میری ایک ’’امانت‘‘ تمھارے پاس ہے۔۔۔

مجھے یاد ہے، تین بار یوں ہوا کہ جن لڑکوں سے ہماری ٹولی نے موبائل فون لیا، اُنھیں ’’سم‘‘ ہنستے ہنستے لوٹا دی۔

مجھے یاد ہے، تین بار یوں ہوا کہ جن لڑکوں سے ہماری ٹولی نے موبائل فون لیا، اُنھیں ’’سم‘‘ ہنستے ہنستے لوٹا دی۔ فوٹو:فائل

پیارے اہل کراچی،

اپنی'' اہلیان'' کا خیال رکھیں۔ اُنھیں شانت رکھنے کے جتن کریں۔ اگر وہ غصے میں آگئیں، تو دھماکا خیز مواد کی طرح پھٹ سکتی ہیں۔ آپ مفت میں مارے جائیں گے۔ اور ہمیں دُکھ ہوگا۔ ہمیں توآپ کی زندگی عزیز ہے۔ اور سبب اِس کا یہ ہے کہ ہماری ایک ''امانت'' آپ کے پاس ہے۔ بس، وہ ہمیں سونپ دیں۔ پھر آپ آزاد ہیں۔

تو ہم اپنی ''امانت'' کی بات کر رہے تھے۔

اِسے آپ ہمہ وقت جیب میں لیے پھرتے ہیں۔ کبھی کان سے لگاتے ہیں، کبھی گنگناتے ہیں۔ اسے دیکھ دیکھ کر مسکراتے ہیں۔

آہ۔۔۔ صحیح سمجھے، ہم آپ کی جیب میں پڑے اپنے موبائل فون کی بات کر رہے ہیں۔ جی ہاں، آپ کے موبائل فون کی نہیں۔۔۔ اپنے موبائل فون کی!

کیا کہا؟

یہ ہمارا نہیں، آپ کا موبائل فون ہے۔

کیا فرماتے ہیں؟

اس کی رسید بھی آپ کے پاس ہے۔

دُرست فرمایا جناب۔ بے شک آپ نے اِسے خریدا۔ قیمت عطا کی۔ اِس میں شیلا اور مُنی کے آئٹم سونگ ڈائون لوڈ کیے، شاہ رخ خان کی ''چنائے ایکسپریس'' اور سلمان خان کی ''جے ہو'' محفوظ کیں، اپنی بیگم کی، دل پر جبر کر کے تصویریں بھی کھینچیں، مگر اِس کا مطلب یہ تو نہیں حضور کہ یہ فون آپ کا ہوگیا۔
یہ تو فقط ایک امانت ہے!!

میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے ماتھے پر شکنیں پڑ گئی ہیں۔ آپ ناراض دکھائی دیتے ہیں۔
ناراض میں مت ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ موبائل اعلیٰ کوالٹی کا ہے۔ آپ کے دفتری ساتھی جب آپ کے ہاتھ میں دیکھتے ہیں، تو حسد کرنے سے خود کو باز نہیں رکھ پاتے۔کچھ عاقبت نااندیش تو جل کر کباب ہوجاتے ہیں۔ آپ بھی سینہ پھلا لیتے ہیں۔ مگر قبلہ، یہ رویہ کچھ اچھا نہیں۔ جو شے آپ کی ملکیت نہیں، اس پر تکبر کیسا؟

میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ اب بھی مجھے موبائل فون دینے کو راضی نہیں۔ میرے دلائل نے آپ پر چنداں اثر نہیں کیا۔


بس، مجھے آپ دوستوں سے یہی شکایت ہے۔ امانت میری، مگر جب کبھی، جس گھڑی حوالگی کا تقاضا کیا جائے، آپ ناراض ہوجاتے ہیں۔ مزاحمت کرنے لگتے ہیں۔ کچھ بدمعاش لڑنے مرنے پر تُل جاتے ہیں۔

اِس رویے سے ہمیں بہت دُکھ ہوتا ہے۔ مجبوراً طاقت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اسلحے کی جھلک دکھانی پڑتی ہے۔

گو یہ کرتے ہوئے اچھا نہیں لگتا، مگر اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ آپ ڈھیٹ ہی اتنے واقع ہوئے ہیں۔ ہماری چیز پر ملکیت جتاتے ذرا نہیں شرماتے۔
کئی تو بعد میں بھی ہمیں کوستے ہیں۔ بدعائیں دیتے ہیں۔

آپ کا یہ رویہ جتنا افسوس ناک ہے، اتنا ہی حیران کن۔

عزیز من، جو شے کبھی آپ کی تھی ہی نہیں، بس ایک امانت تھی، اب وہ خیریت سے حق دار تک پہنچ گئی، اور بجائے اِس کے کہ آپ خوش ہوکر بغلیں بجائیں، آپ کی زبان سے بدعائیں نکل رہی ہیں۔

خیر، میں تو آپ کے لیے دعا ہی کروں گا۔ چاہوں گا کہ آپ کی تنخواہ میں ہر ماہ اضافہ ہو۔ ہمیشہ جدید ماڈل کا فون آپ پاس رکھیں۔ اور جب میں اور میرے بھائی بند کسی تاریک، سنسنان سڑک پر آپ سے ملیں، تو آپ بلاچون و چرا وہ ہمارے حوالے دیں۔

ویسے بارے ہمارے بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ہمیں جرائم پیشہ کہا جاتا ہے۔ بدتمیز، بد تہذیب قرار دیا جاتا ہے۔ مگر حقیقت اِس کے برخلاف ہے۔ ہم تو بہت ہی بااخلاق اور شریف لوگ ہیں۔

مجھے یاد ہے، تین بار یوں ہوا کہ جن لڑکوں سے ہماری ٹولی نے موبائل فون لیا، اُنھیں ''سم'' ہنستے ہنستے لوٹا دی۔ ایک مسکین کا چہرہ دیکھ کر تو اتنا دُکھ ہوا کہ خاکسار اُسے یہ نیک مشورہ دینے سے خود کو باز نہیں رکھ سکا کہ ''بھائی میرے، آئندہ چلتی سڑک پر موبائل مت نکالنا۔''
اب آپ خود ہی انصاف کریں۔ کوئی ہم سا بھی شریف ہوگا زمانے میں۔

آپ نے پوچھا نہیں، مگر بتا دیتا ہوں۔ اِس شرافت کی وجہ وہ شریف خون ہے، جو والد صاحب سے خاکسار کو وراثت میں ملا۔ مرحوم نے ماسوائے اِس خون کے، میرے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔

آہ۔۔۔ آپ مسکرا رہے ہیں۔ شاید مجھ غریب کے دلائل آپ پر کچھ اثر کر گئے۔ شاید آپ قائل ہوگئے ہیں۔ ایسی بات ہے، تو چلیے، نکالیے اپنا موبائل فون۔

ارے۔۔۔ آپ تو منہ بنانے لگے۔ بھاگ کھڑے ہوئے۔۔۔بھئی کمال ہوگیا۔ ایمان داری کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story