پارٹی سے انحراف کینسر حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے سپریم کورٹ

پارٹی سے بے وفائی بے ایمانی ہے تو آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا، سپریم کورٹ

آرٹیکل 63 اے میں چار مواقعوں پر وفاداری کو پارٹی پالیسی سے مشروط کر دیا ہے، چیف جسٹس

کراچی:
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ پارٹی سے انحراف کو کینسر کہا گیا اور حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے کہ 14 ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کو آئین میں شامل کیا گیا ، 14 ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کو بہت وسیع اختیارات تھے، الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی سربراہ کا فیصلہ مسترد کرنے کا اختیار نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کلچر بن گیا فیصلہ حق میں آئے تو انصاف ہوا، خلاف آئے تو انصاف تار تار ہوا، سپریم کورٹ

انہوں نے کہا کہ 2002 میں صدارتی آرڈر کے ذریعے 63 اے میں ترمیم کرکے پارٹی سربراہ کے اختیارات کو کم کردیا گیا، پھر 18 ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کے اختیار کو پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کو دے دیا گیا اور حتمی فیصلے کا اختیار سپریم کورٹ کو دے دیا گیا، 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کے ریفرنس پر فیصلہ کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے میں چار مواقعوں پر وفاداری کو پارٹی پالیسی سے مشروط کر دیا ہے، وفاداری بنیادی آئینی اصول ہے، نااہلی تو معمولی چیز ہے، آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے وفاداری کو یقینی بنانا ہے، تاہم ضروری نہیں جو حاصل کرنا ہے وہ آرٹیکل 63 اے سے حاصل کریں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ ہولڈر ہر امیدوار حلف دیتا ہے، ٹکٹ ہولڈر حلف دیتا ہے کہ کس پارٹی سے وابستہ ہے، حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے، کینسر یہ ہوتا ہے کہ جسم کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے، پارٹی سے انحراف کو بھی کینسر کہا گیا ہے۔


فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارٹی سے انحراف پر نااہلی نہیں ہوتی، بے وفائی سخت لفظ ہے اس کا آرٹیکل 63 اے میں ذکر نہیں۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کیا بے ایمانی پر نااہلی نہیں ہو سکتی، کیا بے وفائی بے ایمانی نہیں ہوتی، جب ایک رکن حلف میں کہتا ہے کہ وہ ایک جماعت کا رکن ہے تو اس کا مطلب ہے وہ پارٹی پالیسز کا پابند ہے، ہر چیز ہر جماعت کے کچھ قوائد و ضوابط ہوتے ہیں جن کی پابندی لازم ہے، کوالی فیکیشن اور ڈی کوالی فیکیشن کے آرٹیکل آگ کی دیوار نہیں، اگر بے وفائی بے ایمانی ہے تو آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا، سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں، ریڑھ کی ہڈی کو کینسر لگا کر نظام کیسے چلایا جا سکتا ہے؟۔

فاروق نائیک نے کہا کہ اگر یہ مان بھی لیں کہ منحرف رکن نے بے وفائی کی ہے تب بھی ڈی سیٹ ہوگا لیکن نااہل نہیں، ڈی سیٹ ہونے والا ضمنی الیکشن لڑسکتا ہے، انحراف کی یہی سزا ہے کہ ڈی سیٹ ہو۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تو پھر آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین سے نکال دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی شخص بدیانتی پر نا اہل ہو جائے تو وہ اگلا الیکشن کے لیے بھی نا اہل ہو جاتا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ یہ بات آئین میں کسی جگہ نہیں لکھی ، یہ بات دکھا دیں میں روسٹرم چھوڑ دوں گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نااہلی جیسی بڑی سزا ٹرائل کے بغیر نہیں دی جا سکتی، آزاد امیدوار کامیاب ہو کر پارٹی میں شامل ہونے والے نے جماعت سے وفاداری کا حلف نہیں لیا ہوتا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت میں آزاد اراکین ہونے ہی نہیں چاہئیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت سپریم کورٹ اپیل میں کیا فیصلہ کر سکتی ہے، ایک سوال ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دیا گیا یا نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہوسکتا ہے کہ پارٹی سے انحراف ہوا، اگر پالیسی کے خلاف ووٹ دیدیا تو عدالت کسی چیز کا تعین کریگی؟۔

رضا ربانی نے کہا کہ کل عدالت کے ان سوالات کے جوابات دوں گا۔ سپریم کورٹ نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
Load Next Story