سپریم کون
صدارتی آرڈیننسوں سے حکومت چلا کر پارلیمنٹ کی آئینی حیثیت سوالیہ نشان بنا دیے جانے کے بعد سپریم پارلیمنٹ کیسے رہ گئی
لاہور:
سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھی سابق وزیروں کا نیا موقف سامنے آیا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے جس کے معاملات میں مداخلت یا پارلیمنٹ میں دی گئی رولنگ کو اعلیٰ عدالتیں ختم نہیں کرسکتیں۔
یہ اسی پارلیمنٹ کو سپریم قرار دے رہے ہیں جس کو عمران خان نے اپنی حکومت میں کوئی اہمیت نہیں دی تھی اور اہم فیصلے پارلیمنٹ کے بجائے ہر ہفتے کابینہ کے اجلاس میں ہوتے تھے اور قانون سازی پارلیمنٹ میں کرانے کے بجائے صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے کرائی جاتی تھی اور ایوان صدر آرڈیننس فیکٹری بنا دیا گیا تھا۔ عمران خان بھی نواز شریف کی طرح بہت کم پارلیمنٹ آتے تھے۔
قومی اسمبلی کو ماضی میں صرف وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے استعمال کیا گیا اور منتخب ہونے کے بعد وزیر اعظم قومی اسمبلی کو بھول جاتے تھے اور جب وزیر اعظم خود قومی اسمبلی آتے تھے تو ایوان ممبران سے بھرا ہوتا تھا ورنہ عام طور پر قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں کورم بھی پورا نہیں ہوتا تھا اور کورم کے بغیر ہی اجلاس جاری رکھا جاتا اور نشاندہی پر ہی ملتوی کیا جاتا تھا۔ عمران خان قومی اسمبلی سے زیادہ کابینہ کو اور کابینہ سے بھی زیادہ اپنی میڈیا ٹیم کو اہمیت دیا کرتے تھے۔
تحریک عدم اعتماد کے دوران قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ ماضی کی کسی قومی اسمبلی یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ کہلانے والے دور میں بھی نہیں ہوا تھا اور ان کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف قومی اسمبلی میں جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی تو اس وقت (ق) لیگ کے اسپیکر چوہدری امیر حسین نے پی ٹی آئی کے اسپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری جیسی غیر آئینی حرکات نہیں کی تھیں اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونے دی تھی مگر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ووٹنگ اور اجلاس کے انعقاد پر آئین کی کھلی خلاف ورزی کرائی گئی۔
اجلاس آئین کے مطابق 14 روز میں نہیں بلایا گیا اور بلا کر بار بار ملتوی کیا جاتا رہا۔ 9اپریل کے اجلاس میں قومی اسمبلی کے اسپیکر خود نہیں آئے اور منصوبے کے تحت اجلاس ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے بار بار ملتوی کرایا گیا۔
تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری پہلے قومی اسمبلی نے دے دی تھی مگر ڈپٹی اسپیکر نے ووٹنگ کرانے کے بجائے وزیر قانون کو تقریر کرنے دی اور خود ہی تحریک غیر قانونی قرار دی ۔ سپریم کورٹ نے بعد میں ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کو غیر قانونی قرار دیا تو عمران خان کو اعتراض ہوا کہ رولنگ ختم کرنا عدلیہ کا کام نہیں۔ 9 اپریل کو قومی اسمبلی کے طویل اجلاس کا تماشا دنیا نے دیکھا۔ دن بھر ووٹنگ نہ کرانے کے بہانے اجلاس ملتوی ہوتے رہے۔
رات پونے 12 بجے اسپیکر اسد قیصر نے عمران خان سے وفاداری نبھا کر استعفیٰ دیا تو ووٹنگ ممکن ہو سکی۔ نئے وزیر اعظم کا انتخاب سابق اسپیکر ایاز صادق نے کرا کر نومنتخب وزیر اعظم کے خطاب کے بعد جب بلاول بھٹو کو تقریر کرنے کا کہا تو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اسپیکر ڈائس پر آئے، ایاز صادق کو نشست سے اٹھوا کر خود بیٹھے اور اجلاس ملتوی کردیا۔
ڈپٹی اسپیکر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع تھی مگر انھوں نے غیر قانونی رولنگ دی۔ تحریک عدم اعتماد مسترد کی اور بعد میں غیر قانونی اقدام تسلیم کرنے کے بجائے اس کا دفاع کیا، عمران خان سے وفاداری نبھا کر آئین اسپیکر کی طرح پامال کیا اور بعد میں نئے اسپیکر کا انتخاب کرائے بغیر مستعفی ہوکر چلتے بنے۔
سپریم کہلانے والی قومی اسمبلی کے ممبران کی اکثریت کی بات نہ مان کر قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے جو کچھ کیا اس سے ثابت ہو گیا کہ پارلیمنٹ سپریم نہیں اس کے عہدیدار سپریم تھے جنھوں نے ارکان اسمبلی کی اکثریت کی بات نہ مان کر اور آئین کی خلاف ورزی کرکے ثابت کردیا کہ پارلیمنٹ نہیں بلکہ وہ خود سپریم ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کو بچانے کے لیے انھوں نے پارلیمنٹ کو یرغمال بنائے رکھا۔
قومی اسمبلی کو اکثریت سے ملک چلانے کا اختیار ہے مگر صدارتی آرڈیننسوں سے حکومت چلا کر پارلیمنٹ کی آئینی حیثیت سوالیہ نشان بنا دیے جانے کے بعد سپریم پارلیمنٹ کیسے رہ گئی۔ سپریم تو اس کے اقلیتی عہدیدار تھے جن دونوں نے پارلیمنٹ کی اکثریت کے بجائے اپنی آمریت چلائی اور آئین تماشا بنا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھی سابق وزیروں کا نیا موقف سامنے آیا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے جس کے معاملات میں مداخلت یا پارلیمنٹ میں دی گئی رولنگ کو اعلیٰ عدالتیں ختم نہیں کرسکتیں۔
یہ اسی پارلیمنٹ کو سپریم قرار دے رہے ہیں جس کو عمران خان نے اپنی حکومت میں کوئی اہمیت نہیں دی تھی اور اہم فیصلے پارلیمنٹ کے بجائے ہر ہفتے کابینہ کے اجلاس میں ہوتے تھے اور قانون سازی پارلیمنٹ میں کرانے کے بجائے صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے کرائی جاتی تھی اور ایوان صدر آرڈیننس فیکٹری بنا دیا گیا تھا۔ عمران خان بھی نواز شریف کی طرح بہت کم پارلیمنٹ آتے تھے۔
قومی اسمبلی کو ماضی میں صرف وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے استعمال کیا گیا اور منتخب ہونے کے بعد وزیر اعظم قومی اسمبلی کو بھول جاتے تھے اور جب وزیر اعظم خود قومی اسمبلی آتے تھے تو ایوان ممبران سے بھرا ہوتا تھا ورنہ عام طور پر قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں کورم بھی پورا نہیں ہوتا تھا اور کورم کے بغیر ہی اجلاس جاری رکھا جاتا اور نشاندہی پر ہی ملتوی کیا جاتا تھا۔ عمران خان قومی اسمبلی سے زیادہ کابینہ کو اور کابینہ سے بھی زیادہ اپنی میڈیا ٹیم کو اہمیت دیا کرتے تھے۔
تحریک عدم اعتماد کے دوران قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ ماضی کی کسی قومی اسمبلی یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ کہلانے والے دور میں بھی نہیں ہوا تھا اور ان کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف قومی اسمبلی میں جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی تو اس وقت (ق) لیگ کے اسپیکر چوہدری امیر حسین نے پی ٹی آئی کے اسپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری جیسی غیر آئینی حرکات نہیں کی تھیں اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونے دی تھی مگر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ووٹنگ اور اجلاس کے انعقاد پر آئین کی کھلی خلاف ورزی کرائی گئی۔
اجلاس آئین کے مطابق 14 روز میں نہیں بلایا گیا اور بلا کر بار بار ملتوی کیا جاتا رہا۔ 9اپریل کے اجلاس میں قومی اسمبلی کے اسپیکر خود نہیں آئے اور منصوبے کے تحت اجلاس ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے بار بار ملتوی کرایا گیا۔
تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری پہلے قومی اسمبلی نے دے دی تھی مگر ڈپٹی اسپیکر نے ووٹنگ کرانے کے بجائے وزیر قانون کو تقریر کرنے دی اور خود ہی تحریک غیر قانونی قرار دی ۔ سپریم کورٹ نے بعد میں ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کو غیر قانونی قرار دیا تو عمران خان کو اعتراض ہوا کہ رولنگ ختم کرنا عدلیہ کا کام نہیں۔ 9 اپریل کو قومی اسمبلی کے طویل اجلاس کا تماشا دنیا نے دیکھا۔ دن بھر ووٹنگ نہ کرانے کے بہانے اجلاس ملتوی ہوتے رہے۔
رات پونے 12 بجے اسپیکر اسد قیصر نے عمران خان سے وفاداری نبھا کر استعفیٰ دیا تو ووٹنگ ممکن ہو سکی۔ نئے وزیر اعظم کا انتخاب سابق اسپیکر ایاز صادق نے کرا کر نومنتخب وزیر اعظم کے خطاب کے بعد جب بلاول بھٹو کو تقریر کرنے کا کہا تو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اسپیکر ڈائس پر آئے، ایاز صادق کو نشست سے اٹھوا کر خود بیٹھے اور اجلاس ملتوی کردیا۔
ڈپٹی اسپیکر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع تھی مگر انھوں نے غیر قانونی رولنگ دی۔ تحریک عدم اعتماد مسترد کی اور بعد میں غیر قانونی اقدام تسلیم کرنے کے بجائے اس کا دفاع کیا، عمران خان سے وفاداری نبھا کر آئین اسپیکر کی طرح پامال کیا اور بعد میں نئے اسپیکر کا انتخاب کرائے بغیر مستعفی ہوکر چلتے بنے۔
سپریم کہلانے والی قومی اسمبلی کے ممبران کی اکثریت کی بات نہ مان کر قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے جو کچھ کیا اس سے ثابت ہو گیا کہ پارلیمنٹ سپریم نہیں اس کے عہدیدار سپریم تھے جنھوں نے ارکان اسمبلی کی اکثریت کی بات نہ مان کر اور آئین کی خلاف ورزی کرکے ثابت کردیا کہ پارلیمنٹ نہیں بلکہ وہ خود سپریم ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کو بچانے کے لیے انھوں نے پارلیمنٹ کو یرغمال بنائے رکھا۔
قومی اسمبلی کو اکثریت سے ملک چلانے کا اختیار ہے مگر صدارتی آرڈیننسوں سے حکومت چلا کر پارلیمنٹ کی آئینی حیثیت سوالیہ نشان بنا دیے جانے کے بعد سپریم پارلیمنٹ کیسے رہ گئی۔ سپریم تو اس کے اقلیتی عہدیدار تھے جن دونوں نے پارلیمنٹ کی اکثریت کے بجائے اپنی آمریت چلائی اور آئین تماشا بنا۔