سانپ
قرض لے کر جعلی ترقی کے خواب دیکھنا بند کریں۔ اپنی اوقات کو پہچان کر قومی اہداف مقرر کریں
RAWALPINDI:
رات گئے ''صاحب'' کا فون آیا۔ ذاتی جیٹ سے ٹیلی فون کر رہے تھے۔ کافی طویل ویڈیو رابطہ تھا۔ سوئٹزر لینڈ سے لندن جا رہے تھے۔ بے وقت کال پر توجیہہ پیش کی کہ اٹھائیس ملین ڈالر کا نیا جہاز خریدا ہے۔ اسے دکھانا چاہتا ہوں۔
ساتھ ساتھ چند باتیں بھی ہو جائیں۔ جہاز سے تو خیر میری دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ مگر صاحب نے ضد کر کے پورا جیٹ اندر سے دکھا ڈالا۔ ایک بیڈ روم ' کانفرنس روم اور اسی طرح کی حد درجہ قیمتی سہولتیں موجود تھیں۔ مگر اگلی بات کافی حیران کن تھی۔
یہ تمام پیسے میں نے پاکستان سے کمائے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں سیاست دانوں' افسروں اور کاروباری لوگوں کی دولت کو حد درجہ ایمانداری سے مغرب کے محفوظ ترین بینکوں میںمنتقل کروایا ہے۔ ہر ایک سے کام کی دس سے پندرہ فیصد کمیشن وصول کی ہے۔ استفسار پر بتایا کہ یہ نئے نئے امیر سیاست دانوں کے پیسے ہیں۔ پرانے والے تو خیر تین چار سال سے بیکار بیٹھے ہوئے تھے۔
خیر اب ان کی حکومت دوبارہ آ گئی ہے۔ لہٰذا' دھندا بہترین طریقے سے دوبارہ شروع ہو گا۔ حیرت ہوئی کہ یہ نئے سیاست دان کون ہیں۔ سوال کیا تو صاحب نے قہقہہ لگا کر کہا کہ یہ بات تو خیر ہرگز ہرگز نہیں بتا سکتے ' کیونکہ ان کے کام میں راز داری حد درجہ اہم ہے۔
خیر سمجھ میں آ گیا کہ نئے سرمایہ دار' ان تین چار سالوں ہی کی پیداوار ہیں۔ صاحب نے ایک اور بات کہی کہ ان کا جیٹ پاکستان کے اہم ترین لوگوں کو کسی بھی مقامی ایئرپورٹ سے بحفاظت اٹھا کر دنیا کے کسی بھی کونے میں منتقل کرنے کے کام بھی آتا ہے۔
برسبیل تذکرہ پوچھا تو جواب سے شدید ذہنی جھٹکا لگا۔ ہمارے ملک کے سابقہ فرعون جن کے اشارہ ابرو سے بڑے بڑے لوگ پابند سلاسل ہو جاتے تھے' ان کے جہاز میں خفیہ سفر کر کے لندن اور سنگا پورمتعدد بار جا چکے تھے۔ اب شائد وہاں مستقل ڈیرے ڈالنے والے ہیں۔ صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے کسی بھی کلائنٹ کا نام نہیں لیتے۔ حد درجہ اشارے کنایوں میں بات کرتے ہیں۔ ویسے جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ ریاستی اداروں کے کئی اکابرین بھی ان کی خدمات لیتے رہتے ہیں۔
اور بقول صاحب ' یہ لوگ' سیاست دانوں سے زیادہ پیسے دیتے ہیں۔ بہر حال میرے جیسے سفید پوش آدمی کا امیر رہنماؤں سے کیا لینا دینا ۔ میری دنیا تو چھوٹا سا اسٹڈی روم ہے جس میں بیشتر وقت گزرتا ہے۔ ہاں چھوٹاسا ایک کاروبار ضرور ہے۔ جس سے سفید پوشی قائم ہے۔
صاحب کافی موڈ میں تھے۔ سامنے ٹیبل پر دنیا کے بہترین اور قیمتی مشروب رکھے ہوئے تھے ۔ انتہائی مستعد فضائی میزبان بڑے ادب اور احترام سے صاحب کی خدمت میں مصروف تھے۔ پوچھنے لگے۔ پاکستان میں حکومت تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے کیا اثرات ہوں گے۔
سوال پر مجھے رنج ہوا۔ کیونکہ ذاتی علم میں تھا کہ حکومت کی تبدیلی سے چند دن پہلے وہ اسلام آباد میں تھے۔ اہم ترین لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ جس دن تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی۔ اسی رات کو اپنے جہاز پر لندن واپس گئے تھے ۔ میرا کورا جواب تھا کہ نئی حکومت کے آنے کے نہ اسباب معلوم ہیں اور نہ ہی مجھے کسی قسم کی کوئی دلچسپی ہے۔ خشک جواب سن کر صاحب نے مخصوص قہقہہ لگایا۔ کہنے لگے کبھی ایک ارب روپیہ اکٹھا دیکھا ہے۔
یاچلو کبھی پچاس ارب دیکھنے کا تصور بھی کیا ہے۔ انکار پر بتانے لگے کہ دنیا میں سب سے بڑی طاقت پیسہ اور صرف پیسہ ہے۔ انسان سے ہر کام کروا لیتا ہے۔ ہر وفاداری تبدیل ہو جاتی ہے۔ بدترین دشمن بھی ڈالر لے کر دوست بن جاتے ہیں۔ اوریہ معاملہ الٹ بھی ہو جاتا ہے۔ مگر یہ تو کوئی اہم بات نہیں ہے۔ تحریک انصاف کا بیانیہ تو ہے ہی یہی کہ ان کی حکومت کو بیرونی طاقتوں نے پیسے کے بل بوتے پر ختم کیا ہے۔
اب صاحب' حددرجہ سنجیدہ ہو گئے۔ کہنے لگے کہ تحریک انصاف کے ننانوے فیصد لوگ یہ نہیں جانتے کہ کونسی بات کب اور کس سلیقے سے کرنی ہے۔ ان کے قائدین کی زبان ہی ان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔
کہے ہوئے الفاظ ان کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے ہیں۔ مگر اب بھی باز نہیں آئے۔ بلکہ نامناسب باتیں کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پرانے لوگ حد درجہ ہیں۔ انھیں عالمی طاقتوں کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ معلوم ہے کہ اقتدار کی بساط پر کون سی چال خاموشی سے کب چلنی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہر مشکل میں سے حفاظت سے نکل آتے ہیں۔ پھر انھیں حکومت بھی دے دی جاتی ہے۔ انھیں طاقت کے کھیل کی فہم ہے اور اب وہ واپس جانے کے لیے نہیں آئے ۔ بلکہ طویل عرصہ حکومت کرتے رہیںگے۔
چہرے پر سوال دیکھ کر کہنے لگے ۔ میری بات پر تمہیں یقین نہیں آیا۔ مگر اٹھارہ مہینے پہلے کی ملاقات یاد کرو۔ میرے پاس رات گئے اہم پاکستانی کون تھا۔ اور کیاپیشن گوئی کی تھی۔ میرے ذہن میں وہ سب کچھ فلم کی طرح چلنے لگا۔ اس اہم پاکستانی کا نام تو نہیں لے سکتا۔ مگر ''صاحب'' نے یہ ضرور کہا تھا کہ اب معاملات تھوڑے سے عرصے میں مکمل تبدیل ہو جائیںگے حالانکہ اس وقت خان صاحب کی حکومت حد درجہ مضبوط نظر آ رہی تھی۔
کسی قسم کے خطرے کی کوئی بات کم از کم میرے سامنے تو موجود نہیں تھی۔ اپوزیشن کے اکثر رہنما جیل میں تھے۔ اور ہر طرف درباری امن اور چین کی بانسری بجا رہے تھے۔ عین اس وقت بقول 'صاحب' حکومت تبدیل کرنے کی داغ بیل ڈالی جا چکی تھی۔ ہماری ملاقات میں یہ بات بالکل ہوئی تھی۔ مگر معروضی حالات کے مطابق میں نے یہی جانا تھا کہ صاحب کو شدید غلط فہمی ہوئی ہے۔
میں اب اکتا گیا تھا۔ ایک تو رات بہت ہو چکی تھی' مجھے نیند آ رہی تھی۔ اس کے علاوہ کون وزیراعظم بنتا ہے یا وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوتا ہے۔ میرا اس سے کیا لینا دینا۔ اس کے بعد صاحب نے جو بات کی' اس نے میری نیند اڑا دی۔ کہنے لگے۔ پاکستان میں اب ایک اہم واقعہ ہو گا اور اس کے بعد ملک میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے جوکنٹرول سے باہر بھی ہو سکتی ہے۔
اور ہاں' جو سیاسی رہنما یہ کہہ رہا ہے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔ وہ مکمل محفوظ رہے گا۔ واقعہ کچھ اور ہے بدامنی سے ہمارا ہمسایہ ملک پورا فائدہ اٹھائے گا اور پاکستان کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نیند مکمل طور پر غائب ہو چکی تھی۔ سوال کیا کہ آپ کی انفارمیشن کم از کم مجھے تو ذہن کا خلفشار لگتی ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ بلکہ انشاء اللہ ملک ہمیشہ کے لیے قائم و دائم رہے گا۔ صاحب خاموش ہو گئے۔
سگار جلاتے ہوئے پوچھا۔ ڈیڑھ برس پہلے تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے متعلق بتایا تھا یا نہیں۔ میرے اثبات پر کہنے لگے کہ چند باتیں اب طے ہو چکی ہیں۔ اور ان کو روکنا حد درجہ دشوار ہے۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ ملک کا کوئی ریاستی یا سیاسی رہنما معاملات کو بھانپ کر درست سمت میں چلنا شروع کر دے' قوم کو سچی باتیں بتانے کی جرأت کرے۔ انھیں سمجھائے کہ وہ دنیا کی ہر لحاظ سے بدحال قوم ہیں۔
قرض لے کر جعلی ترقی کے خواب دیکھنا بند کریں۔ اپنی اوقات کو پہچان کر قومی اہداف مقرر کریں۔ بتائے کہ ہم تو تنخواہ دینے کے لیے بھی بیرونی قرض کے محتاج ہیں۔ مسلمان ممالک اور مغربی دنیا ہمیں صرف دہشت گرد ی کا منبع گردانتے ہیں ۔ مگر یہ مشکل ترین کام کوئی نہیں کرے گا۔ ہمیں جذباتیت کی اس سیڑھی پر چڑھا دیا گیا ہے۔ جس کو اب نیچے سے کھینچنا باقی رہ گیا ہے اور اب زیادہ مہلت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا ہمارے غیر فطری بیانیے سے تنگ ہے۔ مسلمان ملک تک ہمیں اب قریب نہیں آنے دیتے۔
میں خاموش ہو گیا۔ کیونکہ صاحب کی گفتگو کے کئی پہلوؤں سے شدید اختلاف تھا اور ہے۔ مگر کیا وہ تمام باتیں غلط کہہ رہے تھے۔ اس کا جواب واقعی میرے پاس نہیں تھا ۔ صاحب آخر میں کہنے لگے کہ عوامی تائید سے پاکستان میں کوئی بھی تخت نشین نہیں ہوسکتا۔ یہ فیصلے پہلے بھی چھپ چھپا کر اسی طرز پر ہوتے رہے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ معاملہ اب صاف کھل کر سامنے آ چکا ہے۔
ویڈیو کال بند کرتے ہوئے' صاحب نے اپنی گود میں موجود پیلے رنگ کا خوبصورت سانپ دکھایا ۔اس کی قیمت تیس ہزار ڈالر ہے۔ تین دن پہلے خریدا ہے۔ نایاب چیز ہے۔ سانپ انتہائی اطمینان سے گہری نیند سو رہا تھا۔ پیلے رنگ پر نیلی دھاریوں والا قیمتی سانپ!
رات گئے ''صاحب'' کا فون آیا۔ ذاتی جیٹ سے ٹیلی فون کر رہے تھے۔ کافی طویل ویڈیو رابطہ تھا۔ سوئٹزر لینڈ سے لندن جا رہے تھے۔ بے وقت کال پر توجیہہ پیش کی کہ اٹھائیس ملین ڈالر کا نیا جہاز خریدا ہے۔ اسے دکھانا چاہتا ہوں۔
ساتھ ساتھ چند باتیں بھی ہو جائیں۔ جہاز سے تو خیر میری دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ مگر صاحب نے ضد کر کے پورا جیٹ اندر سے دکھا ڈالا۔ ایک بیڈ روم ' کانفرنس روم اور اسی طرح کی حد درجہ قیمتی سہولتیں موجود تھیں۔ مگر اگلی بات کافی حیران کن تھی۔
یہ تمام پیسے میں نے پاکستان سے کمائے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں سیاست دانوں' افسروں اور کاروباری لوگوں کی دولت کو حد درجہ ایمانداری سے مغرب کے محفوظ ترین بینکوں میںمنتقل کروایا ہے۔ ہر ایک سے کام کی دس سے پندرہ فیصد کمیشن وصول کی ہے۔ استفسار پر بتایا کہ یہ نئے نئے امیر سیاست دانوں کے پیسے ہیں۔ پرانے والے تو خیر تین چار سال سے بیکار بیٹھے ہوئے تھے۔
خیر اب ان کی حکومت دوبارہ آ گئی ہے۔ لہٰذا' دھندا بہترین طریقے سے دوبارہ شروع ہو گا۔ حیرت ہوئی کہ یہ نئے سیاست دان کون ہیں۔ سوال کیا تو صاحب نے قہقہہ لگا کر کہا کہ یہ بات تو خیر ہرگز ہرگز نہیں بتا سکتے ' کیونکہ ان کے کام میں راز داری حد درجہ اہم ہے۔
خیر سمجھ میں آ گیا کہ نئے سرمایہ دار' ان تین چار سالوں ہی کی پیداوار ہیں۔ صاحب نے ایک اور بات کہی کہ ان کا جیٹ پاکستان کے اہم ترین لوگوں کو کسی بھی مقامی ایئرپورٹ سے بحفاظت اٹھا کر دنیا کے کسی بھی کونے میں منتقل کرنے کے کام بھی آتا ہے۔
برسبیل تذکرہ پوچھا تو جواب سے شدید ذہنی جھٹکا لگا۔ ہمارے ملک کے سابقہ فرعون جن کے اشارہ ابرو سے بڑے بڑے لوگ پابند سلاسل ہو جاتے تھے' ان کے جہاز میں خفیہ سفر کر کے لندن اور سنگا پورمتعدد بار جا چکے تھے۔ اب شائد وہاں مستقل ڈیرے ڈالنے والے ہیں۔ صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے کسی بھی کلائنٹ کا نام نہیں لیتے۔ حد درجہ اشارے کنایوں میں بات کرتے ہیں۔ ویسے جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ ریاستی اداروں کے کئی اکابرین بھی ان کی خدمات لیتے رہتے ہیں۔
اور بقول صاحب ' یہ لوگ' سیاست دانوں سے زیادہ پیسے دیتے ہیں۔ بہر حال میرے جیسے سفید پوش آدمی کا امیر رہنماؤں سے کیا لینا دینا ۔ میری دنیا تو چھوٹا سا اسٹڈی روم ہے جس میں بیشتر وقت گزرتا ہے۔ ہاں چھوٹاسا ایک کاروبار ضرور ہے۔ جس سے سفید پوشی قائم ہے۔
صاحب کافی موڈ میں تھے۔ سامنے ٹیبل پر دنیا کے بہترین اور قیمتی مشروب رکھے ہوئے تھے ۔ انتہائی مستعد فضائی میزبان بڑے ادب اور احترام سے صاحب کی خدمت میں مصروف تھے۔ پوچھنے لگے۔ پاکستان میں حکومت تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے کیا اثرات ہوں گے۔
سوال پر مجھے رنج ہوا۔ کیونکہ ذاتی علم میں تھا کہ حکومت کی تبدیلی سے چند دن پہلے وہ اسلام آباد میں تھے۔ اہم ترین لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ جس دن تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی۔ اسی رات کو اپنے جہاز پر لندن واپس گئے تھے ۔ میرا کورا جواب تھا کہ نئی حکومت کے آنے کے نہ اسباب معلوم ہیں اور نہ ہی مجھے کسی قسم کی کوئی دلچسپی ہے۔ خشک جواب سن کر صاحب نے مخصوص قہقہہ لگایا۔ کہنے لگے کبھی ایک ارب روپیہ اکٹھا دیکھا ہے۔
یاچلو کبھی پچاس ارب دیکھنے کا تصور بھی کیا ہے۔ انکار پر بتانے لگے کہ دنیا میں سب سے بڑی طاقت پیسہ اور صرف پیسہ ہے۔ انسان سے ہر کام کروا لیتا ہے۔ ہر وفاداری تبدیل ہو جاتی ہے۔ بدترین دشمن بھی ڈالر لے کر دوست بن جاتے ہیں۔ اوریہ معاملہ الٹ بھی ہو جاتا ہے۔ مگر یہ تو کوئی اہم بات نہیں ہے۔ تحریک انصاف کا بیانیہ تو ہے ہی یہی کہ ان کی حکومت کو بیرونی طاقتوں نے پیسے کے بل بوتے پر ختم کیا ہے۔
اب صاحب' حددرجہ سنجیدہ ہو گئے۔ کہنے لگے کہ تحریک انصاف کے ننانوے فیصد لوگ یہ نہیں جانتے کہ کونسی بات کب اور کس سلیقے سے کرنی ہے۔ ان کے قائدین کی زبان ہی ان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔
کہے ہوئے الفاظ ان کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے ہیں۔ مگر اب بھی باز نہیں آئے۔ بلکہ نامناسب باتیں کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پرانے لوگ حد درجہ ہیں۔ انھیں عالمی طاقتوں کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ معلوم ہے کہ اقتدار کی بساط پر کون سی چال خاموشی سے کب چلنی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہر مشکل میں سے حفاظت سے نکل آتے ہیں۔ پھر انھیں حکومت بھی دے دی جاتی ہے۔ انھیں طاقت کے کھیل کی فہم ہے اور اب وہ واپس جانے کے لیے نہیں آئے ۔ بلکہ طویل عرصہ حکومت کرتے رہیںگے۔
چہرے پر سوال دیکھ کر کہنے لگے ۔ میری بات پر تمہیں یقین نہیں آیا۔ مگر اٹھارہ مہینے پہلے کی ملاقات یاد کرو۔ میرے پاس رات گئے اہم پاکستانی کون تھا۔ اور کیاپیشن گوئی کی تھی۔ میرے ذہن میں وہ سب کچھ فلم کی طرح چلنے لگا۔ اس اہم پاکستانی کا نام تو نہیں لے سکتا۔ مگر ''صاحب'' نے یہ ضرور کہا تھا کہ اب معاملات تھوڑے سے عرصے میں مکمل تبدیل ہو جائیںگے حالانکہ اس وقت خان صاحب کی حکومت حد درجہ مضبوط نظر آ رہی تھی۔
کسی قسم کے خطرے کی کوئی بات کم از کم میرے سامنے تو موجود نہیں تھی۔ اپوزیشن کے اکثر رہنما جیل میں تھے۔ اور ہر طرف درباری امن اور چین کی بانسری بجا رہے تھے۔ عین اس وقت بقول 'صاحب' حکومت تبدیل کرنے کی داغ بیل ڈالی جا چکی تھی۔ ہماری ملاقات میں یہ بات بالکل ہوئی تھی۔ مگر معروضی حالات کے مطابق میں نے یہی جانا تھا کہ صاحب کو شدید غلط فہمی ہوئی ہے۔
میں اب اکتا گیا تھا۔ ایک تو رات بہت ہو چکی تھی' مجھے نیند آ رہی تھی۔ اس کے علاوہ کون وزیراعظم بنتا ہے یا وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوتا ہے۔ میرا اس سے کیا لینا دینا۔ اس کے بعد صاحب نے جو بات کی' اس نے میری نیند اڑا دی۔ کہنے لگے۔ پاکستان میں اب ایک اہم واقعہ ہو گا اور اس کے بعد ملک میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے جوکنٹرول سے باہر بھی ہو سکتی ہے۔
اور ہاں' جو سیاسی رہنما یہ کہہ رہا ہے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔ وہ مکمل محفوظ رہے گا۔ واقعہ کچھ اور ہے بدامنی سے ہمارا ہمسایہ ملک پورا فائدہ اٹھائے گا اور پاکستان کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نیند مکمل طور پر غائب ہو چکی تھی۔ سوال کیا کہ آپ کی انفارمیشن کم از کم مجھے تو ذہن کا خلفشار لگتی ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ بلکہ انشاء اللہ ملک ہمیشہ کے لیے قائم و دائم رہے گا۔ صاحب خاموش ہو گئے۔
سگار جلاتے ہوئے پوچھا۔ ڈیڑھ برس پہلے تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے متعلق بتایا تھا یا نہیں۔ میرے اثبات پر کہنے لگے کہ چند باتیں اب طے ہو چکی ہیں۔ اور ان کو روکنا حد درجہ دشوار ہے۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ ملک کا کوئی ریاستی یا سیاسی رہنما معاملات کو بھانپ کر درست سمت میں چلنا شروع کر دے' قوم کو سچی باتیں بتانے کی جرأت کرے۔ انھیں سمجھائے کہ وہ دنیا کی ہر لحاظ سے بدحال قوم ہیں۔
قرض لے کر جعلی ترقی کے خواب دیکھنا بند کریں۔ اپنی اوقات کو پہچان کر قومی اہداف مقرر کریں۔ بتائے کہ ہم تو تنخواہ دینے کے لیے بھی بیرونی قرض کے محتاج ہیں۔ مسلمان ممالک اور مغربی دنیا ہمیں صرف دہشت گرد ی کا منبع گردانتے ہیں ۔ مگر یہ مشکل ترین کام کوئی نہیں کرے گا۔ ہمیں جذباتیت کی اس سیڑھی پر چڑھا دیا گیا ہے۔ جس کو اب نیچے سے کھینچنا باقی رہ گیا ہے اور اب زیادہ مہلت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا ہمارے غیر فطری بیانیے سے تنگ ہے۔ مسلمان ملک تک ہمیں اب قریب نہیں آنے دیتے۔
میں خاموش ہو گیا۔ کیونکہ صاحب کی گفتگو کے کئی پہلوؤں سے شدید اختلاف تھا اور ہے۔ مگر کیا وہ تمام باتیں غلط کہہ رہے تھے۔ اس کا جواب واقعی میرے پاس نہیں تھا ۔ صاحب آخر میں کہنے لگے کہ عوامی تائید سے پاکستان میں کوئی بھی تخت نشین نہیں ہوسکتا۔ یہ فیصلے پہلے بھی چھپ چھپا کر اسی طرز پر ہوتے رہے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ معاملہ اب صاف کھل کر سامنے آ چکا ہے۔
ویڈیو کال بند کرتے ہوئے' صاحب نے اپنی گود میں موجود پیلے رنگ کا خوبصورت سانپ دکھایا ۔اس کی قیمت تیس ہزار ڈالر ہے۔ تین دن پہلے خریدا ہے۔ نایاب چیز ہے۔ سانپ انتہائی اطمینان سے گہری نیند سو رہا تھا۔ پیلے رنگ پر نیلی دھاریوں والا قیمتی سانپ!