پھیپھڑوں کے امراض کی شناخت کے لیے مقناطیسی روبوٹ تیار

لیڈز یونیورٹی کے سائنسدانوں نے گہرائی تک جاکر کر نمونے جمع کرنے والا ایک نرم ’ہوشیار‘ روبوٹ بنایا ہے

صرف دو ملی میٹر جسامت کا یہ روبوٹ انسانی پھیپھڑوں کی گہرائی تک جاکر وہاں علاج اور تشخیص کا کام کرسکتا ہے۔ فوٹو: یونیورسٹی آف لیڈز

یونیورسٹی آف لیڈز کے سائنسدانوں نے ایک بہت چھوٹا، نرم اور ریشے (ٹینٹیکلز) والا روبوٹ بنایا ہے جو انسانی جسم بالخصوص پھیپھڑوں کی گہرائی میں اتر کر نمونے جمع کرسکتا ہے اور ادویہ بھی پہنچا سکتا ہے۔

اسے 'بازوؤں والا مقناطیسی روبوٹ' بنایا گیا ہے جس نرم سلینڈر نما ساختوں سے بنایا گیا ہے اور سانپ کی مانند مخصوص انداز میں رینگتا ہوا پھیپھڑے کے تنگ اندرونی حصہ تک پہنچتا ہے اور گہرائی تک جاکر اپنا کام کرتا ہے۔

جامعہ لیڈز میں روبوٹکس کے ماہر پروفیسر پائٹرو ویلڈاسٹری کے مطابق اگر یہ عجیب اور پراسرار شے ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ بدن کو کم سے کم نقصان پہنچائے بغیر انسانی جسم کی گہرائی تک اترا جائے اور وہاں بیماریوں اور سرطان کا مطالعہ کیا جائے۔


فی الحال ایک باریک اور لچکدار ٹیوب 'برونکواسکوپ' سے پھیپھڑوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ لیکن اپنی جسامت کی بنا پر استعمال محدود ہوتا ہے اور وہ مزید گہرائی تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ آگے چل کر انسانی پھیپھڑوں کی راہ تنگ اور پیچیدہ ہوتی جاتی ہے۔ دوسری جانب مریض کے ناک اور منہ سے برونکواسکوپ پھیھپڑوں میں ڈالی جاتی ہے جس سے خود مریض کو تکلیف ہوتی ہے۔

اسی ضرورت کے تحت مقناطیسی روبوٹ بنایا گیا ہے جو صرف دو ملی میٹر وسیع ہے اور باہر سے مقناطیسی انداز میں کنٹرول کیا جسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھیپھڑے کی انتہائی گہرائی تک پہنچ جاتا ہے اور وہاں تمام امراض کے لیے ایک نیا انقلابی تشخیصی آلہ ثابت ہوسکتا ہے۔

اس روبوٹ کے بازو کے اندر انتہائی باریک مقناطیس لگائے گئے ہیں جو اسے آگے بڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔ مستقبل میں ڈاکٹر باہر موجود ایک ڈسپلے پر روبوٹ کی حرکات نوٹ کرسکیں گے اور پھیپھڑے کی کیفیات معلوم کرسکیں گے۔ تاہم پہلے مرحلے میں اسے جانوروں اور مردہ انسانوں پر آزمایا گیا ہے۔ اگلے مرحلے میں انسانوں پراس کی آزمائش کی جائے گی لیکن اس میں پانچ سے دس برس لگ سکتے ہیں۔
Load Next Story