احفاظ الرحمن اور مزاحمت پہلا حصہ
احفاظ کا اور میرا ان ہی کڑے موسموں کا ساتھ رہا۔ ہم نے بھنی ہوئی شکر قندی پر نمک اور کُٹی ہوئی سرخ مرچ بُرک کر کھائی
COLOMBO:
ایک ایسے زمانے میںجب جمہوریت کے لیے مزاحمت کی چنگاری پھر کہیں جھلملا رہی ہو تو احفاظ الرحمن یاد آتے ہیں اور ان کی وہ جدوجہد یا د آتی ہے جو انھوں نے شعور سنبھالنے کے بعد سے آخری سانس تک کی تھی۔ڈاکٹر طارق سہیل کے قائم کیے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کی طرف سے ڈاکٹر جعفر احمد نے احفاظ الرحمن کی جدوجہد اور مزاحمت کے بارے میں ایک کتاب شایع کی ہے جس میں ان کے دوستوں نے انھیں یاد کیا ہے اور احفاظ الرحمن کی نثری تحریروں اور ان کی شاعری سے انتخاب بھی دیا گیا ہے۔انھیں یاد کرنے والوں میں سحر انصاری ، فہمیدہ ریاض، مبین مرزا ، ڈاکٹر جعفر احمد ، مہنازرحمان ، رمیز رحمان اور کئی دوستوں کی تحریریں شامل ہیں۔اس کتاب میں ایک تحریر اس حقیر پُر تقصیر کی بھی ہے۔
میں نے ان کے بارے میں لکھا کہ زندگی کے کئی برس اس احفاظ الرحمن کے ساتھ گزارے جو شعلہ نفس اور شعلہ بار تھا۔ یہ وہ دن تھے جب جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا ڈنکا پٹتا تھا۔ باضمیر صحافیوں کا مقدر زنداںتھا، ان کی پشت کوڑوں سے ادھیڑی جاتی تھی اور معاش کا پرندہ ان کے گھر کی منڈیر سے اڑا دیا جاتا تھا، اُسکے پر کتر دیے جاتے تھے۔ ایسے میں کئی تھے جو خموشی سے ملک چھوڑ گئے۔ چند نے سر تسلیم خم کرلینے میں عافیت سمجھی اور کچھ وہ بھی تھے جنھوں نے دمشق کے دربار کی طرف قدم نہیں اٹھایا، نہ قلم کی آبرو کسی ملٹی نیشنل کے ہاتھوں فروخت کی۔ نوک قلم سے لفظوں کی مزدوری کی اور اپنے گھر والوں کو روکھی سوکھی کھلائی، ادھڑے ہوئے جوتوں اور گھسی ہوئی قمیصوں میں زندگی گزارنے کو اپنا اعزازجانا۔
احفاظ کا اور میرا ان ہی کڑے موسموں کا ساتھ رہا۔ ہم نے بھنی ہوئی شکر قندی پر نمک اور کُٹی ہوئی سرخ مرچ بُرک کر کھائی اور یوں خوش ہوئے جیسے مغلئی دستر خوان کے شاہی ٹکڑوں سے لطف اندوز ہوئے ہوں جن پر میوئوں کی ہوائی اور دبیز بالائی کی تہ ہو۔ مفلسی کا جشن مناتے ہوئے بھنے ہوئے گرم چنوں کی سوندھی خوشبوہماری سنگی ساتھی تھی۔ احفاظ اگر یہ مشکل زندگی ہنس کر گزار سکے تو اس لیے کہ مہ ناز ان کے دکھ سکھ کی شریک تھی اور صبر کے دریا میں شکر کی نائو ہنستے ہوئے کھیتی تھی۔ میرا جی خوش ہوا کہ اپنے نئے مجموعے ''زندہ ہے زندگی' 'کا انتساب احفاظ نے مہ ناز اور اپنے بچوں کے نام کیا تھا۔
انھوںنے نثر لکھی، شاعری کی ۔ ان کے لکھے ہوئے اور بولے ہوئے ہر لفظ کا قبلہ راست رہا۔ ہمارے یہاں ایسے متعدد شاعر گزرے ہیں جنھوں نے بغاوت اور سیاست دوراں کو اپنی شاعری کے ماتھے کا جھومر بنایا اور غیروں کے یہ بول سہے کہ شاعری اور سیاست کا بھلا کیا سمبندھ۔ احفاظ بھی ان ہی میں سے تھے جن کی شاعری میں سیاست لہوکی طرح گردش کرتی ہے۔
احفاظ الرحمن بغاوت، آزادی اور جمہوریت کی لڑائی لڑنے والے اس نام دار قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جس کا شجرۂ نسب ڈھائی ہزار سال پرانا ہے اور یونانی ادیبوں سے ملتا ہے اور جس میں اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں صدی کے کیسے نامی گرامی برطانوی، فرانسیسی، امریکی، ایرانی، لبنانی، عراقی اور فلسطینی شاعروں کے نام آتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو رگِ گل سے بلبل کے پر نہیں باندھتے۔ جن کی لکھی ہوئی سطروں میں اپنے عہد کا آشوب سانس لیتا ہے۔ ہم عشقی، نازک الملائکہ اور نزار قبانی کو کیسے بھلا سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ کیسے بُھلائے جاسکتے ہیں جو دنیا کے سات براعظموں میں زندہ رہے اور انسانوں کے بارے میںلکھتے رہے۔ جنھوں نے رنگ، نسل، مذہب اور علاقے کی تفریق کے بغیر مظلوموں کا ساتھ دیا اور اپنے ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
احفاظ ہمیشہ خوابوں کے تعاقب میں رہے اور اسی تعاقب کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ ''زندگی بہت سخت جان، بہت توانا ہے۔ زندگی محبت کی خوشبو پھیلاتی ہے اور وہ نفرت کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ زندگی کے ہاتھ پہیہ ایجاد کرتے ہیں، اس کے دشمن اپنی بالادستی اور برتری کی ہوس میں ایٹم بم بناتے ہیں۔ دوسروں کو اپنا محتاج اور غلام بنانے کی یہ ہوس سیاسی اور معاشی غلامی کا چلن عام کرتی ہے، ناانصافی کی بھیانک شکلوں کو فروغ دیتی ہے، اونچ نیچ کی دیواریں کھڑی کرتی ہے، لمحہ لمحہ محرومیوں کا زہر پینے والے مجبور اورنادار لوگوں پر قہقہے لگاتی ہے، رات دن مئے عشرت کے جام لنڈھانے والے حاکموں کو بڑھاوا دیتی ہے اور رنگ، نسل، مذہبی عقیدے اور جغرافیائی حد بندیوں کے نام پرہر گلی، ہر کوچے کو نفرتوں اور تعصبات کے سانپوں سے بھر دیتی ہے۔''
ہم اس خونیں تماشے کے چشم دید گواہ ہیں۔ ہمارے شہروں پر یہ عذاب گزر رہے ہیں۔ ہم ملکوں ملکوں استعمار کی مسلط کردہ جنگیں دیکھتے ہیں ، درندہ صفت دہشت گردوں کے خود کش حملوں کو سہتے ہیں۔ شہروں شہروں خون کا دریا بہتا دیکھتے ہیں۔اسی خوں آشام قبیلے کے بارے میں احفاظ نے لکھا: فصل کانٹوں کی جو اُگاتے ہیں...پھول کے دل کاحال کیا جانیں...خون جن کی غذا ہے، وہ وحشی...پیار کی بول چال کیا جانیں...بچیوں پر جو وار کرتے ہیں...مامتا کا ملال کیا جانیں...امن کے دشمنوں کی بم باری...موت کے خوگروں کی خوں باری۔
ہمارے شہر جس آشوب سے دوچار ہیں ، باردو ان پر جس طور برستی ہے، ہنستے ہوئے بچوں کی چلبلاہٹیں جس طرح خون میں نہلائی جاتی ہیں، اس کی اذیت انھیں فیض کے اس مصرعے کی تصویر بنا دیتی ہے کہ 'آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی' اور بے اختیار پکار اٹھتے ہیں... کہیں سے کوئی روشنی...کہیںسے کوئی راگنی... امڈ کے آئے اور...ملال کی رگوں سے کلفتیں نچوڑ لے...فریب خوردہ شہر کو صلیب سے اتار لے۔
فریب خوردہ شہر صلیب سے کب اترے گا، اور کون اسے اتارے گا، ہم نہیں جانتے، وہ بھی اس سے آگاہ نہیں، اسی لیے وہ ''ہوائے ملال کی تیزی'' کا شکوہ کر نے کے ساتھ ہی یہ مژدہ سناتے ہیں کہ ''قفس کوئی بھی ہو، اس کا مقدر ٹوٹ جانا ہے۔''
زندگی پر ان کے ایمان کا اندازہ ان سطروں سے ہوتا ہے۔...وقت صدیوں سے یوںہی...مچلتا ہوا، گنگناتا ہوا، رقص کرتا ہوا...ایک پیغام لکھتا رہا سدا...یہ زمیں سانس لیتی رہے گی سدا...زندگی کا ترانہ تو سرسبز ہے...کچھ رہے نہ رہے، زندہ ہے زندگی
ان کی نظموں میں نوم چومسکی، خلیل جبران اور ہوزے مارتی کے حوالے ہیں، ان کی سطروں میں گزرے ہوئے اور موجود دانشوروں کے خیال کی خوشبوسانس لیتی ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ یہ انصاف ہے جو کسی سماج کی تعمیرکرتا ہے۔ ناانصافی... انتشار اور زوال کو جنم دیتی ہے۔ طاقت... انصاف کے خون سے اپنی پیاس بجھاتی ہے اور جہاں جمہوریت نہ ہو، وہاں سرسبز پیڑ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔
صحافت ان کی محبوبہ تھی اور اس کی زلفیں سنوارنے کے لیے وہ جان پر کھیل جانے کو زندگی کی معراج سمجھتے تھے ، شعلہ نفس اور شعلہ بہ جاں تھے ۔ ایسے باضمیر لکھاریوں کے لیے پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی ایک زندان رہا اور آج بھی اس کی غیر مرئی سلاخیں آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہیں ۔
آزاد صحافت کے لیے پاکستان میں 77-78 کے دوران صحافی جس کرب و بلا سے گزرے اس کی داستان احفاظ نے ''سب سے بڑی جنگ ''کے عنوان سے قلم بند کی ہے ۔ آزادیٔ صحافت کی یہ وہ عظیم جدوجہد تھی جس کے بارے میں ''ٹائمز آف انڈیا'' نے لکھا تھا کہ ''اگر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس جیسی تنظیم ہندوستان میں ہوتی تو اندراگاندھی کبھی ایمرجنسی لگانے کی ہمت نہ کرتیں۔ ''
احفاظ خوش نصیب تھے کہ مہ ناز ایسی باہمت اور جفاکش عورت ان کی شریک حیات تھی ۔ ان کی کتاب '' سب سے بڑی جنگ'' کی تحریر اور ترتیب و تدوین میں مہ ناز کا بنیادی کردار ہے جنھوں نے سالہا سال تمام اخبار، رسائل اور تراشے سنبھال کر ایک دو چھتی میں رکھے اور جب احفاظ کو ان کی ضرورت ہوئی تو ان کے سامنے رکھ دیے ۔ یہ بھی ان کی خوش نصیبی ہے کہ انھیں روزنامہ ایکسپریس میں اقبال خورشید ایسا معاون میسر آیا جس نے ''سب سے بڑی جنگ'' کی تحریر و تدوین میں ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا ۔ اس میں تشدد کی کہانیاں ہیں اور فرہاد زیدی ، مسلم شیخ ، علی احمد خان، ظفر قریشی اور شبراعظمی کی جیل بیتیاں ہیں ۔ جیل سے لکھے جانے والے چند خطوط ہیں ۔ اس میں ڈاکٹر ناصرہ محمود اور شاہدہ جبیں اور کئی دوسری خواتین کے نام ہمیں ملتے ہیں جنھوں نے اس سفاک جنگ میں بہادری سے حصہ لیا۔ اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ہمیں ان لوگوں کے نام یاد دلاتی ہے جنھوں نے آمریت کے بدترین دنوں میں ہار نہیں مانی اور ہتھیار نہیں ڈالے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کے ساتھی صحافیوں کو جب ٹکٹکی پر باندھ کر کوڑے مارے گئے تو احفاظ ان کے لیے بلک بلک کر بہت روئے تھے۔ (جاری ہے)
(اعتذار: پچھلے کالم میں سید فرہاد زیدی پر لکھے گئے کالم کے عنوان میں کتابت کی ایک غلطی تھی جس کے لیے میں قارئین اور ان کے چاہنے والوں سے معذرت خواہ ہوں)
ایک ایسے زمانے میںجب جمہوریت کے لیے مزاحمت کی چنگاری پھر کہیں جھلملا رہی ہو تو احفاظ الرحمن یاد آتے ہیں اور ان کی وہ جدوجہد یا د آتی ہے جو انھوں نے شعور سنبھالنے کے بعد سے آخری سانس تک کی تھی۔ڈاکٹر طارق سہیل کے قائم کیے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کی طرف سے ڈاکٹر جعفر احمد نے احفاظ الرحمن کی جدوجہد اور مزاحمت کے بارے میں ایک کتاب شایع کی ہے جس میں ان کے دوستوں نے انھیں یاد کیا ہے اور احفاظ الرحمن کی نثری تحریروں اور ان کی شاعری سے انتخاب بھی دیا گیا ہے۔انھیں یاد کرنے والوں میں سحر انصاری ، فہمیدہ ریاض، مبین مرزا ، ڈاکٹر جعفر احمد ، مہنازرحمان ، رمیز رحمان اور کئی دوستوں کی تحریریں شامل ہیں۔اس کتاب میں ایک تحریر اس حقیر پُر تقصیر کی بھی ہے۔
میں نے ان کے بارے میں لکھا کہ زندگی کے کئی برس اس احفاظ الرحمن کے ساتھ گزارے جو شعلہ نفس اور شعلہ بار تھا۔ یہ وہ دن تھے جب جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا ڈنکا پٹتا تھا۔ باضمیر صحافیوں کا مقدر زنداںتھا، ان کی پشت کوڑوں سے ادھیڑی جاتی تھی اور معاش کا پرندہ ان کے گھر کی منڈیر سے اڑا دیا جاتا تھا، اُسکے پر کتر دیے جاتے تھے۔ ایسے میں کئی تھے جو خموشی سے ملک چھوڑ گئے۔ چند نے سر تسلیم خم کرلینے میں عافیت سمجھی اور کچھ وہ بھی تھے جنھوں نے دمشق کے دربار کی طرف قدم نہیں اٹھایا، نہ قلم کی آبرو کسی ملٹی نیشنل کے ہاتھوں فروخت کی۔ نوک قلم سے لفظوں کی مزدوری کی اور اپنے گھر والوں کو روکھی سوکھی کھلائی، ادھڑے ہوئے جوتوں اور گھسی ہوئی قمیصوں میں زندگی گزارنے کو اپنا اعزازجانا۔
احفاظ کا اور میرا ان ہی کڑے موسموں کا ساتھ رہا۔ ہم نے بھنی ہوئی شکر قندی پر نمک اور کُٹی ہوئی سرخ مرچ بُرک کر کھائی اور یوں خوش ہوئے جیسے مغلئی دستر خوان کے شاہی ٹکڑوں سے لطف اندوز ہوئے ہوں جن پر میوئوں کی ہوائی اور دبیز بالائی کی تہ ہو۔ مفلسی کا جشن مناتے ہوئے بھنے ہوئے گرم چنوں کی سوندھی خوشبوہماری سنگی ساتھی تھی۔ احفاظ اگر یہ مشکل زندگی ہنس کر گزار سکے تو اس لیے کہ مہ ناز ان کے دکھ سکھ کی شریک تھی اور صبر کے دریا میں شکر کی نائو ہنستے ہوئے کھیتی تھی۔ میرا جی خوش ہوا کہ اپنے نئے مجموعے ''زندہ ہے زندگی' 'کا انتساب احفاظ نے مہ ناز اور اپنے بچوں کے نام کیا تھا۔
انھوںنے نثر لکھی، شاعری کی ۔ ان کے لکھے ہوئے اور بولے ہوئے ہر لفظ کا قبلہ راست رہا۔ ہمارے یہاں ایسے متعدد شاعر گزرے ہیں جنھوں نے بغاوت اور سیاست دوراں کو اپنی شاعری کے ماتھے کا جھومر بنایا اور غیروں کے یہ بول سہے کہ شاعری اور سیاست کا بھلا کیا سمبندھ۔ احفاظ بھی ان ہی میں سے تھے جن کی شاعری میں سیاست لہوکی طرح گردش کرتی ہے۔
احفاظ الرحمن بغاوت، آزادی اور جمہوریت کی لڑائی لڑنے والے اس نام دار قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جس کا شجرۂ نسب ڈھائی ہزار سال پرانا ہے اور یونانی ادیبوں سے ملتا ہے اور جس میں اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں صدی کے کیسے نامی گرامی برطانوی، فرانسیسی، امریکی، ایرانی، لبنانی، عراقی اور فلسطینی شاعروں کے نام آتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو رگِ گل سے بلبل کے پر نہیں باندھتے۔ جن کی لکھی ہوئی سطروں میں اپنے عہد کا آشوب سانس لیتا ہے۔ ہم عشقی، نازک الملائکہ اور نزار قبانی کو کیسے بھلا سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ کیسے بُھلائے جاسکتے ہیں جو دنیا کے سات براعظموں میں زندہ رہے اور انسانوں کے بارے میںلکھتے رہے۔ جنھوں نے رنگ، نسل، مذہب اور علاقے کی تفریق کے بغیر مظلوموں کا ساتھ دیا اور اپنے ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
احفاظ ہمیشہ خوابوں کے تعاقب میں رہے اور اسی تعاقب کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ ''زندگی بہت سخت جان، بہت توانا ہے۔ زندگی محبت کی خوشبو پھیلاتی ہے اور وہ نفرت کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ زندگی کے ہاتھ پہیہ ایجاد کرتے ہیں، اس کے دشمن اپنی بالادستی اور برتری کی ہوس میں ایٹم بم بناتے ہیں۔ دوسروں کو اپنا محتاج اور غلام بنانے کی یہ ہوس سیاسی اور معاشی غلامی کا چلن عام کرتی ہے، ناانصافی کی بھیانک شکلوں کو فروغ دیتی ہے، اونچ نیچ کی دیواریں کھڑی کرتی ہے، لمحہ لمحہ محرومیوں کا زہر پینے والے مجبور اورنادار لوگوں پر قہقہے لگاتی ہے، رات دن مئے عشرت کے جام لنڈھانے والے حاکموں کو بڑھاوا دیتی ہے اور رنگ، نسل، مذہبی عقیدے اور جغرافیائی حد بندیوں کے نام پرہر گلی، ہر کوچے کو نفرتوں اور تعصبات کے سانپوں سے بھر دیتی ہے۔''
ہم اس خونیں تماشے کے چشم دید گواہ ہیں۔ ہمارے شہروں پر یہ عذاب گزر رہے ہیں۔ ہم ملکوں ملکوں استعمار کی مسلط کردہ جنگیں دیکھتے ہیں ، درندہ صفت دہشت گردوں کے خود کش حملوں کو سہتے ہیں۔ شہروں شہروں خون کا دریا بہتا دیکھتے ہیں۔اسی خوں آشام قبیلے کے بارے میں احفاظ نے لکھا: فصل کانٹوں کی جو اُگاتے ہیں...پھول کے دل کاحال کیا جانیں...خون جن کی غذا ہے، وہ وحشی...پیار کی بول چال کیا جانیں...بچیوں پر جو وار کرتے ہیں...مامتا کا ملال کیا جانیں...امن کے دشمنوں کی بم باری...موت کے خوگروں کی خوں باری۔
ہمارے شہر جس آشوب سے دوچار ہیں ، باردو ان پر جس طور برستی ہے، ہنستے ہوئے بچوں کی چلبلاہٹیں جس طرح خون میں نہلائی جاتی ہیں، اس کی اذیت انھیں فیض کے اس مصرعے کی تصویر بنا دیتی ہے کہ 'آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی' اور بے اختیار پکار اٹھتے ہیں... کہیں سے کوئی روشنی...کہیںسے کوئی راگنی... امڈ کے آئے اور...ملال کی رگوں سے کلفتیں نچوڑ لے...فریب خوردہ شہر کو صلیب سے اتار لے۔
فریب خوردہ شہر صلیب سے کب اترے گا، اور کون اسے اتارے گا، ہم نہیں جانتے، وہ بھی اس سے آگاہ نہیں، اسی لیے وہ ''ہوائے ملال کی تیزی'' کا شکوہ کر نے کے ساتھ ہی یہ مژدہ سناتے ہیں کہ ''قفس کوئی بھی ہو، اس کا مقدر ٹوٹ جانا ہے۔''
زندگی پر ان کے ایمان کا اندازہ ان سطروں سے ہوتا ہے۔...وقت صدیوں سے یوںہی...مچلتا ہوا، گنگناتا ہوا، رقص کرتا ہوا...ایک پیغام لکھتا رہا سدا...یہ زمیں سانس لیتی رہے گی سدا...زندگی کا ترانہ تو سرسبز ہے...کچھ رہے نہ رہے، زندہ ہے زندگی
ان کی نظموں میں نوم چومسکی، خلیل جبران اور ہوزے مارتی کے حوالے ہیں، ان کی سطروں میں گزرے ہوئے اور موجود دانشوروں کے خیال کی خوشبوسانس لیتی ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ یہ انصاف ہے جو کسی سماج کی تعمیرکرتا ہے۔ ناانصافی... انتشار اور زوال کو جنم دیتی ہے۔ طاقت... انصاف کے خون سے اپنی پیاس بجھاتی ہے اور جہاں جمہوریت نہ ہو، وہاں سرسبز پیڑ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔
صحافت ان کی محبوبہ تھی اور اس کی زلفیں سنوارنے کے لیے وہ جان پر کھیل جانے کو زندگی کی معراج سمجھتے تھے ، شعلہ نفس اور شعلہ بہ جاں تھے ۔ ایسے باضمیر لکھاریوں کے لیے پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی ایک زندان رہا اور آج بھی اس کی غیر مرئی سلاخیں آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہیں ۔
آزاد صحافت کے لیے پاکستان میں 77-78 کے دوران صحافی جس کرب و بلا سے گزرے اس کی داستان احفاظ نے ''سب سے بڑی جنگ ''کے عنوان سے قلم بند کی ہے ۔ آزادیٔ صحافت کی یہ وہ عظیم جدوجہد تھی جس کے بارے میں ''ٹائمز آف انڈیا'' نے لکھا تھا کہ ''اگر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس جیسی تنظیم ہندوستان میں ہوتی تو اندراگاندھی کبھی ایمرجنسی لگانے کی ہمت نہ کرتیں۔ ''
احفاظ خوش نصیب تھے کہ مہ ناز ایسی باہمت اور جفاکش عورت ان کی شریک حیات تھی ۔ ان کی کتاب '' سب سے بڑی جنگ'' کی تحریر اور ترتیب و تدوین میں مہ ناز کا بنیادی کردار ہے جنھوں نے سالہا سال تمام اخبار، رسائل اور تراشے سنبھال کر ایک دو چھتی میں رکھے اور جب احفاظ کو ان کی ضرورت ہوئی تو ان کے سامنے رکھ دیے ۔ یہ بھی ان کی خوش نصیبی ہے کہ انھیں روزنامہ ایکسپریس میں اقبال خورشید ایسا معاون میسر آیا جس نے ''سب سے بڑی جنگ'' کی تحریر و تدوین میں ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا ۔ اس میں تشدد کی کہانیاں ہیں اور فرہاد زیدی ، مسلم شیخ ، علی احمد خان، ظفر قریشی اور شبراعظمی کی جیل بیتیاں ہیں ۔ جیل سے لکھے جانے والے چند خطوط ہیں ۔ اس میں ڈاکٹر ناصرہ محمود اور شاہدہ جبیں اور کئی دوسری خواتین کے نام ہمیں ملتے ہیں جنھوں نے اس سفاک جنگ میں بہادری سے حصہ لیا۔ اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ہمیں ان لوگوں کے نام یاد دلاتی ہے جنھوں نے آمریت کے بدترین دنوں میں ہار نہیں مانی اور ہتھیار نہیں ڈالے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کے ساتھی صحافیوں کو جب ٹکٹکی پر باندھ کر کوڑے مارے گئے تو احفاظ ان کے لیے بلک بلک کر بہت روئے تھے۔ (جاری ہے)
(اعتذار: پچھلے کالم میں سید فرہاد زیدی پر لکھے گئے کالم کے عنوان میں کتابت کی ایک غلطی تھی جس کے لیے میں قارئین اور ان کے چاہنے والوں سے معذرت خواہ ہوں)