ننھے ہاتھ مزدوری پر مجبور کیوں
چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے حکومت اور تمام معاشرتی طبقوں کو مل کر کام کرنا ہو گا
پاکستان میں چائلڈ لیبر کا معاملہ انتہائی تشویش ناک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔
ورلڈ لیبر آرگنائزیشن ((W.L.Oکے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ بچے چا ئیلڈ لیبر کا شکار ہیں،اور دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ۔ اگر چہ اس صورتحال کو ایک معمول کا حصہ سمجھا جا تا ہے اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ بچے اپنے مفلوک الحال والدین کے مخدوش مالی حالات کو سنبھالنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
ان بچوں کی وجہ سے ان کے والدین کی مالی پر یشانیاں کم ہوتی ہیں ، مگر اصل صورتحال اس کے بر عکس ہے ۔ اس کے جو خوفناک نتائج مر تب ہو رہے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے۔
1۔ چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی شخصیت بچپن ہی سے مسخ ہو جاتی ہے ۔
2۔ ان کی قدرتی صلا حیتوں میں نکھار پیدا نہیں ہو تا ، جس کی وجہ سے یہ بچے بڑ ے ہو کر تقریباً غیر فعال ہو جاتے ہیں ۔
3۔ بچے کسی خاص ہنر میں مہارت تو حاصل کر لیتے ہیں ، مگر باقی معا ملات میں ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت خاصی محدود ہو جاتی ہے ۔
4۔ جب ان بچوں کی اپنی ازدواجی زندگی شروع ہوتی ہے تو یہ اپنے بچوں کی بہتر تر بیت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں ، جس کے نتیجے میں ان کے بچے بھی معاشرے میں فعال کردار سر انجام نہیں دے پاتے ، معاشرتی بے شعوری میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
5۔ چائیلڈ لیبر کا شکار بچوں میں لاکھوں بچے ایسے ہو تے ہیں کہ جن کا (آئی کیو لیول) بہت ہی بڑ ھ جاتا ہے اگر انھیں مناسب تعلیم وتر بیت ملے تو وہ ملک و قوم کے لئے بہت زیادہ کار آ مد ثابت ہو سکتے ہیں ۔
6۔ اسکول جا نے والے بچے اور جبری مشقت کا شکار بچے طبقاتی تفریق کی سب سے بڑی مثال ہیں ۔ جب یہ بچے بڑے ہو تے ہیں تو ان کے ذہنوں میں معاشرے کے لئے ایک انتقام ہوتا ہے ، جس کا مظاہرہ ملک کے ہر حصے میں نظر آ تا ہے۔
7۔ بہترین صلاحیت رکھنے والے بچوں کی صلاحیت بتدریج ختم ہو جاتی ہے ،آ خر کار یہ بچے بھی کُند ذہن کے مالک ہو جاتے ہیں ۔
8۔ چائلڈ لیبر کا شکار بچے انتہائی ڈھیٹ اور ضد ی ہو جاتے ہیں ۔
اگر اس کی تفصیل میں جائیں تو مستقبل کی ایک ایسی تباہ کُن تصویر سامنے نظرآ تی ہے کہ رو نگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ طبقاتی تفریق میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ معا شرے میں منفی رجحانات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ، صرف ایک مخصوص طبقے کو اوپر آ نے کا موقع مِلتا اور اس طبقے کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔
ان پھولوں کی حفاظت کون کرے گا ؟
چھوٹے بچے تو پھولوں کی مانند ہو تے ہیں ، ان کی آ بیاری اور نگہداشت پورے معاشرے کا فرض ہے, اگر ان کی حفاظت نہ کی جائے تو یہ ''پھول '' مر جھا جاتے ہیں ، '' یہ مرجھا ئے ہوئے پھول '' معاشر ے کے کوڑے کرکٹ میں پھینک دیئے جاتے ہیں ۔ حیرت کا مقام یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں سے انتہائی محبت کرنے والے اور ان کی ہر خواہش کو پوری کرنا اپنا فرض سمجھنے والے اُمراء کو ان بچوں کی بے بسی اور بے چارگی پر ترس نہیں آ تا ۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ معصوم بچے بھی ان کے اپنے بچوں کی مانند نازک احساسات اور جذبات کے مالک ہو ں گے ۔ یہ بچے بھی چاہتے ہو ں گے کہ وہ کام کریں جن سے انھیں سراہا جائے، ان کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ ان سے بھی محبت کی جائے ۔ ان کے بھی لاڈ اٹھائے جائیں ۔ خوشیوں پر ان کا بھی اِتنا ہی حق ہے ، جتنا دوسرے بچوں کا ۔
اگر ان کے والدین غریب ہیں یا خدا نخواستہ کسی بچے کے والدین حیات نہیں ہیں تو ایسے بچوں کی ذ مہ داری کیا ریاست اور معاشرے پر عائد نہیں ہوتی ۔؟
کیا ریاست کا فرض نہیں ہے کہ وہ '' ان کونپلوں'' کی نگہداشت اور حفاظت کرے تا کہ یہ بھی تناور درخت بن کر ملک و قوم کی پہچان بن کر فائدہ پہنچا سکیں ۔؟
ان بچوں کو مشقت کرتے دیکھ کر ہمارے معاشرے میں احساس کی لہر کیوں نہیں اٹھتی ؟کیوں ہمارا معاشرہ بے حس ہو چکا ہے؟
صاحب اولاد بھی جب ان مجبور بچوں پر تشدد کرتے ہیں توا ن کا دل کیوں نہیں کانپتا۔؟
گھریلو ملازماؤں اور دکانوں میں کام کرنے والے بچوں پر تشدد کے لا تعداد واقعات میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکے ہیں ۔ عام طور پر صاحب اولاد افراد ان بچوں پر تشدد کرنے میں ملوث ہوتے ہیں ۔
چائلڈ لیبر ختم کرنے کے لئے ریاست کی ذمہ داری
چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کے معا ملات کا جائزہ لیا گیا تو یہ تلخ حقیقت سا منے آئی کہ ان بچوں کا تعلق انتہائی مفلوک الحال خاندانوں کے ساتھ ہے ۔ ''بروکن فیملیز'' کے بچے بھی تعلیم حاصل کرنے کی بجائے کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ یتیم بچوں کی بہت بڑی تعداد بھی مزدوری کرنے پر مجبور ہے ۔ یہ حقیقت بھی سامنے آ ئی ہے کہ پاکستان میں رسمی اقدامات کے علاوہ نہ تو کسی حکومت نے اپنی ذ مہ داری پوری کی ہے نہ ہی ریاستی اداروں نے ۔
پوری دنیا کے مہذب معاشروں میں بچوں پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے کہ انہی بچوں نے آگے چل کر ملک وقوم کی باگ ڈور سنبھالنی ہے ، ساری پا لیسیاں ایسی بنائی جاتی ہیں جن سے بچوں کی قدرتی رجحانات کے مطابق نشوونما ہوتی ر ہے ۔ جسم کے ساتھ دماغی صلاحیت بھی بڑ ھتی جائے ۔ دماغی استعداد میں اضافہ ہوتا جائے ۔ دماغ میں برداشت اور بروقت صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو ، بچوں میںجا ننے کا تجسس پیدا ہو ۔
مگر بدقسمتی سے ہمارا حکومتی اور سیاسی نظام ایسا ہے کہ جہاں اِن معاملات پر قطعاً توجہ نہیں دی جاتی ، زیادہ تر توجہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ پر دی جاتی ہے اور عوام کو لچھے دار باتوں میں الجھایا جاتا ہے ۔ مہذب دنیا میں تو سارا فوکس ہی بچوں پر ہوتا ہے مگر یہاں ان معاملات کو سمجھا ہی نہیں جاتا ۔ چائلڈ لیبر کا نتیجہ پورا ملک اور قوم بھگت رہی ہے مگر اب بھی اس کا سدباب کرنے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی جا رہی ۔
اس وقت تقریباً دو کروڑ خاندان خِط غربت سے نیچے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے پا س ایسے وسائل ہی نہیں ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکیں۔ اوپر سے ہمارے ملک میں تعلیمی سہولتیں نہ ہو نے کے برابر ہیں ۔ بچوں کو خود ہی اسکولوں میں پک اینڈ ڈراپ کرنا پڑتا ہے ، جو والدین ملازمت کرتے ہیں یا ایسے کا روبار سے منسلک ہیں جو صبح سویرے ہوتے ہے، مثلاً ناشتہ ، سبزی منڈیوں کا کام ، ٹرانسپورٹ اور بھی کئی ایسے کام ہیں جو صبح ہوتے ہیں ، اُ ن کے لئے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ اگر پک اینڈ ڈراپ کے لئے اسکول وین کی سہولت سے فائدہ اٹھایا جائے تو اس کے اخراجات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔
ریاست اور حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ رسمی اور نیم دلانا کوشش کرنے کی بجائے عملی طور پر اپنی اِن ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ ایک کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں اور دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ، اس کے بعد ہم اپنے روشن مستقبل کے خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں ؟ ۔ ریاست اور حکومت کی پہلی تر جیح ہی چائلڈ لیبرکا خاتمہ اور بچوں کی تعلیم کو یقینی بنانا ہونا چاہیے ۔
ریاست تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا مستقبل یقینی بنائے
چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کے بے شمار والدین سے جب ان کی رائے لی گئی تو انھوں نے مختلف وجوہات بیان کیں ۔
1۔ غربت کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے ، فارغ رکھنے سے بہتر ہے کہ ہنر سکھا دیا جائے۔
2۔ تعلیم حاصل کر نے کے بعد نوکری نہیں مِلتی ، پھر کا م سیکھنے کی عمر بھی گزر جاتی ہے۔
3۔ اچھے نجی اداروں میں ہی تعلیم حاصل کرنے والوں کو ہی اچھی نوکریاں ملتی ہیں۔
4۔ سر کاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
5۔ کم عمری میں کام سیکھنے والوں کو کام پر مہارت حاصل ہوتی ہے ۔
6۔ بچوں کو آ وارگی سے بچانے کیلئے کام پر ڈال دیا جاتا ہے ۔
7۔ بہت سے گھروں کے اخراجات ہی ان بچوں کی وجہ سے چلتے ہیں ۔
8۔ دیہی علاقوں میں غربت بہت زیادہ ہے اس لئے بچوں اور بچیوں کو شہروں میں بطور گھریلو ملازم رکھوا دیا جاتا ہے ۔
9۔ گاؤں میں کھیتی باڑی کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوتا اس لئے بچوں کو شہروں اور قصبات میں کام سیکھنے کیلئے بھیج دیا جاتا ہے ۔
10۔ ان بچوں کا دماغ تعلیم کی طرف مائل ہی نہیں ہوتا ۔
11۔ بہت پڑھانے کی کوشش کی مگر یہ بچے اسکول سے بھاگ جاتے تھے ، ان کو پڑھانے کی کوششوں میں پیسہ اور وقت ہی ضائع ہوا ہے ۔
یہ وہ مسائل ہیں ، جن کی وجہ سے چائلڈ لیبر میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ سب سے پہلے ریاست کی جانب سے ایسی ترغیبات ہونی چاہئیں کہ لوگوں کو اپنے بچوں کا مستقبل یقینی نظر آئے اور انھیں یقین ہو کہ تعلیم دلوا کر ہی ان کے بچوں کا مستقبل بہتر بن سکتا ہے ۔ بچے جب اپنے بچپن کا دور گزار لیں تو پھر وہ کوئی کا م سیکھیں یا تعلیم حاصل کریں ، اس کا انحصار ان کے ذہنی رجحانات کے مطابق ہو نا چاہیے ، مجبوری کی وجہ سے نہیں ، ریاست کی طرف سے اس بات کا تحفظ ہو کہ اگر آپ کا بچہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو ریاستی وسائل اس کے لئے حاضر ہیں اور اگر وہ کوئی ہنر سیکھنا چاہتا ہے تو کم ازکم پندرہ سال کی عمر کے بعد سیکھ سکتا ہے ، مگر اس عرصہ میں اسے تعلیم لازمی حاصل کرنی پڑ ے گی ۔
معاشرے کی ذ مہ داری
دین ِ اسلام نے اس دنیا کو جو فلاحی ، معاشی اور اقتصادی نظام دیا ، اگر اس نظام پر عمل کر لیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کے علاوہ معاشرتی ذ مہ داریاں بھی پوری ہو ں گی ۔
زکواۃ اور صدقات کا نظام ہی بے بس و بے کس انسانیت کی مجبوریاں ختم کر نے کے لئے ہے ۔ چائلڈ لیبر ختم کرنے میں معاشرے کا کردار بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے ، صاحب حیثیت اور متمول افراد ایسے افراد کی مالی مدد کریں، جو بچوں کی کفالت کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں ، جو مجبوری کے عالم میں اپنے بچوں کو مشقت کی بھٹیوں میں جھونکنے پر مجبور ہیں ، صاحب حیثیت اور صا حب استعداد افراد اپنے صدقات ، زکواۃ اور عطیات پیشہ ور فقیروں ، نشئی افراد اور نوسربازوں پر خرچ نہ کریں ۔ چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے ، کہا جاتا ہے کہ پاکستانی سب سے زیادہ صدقہ و خیرات دیتے ہیں اگر یہ رقم واقعتاً بے بس اور بے کس افراد پر خرچ ہو جائے تو ہمارے ملک سے چائلڈ لیبر کا نام و نشان ختم ہو جائے ۔
مفت کے غلام
دکا نداروں اور ہنر مند افراد نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ چائلڈ لیبر انھیں انتہائی سستی پڑتی ہے ۔ کا فی عرصہ تو کام سکھانے کے نام پر کوئی پیسہ ہی نہیں دینا پڑتا پھر صرف معمولی جیب خرچ دینا پڑتا ہے ۔ حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے ۔ چا ئلڈ لیبر کے متعلق قوانین موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا ۔ جن دکانوں ، فیکٹریوں اور گھروں میں بچے کا م کرتے نظر آئیں گرفتار کر کے سزا دی جائے ، اور قانونی کاروائی سخت ہونی چاہیے ۔
کام چور اور ہڈ حرام والدین
یہ بات بھی منظر عام پر آئی ہے کہ بے شمار ہڈ حرام افراد اپنی کاہلی ، سُستی اور ہڈ حرامی کی وجہ سے اپنے بچوں کو چائلڈ لیبر کی بھٹیوں میں جھونک دیتے ہیں ۔ خود گھر میں آرام کرتے ہیں یا پھر نشہ کی عادت میں مبتلا ہو کر پیسوں کے لئے اپنے بیوی بچوں پر تشدد کرتے ہیں جس سے وہ کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ، ۔ ایسے افراد کے خلاف بھی معاشرتی ، حکومتی اور ریاستی سطح پر کا رروائی کی جاتی چاہیے اور اس کے لئے باقاعدہ سرکاری نیٹ ورک ہونا چاہیے کیونکہ استحصال کا شکار ایسے افراد ڈر اور خوف کی وجہ سے خود کبھی بھی شکایت نہیں کرتے ۔
دراصل مسائل کے خاتمے کے لئے معاشرتی ، حکومتی اور ریاستی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی اور یہی ہمارے تمام مسائل کی سب بڑی وجہ ہے، ہمارا معاشرہ منظم اور مربوط نہیں ہے ۔ اجتماعی قومی زندگی کا تصور مفقود ہو چکا ہے ۔ انفرادی سوچ نے جنم لیا ہے ، صرف اپنے بچوں کو ہی اپنے بچے سمجھا جاتا ہے دوسرے بچوں کو قابل توجہ اور قا بل محبت سمجھا ہی نہیں جاتا ، حالانکہ بچے سب کے ایک جیسے ہوتے ہیں اور وہی مستقبل کے معمار ہوتے ہیں ۔
اسلام میں بچوں کے حقوق
دین اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات فوراً منظر پر آتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے بچوں سے انتہائی شفقت اور محبت کرتے تھے ، آپﷺ کی پوری حیات ِ مبارکہ اس بات کی گواہ ہے کہ آ پﷺ نے بچوں کے ساتھ کس قدر محبت کی ۔ آ پﷺ تمام بچوں سے حسن ؓ اور حسینؓ جیسی محبت کرتے تھے ۔ بچوں سے محبت ،بچوں کی مناسب نگہداشت ان کی پرورش پر توجہ ، ان کی قدرتی صلاحیتوں کو نکھا رنا، انھیں بہادر بنانا ، انھیں دین کا مکمل علم دینا اور علمِ و شعور سے بہرہ مند کرنا ہمارے دین اسلام کا بنیادی جّزو ہے اور اس فرض کو والدین، صاحب ثروت افراد اور حکومت ادا کرنے کی پابند ہے !!!
ورلڈ لیبر آرگنائزیشن ((W.L.Oکے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ بچے چا ئیلڈ لیبر کا شکار ہیں،اور دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ۔ اگر چہ اس صورتحال کو ایک معمول کا حصہ سمجھا جا تا ہے اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ بچے اپنے مفلوک الحال والدین کے مخدوش مالی حالات کو سنبھالنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
ان بچوں کی وجہ سے ان کے والدین کی مالی پر یشانیاں کم ہوتی ہیں ، مگر اصل صورتحال اس کے بر عکس ہے ۔ اس کے جو خوفناک نتائج مر تب ہو رہے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے۔
1۔ چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی شخصیت بچپن ہی سے مسخ ہو جاتی ہے ۔
2۔ ان کی قدرتی صلا حیتوں میں نکھار پیدا نہیں ہو تا ، جس کی وجہ سے یہ بچے بڑ ے ہو کر تقریباً غیر فعال ہو جاتے ہیں ۔
3۔ بچے کسی خاص ہنر میں مہارت تو حاصل کر لیتے ہیں ، مگر باقی معا ملات میں ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت خاصی محدود ہو جاتی ہے ۔
4۔ جب ان بچوں کی اپنی ازدواجی زندگی شروع ہوتی ہے تو یہ اپنے بچوں کی بہتر تر بیت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں ، جس کے نتیجے میں ان کے بچے بھی معاشرے میں فعال کردار سر انجام نہیں دے پاتے ، معاشرتی بے شعوری میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
5۔ چائیلڈ لیبر کا شکار بچوں میں لاکھوں بچے ایسے ہو تے ہیں کہ جن کا (آئی کیو لیول) بہت ہی بڑ ھ جاتا ہے اگر انھیں مناسب تعلیم وتر بیت ملے تو وہ ملک و قوم کے لئے بہت زیادہ کار آ مد ثابت ہو سکتے ہیں ۔
6۔ اسکول جا نے والے بچے اور جبری مشقت کا شکار بچے طبقاتی تفریق کی سب سے بڑی مثال ہیں ۔ جب یہ بچے بڑے ہو تے ہیں تو ان کے ذہنوں میں معاشرے کے لئے ایک انتقام ہوتا ہے ، جس کا مظاہرہ ملک کے ہر حصے میں نظر آ تا ہے۔
7۔ بہترین صلاحیت رکھنے والے بچوں کی صلاحیت بتدریج ختم ہو جاتی ہے ،آ خر کار یہ بچے بھی کُند ذہن کے مالک ہو جاتے ہیں ۔
8۔ چائلڈ لیبر کا شکار بچے انتہائی ڈھیٹ اور ضد ی ہو جاتے ہیں ۔
اگر اس کی تفصیل میں جائیں تو مستقبل کی ایک ایسی تباہ کُن تصویر سامنے نظرآ تی ہے کہ رو نگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ طبقاتی تفریق میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ معا شرے میں منفی رجحانات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ، صرف ایک مخصوص طبقے کو اوپر آ نے کا موقع مِلتا اور اس طبقے کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔
ان پھولوں کی حفاظت کون کرے گا ؟
چھوٹے بچے تو پھولوں کی مانند ہو تے ہیں ، ان کی آ بیاری اور نگہداشت پورے معاشرے کا فرض ہے, اگر ان کی حفاظت نہ کی جائے تو یہ ''پھول '' مر جھا جاتے ہیں ، '' یہ مرجھا ئے ہوئے پھول '' معاشر ے کے کوڑے کرکٹ میں پھینک دیئے جاتے ہیں ۔ حیرت کا مقام یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں سے انتہائی محبت کرنے والے اور ان کی ہر خواہش کو پوری کرنا اپنا فرض سمجھنے والے اُمراء کو ان بچوں کی بے بسی اور بے چارگی پر ترس نہیں آ تا ۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ معصوم بچے بھی ان کے اپنے بچوں کی مانند نازک احساسات اور جذبات کے مالک ہو ں گے ۔ یہ بچے بھی چاہتے ہو ں گے کہ وہ کام کریں جن سے انھیں سراہا جائے، ان کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ ان سے بھی محبت کی جائے ۔ ان کے بھی لاڈ اٹھائے جائیں ۔ خوشیوں پر ان کا بھی اِتنا ہی حق ہے ، جتنا دوسرے بچوں کا ۔
اگر ان کے والدین غریب ہیں یا خدا نخواستہ کسی بچے کے والدین حیات نہیں ہیں تو ایسے بچوں کی ذ مہ داری کیا ریاست اور معاشرے پر عائد نہیں ہوتی ۔؟
کیا ریاست کا فرض نہیں ہے کہ وہ '' ان کونپلوں'' کی نگہداشت اور حفاظت کرے تا کہ یہ بھی تناور درخت بن کر ملک و قوم کی پہچان بن کر فائدہ پہنچا سکیں ۔؟
ان بچوں کو مشقت کرتے دیکھ کر ہمارے معاشرے میں احساس کی لہر کیوں نہیں اٹھتی ؟کیوں ہمارا معاشرہ بے حس ہو چکا ہے؟
صاحب اولاد بھی جب ان مجبور بچوں پر تشدد کرتے ہیں توا ن کا دل کیوں نہیں کانپتا۔؟
گھریلو ملازماؤں اور دکانوں میں کام کرنے والے بچوں پر تشدد کے لا تعداد واقعات میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکے ہیں ۔ عام طور پر صاحب اولاد افراد ان بچوں پر تشدد کرنے میں ملوث ہوتے ہیں ۔
چائلڈ لیبر ختم کرنے کے لئے ریاست کی ذمہ داری
چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کے معا ملات کا جائزہ لیا گیا تو یہ تلخ حقیقت سا منے آئی کہ ان بچوں کا تعلق انتہائی مفلوک الحال خاندانوں کے ساتھ ہے ۔ ''بروکن فیملیز'' کے بچے بھی تعلیم حاصل کرنے کی بجائے کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ یتیم بچوں کی بہت بڑی تعداد بھی مزدوری کرنے پر مجبور ہے ۔ یہ حقیقت بھی سامنے آ ئی ہے کہ پاکستان میں رسمی اقدامات کے علاوہ نہ تو کسی حکومت نے اپنی ذ مہ داری پوری کی ہے نہ ہی ریاستی اداروں نے ۔
پوری دنیا کے مہذب معاشروں میں بچوں پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے کہ انہی بچوں نے آگے چل کر ملک وقوم کی باگ ڈور سنبھالنی ہے ، ساری پا لیسیاں ایسی بنائی جاتی ہیں جن سے بچوں کی قدرتی رجحانات کے مطابق نشوونما ہوتی ر ہے ۔ جسم کے ساتھ دماغی صلاحیت بھی بڑ ھتی جائے ۔ دماغی استعداد میں اضافہ ہوتا جائے ۔ دماغ میں برداشت اور بروقت صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو ، بچوں میںجا ننے کا تجسس پیدا ہو ۔
مگر بدقسمتی سے ہمارا حکومتی اور سیاسی نظام ایسا ہے کہ جہاں اِن معاملات پر قطعاً توجہ نہیں دی جاتی ، زیادہ تر توجہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ پر دی جاتی ہے اور عوام کو لچھے دار باتوں میں الجھایا جاتا ہے ۔ مہذب دنیا میں تو سارا فوکس ہی بچوں پر ہوتا ہے مگر یہاں ان معاملات کو سمجھا ہی نہیں جاتا ۔ چائلڈ لیبر کا نتیجہ پورا ملک اور قوم بھگت رہی ہے مگر اب بھی اس کا سدباب کرنے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی جا رہی ۔
اس وقت تقریباً دو کروڑ خاندان خِط غربت سے نیچے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے پا س ایسے وسائل ہی نہیں ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکیں۔ اوپر سے ہمارے ملک میں تعلیمی سہولتیں نہ ہو نے کے برابر ہیں ۔ بچوں کو خود ہی اسکولوں میں پک اینڈ ڈراپ کرنا پڑتا ہے ، جو والدین ملازمت کرتے ہیں یا ایسے کا روبار سے منسلک ہیں جو صبح سویرے ہوتے ہے، مثلاً ناشتہ ، سبزی منڈیوں کا کام ، ٹرانسپورٹ اور بھی کئی ایسے کام ہیں جو صبح ہوتے ہیں ، اُ ن کے لئے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ اگر پک اینڈ ڈراپ کے لئے اسکول وین کی سہولت سے فائدہ اٹھایا جائے تو اس کے اخراجات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔
ریاست اور حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ رسمی اور نیم دلانا کوشش کرنے کی بجائے عملی طور پر اپنی اِن ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ ایک کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں اور دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ، اس کے بعد ہم اپنے روشن مستقبل کے خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں ؟ ۔ ریاست اور حکومت کی پہلی تر جیح ہی چائلڈ لیبرکا خاتمہ اور بچوں کی تعلیم کو یقینی بنانا ہونا چاہیے ۔
ریاست تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا مستقبل یقینی بنائے
چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کے بے شمار والدین سے جب ان کی رائے لی گئی تو انھوں نے مختلف وجوہات بیان کیں ۔
1۔ غربت کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے ، فارغ رکھنے سے بہتر ہے کہ ہنر سکھا دیا جائے۔
2۔ تعلیم حاصل کر نے کے بعد نوکری نہیں مِلتی ، پھر کا م سیکھنے کی عمر بھی گزر جاتی ہے۔
3۔ اچھے نجی اداروں میں ہی تعلیم حاصل کرنے والوں کو ہی اچھی نوکریاں ملتی ہیں۔
4۔ سر کاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
5۔ کم عمری میں کام سیکھنے والوں کو کام پر مہارت حاصل ہوتی ہے ۔
6۔ بچوں کو آ وارگی سے بچانے کیلئے کام پر ڈال دیا جاتا ہے ۔
7۔ بہت سے گھروں کے اخراجات ہی ان بچوں کی وجہ سے چلتے ہیں ۔
8۔ دیہی علاقوں میں غربت بہت زیادہ ہے اس لئے بچوں اور بچیوں کو شہروں میں بطور گھریلو ملازم رکھوا دیا جاتا ہے ۔
9۔ گاؤں میں کھیتی باڑی کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوتا اس لئے بچوں کو شہروں اور قصبات میں کام سیکھنے کیلئے بھیج دیا جاتا ہے ۔
10۔ ان بچوں کا دماغ تعلیم کی طرف مائل ہی نہیں ہوتا ۔
11۔ بہت پڑھانے کی کوشش کی مگر یہ بچے اسکول سے بھاگ جاتے تھے ، ان کو پڑھانے کی کوششوں میں پیسہ اور وقت ہی ضائع ہوا ہے ۔
یہ وہ مسائل ہیں ، جن کی وجہ سے چائلڈ لیبر میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ سب سے پہلے ریاست کی جانب سے ایسی ترغیبات ہونی چاہئیں کہ لوگوں کو اپنے بچوں کا مستقبل یقینی نظر آئے اور انھیں یقین ہو کہ تعلیم دلوا کر ہی ان کے بچوں کا مستقبل بہتر بن سکتا ہے ۔ بچے جب اپنے بچپن کا دور گزار لیں تو پھر وہ کوئی کا م سیکھیں یا تعلیم حاصل کریں ، اس کا انحصار ان کے ذہنی رجحانات کے مطابق ہو نا چاہیے ، مجبوری کی وجہ سے نہیں ، ریاست کی طرف سے اس بات کا تحفظ ہو کہ اگر آپ کا بچہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو ریاستی وسائل اس کے لئے حاضر ہیں اور اگر وہ کوئی ہنر سیکھنا چاہتا ہے تو کم ازکم پندرہ سال کی عمر کے بعد سیکھ سکتا ہے ، مگر اس عرصہ میں اسے تعلیم لازمی حاصل کرنی پڑ ے گی ۔
معاشرے کی ذ مہ داری
دین ِ اسلام نے اس دنیا کو جو فلاحی ، معاشی اور اقتصادی نظام دیا ، اگر اس نظام پر عمل کر لیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کے علاوہ معاشرتی ذ مہ داریاں بھی پوری ہو ں گی ۔
زکواۃ اور صدقات کا نظام ہی بے بس و بے کس انسانیت کی مجبوریاں ختم کر نے کے لئے ہے ۔ چائلڈ لیبر ختم کرنے میں معاشرے کا کردار بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے ، صاحب حیثیت اور متمول افراد ایسے افراد کی مالی مدد کریں، جو بچوں کی کفالت کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں ، جو مجبوری کے عالم میں اپنے بچوں کو مشقت کی بھٹیوں میں جھونکنے پر مجبور ہیں ، صاحب حیثیت اور صا حب استعداد افراد اپنے صدقات ، زکواۃ اور عطیات پیشہ ور فقیروں ، نشئی افراد اور نوسربازوں پر خرچ نہ کریں ۔ چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے ، کہا جاتا ہے کہ پاکستانی سب سے زیادہ صدقہ و خیرات دیتے ہیں اگر یہ رقم واقعتاً بے بس اور بے کس افراد پر خرچ ہو جائے تو ہمارے ملک سے چائلڈ لیبر کا نام و نشان ختم ہو جائے ۔
مفت کے غلام
دکا نداروں اور ہنر مند افراد نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ چائلڈ لیبر انھیں انتہائی سستی پڑتی ہے ۔ کا فی عرصہ تو کام سکھانے کے نام پر کوئی پیسہ ہی نہیں دینا پڑتا پھر صرف معمولی جیب خرچ دینا پڑتا ہے ۔ حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے ۔ چا ئلڈ لیبر کے متعلق قوانین موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا ۔ جن دکانوں ، فیکٹریوں اور گھروں میں بچے کا م کرتے نظر آئیں گرفتار کر کے سزا دی جائے ، اور قانونی کاروائی سخت ہونی چاہیے ۔
کام چور اور ہڈ حرام والدین
یہ بات بھی منظر عام پر آئی ہے کہ بے شمار ہڈ حرام افراد اپنی کاہلی ، سُستی اور ہڈ حرامی کی وجہ سے اپنے بچوں کو چائلڈ لیبر کی بھٹیوں میں جھونک دیتے ہیں ۔ خود گھر میں آرام کرتے ہیں یا پھر نشہ کی عادت میں مبتلا ہو کر پیسوں کے لئے اپنے بیوی بچوں پر تشدد کرتے ہیں جس سے وہ کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ، ۔ ایسے افراد کے خلاف بھی معاشرتی ، حکومتی اور ریاستی سطح پر کا رروائی کی جاتی چاہیے اور اس کے لئے باقاعدہ سرکاری نیٹ ورک ہونا چاہیے کیونکہ استحصال کا شکار ایسے افراد ڈر اور خوف کی وجہ سے خود کبھی بھی شکایت نہیں کرتے ۔
دراصل مسائل کے خاتمے کے لئے معاشرتی ، حکومتی اور ریاستی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی اور یہی ہمارے تمام مسائل کی سب بڑی وجہ ہے، ہمارا معاشرہ منظم اور مربوط نہیں ہے ۔ اجتماعی قومی زندگی کا تصور مفقود ہو چکا ہے ۔ انفرادی سوچ نے جنم لیا ہے ، صرف اپنے بچوں کو ہی اپنے بچے سمجھا جاتا ہے دوسرے بچوں کو قابل توجہ اور قا بل محبت سمجھا ہی نہیں جاتا ، حالانکہ بچے سب کے ایک جیسے ہوتے ہیں اور وہی مستقبل کے معمار ہوتے ہیں ۔
اسلام میں بچوں کے حقوق
دین اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات فوراً منظر پر آتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے بچوں سے انتہائی شفقت اور محبت کرتے تھے ، آپﷺ کی پوری حیات ِ مبارکہ اس بات کی گواہ ہے کہ آ پﷺ نے بچوں کے ساتھ کس قدر محبت کی ۔ آ پﷺ تمام بچوں سے حسن ؓ اور حسینؓ جیسی محبت کرتے تھے ۔ بچوں سے محبت ،بچوں کی مناسب نگہداشت ان کی پرورش پر توجہ ، ان کی قدرتی صلاحیتوں کو نکھا رنا، انھیں بہادر بنانا ، انھیں دین کا مکمل علم دینا اور علمِ و شعور سے بہرہ مند کرنا ہمارے دین اسلام کا بنیادی جّزو ہے اور اس فرض کو والدین، صاحب ثروت افراد اور حکومت ادا کرنے کی پابند ہے !!!