دوسری جنگ عظیم میں بچ جانے والی خاتون روسی جنگ کے نتیجے میں ہلاک
91 سالہ خاتون منجمد تہہ خانے میں بغیر پانی کے پناہ لے رہی تھیں
دوسری جنگ عظیم اور نازیوں کے ہاتھوں زندہ بچ جانے والی وانڈا سمیونونا اوبیڈکووا نامی خاتون 91 برس کی عمر میں یوکرین میں روسی جنگ کے نتیجے میں انتقال کرگئیں ۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ کے دوران ماریوپول شہر میں 91 سالہ وانڈا سیمیونونا اوبیڈکووا ایک منجمد تہہ خانے میں بغیر پانی کے پناہ لیے ہوئے تھیں جس کے باعث وہ 4 اپریل کو انتقال کرگئیں۔
بزرگ خاتون 80 سال قبل بھی نازیوں کے حملے سے بچنے کے لیے ایک تہہ خانے میں چھپ گئی تھیں جس کے باعث وہ بمشکل زندہ بچ سکیں تاہم اس بار روسی افواج سے پناہ کی غرض سے چھپنا انہیں بچا نہ سکا۔
بزرگ خاتون کی بیٹی لاریسا کا کہنا ہے کہ میری ماں ایسی موت کی مستحق نہیں تھیں، تہہ خانے میں نہ پانی تھا، نہ بجلی جبکہ ناقابل برداشت حد تک سردی تھی، ہم اس کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ جانوروں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
تہہ خانے کے باہر گزارا ہر لمحہ خطرناک تھا، پانی کے قریب ترین ذرائع کے قریب دو اسنائپرز نصب کیے گئے تھے اور آسمان سے مسلسل بمباری کی جارہی تھی۔جب بھی کوئی بم گرتا تھا پوری عمارت لرز اٹھتی تھی۔ میری والدہ کہتی رہیں کہ انہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی ایسے حالات کا سامنا تھا۔
وانڈا 1930 میں پیدا ہوئی تھیں اور 1941 میں انکی عمر 10 برس تھی جب نازی قابضین یوکرین کے بندرگاہی شہر میں قبضے کی کوشش کی تھی اور یہودی آبادی کو گھیرے میں لے لیا تھا جبکہ انکے پورے خاندان کو اجتماعی قبر میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ کے دوران ماریوپول شہر میں 91 سالہ وانڈا سیمیونونا اوبیڈکووا ایک منجمد تہہ خانے میں بغیر پانی کے پناہ لیے ہوئے تھیں جس کے باعث وہ 4 اپریل کو انتقال کرگئیں۔
بزرگ خاتون 80 سال قبل بھی نازیوں کے حملے سے بچنے کے لیے ایک تہہ خانے میں چھپ گئی تھیں جس کے باعث وہ بمشکل زندہ بچ سکیں تاہم اس بار روسی افواج سے پناہ کی غرض سے چھپنا انہیں بچا نہ سکا۔
بزرگ خاتون کی بیٹی لاریسا کا کہنا ہے کہ میری ماں ایسی موت کی مستحق نہیں تھیں، تہہ خانے میں نہ پانی تھا، نہ بجلی جبکہ ناقابل برداشت حد تک سردی تھی، ہم اس کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ جانوروں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
تہہ خانے کے باہر گزارا ہر لمحہ خطرناک تھا، پانی کے قریب ترین ذرائع کے قریب دو اسنائپرز نصب کیے گئے تھے اور آسمان سے مسلسل بمباری کی جارہی تھی۔جب بھی کوئی بم گرتا تھا پوری عمارت لرز اٹھتی تھی۔ میری والدہ کہتی رہیں کہ انہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی ایسے حالات کا سامنا تھا۔
وانڈا 1930 میں پیدا ہوئی تھیں اور 1941 میں انکی عمر 10 برس تھی جب نازی قابضین یوکرین کے بندرگاہی شہر میں قبضے کی کوشش کی تھی اور یہودی آبادی کو گھیرے میں لے لیا تھا جبکہ انکے پورے خاندان کو اجتماعی قبر میں پھانسی دے دی گئی تھی۔