ڈجیٹل صورِ قیامت کلک ہو چکا ہے
آج کوئی مسئلہ ہی نہیں۔آپ کو جو ٹائپ کرنا ہے کریں۔انگلیاں احتیاط سے استعمال کریں یا کھلا چھوڑ دیں
HARIPUR:
وہ جو کہتے ہیں کہ جب سچ بال سنوار کر باہر نکلنے کے لیے تیار ہو رہا ہوتا ہے، تب تک جھوٹ کرہِ ارض کے تین چکر لگا کے سو چکا ہوتا ہے۔کہا تو یہ کئی عشروں پہلے گیا تھا مگر اس کہے کی حقیقت اب کہیں جا کے کھل رہی ہے۔
کہنے کو جھوٹ کی دو قسمیں ہیں۔سادہ جھوٹ اور سفید جھوٹ۔لیکن اب تیسری قسم نے پہلی دو قسموں کو لگ بھگ نگل لیا ہے۔یعنی ڈجیٹل سچائی کا جھوٹ۔
حالانکہ غالب پونے دو سو برس پہلے کہہ چکا ہے کہ ،
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
اور قمر جمیل پچاس برس پہلے کہہ چکے ہیں کہ ،
خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کا دکھانا مشکل ہے
آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے
اب جا کے معلوم ہوا کہ دونوں دراصل ڈجیٹل سچ کی جانب اشارہ کر رہے تھے ( ہر چند کہ ہے پر نہیں ہے)۔اب تو مجھ جیسے کھڑوسوں کو اکثر یہ سوچ کر خوشی ہوتی ہے کہ وقت کی سوئی کے ناکے سے عمر کا ہاتھی نکل گیا۔ بس دم باقی ہے۔
میری نسل کو یہی گھٹی پلائی گئی کہ یا تو سچ ہوتا ہے یا پھر جھوٹ۔باقی سب گرے ایریا ہے۔پر مصنوعی ذہانت کی غلام آج کی پوسٹ ٹرتھ دنیا میں ہر شخص کے ہاتھ میں سچ کا مینیو دیکھا تو مینا توتے سب اڑ گئے۔کتنا آسان ہو گیا ہے کہ گرے رنگ کے مینیو میں سے کوئی بھی زود ہضم سچ پسند کر لیجیے اور مینیو آگے بڑھا دیجیے۔
جب سے سچائی مینیو میں بدلی ہے جھوٹ بے روزگار ہو کر دبے پاؤں نیواں نیواں بغلی گلی سے کوچ کر گیا ہے یا پھر جان بچانے کے لیے کینچلی بدل چکا ہے۔
جب میں چالیس بیالیس برس پہلے یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھا تب دنیا انٹرنیٹ اور ڈجیٹل ورلڈ کی اصطلاحات سے پاک تھی۔چنانچہ اطلاعات کا بہاؤ بھی انتہائی سست رفتار تھا۔
جب جھوٹ پاؤں پر ڈستا تھا تو اس کا زہر تیزی سے خون میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے پنڈلی پر کس کے حقیقت کی پٹی باندھنے کی مہلت میسر آجاتی تھی۔اس دور میں طلبا تنظیمیں اپنے ووٹروں پر اثرانداز ہونے کے لیے ہینڈ بلز کا ذریعہ استعمال کرتی تھیں۔
مجھے دیگر جامعات کے سیاسی کلچر کا تو اندازہ نہیں البتہ اس زمانے میں کم ازکم کراچی یونیورسٹی کی حد تک یہ روایت زندہ تھی کہ کسی بھی مسئلے کی وضاحت یا مخالف تنظیم کے الزامات کا جواب دینے کے لیے چاق و چوبند طالبِ علم کارکن صبح سات بجے سے نو بجے تک ان بسوں کے منتظر رہتے جو شہر کے طول و عرض سے علم کی پیاسی نسل کو بھر بھر کے یونیورسٹی لاتی تھیں۔اور جب یہ نوجوان یونیورسٹی کے اندر مرکزی اسٹاپ پر اترتے تھے تو طلبا سیاسی کارکن انھیں ہینڈ بل تھماتے جاتے (آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ٹویٹر کی حجری شکل تھی ۔)
جب یونین الیکشن کا موسم شروع ہوتاتو اشتہاری جنگ میں بھی تیزی آ جاتی اور دن میں تین تین بار بھی الزامات و جوابی الزامات پر مبنی ہینڈ بلز تقسیم کیے جاتے۔عموماً طلبا تنظیمیں شہر کے دو تین کاتبوں سے ہینڈ بل لکھواتی تھیں اور دو ہی چھاپے خانے تھے جو ارجنٹ ہینڈ بلز چھاپ دیتے تھے اور موٹر سائیکل ہرکارہ ان کے بنڈل لے کر یونیورسٹی کی جانب دوڑ پڑتا تھا۔
ہینڈ بل کی کتابت اور چھپائی کروانے والے مخصوص کارکن ایک دوسرے کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے۔وہ مخالف کا متن افشا کرنے کے لیے کاتب کو دو پانچ روپے اضافی بھی ٹکا دیتے تھے۔چنانچہ اکثر یہ بھی ہوتا تھا کہ ایک تنظیم نے دوسرے پر الزامات کا ہینڈ بل تیار کروایا تو اسی کاتب کی جاسوسی کے نتیجے میں مخالف تنظیم کے کارکن نے بھی الزامات کے جواب وہیں کے وہیں لکھ کے اسی سے کتابت کروا لیے اور دونوں ہینڈ بلز ایک ہی چھاپے خانے سے ہوتے ہوئے بیک وقت یونیورسٹی پہنچ گئے اور ایک ساتھ ہی ہاتھ کے ہاتھ بٹ گئے۔
آج کوئی مسئلہ ہی نہیں۔آپ کو جو ٹائپ کرنا ہے کریں۔انگلیاں احتیاط سے استعمال کریں یا کھلا چھوڑ دیں، مہذب بننے کی اداکاری کریں یا کچی کچی گالیاں دیں، اعداد و شمار کی مدد سے اپنے موقف کو وزنی بنائیں یا اپنا خام موقف ہی دوسرے کے سر پر دے ماریں، اپنے ہی نام سے ٹائپ کریں یا اسی لیپ ٹاپ یا موبائل پر بیسیوں ناموں سے ایک ہی پیغام تیار کر لیں۔اصلی تصویر اٹیچ کریں یا کہیں کی تصویر کسی کی تصویر کے ساتھ کسی کا چہرہ کسی کی گردن پر فٹ کر کے یا کلک کر دیں۔آپ کا کام پورا اور دوسرے کا کام تمام۔
جب تک حقیقت سامنے آئے تب تک ڈجیٹل سنگساری کا عمل مکمل ہوچکا ہوگا۔عام چھری سے آپ بیک وقت ایک یا دو پیٹ پھاڑ سکتے ہیں مگر ڈجیٹل چھری آپ چشمِ زدن میں لاکھوں گردنوں پر پھیر سکتے ہیں۔پہلے جو کام ڈیتھ اسکواڈ کرتے تھے اب ٹرولنگ بریگیڈ کرتے ہیں۔جتنی انگلیاں اتنے سچ۔اتنے پتھراؤ میں بے چارا روایتی جھوٹ بھی کہاں ٹک سکتا ہے۔
نتیجہ: ہر جانب بھانت بھانت کے زومبیز (میرے پاس اس کا اردو متبادل نہیں ہے ) کی اک لہلہا تی فصل ہے جسے دور کہیں من پسند سچ کی صنعتی پیداوار کا نگراں کسی ٹھنڈے کمرے میں بیٹھا سائبر درانتی سے کاٹ رہا ہے اور ڈیٹا کی غلہ منڈی میں من مانے بھاؤ پر بیچ رہا ہے خرید رہا ہے۔اب تو لگتا ہے صورِ قیامت بھی ڈجیٹل ہے اور یہ بھی شاید کلک ہو چکا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
وہ جو کہتے ہیں کہ جب سچ بال سنوار کر باہر نکلنے کے لیے تیار ہو رہا ہوتا ہے، تب تک جھوٹ کرہِ ارض کے تین چکر لگا کے سو چکا ہوتا ہے۔کہا تو یہ کئی عشروں پہلے گیا تھا مگر اس کہے کی حقیقت اب کہیں جا کے کھل رہی ہے۔
کہنے کو جھوٹ کی دو قسمیں ہیں۔سادہ جھوٹ اور سفید جھوٹ۔لیکن اب تیسری قسم نے پہلی دو قسموں کو لگ بھگ نگل لیا ہے۔یعنی ڈجیٹل سچائی کا جھوٹ۔
حالانکہ غالب پونے دو سو برس پہلے کہہ چکا ہے کہ ،
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
اور قمر جمیل پچاس برس پہلے کہہ چکے ہیں کہ ،
خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کا دکھانا مشکل ہے
آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے
اب جا کے معلوم ہوا کہ دونوں دراصل ڈجیٹل سچ کی جانب اشارہ کر رہے تھے ( ہر چند کہ ہے پر نہیں ہے)۔اب تو مجھ جیسے کھڑوسوں کو اکثر یہ سوچ کر خوشی ہوتی ہے کہ وقت کی سوئی کے ناکے سے عمر کا ہاتھی نکل گیا۔ بس دم باقی ہے۔
میری نسل کو یہی گھٹی پلائی گئی کہ یا تو سچ ہوتا ہے یا پھر جھوٹ۔باقی سب گرے ایریا ہے۔پر مصنوعی ذہانت کی غلام آج کی پوسٹ ٹرتھ دنیا میں ہر شخص کے ہاتھ میں سچ کا مینیو دیکھا تو مینا توتے سب اڑ گئے۔کتنا آسان ہو گیا ہے کہ گرے رنگ کے مینیو میں سے کوئی بھی زود ہضم سچ پسند کر لیجیے اور مینیو آگے بڑھا دیجیے۔
جب سے سچائی مینیو میں بدلی ہے جھوٹ بے روزگار ہو کر دبے پاؤں نیواں نیواں بغلی گلی سے کوچ کر گیا ہے یا پھر جان بچانے کے لیے کینچلی بدل چکا ہے۔
جب میں چالیس بیالیس برس پہلے یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھا تب دنیا انٹرنیٹ اور ڈجیٹل ورلڈ کی اصطلاحات سے پاک تھی۔چنانچہ اطلاعات کا بہاؤ بھی انتہائی سست رفتار تھا۔
جب جھوٹ پاؤں پر ڈستا تھا تو اس کا زہر تیزی سے خون میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے پنڈلی پر کس کے حقیقت کی پٹی باندھنے کی مہلت میسر آجاتی تھی۔اس دور میں طلبا تنظیمیں اپنے ووٹروں پر اثرانداز ہونے کے لیے ہینڈ بلز کا ذریعہ استعمال کرتی تھیں۔
مجھے دیگر جامعات کے سیاسی کلچر کا تو اندازہ نہیں البتہ اس زمانے میں کم ازکم کراچی یونیورسٹی کی حد تک یہ روایت زندہ تھی کہ کسی بھی مسئلے کی وضاحت یا مخالف تنظیم کے الزامات کا جواب دینے کے لیے چاق و چوبند طالبِ علم کارکن صبح سات بجے سے نو بجے تک ان بسوں کے منتظر رہتے جو شہر کے طول و عرض سے علم کی پیاسی نسل کو بھر بھر کے یونیورسٹی لاتی تھیں۔اور جب یہ نوجوان یونیورسٹی کے اندر مرکزی اسٹاپ پر اترتے تھے تو طلبا سیاسی کارکن انھیں ہینڈ بل تھماتے جاتے (آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ٹویٹر کی حجری شکل تھی ۔)
جب یونین الیکشن کا موسم شروع ہوتاتو اشتہاری جنگ میں بھی تیزی آ جاتی اور دن میں تین تین بار بھی الزامات و جوابی الزامات پر مبنی ہینڈ بلز تقسیم کیے جاتے۔عموماً طلبا تنظیمیں شہر کے دو تین کاتبوں سے ہینڈ بل لکھواتی تھیں اور دو ہی چھاپے خانے تھے جو ارجنٹ ہینڈ بلز چھاپ دیتے تھے اور موٹر سائیکل ہرکارہ ان کے بنڈل لے کر یونیورسٹی کی جانب دوڑ پڑتا تھا۔
ہینڈ بل کی کتابت اور چھپائی کروانے والے مخصوص کارکن ایک دوسرے کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے۔وہ مخالف کا متن افشا کرنے کے لیے کاتب کو دو پانچ روپے اضافی بھی ٹکا دیتے تھے۔چنانچہ اکثر یہ بھی ہوتا تھا کہ ایک تنظیم نے دوسرے پر الزامات کا ہینڈ بل تیار کروایا تو اسی کاتب کی جاسوسی کے نتیجے میں مخالف تنظیم کے کارکن نے بھی الزامات کے جواب وہیں کے وہیں لکھ کے اسی سے کتابت کروا لیے اور دونوں ہینڈ بلز ایک ہی چھاپے خانے سے ہوتے ہوئے بیک وقت یونیورسٹی پہنچ گئے اور ایک ساتھ ہی ہاتھ کے ہاتھ بٹ گئے۔
آج کوئی مسئلہ ہی نہیں۔آپ کو جو ٹائپ کرنا ہے کریں۔انگلیاں احتیاط سے استعمال کریں یا کھلا چھوڑ دیں، مہذب بننے کی اداکاری کریں یا کچی کچی گالیاں دیں، اعداد و شمار کی مدد سے اپنے موقف کو وزنی بنائیں یا اپنا خام موقف ہی دوسرے کے سر پر دے ماریں، اپنے ہی نام سے ٹائپ کریں یا اسی لیپ ٹاپ یا موبائل پر بیسیوں ناموں سے ایک ہی پیغام تیار کر لیں۔اصلی تصویر اٹیچ کریں یا کہیں کی تصویر کسی کی تصویر کے ساتھ کسی کا چہرہ کسی کی گردن پر فٹ کر کے یا کلک کر دیں۔آپ کا کام پورا اور دوسرے کا کام تمام۔
جب تک حقیقت سامنے آئے تب تک ڈجیٹل سنگساری کا عمل مکمل ہوچکا ہوگا۔عام چھری سے آپ بیک وقت ایک یا دو پیٹ پھاڑ سکتے ہیں مگر ڈجیٹل چھری آپ چشمِ زدن میں لاکھوں گردنوں پر پھیر سکتے ہیں۔پہلے جو کام ڈیتھ اسکواڈ کرتے تھے اب ٹرولنگ بریگیڈ کرتے ہیں۔جتنی انگلیاں اتنے سچ۔اتنے پتھراؤ میں بے چارا روایتی جھوٹ بھی کہاں ٹک سکتا ہے۔
نتیجہ: ہر جانب بھانت بھانت کے زومبیز (میرے پاس اس کا اردو متبادل نہیں ہے ) کی اک لہلہا تی فصل ہے جسے دور کہیں من پسند سچ کی صنعتی پیداوار کا نگراں کسی ٹھنڈے کمرے میں بیٹھا سائبر درانتی سے کاٹ رہا ہے اور ڈیٹا کی غلہ منڈی میں من مانے بھاؤ پر بیچ رہا ہے خرید رہا ہے۔اب تو لگتا ہے صورِ قیامت بھی ڈجیٹل ہے اور یہ بھی شاید کلک ہو چکا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)