سے قاصر تھے ۔ دراصل ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنے حصے سے بڑھ کر کام کیا تھا اس لیے قدرت انھیں آرام دینا چاہتی تھی اور یوں سال بھر وہ بستر پر فراش رہے اور 18،اپریل 2019 ان کی عمر کی نقدی پوری ہوئی اور وہ اس کلبہ احزاںسے باغ عدن کی جانب روانہ ہوئے ۔جالبی صاحب واقعی ودیا ساگر تھے ،مخمورؔ دہلوی کا یہ شعر واقعی ایسے ہی نابغہ روزگار عالم کے لیے ہے ۔
ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں
بہت چراغ جلائو گے روشنی کے لیے