باغوں کا شہر لاہور اپنے 70 فیصد درختوں سے محروم ہو چکا ہے
درخت شہریوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں معاون ہیں
لاہور باغوں کا شہر۔۔۔درختوں کا شہر ۔۔۔آج دنیا کے آلودہ ترین شہر وں میں شامل ہوگیا ہے۔
اس ڈرامائی تبدیلی کے یقینا مجھ سمیت لاکھوں زندہ گواہ آج بھی موجود ہیں۔ہم نے اپنے بچپن میں جس لاہور کو دیکھا ہمارے بزرگ جس لاہور کی کہانیاں ہمیں اور ہمارے بچوں کوسناتے ہیں یہ وہ لاہور نہیں جس میں آج ہم رہ رہے ہیں۔اب یہ وہ لاہور ہے جو سبزے کے زیور سے محروم ہوتا ہواکنکریٹ کی بیڑیوں میں جکڑا جاچکا ہے۔ہر سو کنسٹرکشن نے اس کے فطری حسن کو گہنادیا ہے۔
آبادی کے بے انتہا دباؤ نے لاہور کی جغرافیائی ، ماحولیاتی، معاشی اور سماجی ساخت کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ نتیجتاًکئی ایک شہری مسائل انسانی بحران کا روپ اختیار کرنے کی جانب گامزن ہیں۔ ائیر کوالٹی ، سموگ ، دھند، شہری سیلاب، شدید گرمی کی لہروں اوردیگر موسمیاتی تغیرات نے شہر ی نظامِ زندگی کو سال کے مختلف حصوں میںمتاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔جس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک نمایاںوجہ شہر میں سبزے یعنی درختوں کی کم ہوتی تعداد بھی ہے۔
اس تلخ حقیقت کی نشاندہی گزشتہ سال شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالہ Spatiotemporal urban sprawl and land resource assessment using Google Earth Engine platform in Lahore district, Pakistan (گوگل ارتھ پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے ضلع لاہورپاکستان کے شہری پھیلاؤ اور زمینی وسائل کا زمانی و مکانی تعین) کے یہ اعدادوشمار باخوبی کر رہے ہیں جن کے مطابق'' 1990 سے2017 تک لاہور میں 2.06 مربع کلومیٹر سالانہ کے حساب سے tree cover (درختوں کا احاطہ)ختم ہو ا ہے۔
2010 سے2017 کے دوران تو یہ رفتار 3.71 مربع کلومیٹر سالانہ تک پہنچ چکی تھی۔اس کے برعکس1990 سے2017 تک لاہور شہر23 مربع کلومیٹر سالانہ کے حساب سے پھیلا''۔ وسعت پذیر لاہور شہر میں درختوں کی تعداد میں درکاراضافہ کے برعکس ان کی تعداد میں کمی ایک لمحہ فکریہ ہے اُن تمام اداروںکے لیے جوشہر میں tree cover (درختوں کا احاطہ)کے اضافہ اور اِس کی حفاظت و نگہداشت کے ذمہ دار ہیں۔
اس کے علاوہ لاہور شہر کے اُن تمام شہریوںکے لیے بھی جو آلودہ فضا میں سانس لینے کو توتیار ہیں۔ جھلسا دینے والی گرمی میں بھی جینے کو راضی ہیں۔ جو روز بروز زیرزمین کم ہوتی ہوئی پانی کی سطح پر بھی سمجھوتا کررہے ہیں۔
جو اپنے اردگرد پرندوں کی چہچاہٹ سے بے نیاز ہوتے جارہے ہیں۔جو چہل قدمی اور تفریح کے لیے کسی سبز قطعہ اراضی کے متمنی نہیں۔ ۔ ٹریفک کے شور سے بہرے ہونے کوبھی تیارہیں۔لیکن بس نہیں تیار ہیں تو شہر میں شجر کاری کرنے اور موجود درختوں کی حفاظت اور نگہداشت کرنے کو۔یوںہم سب کی بے حسی اور لاپرواہی کی وجہ سے باغوں کا یہ شہر آلودہ شہر میں بدلتا جارہا ہے۔
کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
شجر کشی کا یہ نوحہ پروین شاکر نے جب بیان کیا ہوگایقینا اُس وقت درختوں کوتوانائی کے حصول کی خاطر بے دریغ کاٹا جاتاتھا اور ایسا آج بھی ہے لیکن بڑے شہروں میں یہ صورتحال ذرا مختلف ہے جہاں بڑھتی آبادی کو سائبان کی فراہمی کے لیے شہری وسعت اپنی راہ میں آنے والے ہر پیڑ کو کاٹ رہی ہے۔ لاہور کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ لاہور ڈسٹرکٹ جس کی آبادی میں 1998 سے2017 کے دوران 76 فیصدسے اضافہ ہوچکا ہے مزید آبادی کے بوجھ تلے دباجا رہا ہے۔
کیونکہ2050 تک لاہور کی آبادی تقریباً25 ملین ہو جانے کا اندازہ ہے۔ جس کے نتیجے میں آئندہ28 سالوں میں 12.6 ملین اضافی افراد کے لئے رہائش اور اُن سے منسلک سہولیات کی ضرورت پڑے گی۔
ضلع لاہور جو رقبہ کے لحاظ سے پنجاب کا سب سے چھوٹا ڈسٹرکٹ ہے لیکن آبادی کے حوالے سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ ملک کے صفر عشاریہ بائیس فیصد (0.22 %) رقبہ پر مشتمل اس ڈسٹرکٹ میں ملک کی 5.35 فیصد آبادی مقیم ہے جبکہ وطن عزیز کی شہری آبادی کا 15 فیصد لاہور ڈسٹرکٹ کے نفوس پر مشتمل ہے۔لاہور میں آبادی کی گنجانیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت لاہور ڈسٹرکٹ میں فی مربع کلومیٹر آبادی کی اوسط تعداد 6275.39 ہے جو پورے ملک میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
لاہور ڈسٹرکٹ صوبہ پنجاب کے رقبہ کا صفر عشاریہ چھیاسی (0.86 %) فیصد ہے لیکن صوبے کی دس فیصدمجموعی آبادی اور 27.5 فیصد شہری آبادی یہاں سکونت پذیر ہے۔اسی طرح صوبے کے گھروں کا10.27 فیصد لاہور ڈسٹرکٹ میں تعمیر ہے جبکہ پنجاب کے شہری گھروں کی تعداد کا 27.50 فیصد لاہور ڈسٹرکٹ میں موجود ہیں۔پانچویں اور چھٹی مردم شماری کے دوران لاہور ڈسٹرکٹ میں گھروں کی تعداد میں 98 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جو شہر کی جغرافیائی وسعت کا مظہر ہے۔
یہ پھیلاؤ شہر کے اندر اور اس کے اردگرد موجود خالی جگہوں کو جہاں یا تو درخت ہیں یا پھر درخت لگائے جاسکتے ہیںکو تیزی سے کھا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مکانات کی تعداد میںیہ اضافہ دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر کا بھی پیش خیمہ بنتا ہے۔
مثلاً شاپنگ پلازے، دکانیں، سڑکیں، اسکول، ہسپتال، شادی ہال، عبادات کے مقامات، پیٹرول پمپ وغیرہ۔یعنی مزید کچی زمین کاکنکریٹ سے چھپ جانا۔ایسے میں اس پھیلاؤ کی راہ میں آنے والے درختوں کے ساتھ کیا ہوگا؟ اس سوال کا اگراوپر بیان کردہ صورتحال کو مدنظر رکھ کر کو ئی جواب ہوسکتا ہے تو وہ شاید یہی ہو کہ ماضی میں جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے مستقبل میں بھی اس سے مختلف نا ہوگا۔
ماضی میں لاہور میں درختوں کے ساتھ کیا بیتی یہ ایک پوری کہانی ہے لیکن اس کہانی کا جو خوفناک نتیجہ ہے وہ Spatiotemporal urban sprawl and land resource assessment using Google Earth Engine platform in Lahore district, Pakistan (گوگل ارتھ پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے ضلع لاہورپاکستان کے شہری پھیلاؤ اور زمینی وسائل کا زمانی ومکانی تعین) نامی تحقیقی مقالہ اس کا اظہار بخوبی کر رہا ہے۔
یہ ریسرچ پیپر ملکی اور غیر ملکی پانچ ماہرین کی مشترکہ کا وش ہے ۔یہ تحقیق گزشتہ سال Computers in Earth and Environmental Sciences, Artificial Intelligence and Advanced Technologies in Hazards and Risk Management نامی بین الاقوامی کتاب میں شائع ہوئی ہے ۔ ڈاکٹر عدیل احمد ، اس تحقیقی مقالہ کےfirst author ہیں۔آپ جامعہ پنجاب کے شعبہ جغرافیہ میںلیکچرار ہیں۔ اس تحقیق کو انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی پاکستان کے ڈاکٹر حماد گیلانی نے سپروائز کیا ہے۔
ڈاکٹر عدیل احمدسے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ لاہور میں درختوں کی کمی کی شدت کو کس کیٹگری میں رکھتے ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ '' بہت زیادہ '' کی ۔ اس رائے کی بنیاد اُنھوں نے اپنی تحقیق کے نتائج کو قرار دیتے ہوئے اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ '' 1990 سے2017 تک لاہور میں مجموعی طور پر 55.48 مربع کلومیٹرtree cover (درختوں کا احاطہ)ختم ہوا۔ جو 71.44 مربع کلومیٹر سے کم ہوکر 15.96 مربع کلومیٹر تک آچکا ہے۔
یعنی 27 سال میں لاہور کا 77.7 فیصدtree cover (درختوں کا احاطہ)ختم ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر عدیل احمد کا کہنا ہے کہ 1990 میں ضلع لاہورکے 4.03 فیصد رقبہ پر tree cover (درختوں کا احاطہ)موجود تھا جو 2017 تک کم ہوکر صرف صفر عشاریہ نو فیصد(0.90 %) رہ گیا ہے۔ جبکہ گزشتہ 27 سالوں میں لاہور کےbuilt-up area ( تعمیر شدہ رقبہ)میں 621.09 مربع کلومیٹر اضافہ ہوا۔ جو 429.7 فیصد اضافہ بنتا ہے۔
1990میں لاہور کا 144.53 مربع کلومیٹر علاقہbuilt-up area ( تعمیر شدہ رقبہ) تھا جو2017 میں بڑھ کر 765.62 مربع کلو میٹر ہوچکا ہے۔ اس وقت ضلع لاہور کا 43.21 فیصد رقبہ built-up areaپر مشتمل ہے جو 1990 میں 8.16 فیصد ہوا کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے متنبہ کیا کہ اس صورتحال نے پہلے ہی اس میگا سٹی کی ماحولیاتی نظام اور ہوا کے معیار کو گرا دیا ہے اور اگر یہی حالات برقرار رہے تو یہ ایک بڑے انسانی المیہ کا باعث ہوں گے''۔
لاہورکے پھیلاؤ کے علاوہ شہری اور مضافاتی علاقوں میں گاڑیوں اور صنعتی اخراج میں تیزی سے اضافے کے نتیجے میں متعدد ماحولیاتی مسائل جیسے شہری گرمی کے جزیرے(urban heat islands)، سموگ، فضائی آلودگی، بارش کے اتار چڑھاؤ کے انداز اور صحت کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔لاہور جس تیزی سے پھیل رہا ہے اُسی زیادہ تیزی سے شہر میں رواں دواں موٹر ویکلز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
کیونکہ شہر کے بڑھتے فاصلے موٹر ویکلز کی ضرورت کو دوچند کر رہے ہیں۔ چاہے وہ پبلک ہو یا نجی شہر میں موٹر ویکلز کی تعداد میں2003 سے 2019 کے دوران 535 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ جو آبادی میں اضافہ سے کہیں زیادہ ہے۔
اس وقت پنجاب کی 31 فیصد موٹر ویکلز لاہور میں رجسٹرڈ ہیں۔ جو شہریوں کی سفری ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ لاہور کی فضا کو آلودہ کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں خصوصاً سموگ کی صورت میں۔ کیونکہ گاڑیوں سے سلفر ڈائی آکسائیڈ کا اخراج اور ننھے ٹھوس ذرات سموگ کا بنیادی ذریعہ ہیں۔اس کے علاوہ مینوفیکچرنگ انڈسٹریز2015-16کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں 95 فیصد سے زیادہ صنعتی یونٹس بڑی سڑکوں اور شاہراہوں کے 2 کلومیٹر کے اندر شہری علاقوں کے آس پاس واقع ہیں ۔
سرفہرست چار صنعتی اضلاع (فیصل آباد، سیالکوٹ، لاہور، گوجرانوالہ) میں پنجاب کی مجموعی صنعت کا 62.42 فیصد حصہ ہے۔ اس طرح شہری پھیلاؤ اور درختوں کی کمی سے ماحولیاتی انحطاط اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہورہا ہے۔
شہروں کو جنگلات کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ آب و ہوا کو منظم کرنے، کاربن ذخیرہ کرنا، فضائی آلودگیوں کو ہٹانے،ہوا کے معیار کو بہتر بنانے ،شہری سیلاب کے خطرے کو کم کرنے، خوراک اورپانی کی حفاظت میں مدد کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ درخت فطرت کا پاور ہاؤس ہیں اور دنیا کی قابل تجدید توانائی کی طلب کو پورا کرنے کا ایک اہم وسیلہ ہیں۔درخت سایہ اور ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں۔
ہوا کی رفتار کو کم کرتے ہیں اس طرح بالواسطہ طور پر ایئر کنڈیشنگ اور حرارتی نظام کی ضرورت کو کم کرکے شہری توانائی کی کھپت میں کمی کرنے میں معاون ہوتے ہیں جس سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔اس کے علاوہ شدید موسم کے اثرات کو کم کرنے کا ذریعہ ہیں۔
درخت شہریوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں معاون ہیں۔ جنگلات شہروں کی خوبصورتی کو بڑھاتے ہیں اور سماجی ہم آہنگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں یعنی یہ شہروں کو مزید پرکشش اور رہنے کے لیے سازگار بنا کر معیار زندگی اور صحت کو بہتر بنانے پر غیر معمولی اثر ڈالتے ہیں۔سب سے بڑھ کر درخت ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کا ایک اہم ذریعہ ہیںاور ڈیزاسٹررسک منجمنٹ کا حصہ بھی ہیں ۔لہٰذاشہر میں اور اس کے کناروں پریعنی ارد گرد درختوں کی موجودگی بہت ضروری ہے اور اسے جنگل اور انفرادی درختوں کے ایک مربوط نظام سے یقینی بنائی جاسکتا ہے۔
لاہور میں درختوں کی کمی پر قابو پانے کے لیے کئی ایک پالیسیاں واضع کی جاچکی ہیں اور کئی ایک اقدامات کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ایک پہلو جو توجہ طلب ہے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے محمد فیصل ہارون، سابق چیف کنزیرویٹر توسیع و ریسرچ محکمہ جنگلات پنجاب نے بتایا کہ '' لاہور محکمہ جنگلات کے دائرہ عمل میں نہیں ۔ کیونکہ لاہور شہرمیں شجر کاری اور اس سے متعلقہ دیگر اُمور کی تقریباً تمام ذمہ داری پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ لاہور شہر میں نرسریوں کے لیے محکمہ جنگلات کو زیادہ جگہ فراہم کی جائے ۔کیونکہ ایک تو نرسری لگانے کی مہارت ہمارے پاس ہے دوسرامحکمہ جنگلات کی نرسریوں سے عوام کوصرف 2 روپے کا پودا ملتا ہے''۔سوچنے کی بات ہے کہ ایک ایسا محکمہ جس میں زیادہ تر فارسٹری پڑھے لوگ ملازم ہیں جن کی مہارت ہی جنگلات ، شجر کاری اور اُن سے وابستہ تمام تکنیکی امور ہیں اُن کی صلاحیتوںاور مہارتوں کو لاہور کو سرسبز و شاداب کرنے کے حوالے سے استعمال ہی نہیں کیا جارہا ؟
لاہور میں درختوں کی کمی کو دور کرنے کے لیے اس وقت پچاس سے زائد مقامات پر میاواکی جنگل لگائے جارہے ہیں۔اس کے علاوہ دنیا کا سب سے بڑا میاواکی جنگل بھی حال ہی میں لاہور میں 100 کنال رقبہ پر لگایا گیا جس میںایک لاکھ60 ہزار درخت لگائے گئے ہیں۔
درخت لگانے اور سرسبز ماحول کی اہمیت پر زور دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کے مختلف محکموں کو شجرکاری کو فروغ دینے اور خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے موجودہ قوانین کو اپ ڈیٹ کرنے کی ہدایات جاری کیں ہیں۔ عدالت نے مقامی حکومتوں، ترقیاتی اتھارٹیز اور تمام متعلقہ محکموں کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹیز اپنے الاٹمنٹ لیٹرز میں شجرکاری کو شامل کرنے کی پابند ہوں گی۔
سکریٹری کوآپریٹو اور رجسٹرار کوآپریٹو کا خاص طور پر اس کارروائی کو نافذ کرنے کے لیے ذمہ دار اداروں کے طور پر ذکر کیا گیا۔اس حوالے سے دی اربن یونٹ نے ''پنجاب اربن اینڈ پری اربن فارسٹ پالیسی (ڈرافٹ)2019 '' تیار کیا جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ '' پنجاب ہاؤسنگ سوسائٹیز اینڈ لینڈ سب ڈویژن رولز 2010 ہاؤسنگ سوسائٹیز کے لیے منصوبہ بندی کے معیارات کاتعین کرتے ہیں۔
قوانین میں کہا گیا ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹی کی منصوبہ بندی کرتے وقت ڈویلپر کو کھلی جگہ یا پارکس کے لیے اپنی سوسائٹی کے رقبہ کا کم از کم سات فیصد (7%)مختص کرنا ہوتا ہے۔ تاہم اس رول میں شہری جنگلات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
یہ پالیسی تجویز کرتی ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے 2.5% رقبے (کھلی جگہ اور پارکوں کے لیے 7% رقبے کے اندر سے) کو شہری جنگل کے لیے مخصوص کرنے کے حوالے سے موجودہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے قوانین کو اپ ڈیٹ کیا جائے''۔اس کے علاوہ محکوں اور اداروں کو اپنے زیر انتظام علاقوں میں Tree Canopy (درختوں کی چھتری) کے لیے جو اہداف تجویز کیے گئے ہیں اُن کے مطابق'' سڑکوں پر 5 فیصد، شہری علاقوں میں 10 فیصد اور مضافاتی شہری علاقوں میں 15 فیصد رقبہ پر درخت لگائے جائیں۔
اس سلسلے میں شہر کی گلیوں، سڑکوں، ہاؤسنگ سوسائٹیزاور پبلک و پرائیویٹ سیکٹر کی دیگر سہولیات میں 10 میٹر میں ایک درخت کے اصول کو پیروی کی جائے''۔اس کے علاوہ حال ہی میں ایل ڈی اے کی جانب سے لاہور ڈویژن ماسٹر پلان 2050 کا ڈرافٹ عوام کی آرا اور تجاویز کے لیے جاری کیا گیا ہے اس میں واضح طور پر تحریر ہے کہ '' موجودہ زرعی اور کھلی جگہوںکے تحفظ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ لہذامستقبل کی ترقی کے منصوبوں میں کھلی جگہوں(Parks/Open Spaces)میں اضافہ کی واضح پالیسی مرتب کی گئی ہے ۔
اسی پس منظر کے تحت Scenario C,D,F میں نئے ترقیاتی رہائشی منصوبوں/ نئی رہائشی سکیموں میں کھلی جگہوں/ پارک کے لیے مختص کردہ جگہ 7 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصدکی گئی ہے''۔ایل ڈی اے کا یہ فیصلہ یقینا وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن اس کے اثرات کومزید بڑھایا جاسکتا ہے اگر اس میں شہری جنگل کے لیے رقبہ مختص کرنے کی شق بھی شامل کر لی جائے جیسا کہ اربن یونٹ نے تجویز کیا ہے۔
لاہور میں درختوں کی کمی کو جلد ازجلد دور کرنے کے واسطے اُن کے بڑھنے کی رفتار میں تیزی حاصل کرنے کے لیے شہر میں شجر کاری کی ایسی تکنیکس استعمال کی جارہی ہیں جن میں درختوں کے نمو کی رفتار میں تیزی حاصل کی جائے جیسا کہ میاواکی۔ اس کے علاوہ ایسے غیر مقامی پودوں کو بھی لگایا جارہا ہے جن کی افزائش تیزہوتی ہے۔ لیکن ان غیر مقامی پودوں میں سے چند کے بارے میں شہریوں میں شدید تحفظات موجود ہیں۔ مقامی اور غیر مقامی درختوں کی بحث روز بروز اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے۔
یہ سوال جب ہم نے میاواکی جنگل کی تکنیک کے ماہر بلال اختر چوہدری کے سامنے رکھا کہ لاہور میں شجر کاری کے حوالے سے کونسے پودوں کا انتخاب بہتر ہے مقامی یا غیر مقامی تو انہوں نے کہا کہ '' قدرت نے ہر علاقے کے ماحول اور قدرتی وسائل کی مناسبت سے وہاں درخت بنائے ہیں۔جب آپ کہیںغیر مقامی اقسام کے پودے لگا لیتے ہیں۔ تو آپ اُس علاقہ کے قدرتی نظام میں ایک طرح کی مداخلت کرتے ہیں۔
پھر ہوتا کیا ہے کہ غیر مقامی پودے ایک اجنبی ماحول کی وجہ سے یا خود مرجاتے ہیں یا اپنے اردگرد کے پودوں کو نہیں چلنے دیتے۔ ان کے حصہ کا پانی اور خوراک بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی ، ماحولیاتی اور انسانی صحت پر مختلف طرح کے اثرات کا باعث بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ لگائے جانے سے پہلے اُن کے منفی اثرات کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہوتیں جب اِن پودوںکے منفی اثرات سامنے آتے ہیں تو پھر مسائل شروع ہوجاتے ہیں۔
مثلاً سفیدے کا درخت سیم زدہ زمینوں کے لیے ملک میں متعارف کرایا گیا۔اس میں زیادہ پانی کواستعمال کرنے کی خصوصیت ہے اس کے علاوہ یہ درخت جلد نمو پاتا ہے۔ لیکن اب یہ آپ کو سیم زدہ زمینوں کے علاوہ جابجا لگا ملے گا اور پانی کی قلت کا شکار ملک ہونے کے ناطے اس طرح کے درخت کا پھیلاؤ توجہ طلب ہے۔ اسی طرح اسلام آباد میںپیپر ملبری پولن الرجی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ لاہور میں کونو کارپس آپ کو اکثر جگہ لگا ملے گا۔
یہ درخت زیر زمین انفراسٹرکچر (سیوریج لائن، پانی کی لائن، گیس لائن، بجلی ،ٹیلی فون وغیرہ )کو اپنی جڑوں کے پھیلاؤ کی وجہ سے متاثر کرتا ہے۔اس درخت کی جڑیںاپنے قریبی گھروں کی بیرونی دیواروں اور عمارتوں کی بنیادوںکو متاثر کرتی ہیں۔یہ ایک غیر مقامی درخت ہے اس کے پتے درخت سے گرنے کے بعد زمین میںحل نہیں ہوتے کیونکہ ہماری مٹی میں وہ بیکٹریا ہی موجود نہیں جو انھیں زمین میں تحلیل کرے۔یوں یہ گندگی پھیلاتے رہتے ہیں۔اس درخت پر پرندے گھونسلہ نہیں بناتے۔یہ درخت پولن الرجی اور جلد کی الرجی کا باعث بنتا ہے۔
اس لیے جن لوگوں کو سانس کا مسئلہ ہے اُن کے لیے یہ درخت بہت نقصان دہ ہے۔ ان کے مقابلے میں مقامی درخت مٹی کی ذرخیزی کو بڑھاتے ہیں۔ماحول کو صاف رکھتے ہیں۔ الرجیز پیدا نہیں کرتے۔ وہاں کے چرند پرند کے لیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں''۔
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق شہروں کو بڑے درختوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔امریکن فارسٹ سروس کے مطابق بڑے قد کے درخت چھوٹے قد و کاٹھ والے درختوں کے مقابلے میں آٹھ گنا زائدتک فوائد فراہم کرتے ہیں۔
ایسے درختوں کی انواع کا انتخاب کرنا جو پختگی کے وقت بڑی ہوں ، ان کو مناسب جگہوں پر لگانا، اور ان کا بہتر خیال رکھنا اور اس بات کو یقینی بناناکہ وہ مضبوط اور صحت مند طور پر بڑھیںضروری ہے تاکہ وہ کاربن کا حصول زیادہ سے زیادہ کریں۔زیادہ سایہ اور ٹھنڈک فراہم کریں۔انٹرنیشنل ماہرین کی تحقیق کے مطابق بڑے قد کاٹھ کے درخت55 ڈالر سالانہ کا فائدہ دیتے ہیں ۔ جبکہ درمیانے قد کاٹھ کا درخت سالا نہ 33 ڈالر اور چھوٹے خدوخال کے شجر 23 ڈالر سالانہ کا فائدہ فراہم کرتے ہیں ۔
لاہور کے پھیلاؤ اور ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے درختوں کی اہمیت کے تناظر میں پنجاب یونیورسٹی کے کالج آف ارتھ اینڈ اینوائرنمنٹل سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدیر جن کی پی ایچ ڈی انوائرنمنٹل بیالوجی میں ہے کا کہنا ہے کہ '' باغات کے شہر لاہور کے لیے درخت اور ہریالی ہمیشہ سے فخر کی بات رہی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران شہر کےtree coverنے ترقی اوراربنائزیشن کے موضوعات میںنمایاں جگہ بنائی ہے۔
گزشتہ 15 سالوں میں صرف لاہور نے جنگلات کا 70 فیصد حصہ کھو دیا ہے اور یہ شہر میں بڑھتی سموگ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ جو کہ شہر کے سماجی و معاشی حالات کی تنزلی کی ذمہ دار ہے''۔لاہور کے tree cover میں کمی کی وجوہات کے بارے میں ڈاکٹر عبدالقدیر کا کہنا تھا کہ'' شہر میں سبز جگہ کے سکڑنے سے ماحولیاتی توازن میں خلل پڑا ہے۔
آبادی میں اضافہ، صنعتی توسیع، ترقیاتی سرگرمیاں اور زمین پر تجاوزات جیسے محرکات لاہور سمیت دیگر میٹروپولیٹن شہروں کے سبزے کے احاطہ کو کم کر رہے ہیں۔ جیسا کہ پوری دنیا میں اربنائزیشن اور آلودگی بڑھ رہی ہے۔بہت سے شہروں کو آبادی میں اضافے کی بلند شرح کا سامنا ہے جس کی وجہ سے مقامی ماحول جیسے شور اور کاربن کی آلودگی، مٹی کا کٹاؤ، اور حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچ رہا ہے''۔لاہور کے tree cover میں اضافہ کی اہمیت کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ''یہ واقعی بہت ضروری ہے کہ لاہور آنے والے وقت میں آج سے زیادہ سرسبز و شاداب ہو۔ کیونکہ لاہور 2025 تک شہری آبادی کے تناسب کے لحاظ سے دنیا کے پہلے 30 شہروں میں شامل ہو جائے گا۔
لاہور 1975 میں دنیا میں 56 ویں اور 2007 میں 38 ویں نمبر پر تھا جب کہ 2025 میں یہ 24 ویں نمبر پر ہو گا۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران تیز اربنائزیشن نے ترقی پذیر ممالک کے شہروں کی سماجی و اقتصادی خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس وجہ سے یہ سائنسدانوں، پالیسی سازوں اور شہر کے منتظمین کی خصوصی توجہ کا باعث بنی ہوئی ہے''۔لاہور کے کتنے رقبہ پر درختوں کا ہونا ضروری ہے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ'' بد قسمتی سے 2001 سے 2020 تک لاہور نے 252 ہیکٹرtree cover کھو دیاہے جو 2000 کے بعد سےtree cover میں 16 فیصد کمی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) ہر شہری کے لیے کم از کم 9 مربع میٹر شہری سبز جگہ فراہم کرنے کی سفارش کرتاہے بشرطیکہ یہ قابل رسائی، محفوظ اور فعال ہو۔ ڈبلیو ایچ او یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ شہری سبز جگہ کی مثالی مقدار فی شخص 50 مربع میٹر تک فراخدلانہ طور پر فراہم کی جاسکتی ہے''۔لاہور میں سالانہ کتنے اضافی درخت لگانے کی ضرورت ہے۔
اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ'' پنجاب بھر میں پانچ سالوں میں لگ بھگ 50 کروڑ درخت لگائے جائیں گے جبکہ رواں سال کے دوران 90 لاکھ درخت لگائے جائیں گے۔ اس وقت لاہور سمیت پنجاب بھر میں فی ایکڑ 21 درخت لگائے جا رہے ہیں۔
ہمارا ہدف 2025 تک اس تناسب کو 28 درخت فی ایکڑ تک بڑھانا ہے''۔لاہور میں کس قسم کے درخت لگائے جائیں مقامی یا غیر مقامی۔ اس بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ''ماحولیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ کسی بھی میٹروپولیٹن شہر کے لیے منصوبہ بند لینڈ سکیپ اور باغات ضروری ہیں۔
بدقسمتی سے لاہور اس ''ٹرینڈ'' کا سب سے بڑا شکار بن گیا ہے جس میں نیم، تھریک ، جامن، آم اور کیکر جیسی مقامی اور کہیں زیادہ ماحول دوست انواع کی جگہ مہنگے آرائشی پودے اور درخت لے رہے ہیں۔
پھلوں کے یا مقامی اقسام کے درختوںکو اگانے کے فوائد کافی ہیں۔ مقامی اقسام کے غیر ملکی انواع کے مقابلے میں زیادہ ماحولیاتی اورecological فوائد حاصل ہوتے ہیں''۔لاہور میں لگائے جانے والے درختوں کی ضرورت ماحولیاتی اعتبار سے زیادہ ہو یا خوبصورتی کے لحاظ سے۔ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر کہتے ہیں کہ ''گزشتہ چند سالوں سے لاہور میں ترقی اور تیزی سے اربنائزیشن کے نام پر جنونی سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
زیادہ تر منصوبوں میں صوبائی دارالحکومت کو اس کے سینکڑوں آبائی درختوں سے محروم کر دیا گیا ہے جن میں پھلوں کے درخت بھی شامل ہیں۔سبھی کو تبدیل کر دیا گیا ۔ خاص طور پر سجاوٹی درختوں ، کھجور اور پام کی قسم سے۔ یہ ایک غلط فیصلہ ہے۔جس کی وجہ سے ایک ایسا شہر جو پہلے ہی فضائی آلودگی اور سموگ سے لڑ رہا ہے اُس کا ایکو سسٹم اور ماحول تنزلی کا شکار ہے ۔
لہذایہ واضح ہے کہ ہمیں صرف جمالیات پر توجہ دینے کے بجائے پودوں کے ماحولیاتی فوائد پر توجہ دینی چاہیے''۔لاہور میں شجر کاری کے لیے کس قسم کے درختوں کا انتخاب کیا جائے۔
ڈاکٹر صاحب کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ''ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ پھل دار درختوں یا مقامی نسلوں کو اگانے کے فوائد کافی ہیں۔ پھلوں کے درخت شہری علاقوں میں اچھی طرح اگتے ہیں اوریہ پرندوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیںجو شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ پھل دار درخت لگانا بھی صاف ستھرا ماحول پیدا کرنے میں مددگار ہے کیونکہ یہ سجاوٹی درختوں سے زیادہ آکسیجن پیدا کرتا ہے۔
ہم مختلف مقامی ماحول دوست انواع کا انتخاب کر سکتے ہیں جیسے نیم، تھریک، جامن، آم اور کیکروغیرہ''۔ہم نے اگر لاہور کےtree cover کی حفاظت اور اس میں اضافہ کی کوششیں نا کیں تو کیا مستقبل میں کوئی انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ''ملک میں جنگلات کی کٹائی کی شرح کا اندازہ 0.2 سے0.5 فیصد سالانہ کے درمیان لگایا گیا ہے۔
جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ جس سے لکڑی کے بائیو ماس میں سالانہ چار سے چھ فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔اگر ہم نے ابھی اسurgency پر توجہ نہ دی۔ تو ہم جنگل سے حاصل ہونے والے غیر محسوس فوائد سے محروم ہو سکتے ہیں۔ جن میں آکسیجن کی پیداوار، واٹرشیڈ ویلیو، قابل دید مناظر، ایکو سسٹم کی ہم آہنگی اور انسانی صحت اور معیار زندگی کے لیے ضروری متعدد دیگر فوائد شامل ہیں۔
جو بالآخر بڑی تباہی اور زمین پر زندگی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے''۔لاہور میں کس طرح کی شجر کاری پر توجہ دی جائے جنگل لگانے یا روڈ سائیڈ پلاٹیشن پر ۔اس بارے میںڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ'' ٹریفک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے سڑک کے کنارے افقی پودے لگانا ضروری ہے۔ لیکن لاہور کی صاف ستھری پائیدار ترقی کے لیے میاواکی جنگل کے ساتھ ساتھ سڑک کے کنارے شجرکاری بھی ضروری ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں ہی سب سے بڑے اربن میاواکی فاریسٹ پروجیکٹ کا افتتاح کیا ہے۔ یہ جنگل 12.5 ایکڑ پر محیط ہے اور اس میں 165,000 سے زیادہ پودے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ درختوں کو ایک دوسرے کے قریب لگانے کی میاواکی تکنیک کی وجہ سے درخت 10 گنا زیادہ تیزی سے بڑھنے کی امید ہے۔ یہ جنگل لاہور کے 53 ایسے مقامات میں سے ایک ہے جوcarbon sinks کے طور پر کام کریں گے۔
10 ملین کی آبادی والا شہر حالیہ برسوں میں سموگ کی لپیٹ میں ہے جس نے اسکولوں کو بند کرنے پر مجبورکیا اور اسے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ایک درجہ ملا ہے''۔لاہور میں tree cover میں اضافہ کے لیے پالیسی سطح پر اور اس پر عملدرآمد کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر اس حوالے سے کہتے ہیں کہ'' ماحولیاتی پالیسیاں پائیدار شہری ترقی کا اہم حصہ ہیں۔
حکومت ،کارپوریشن ،دیگر سرکاری یا نجی تنظیموں کی جانب سے ماحول پر انسانی سرگرمیوں کے اثرات کے حوالے سے کوئی بھی اقدام، خاص طور پر وہ جو انسانی سرگرمیوں کے نقصان دہ اثرات کو روکنے یا کم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں خوش آئند ہے۔حکومتی سطح پر یہ ضروری ہے کہ حکومت موثر پالیسیاں متعارف کرائے جو مقررہ وقت میں لاگو اور حاصل کی جا سکیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کی سابق وفاقی حکومت نے اپنا گرین پاکستان پروگرام شروع کیا۔ جس کا مقصد پورے ملک میں پانچ سالوں میں 100 ملین درخت لگانا ہے۔ موجودجنگلات کی حفاظت کرنا ہے۔
اسی طرح ہم خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے صوبے میں جنگلات کے رقبے کو بڑھانے کے لیے بلین ٹری سونامی فاریسٹیشن پروجیکٹ کے نام سے ایک منفرد جنگلاتی پروگرام کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔جو ماحول کی بحالی کا کام کرے گا''۔لوگ جلد بڑھنے والے درختوں کی اقسام کا استعمال کرنا چاہتے ہیںاس حوالے سے آپ کی کیا ماہرانہ رائے ہے کہ کونسے پودے لگائے جائیں جو جلد بڑھنے کے ساتھ ساتھ مسائل کا باعث نہ بنیں اور مقامی ماحول اور آب وہوا سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ'' لوگ اپنے معاشی فوائد کی وجہ سے تیزی سے بڑھنے والے پودوں کو اگانا پسند کرتے ہیں ۔
پاکستان میں اُگائی جانے والی عام تیزی سے بڑھنے والی نسلوں میں جنتر، سیمل، سفیدہ، ایمپریس اسپلنڈر (Empress Splendor)وغیرہ شامل ہیں'' ۔کیا درختوں کی بھی environmental assessment ہونی چاہیئے ،تاکہ موزوں درخت کا جگہ ، ماحول اور آب وہوا کی مناسبت سے انتخاب کیا جاسکے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے مطابق ''یہ ضروری ہے ۔ملک میں ہر ترقیاتی منصوبے کے لیے EIA ضروری ہے۔ EIA صرف تجارتی تعمیل کے لیے نہیں بلکہ یہ ضروری ہے کہ ہم اسے اپنے گرین پروجیکٹس میں بھی کریں تاکہ ہم ماحول میں متعارف ہونے والی انواع کی موزونیت کا تجزیہ کرسکیں''۔
ایک ایسے دور میں جس میں انتہائی قدرتی واقعات کثرت سے رونما ہوتے جا رہے ہیں۔شہروں میں خطرات میں کمی اور آفات سے نمٹنے کے منصوبے تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ خطرات اور اِن سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔
شہری اور مضافاتی شہری جنگلات ایسے منصوبوں کے کلیدی اجزاء ہیں جوآفات کے اثرات اور ان سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے، اور اس کے نتیجے میں شہری ماحولیاتی نظام کو پہنچنے والے نقصان کی بحالی، تعمیر نو اورآباد کاری کے لیے ہوں۔ شہری اور مضافاتی شہری جنگلات کی کثیر الجہت افادیت اس امر کو ضروری بناتی ہے کہ آفات کے خطرے کو کم کرنے کے لیے بنائے جانے والے تمام ایکشن پلان میںدرختوں کو مدنظر رکھا جائے۔پاکستان اور اس کے شہروںکے حوالے سے اس جانب توجہ کی اشد ضرورت ہے۔
اس ڈرامائی تبدیلی کے یقینا مجھ سمیت لاکھوں زندہ گواہ آج بھی موجود ہیں۔ہم نے اپنے بچپن میں جس لاہور کو دیکھا ہمارے بزرگ جس لاہور کی کہانیاں ہمیں اور ہمارے بچوں کوسناتے ہیں یہ وہ لاہور نہیں جس میں آج ہم رہ رہے ہیں۔اب یہ وہ لاہور ہے جو سبزے کے زیور سے محروم ہوتا ہواکنکریٹ کی بیڑیوں میں جکڑا جاچکا ہے۔ہر سو کنسٹرکشن نے اس کے فطری حسن کو گہنادیا ہے۔
آبادی کے بے انتہا دباؤ نے لاہور کی جغرافیائی ، ماحولیاتی، معاشی اور سماجی ساخت کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ نتیجتاًکئی ایک شہری مسائل انسانی بحران کا روپ اختیار کرنے کی جانب گامزن ہیں۔ ائیر کوالٹی ، سموگ ، دھند، شہری سیلاب، شدید گرمی کی لہروں اوردیگر موسمیاتی تغیرات نے شہر ی نظامِ زندگی کو سال کے مختلف حصوں میںمتاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔جس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک نمایاںوجہ شہر میں سبزے یعنی درختوں کی کم ہوتی تعداد بھی ہے۔
اس تلخ حقیقت کی نشاندہی گزشتہ سال شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالہ Spatiotemporal urban sprawl and land resource assessment using Google Earth Engine platform in Lahore district, Pakistan (گوگل ارتھ پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے ضلع لاہورپاکستان کے شہری پھیلاؤ اور زمینی وسائل کا زمانی و مکانی تعین) کے یہ اعدادوشمار باخوبی کر رہے ہیں جن کے مطابق'' 1990 سے2017 تک لاہور میں 2.06 مربع کلومیٹر سالانہ کے حساب سے tree cover (درختوں کا احاطہ)ختم ہو ا ہے۔
2010 سے2017 کے دوران تو یہ رفتار 3.71 مربع کلومیٹر سالانہ تک پہنچ چکی تھی۔اس کے برعکس1990 سے2017 تک لاہور شہر23 مربع کلومیٹر سالانہ کے حساب سے پھیلا''۔ وسعت پذیر لاہور شہر میں درختوں کی تعداد میں درکاراضافہ کے برعکس ان کی تعداد میں کمی ایک لمحہ فکریہ ہے اُن تمام اداروںکے لیے جوشہر میں tree cover (درختوں کا احاطہ)کے اضافہ اور اِس کی حفاظت و نگہداشت کے ذمہ دار ہیں۔
اس کے علاوہ لاہور شہر کے اُن تمام شہریوںکے لیے بھی جو آلودہ فضا میں سانس لینے کو توتیار ہیں۔ جھلسا دینے والی گرمی میں بھی جینے کو راضی ہیں۔ جو روز بروز زیرزمین کم ہوتی ہوئی پانی کی سطح پر بھی سمجھوتا کررہے ہیں۔
جو اپنے اردگرد پرندوں کی چہچاہٹ سے بے نیاز ہوتے جارہے ہیں۔جو چہل قدمی اور تفریح کے لیے کسی سبز قطعہ اراضی کے متمنی نہیں۔ ۔ ٹریفک کے شور سے بہرے ہونے کوبھی تیارہیں۔لیکن بس نہیں تیار ہیں تو شہر میں شجر کاری کرنے اور موجود درختوں کی حفاظت اور نگہداشت کرنے کو۔یوںہم سب کی بے حسی اور لاپرواہی کی وجہ سے باغوں کا یہ شہر آلودہ شہر میں بدلتا جارہا ہے۔
کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
شجر کشی کا یہ نوحہ پروین شاکر نے جب بیان کیا ہوگایقینا اُس وقت درختوں کوتوانائی کے حصول کی خاطر بے دریغ کاٹا جاتاتھا اور ایسا آج بھی ہے لیکن بڑے شہروں میں یہ صورتحال ذرا مختلف ہے جہاں بڑھتی آبادی کو سائبان کی فراہمی کے لیے شہری وسعت اپنی راہ میں آنے والے ہر پیڑ کو کاٹ رہی ہے۔ لاہور کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ لاہور ڈسٹرکٹ جس کی آبادی میں 1998 سے2017 کے دوران 76 فیصدسے اضافہ ہوچکا ہے مزید آبادی کے بوجھ تلے دباجا رہا ہے۔
کیونکہ2050 تک لاہور کی آبادی تقریباً25 ملین ہو جانے کا اندازہ ہے۔ جس کے نتیجے میں آئندہ28 سالوں میں 12.6 ملین اضافی افراد کے لئے رہائش اور اُن سے منسلک سہولیات کی ضرورت پڑے گی۔
ضلع لاہور جو رقبہ کے لحاظ سے پنجاب کا سب سے چھوٹا ڈسٹرکٹ ہے لیکن آبادی کے حوالے سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ ملک کے صفر عشاریہ بائیس فیصد (0.22 %) رقبہ پر مشتمل اس ڈسٹرکٹ میں ملک کی 5.35 فیصد آبادی مقیم ہے جبکہ وطن عزیز کی شہری آبادی کا 15 فیصد لاہور ڈسٹرکٹ کے نفوس پر مشتمل ہے۔لاہور میں آبادی کی گنجانیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت لاہور ڈسٹرکٹ میں فی مربع کلومیٹر آبادی کی اوسط تعداد 6275.39 ہے جو پورے ملک میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
لاہور ڈسٹرکٹ صوبہ پنجاب کے رقبہ کا صفر عشاریہ چھیاسی (0.86 %) فیصد ہے لیکن صوبے کی دس فیصدمجموعی آبادی اور 27.5 فیصد شہری آبادی یہاں سکونت پذیر ہے۔اسی طرح صوبے کے گھروں کا10.27 فیصد لاہور ڈسٹرکٹ میں تعمیر ہے جبکہ پنجاب کے شہری گھروں کی تعداد کا 27.50 فیصد لاہور ڈسٹرکٹ میں موجود ہیں۔پانچویں اور چھٹی مردم شماری کے دوران لاہور ڈسٹرکٹ میں گھروں کی تعداد میں 98 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جو شہر کی جغرافیائی وسعت کا مظہر ہے۔
یہ پھیلاؤ شہر کے اندر اور اس کے اردگرد موجود خالی جگہوں کو جہاں یا تو درخت ہیں یا پھر درخت لگائے جاسکتے ہیںکو تیزی سے کھا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مکانات کی تعداد میںیہ اضافہ دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر کا بھی پیش خیمہ بنتا ہے۔
مثلاً شاپنگ پلازے، دکانیں، سڑکیں، اسکول، ہسپتال، شادی ہال، عبادات کے مقامات، پیٹرول پمپ وغیرہ۔یعنی مزید کچی زمین کاکنکریٹ سے چھپ جانا۔ایسے میں اس پھیلاؤ کی راہ میں آنے والے درختوں کے ساتھ کیا ہوگا؟ اس سوال کا اگراوپر بیان کردہ صورتحال کو مدنظر رکھ کر کو ئی جواب ہوسکتا ہے تو وہ شاید یہی ہو کہ ماضی میں جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے مستقبل میں بھی اس سے مختلف نا ہوگا۔
ماضی میں لاہور میں درختوں کے ساتھ کیا بیتی یہ ایک پوری کہانی ہے لیکن اس کہانی کا جو خوفناک نتیجہ ہے وہ Spatiotemporal urban sprawl and land resource assessment using Google Earth Engine platform in Lahore district, Pakistan (گوگل ارتھ پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے ضلع لاہورپاکستان کے شہری پھیلاؤ اور زمینی وسائل کا زمانی ومکانی تعین) نامی تحقیقی مقالہ اس کا اظہار بخوبی کر رہا ہے۔
یہ ریسرچ پیپر ملکی اور غیر ملکی پانچ ماہرین کی مشترکہ کا وش ہے ۔یہ تحقیق گزشتہ سال Computers in Earth and Environmental Sciences, Artificial Intelligence and Advanced Technologies in Hazards and Risk Management نامی بین الاقوامی کتاب میں شائع ہوئی ہے ۔ ڈاکٹر عدیل احمد ، اس تحقیقی مقالہ کےfirst author ہیں۔آپ جامعہ پنجاب کے شعبہ جغرافیہ میںلیکچرار ہیں۔ اس تحقیق کو انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی پاکستان کے ڈاکٹر حماد گیلانی نے سپروائز کیا ہے۔
ڈاکٹر عدیل احمدسے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ لاہور میں درختوں کی کمی کی شدت کو کس کیٹگری میں رکھتے ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ '' بہت زیادہ '' کی ۔ اس رائے کی بنیاد اُنھوں نے اپنی تحقیق کے نتائج کو قرار دیتے ہوئے اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ '' 1990 سے2017 تک لاہور میں مجموعی طور پر 55.48 مربع کلومیٹرtree cover (درختوں کا احاطہ)ختم ہوا۔ جو 71.44 مربع کلومیٹر سے کم ہوکر 15.96 مربع کلومیٹر تک آچکا ہے۔
یعنی 27 سال میں لاہور کا 77.7 فیصدtree cover (درختوں کا احاطہ)ختم ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر عدیل احمد کا کہنا ہے کہ 1990 میں ضلع لاہورکے 4.03 فیصد رقبہ پر tree cover (درختوں کا احاطہ)موجود تھا جو 2017 تک کم ہوکر صرف صفر عشاریہ نو فیصد(0.90 %) رہ گیا ہے۔ جبکہ گزشتہ 27 سالوں میں لاہور کےbuilt-up area ( تعمیر شدہ رقبہ)میں 621.09 مربع کلومیٹر اضافہ ہوا۔ جو 429.7 فیصد اضافہ بنتا ہے۔
1990میں لاہور کا 144.53 مربع کلومیٹر علاقہbuilt-up area ( تعمیر شدہ رقبہ) تھا جو2017 میں بڑھ کر 765.62 مربع کلو میٹر ہوچکا ہے۔ اس وقت ضلع لاہور کا 43.21 فیصد رقبہ built-up areaپر مشتمل ہے جو 1990 میں 8.16 فیصد ہوا کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے متنبہ کیا کہ اس صورتحال نے پہلے ہی اس میگا سٹی کی ماحولیاتی نظام اور ہوا کے معیار کو گرا دیا ہے اور اگر یہی حالات برقرار رہے تو یہ ایک بڑے انسانی المیہ کا باعث ہوں گے''۔
لاہورکے پھیلاؤ کے علاوہ شہری اور مضافاتی علاقوں میں گاڑیوں اور صنعتی اخراج میں تیزی سے اضافے کے نتیجے میں متعدد ماحولیاتی مسائل جیسے شہری گرمی کے جزیرے(urban heat islands)، سموگ، فضائی آلودگی، بارش کے اتار چڑھاؤ کے انداز اور صحت کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔لاہور جس تیزی سے پھیل رہا ہے اُسی زیادہ تیزی سے شہر میں رواں دواں موٹر ویکلز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
کیونکہ شہر کے بڑھتے فاصلے موٹر ویکلز کی ضرورت کو دوچند کر رہے ہیں۔ چاہے وہ پبلک ہو یا نجی شہر میں موٹر ویکلز کی تعداد میں2003 سے 2019 کے دوران 535 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ جو آبادی میں اضافہ سے کہیں زیادہ ہے۔
اس وقت پنجاب کی 31 فیصد موٹر ویکلز لاہور میں رجسٹرڈ ہیں۔ جو شہریوں کی سفری ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ لاہور کی فضا کو آلودہ کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں خصوصاً سموگ کی صورت میں۔ کیونکہ گاڑیوں سے سلفر ڈائی آکسائیڈ کا اخراج اور ننھے ٹھوس ذرات سموگ کا بنیادی ذریعہ ہیں۔اس کے علاوہ مینوفیکچرنگ انڈسٹریز2015-16کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں 95 فیصد سے زیادہ صنعتی یونٹس بڑی سڑکوں اور شاہراہوں کے 2 کلومیٹر کے اندر شہری علاقوں کے آس پاس واقع ہیں ۔
سرفہرست چار صنعتی اضلاع (فیصل آباد، سیالکوٹ، لاہور، گوجرانوالہ) میں پنجاب کی مجموعی صنعت کا 62.42 فیصد حصہ ہے۔ اس طرح شہری پھیلاؤ اور درختوں کی کمی سے ماحولیاتی انحطاط اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہورہا ہے۔
شہروں کو جنگلات کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ آب و ہوا کو منظم کرنے، کاربن ذخیرہ کرنا، فضائی آلودگیوں کو ہٹانے،ہوا کے معیار کو بہتر بنانے ،شہری سیلاب کے خطرے کو کم کرنے، خوراک اورپانی کی حفاظت میں مدد کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ درخت فطرت کا پاور ہاؤس ہیں اور دنیا کی قابل تجدید توانائی کی طلب کو پورا کرنے کا ایک اہم وسیلہ ہیں۔درخت سایہ اور ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں۔
ہوا کی رفتار کو کم کرتے ہیں اس طرح بالواسطہ طور پر ایئر کنڈیشنگ اور حرارتی نظام کی ضرورت کو کم کرکے شہری توانائی کی کھپت میں کمی کرنے میں معاون ہوتے ہیں جس سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔اس کے علاوہ شدید موسم کے اثرات کو کم کرنے کا ذریعہ ہیں۔
درخت شہریوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں معاون ہیں۔ جنگلات شہروں کی خوبصورتی کو بڑھاتے ہیں اور سماجی ہم آہنگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں یعنی یہ شہروں کو مزید پرکشش اور رہنے کے لیے سازگار بنا کر معیار زندگی اور صحت کو بہتر بنانے پر غیر معمولی اثر ڈالتے ہیں۔سب سے بڑھ کر درخت ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کا ایک اہم ذریعہ ہیںاور ڈیزاسٹررسک منجمنٹ کا حصہ بھی ہیں ۔لہٰذاشہر میں اور اس کے کناروں پریعنی ارد گرد درختوں کی موجودگی بہت ضروری ہے اور اسے جنگل اور انفرادی درختوں کے ایک مربوط نظام سے یقینی بنائی جاسکتا ہے۔
لاہور میں درختوں کی کمی پر قابو پانے کے لیے کئی ایک پالیسیاں واضع کی جاچکی ہیں اور کئی ایک اقدامات کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ایک پہلو جو توجہ طلب ہے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے محمد فیصل ہارون، سابق چیف کنزیرویٹر توسیع و ریسرچ محکمہ جنگلات پنجاب نے بتایا کہ '' لاہور محکمہ جنگلات کے دائرہ عمل میں نہیں ۔ کیونکہ لاہور شہرمیں شجر کاری اور اس سے متعلقہ دیگر اُمور کی تقریباً تمام ذمہ داری پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ لاہور شہر میں نرسریوں کے لیے محکمہ جنگلات کو زیادہ جگہ فراہم کی جائے ۔کیونکہ ایک تو نرسری لگانے کی مہارت ہمارے پاس ہے دوسرامحکمہ جنگلات کی نرسریوں سے عوام کوصرف 2 روپے کا پودا ملتا ہے''۔سوچنے کی بات ہے کہ ایک ایسا محکمہ جس میں زیادہ تر فارسٹری پڑھے لوگ ملازم ہیں جن کی مہارت ہی جنگلات ، شجر کاری اور اُن سے وابستہ تمام تکنیکی امور ہیں اُن کی صلاحیتوںاور مہارتوں کو لاہور کو سرسبز و شاداب کرنے کے حوالے سے استعمال ہی نہیں کیا جارہا ؟
لاہور میں درختوں کی کمی کو دور کرنے کے لیے اس وقت پچاس سے زائد مقامات پر میاواکی جنگل لگائے جارہے ہیں۔اس کے علاوہ دنیا کا سب سے بڑا میاواکی جنگل بھی حال ہی میں لاہور میں 100 کنال رقبہ پر لگایا گیا جس میںایک لاکھ60 ہزار درخت لگائے گئے ہیں۔
درخت لگانے اور سرسبز ماحول کی اہمیت پر زور دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کے مختلف محکموں کو شجرکاری کو فروغ دینے اور خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے موجودہ قوانین کو اپ ڈیٹ کرنے کی ہدایات جاری کیں ہیں۔ عدالت نے مقامی حکومتوں، ترقیاتی اتھارٹیز اور تمام متعلقہ محکموں کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹیز اپنے الاٹمنٹ لیٹرز میں شجرکاری کو شامل کرنے کی پابند ہوں گی۔
سکریٹری کوآپریٹو اور رجسٹرار کوآپریٹو کا خاص طور پر اس کارروائی کو نافذ کرنے کے لیے ذمہ دار اداروں کے طور پر ذکر کیا گیا۔اس حوالے سے دی اربن یونٹ نے ''پنجاب اربن اینڈ پری اربن فارسٹ پالیسی (ڈرافٹ)2019 '' تیار کیا جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ '' پنجاب ہاؤسنگ سوسائٹیز اینڈ لینڈ سب ڈویژن رولز 2010 ہاؤسنگ سوسائٹیز کے لیے منصوبہ بندی کے معیارات کاتعین کرتے ہیں۔
قوانین میں کہا گیا ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹی کی منصوبہ بندی کرتے وقت ڈویلپر کو کھلی جگہ یا پارکس کے لیے اپنی سوسائٹی کے رقبہ کا کم از کم سات فیصد (7%)مختص کرنا ہوتا ہے۔ تاہم اس رول میں شہری جنگلات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
یہ پالیسی تجویز کرتی ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے 2.5% رقبے (کھلی جگہ اور پارکوں کے لیے 7% رقبے کے اندر سے) کو شہری جنگل کے لیے مخصوص کرنے کے حوالے سے موجودہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے قوانین کو اپ ڈیٹ کیا جائے''۔اس کے علاوہ محکوں اور اداروں کو اپنے زیر انتظام علاقوں میں Tree Canopy (درختوں کی چھتری) کے لیے جو اہداف تجویز کیے گئے ہیں اُن کے مطابق'' سڑکوں پر 5 فیصد، شہری علاقوں میں 10 فیصد اور مضافاتی شہری علاقوں میں 15 فیصد رقبہ پر درخت لگائے جائیں۔
اس سلسلے میں شہر کی گلیوں، سڑکوں، ہاؤسنگ سوسائٹیزاور پبلک و پرائیویٹ سیکٹر کی دیگر سہولیات میں 10 میٹر میں ایک درخت کے اصول کو پیروی کی جائے''۔اس کے علاوہ حال ہی میں ایل ڈی اے کی جانب سے لاہور ڈویژن ماسٹر پلان 2050 کا ڈرافٹ عوام کی آرا اور تجاویز کے لیے جاری کیا گیا ہے اس میں واضح طور پر تحریر ہے کہ '' موجودہ زرعی اور کھلی جگہوںکے تحفظ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ لہذامستقبل کی ترقی کے منصوبوں میں کھلی جگہوں(Parks/Open Spaces)میں اضافہ کی واضح پالیسی مرتب کی گئی ہے ۔
اسی پس منظر کے تحت Scenario C,D,F میں نئے ترقیاتی رہائشی منصوبوں/ نئی رہائشی سکیموں میں کھلی جگہوں/ پارک کے لیے مختص کردہ جگہ 7 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصدکی گئی ہے''۔ایل ڈی اے کا یہ فیصلہ یقینا وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن اس کے اثرات کومزید بڑھایا جاسکتا ہے اگر اس میں شہری جنگل کے لیے رقبہ مختص کرنے کی شق بھی شامل کر لی جائے جیسا کہ اربن یونٹ نے تجویز کیا ہے۔
لاہور میں درختوں کی کمی کو جلد ازجلد دور کرنے کے واسطے اُن کے بڑھنے کی رفتار میں تیزی حاصل کرنے کے لیے شہر میں شجر کاری کی ایسی تکنیکس استعمال کی جارہی ہیں جن میں درختوں کے نمو کی رفتار میں تیزی حاصل کی جائے جیسا کہ میاواکی۔ اس کے علاوہ ایسے غیر مقامی پودوں کو بھی لگایا جارہا ہے جن کی افزائش تیزہوتی ہے۔ لیکن ان غیر مقامی پودوں میں سے چند کے بارے میں شہریوں میں شدید تحفظات موجود ہیں۔ مقامی اور غیر مقامی درختوں کی بحث روز بروز اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے۔
یہ سوال جب ہم نے میاواکی جنگل کی تکنیک کے ماہر بلال اختر چوہدری کے سامنے رکھا کہ لاہور میں شجر کاری کے حوالے سے کونسے پودوں کا انتخاب بہتر ہے مقامی یا غیر مقامی تو انہوں نے کہا کہ '' قدرت نے ہر علاقے کے ماحول اور قدرتی وسائل کی مناسبت سے وہاں درخت بنائے ہیں۔جب آپ کہیںغیر مقامی اقسام کے پودے لگا لیتے ہیں۔ تو آپ اُس علاقہ کے قدرتی نظام میں ایک طرح کی مداخلت کرتے ہیں۔
پھر ہوتا کیا ہے کہ غیر مقامی پودے ایک اجنبی ماحول کی وجہ سے یا خود مرجاتے ہیں یا اپنے اردگرد کے پودوں کو نہیں چلنے دیتے۔ ان کے حصہ کا پانی اور خوراک بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی ، ماحولیاتی اور انسانی صحت پر مختلف طرح کے اثرات کا باعث بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ لگائے جانے سے پہلے اُن کے منفی اثرات کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہوتیں جب اِن پودوںکے منفی اثرات سامنے آتے ہیں تو پھر مسائل شروع ہوجاتے ہیں۔
مثلاً سفیدے کا درخت سیم زدہ زمینوں کے لیے ملک میں متعارف کرایا گیا۔اس میں زیادہ پانی کواستعمال کرنے کی خصوصیت ہے اس کے علاوہ یہ درخت جلد نمو پاتا ہے۔ لیکن اب یہ آپ کو سیم زدہ زمینوں کے علاوہ جابجا لگا ملے گا اور پانی کی قلت کا شکار ملک ہونے کے ناطے اس طرح کے درخت کا پھیلاؤ توجہ طلب ہے۔ اسی طرح اسلام آباد میںپیپر ملبری پولن الرجی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ لاہور میں کونو کارپس آپ کو اکثر جگہ لگا ملے گا۔
یہ درخت زیر زمین انفراسٹرکچر (سیوریج لائن، پانی کی لائن، گیس لائن، بجلی ،ٹیلی فون وغیرہ )کو اپنی جڑوں کے پھیلاؤ کی وجہ سے متاثر کرتا ہے۔اس درخت کی جڑیںاپنے قریبی گھروں کی بیرونی دیواروں اور عمارتوں کی بنیادوںکو متاثر کرتی ہیں۔یہ ایک غیر مقامی درخت ہے اس کے پتے درخت سے گرنے کے بعد زمین میںحل نہیں ہوتے کیونکہ ہماری مٹی میں وہ بیکٹریا ہی موجود نہیں جو انھیں زمین میں تحلیل کرے۔یوں یہ گندگی پھیلاتے رہتے ہیں۔اس درخت پر پرندے گھونسلہ نہیں بناتے۔یہ درخت پولن الرجی اور جلد کی الرجی کا باعث بنتا ہے۔
اس لیے جن لوگوں کو سانس کا مسئلہ ہے اُن کے لیے یہ درخت بہت نقصان دہ ہے۔ ان کے مقابلے میں مقامی درخت مٹی کی ذرخیزی کو بڑھاتے ہیں۔ماحول کو صاف رکھتے ہیں۔ الرجیز پیدا نہیں کرتے۔ وہاں کے چرند پرند کے لیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں''۔
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق شہروں کو بڑے درختوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔امریکن فارسٹ سروس کے مطابق بڑے قد کے درخت چھوٹے قد و کاٹھ والے درختوں کے مقابلے میں آٹھ گنا زائدتک فوائد فراہم کرتے ہیں۔
ایسے درختوں کی انواع کا انتخاب کرنا جو پختگی کے وقت بڑی ہوں ، ان کو مناسب جگہوں پر لگانا، اور ان کا بہتر خیال رکھنا اور اس بات کو یقینی بناناکہ وہ مضبوط اور صحت مند طور پر بڑھیںضروری ہے تاکہ وہ کاربن کا حصول زیادہ سے زیادہ کریں۔زیادہ سایہ اور ٹھنڈک فراہم کریں۔انٹرنیشنل ماہرین کی تحقیق کے مطابق بڑے قد کاٹھ کے درخت55 ڈالر سالانہ کا فائدہ دیتے ہیں ۔ جبکہ درمیانے قد کاٹھ کا درخت سالا نہ 33 ڈالر اور چھوٹے خدوخال کے شجر 23 ڈالر سالانہ کا فائدہ فراہم کرتے ہیں ۔
لاہور کے پھیلاؤ اور ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے درختوں کی اہمیت کے تناظر میں پنجاب یونیورسٹی کے کالج آف ارتھ اینڈ اینوائرنمنٹل سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدیر جن کی پی ایچ ڈی انوائرنمنٹل بیالوجی میں ہے کا کہنا ہے کہ '' باغات کے شہر لاہور کے لیے درخت اور ہریالی ہمیشہ سے فخر کی بات رہی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران شہر کےtree coverنے ترقی اوراربنائزیشن کے موضوعات میںنمایاں جگہ بنائی ہے۔
گزشتہ 15 سالوں میں صرف لاہور نے جنگلات کا 70 فیصد حصہ کھو دیا ہے اور یہ شہر میں بڑھتی سموگ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ جو کہ شہر کے سماجی و معاشی حالات کی تنزلی کی ذمہ دار ہے''۔لاہور کے tree cover میں کمی کی وجوہات کے بارے میں ڈاکٹر عبدالقدیر کا کہنا تھا کہ'' شہر میں سبز جگہ کے سکڑنے سے ماحولیاتی توازن میں خلل پڑا ہے۔
آبادی میں اضافہ، صنعتی توسیع، ترقیاتی سرگرمیاں اور زمین پر تجاوزات جیسے محرکات لاہور سمیت دیگر میٹروپولیٹن شہروں کے سبزے کے احاطہ کو کم کر رہے ہیں۔ جیسا کہ پوری دنیا میں اربنائزیشن اور آلودگی بڑھ رہی ہے۔بہت سے شہروں کو آبادی میں اضافے کی بلند شرح کا سامنا ہے جس کی وجہ سے مقامی ماحول جیسے شور اور کاربن کی آلودگی، مٹی کا کٹاؤ، اور حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچ رہا ہے''۔لاہور کے tree cover میں اضافہ کی اہمیت کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ''یہ واقعی بہت ضروری ہے کہ لاہور آنے والے وقت میں آج سے زیادہ سرسبز و شاداب ہو۔ کیونکہ لاہور 2025 تک شہری آبادی کے تناسب کے لحاظ سے دنیا کے پہلے 30 شہروں میں شامل ہو جائے گا۔
لاہور 1975 میں دنیا میں 56 ویں اور 2007 میں 38 ویں نمبر پر تھا جب کہ 2025 میں یہ 24 ویں نمبر پر ہو گا۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران تیز اربنائزیشن نے ترقی پذیر ممالک کے شہروں کی سماجی و اقتصادی خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس وجہ سے یہ سائنسدانوں، پالیسی سازوں اور شہر کے منتظمین کی خصوصی توجہ کا باعث بنی ہوئی ہے''۔لاہور کے کتنے رقبہ پر درختوں کا ہونا ضروری ہے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ'' بد قسمتی سے 2001 سے 2020 تک لاہور نے 252 ہیکٹرtree cover کھو دیاہے جو 2000 کے بعد سےtree cover میں 16 فیصد کمی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) ہر شہری کے لیے کم از کم 9 مربع میٹر شہری سبز جگہ فراہم کرنے کی سفارش کرتاہے بشرطیکہ یہ قابل رسائی، محفوظ اور فعال ہو۔ ڈبلیو ایچ او یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ شہری سبز جگہ کی مثالی مقدار فی شخص 50 مربع میٹر تک فراخدلانہ طور پر فراہم کی جاسکتی ہے''۔لاہور میں سالانہ کتنے اضافی درخت لگانے کی ضرورت ہے۔
اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ'' پنجاب بھر میں پانچ سالوں میں لگ بھگ 50 کروڑ درخت لگائے جائیں گے جبکہ رواں سال کے دوران 90 لاکھ درخت لگائے جائیں گے۔ اس وقت لاہور سمیت پنجاب بھر میں فی ایکڑ 21 درخت لگائے جا رہے ہیں۔
ہمارا ہدف 2025 تک اس تناسب کو 28 درخت فی ایکڑ تک بڑھانا ہے''۔لاہور میں کس قسم کے درخت لگائے جائیں مقامی یا غیر مقامی۔ اس بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ''ماحولیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ کسی بھی میٹروپولیٹن شہر کے لیے منصوبہ بند لینڈ سکیپ اور باغات ضروری ہیں۔
بدقسمتی سے لاہور اس ''ٹرینڈ'' کا سب سے بڑا شکار بن گیا ہے جس میں نیم، تھریک ، جامن، آم اور کیکر جیسی مقامی اور کہیں زیادہ ماحول دوست انواع کی جگہ مہنگے آرائشی پودے اور درخت لے رہے ہیں۔
پھلوں کے یا مقامی اقسام کے درختوںکو اگانے کے فوائد کافی ہیں۔ مقامی اقسام کے غیر ملکی انواع کے مقابلے میں زیادہ ماحولیاتی اورecological فوائد حاصل ہوتے ہیں''۔لاہور میں لگائے جانے والے درختوں کی ضرورت ماحولیاتی اعتبار سے زیادہ ہو یا خوبصورتی کے لحاظ سے۔ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر کہتے ہیں کہ ''گزشتہ چند سالوں سے لاہور میں ترقی اور تیزی سے اربنائزیشن کے نام پر جنونی سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
زیادہ تر منصوبوں میں صوبائی دارالحکومت کو اس کے سینکڑوں آبائی درختوں سے محروم کر دیا گیا ہے جن میں پھلوں کے درخت بھی شامل ہیں۔سبھی کو تبدیل کر دیا گیا ۔ خاص طور پر سجاوٹی درختوں ، کھجور اور پام کی قسم سے۔ یہ ایک غلط فیصلہ ہے۔جس کی وجہ سے ایک ایسا شہر جو پہلے ہی فضائی آلودگی اور سموگ سے لڑ رہا ہے اُس کا ایکو سسٹم اور ماحول تنزلی کا شکار ہے ۔
لہذایہ واضح ہے کہ ہمیں صرف جمالیات پر توجہ دینے کے بجائے پودوں کے ماحولیاتی فوائد پر توجہ دینی چاہیے''۔لاہور میں شجر کاری کے لیے کس قسم کے درختوں کا انتخاب کیا جائے۔
ڈاکٹر صاحب کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ''ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ پھل دار درختوں یا مقامی نسلوں کو اگانے کے فوائد کافی ہیں۔ پھلوں کے درخت شہری علاقوں میں اچھی طرح اگتے ہیں اوریہ پرندوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیںجو شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ پھل دار درخت لگانا بھی صاف ستھرا ماحول پیدا کرنے میں مددگار ہے کیونکہ یہ سجاوٹی درختوں سے زیادہ آکسیجن پیدا کرتا ہے۔
ہم مختلف مقامی ماحول دوست انواع کا انتخاب کر سکتے ہیں جیسے نیم، تھریک، جامن، آم اور کیکروغیرہ''۔ہم نے اگر لاہور کےtree cover کی حفاظت اور اس میں اضافہ کی کوششیں نا کیں تو کیا مستقبل میں کوئی انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ''ملک میں جنگلات کی کٹائی کی شرح کا اندازہ 0.2 سے0.5 فیصد سالانہ کے درمیان لگایا گیا ہے۔
جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ جس سے لکڑی کے بائیو ماس میں سالانہ چار سے چھ فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔اگر ہم نے ابھی اسurgency پر توجہ نہ دی۔ تو ہم جنگل سے حاصل ہونے والے غیر محسوس فوائد سے محروم ہو سکتے ہیں۔ جن میں آکسیجن کی پیداوار، واٹرشیڈ ویلیو، قابل دید مناظر، ایکو سسٹم کی ہم آہنگی اور انسانی صحت اور معیار زندگی کے لیے ضروری متعدد دیگر فوائد شامل ہیں۔
جو بالآخر بڑی تباہی اور زمین پر زندگی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے''۔لاہور میں کس طرح کی شجر کاری پر توجہ دی جائے جنگل لگانے یا روڈ سائیڈ پلاٹیشن پر ۔اس بارے میںڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ'' ٹریفک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے سڑک کے کنارے افقی پودے لگانا ضروری ہے۔ لیکن لاہور کی صاف ستھری پائیدار ترقی کے لیے میاواکی جنگل کے ساتھ ساتھ سڑک کے کنارے شجرکاری بھی ضروری ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں ہی سب سے بڑے اربن میاواکی فاریسٹ پروجیکٹ کا افتتاح کیا ہے۔ یہ جنگل 12.5 ایکڑ پر محیط ہے اور اس میں 165,000 سے زیادہ پودے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ درختوں کو ایک دوسرے کے قریب لگانے کی میاواکی تکنیک کی وجہ سے درخت 10 گنا زیادہ تیزی سے بڑھنے کی امید ہے۔ یہ جنگل لاہور کے 53 ایسے مقامات میں سے ایک ہے جوcarbon sinks کے طور پر کام کریں گے۔
10 ملین کی آبادی والا شہر حالیہ برسوں میں سموگ کی لپیٹ میں ہے جس نے اسکولوں کو بند کرنے پر مجبورکیا اور اسے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ایک درجہ ملا ہے''۔لاہور میں tree cover میں اضافہ کے لیے پالیسی سطح پر اور اس پر عملدرآمد کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر اس حوالے سے کہتے ہیں کہ'' ماحولیاتی پالیسیاں پائیدار شہری ترقی کا اہم حصہ ہیں۔
حکومت ،کارپوریشن ،دیگر سرکاری یا نجی تنظیموں کی جانب سے ماحول پر انسانی سرگرمیوں کے اثرات کے حوالے سے کوئی بھی اقدام، خاص طور پر وہ جو انسانی سرگرمیوں کے نقصان دہ اثرات کو روکنے یا کم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں خوش آئند ہے۔حکومتی سطح پر یہ ضروری ہے کہ حکومت موثر پالیسیاں متعارف کرائے جو مقررہ وقت میں لاگو اور حاصل کی جا سکیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کی سابق وفاقی حکومت نے اپنا گرین پاکستان پروگرام شروع کیا۔ جس کا مقصد پورے ملک میں پانچ سالوں میں 100 ملین درخت لگانا ہے۔ موجودجنگلات کی حفاظت کرنا ہے۔
اسی طرح ہم خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے صوبے میں جنگلات کے رقبے کو بڑھانے کے لیے بلین ٹری سونامی فاریسٹیشن پروجیکٹ کے نام سے ایک منفرد جنگلاتی پروگرام کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔جو ماحول کی بحالی کا کام کرے گا''۔لوگ جلد بڑھنے والے درختوں کی اقسام کا استعمال کرنا چاہتے ہیںاس حوالے سے آپ کی کیا ماہرانہ رائے ہے کہ کونسے پودے لگائے جائیں جو جلد بڑھنے کے ساتھ ساتھ مسائل کا باعث نہ بنیں اور مقامی ماحول اور آب وہوا سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ'' لوگ اپنے معاشی فوائد کی وجہ سے تیزی سے بڑھنے والے پودوں کو اگانا پسند کرتے ہیں ۔
پاکستان میں اُگائی جانے والی عام تیزی سے بڑھنے والی نسلوں میں جنتر، سیمل، سفیدہ، ایمپریس اسپلنڈر (Empress Splendor)وغیرہ شامل ہیں'' ۔کیا درختوں کی بھی environmental assessment ہونی چاہیئے ،تاکہ موزوں درخت کا جگہ ، ماحول اور آب وہوا کی مناسبت سے انتخاب کیا جاسکے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے مطابق ''یہ ضروری ہے ۔ملک میں ہر ترقیاتی منصوبے کے لیے EIA ضروری ہے۔ EIA صرف تجارتی تعمیل کے لیے نہیں بلکہ یہ ضروری ہے کہ ہم اسے اپنے گرین پروجیکٹس میں بھی کریں تاکہ ہم ماحول میں متعارف ہونے والی انواع کی موزونیت کا تجزیہ کرسکیں''۔
ایک ایسے دور میں جس میں انتہائی قدرتی واقعات کثرت سے رونما ہوتے جا رہے ہیں۔شہروں میں خطرات میں کمی اور آفات سے نمٹنے کے منصوبے تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ خطرات اور اِن سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔
شہری اور مضافاتی شہری جنگلات ایسے منصوبوں کے کلیدی اجزاء ہیں جوآفات کے اثرات اور ان سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے، اور اس کے نتیجے میں شہری ماحولیاتی نظام کو پہنچنے والے نقصان کی بحالی، تعمیر نو اورآباد کاری کے لیے ہوں۔ شہری اور مضافاتی شہری جنگلات کی کثیر الجہت افادیت اس امر کو ضروری بناتی ہے کہ آفات کے خطرے کو کم کرنے کے لیے بنائے جانے والے تمام ایکشن پلان میںدرختوں کو مدنظر رکھا جائے۔پاکستان اور اس کے شہروںکے حوالے سے اس جانب توجہ کی اشد ضرورت ہے۔