آگ سیلاب یا اﷲ کی پکڑ
انسانی چیخوں کے ساتھ ساتھ۔ حالات انسانی بس سے باہر ہو چکے ہیں
ISLAMABAD:
میں ٹی وی ذرا کم ہی لگاتا ہوں۔ ہر چینل کی اسکرین پر لاشیں اور بہتا ہوا خون دکھائی دیتا ہے یا حکمرانوں کے صریحاً جھوٹ ۔
پھر شام کو میں ہر ٹی وی کے خصوصی پروگرام کا منتظر رہتا تھا لیکن راز کھلا کہ یہ پروگرام جن میں بھانت بھانت، نسل نسل اور قسم قسم کے سیاستدان شریک ہوتے ہیں اور ٹی وی والے اسے رنگین بنانے کے لیے ایک آدھ ان پڑھ مگر نخرے دار خاتون بھی ڈال دیتے ہیں، یہ دراصل اس چینل کی مقبولیت بڑھانے کا ایک اوچھا سا حربہ ہوتا ہے جسے ریٹنگ کہا جاتا ہے۔ باقی سب سامعین کو بے وقوف بنانا ہوتا ہے اور ان لیڈروں کو بھی جن کا نام ان کی جماعت کے لوگ بار بار لیتے ہیں اور اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہیں۔
یہ تمہید کچھ لمبی ہو گئی مطلب صرف اتنا تھا کہ میں ٹی وی بہت کم دیکھتا ہوں اور اس کی وجہ بیان کر دی ہے لیکن گزشتہ روز دیکھا کہ لاہور کے ایک کارخانے میں جہاں جوتیاں بنتی تھیں وہاں آگ لگی ہوئی ہے اور اس فیکٹری میں کام کرنے والے آگ اور دھوئیں سے مرتے جا رہے ہیں، ان میں فیکٹری کے مالک اور اس کا بیٹا بھی شامل ہیں۔ معلوم ہوا یہ فیکٹری نہ صرف غیر قانونی طور پر تعمیر ہوئی، اس میں آگ بجھانے کا کوئی انتظام بھی نہیں تھا، صرف جلنے مرنے کے لیے مزدور تھے، ان میں سے پچیس سے زیادہ مر گئے۔ ایک خاتون کو بین کرنے سے پولیس نے روکا تو اس نے کہا جس کے دو بھائی مر گئے ہوں وہ بین بھی نہ کرے۔ ہماری پولیس کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔
ابھی لاہور کی اس فیکٹری میں قیامت برپا تھی کہ کراچی سے بھی کسی فیکٹری کے جلنے کی خبر ٹی وی پر چلنے لگی۔ اس فیکٹری میں بھی تین سو کے قریب پاکستانی مزدور مر گئے۔ ان دونوں فیکٹریوں میں جو زخمی ہوئے مگر بچ گئے، نہیں معلوم وہ کس برے حال میں ہوں گے یا مردوں سے زیادہ برے حال میں، جن کے سامنے ان کی باقی ماندہ زندگی ایک زندہ موت بن کر کھڑی ہے۔
یہ تو کارخانوں میں آگ لگنے کی خبریں تھیں اور شاید اب بھی جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو کسی دوسرے کارخانے سے شعلے بلند ہو رہے ہوں، انسانی چیخوں کے ساتھ ساتھ۔ حالات انسانی بس سے باہر ہو چکے ہیں، بس اللہ کی رحمت ہی بچا سکتی ہے اور جب میں اس آگ کے ساتھ سیلاب کی خبریں دیکھتا ہوں تو اپنے گناہوں پر حیرت ہوتی ہے۔ پورا ملک سیلاب کی زد میں ہے ۔کیا نشیب اور کیا فراز ہر مقام پانی سے تربتر ہے اور پانی بھی منہ زور جو سب کچھ بہا کر لے جا رہا ہے۔ علاوہ ان آفات کے ملک میں ہر روز حادثے ہو رہے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں بسوں گاڑیوں میں یا کسی دوسرے حادثے میں۔
یوں لگتا ہے کہ اس قوم کے لیے موت لکھ دی گئی ہے جو کسی سماوی آفت سے نازل ہوتی ہے یا زمینی آفات سے۔ چار پانچ برس قبل بھی یہی ملک تھا۔ معمول کے حادثے اور اموات تو دنیا میں ہر جگہ ہوتی ہیں، ہمارے ہاں بھی ہوا کرتی تھیں لیکن پاکستان میں انسانی اموات کا یہ تسلسل کسی تصور میں نہ تھا۔ میں نے گھبرا کر ایک صوفی سے پوچھا کہ سرکار یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ انھوں نے مجھے اعتماد میں لے کر کہا جس ملک میں ظلم اور ستم کی حکمرانی ہو اور لوگ اس حکمرانی کو قبول کر کے بیٹھے ہوں تو یہ سب اس اجتماعی گناہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔
ہم نے اپنے خدا سے رحمت اور مغفرت نہیں مانگی استغفار نہیں کیا بلکہ صبر کر کے ظلم کو برداشت کرتے رہے تو اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا تھا۔ آپ زہر کھائیں گے تو اس کا نتیجہ موت ہو گی۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے چند دن پہلے ایک آیت کریمہ کا حوالہ دیا تھا جب میں نے پہلی بار یہ آیت پڑھی سمجھی تھی تو میں حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ وہ بلند آواز اور فریاد کو پسند نہیں کرتا مگر اس شخص کی بلند آواز کو جس پر ظلم کیا گیا ہو تو میں سوچتا ہوں کہ ہمیں بلند احتجاج اور فریاد کی اجازت تو اللہ کی ذات دیتی ہے۔
میں مفسر نہیں ہوں اور نہ ہی تفاسیر کا زیادہ مطالعہ کیا ہے لیکن میں یوں سمجھتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالی اس آیت سے شاید اپنے بندوں کو فریاد اور احتجاج کی رغبت دیتا ہو۔ اس ضمن میں زیادہ کچھ عرض کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا لیکن اس بے لوث اور دنیائے دوں سے لاپروا صوفی کی بات کو نہیں بھول سکتا کہ ہمیں ہمارے اعمال کی سزا مل رہی ہے۔ قرآن و احادیث ایسی تنبیہوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ہم اپنے ملک میں انصاف اور عدل کی حکومت نہیں چاہتے، عوام کی حکومت چاہتے ہیں جسے عرف عام میں جمہوریت کہا جاتا ہے۔ ان دنوں ایسی ہی حکومت ہمارے ہاں برسراقتدار ہے۔
عوام کے سو فی صد کرپٹ نمایندے ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے اپنی سہولت کے لیے عوام کا ایک بڑا طبقہ بھی کرپٹ کر دیا ہے۔ غضب خدا کا ایک شخص کو عدالت عظمیٰ تک کرپٹ قرار دے دے اور اسے رشوت دینے والا تسلیم کر لے پھر عدالت ہی میں یہ بھی کہا جائے کہ ایک فرمان کے مطابق رشوت دینے اور لینے والے دونوں جہنمی ہیں اور دونوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ اتنا کچھ طے ہو جانے کے بعد بلکہ راشی اور مرتشی کے اعتراضات کے بعد بھی حالت یہ ہو کہ ملک کے اس سب سے بڑے رشوت دینے والے کو کسی وزیراعظم کے برابر پروٹوکول دیا جائے اور اسے کسی وی وی آئی پی کی طرح حفاظت میں رکھا جائے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خرچ پر۔
حالات کی یہ ایک بہت ہی ہلکی سی جھلک ہے ہمارے قرآن و سنت کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور یہ خلاف ورزی میں اور آپ کسی انفرادی حالت میں نہیں کرتے بلکہ ماشاء اللہ پوری قوم اجتماعی حالت میں کرتی ہے، ڈنکے کی چوٹ پر۔ میں یہاں ان اخلاقی اور کاروباری خلاف ورزیوں کا ذکر نہیں کرتا جو بازار کی ہر دکان پر دکھائی دیتی ہیں، ناپ تول میں جان بوجھ کر کوتاہی وعدوں کی خلاف ورزی عام اخلاقی روایات سے بغاوت جھوٹ اور چوری کا عام رواج اور اکا دکا نیک بندوں کی پریشانی کہ وہ اس دنیا میں زندگی کیسے گزاریں اور کہاں جائیں۔
میں نے گھبرا کر اپنے ایک دوست سے کہا کہ میں بھی تمہاری طرح گائوں لوٹ آنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا ضرور آئو مل بیٹھیں گے مگر اپنے ٹیوب ویل چلانے کے لیے ڈیزل کا بندوبست کر لینا کیونکہ یہاں اب کوئی فصل ایسی نہیں رہی جو آجکل کے مہنگے ڈیزل کے پانی پر کاشت کی جا سکے یعنی ہمارے حکمرانوں نے ہماری صنعت ڈبو دینے کے بعد اب زراعت کو بھی ختم کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ تمام صورت حال ہمارے بداعمال کا ایک کھلا نتیجہ ہے جس میں اب کوئی راز نہیں ہے اور اس کو بیان کرنے کے لیے کسی پیغمبر کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پیغمبر یہ سب بتا گئے ہیں اور خود اللہ تبارک تعالیٰ کا کلام ایسی برائیوں کے نتائج کے بیان سے بھرا ہوا ہے۔
میں ان ہستیوں کا کیا ذکر کروں جنہوں نے ہمیں اسلام کی نعمت سے سرفراز کیا، میں صرف اس شخص کا ذکر کرتا ہوں اور کرتا رہتا ہوں جس نے پاکستان بنایا تھا۔ یہ شخص دیانت و امانت کا پیکر تھا اور کرپشن کا تو اس کے نام کے ساتھ ذکر کرنا بھی گناہ ہے جو میں اب کر چکا ہوں لیکن نہیں معلوم کس کی بددعا سے ہم اپنے قائد کے بالکل برعکس زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پوری اسلامی دنیا میں برصغیر کے مسلمانوں کو خاص درجہ دیا جاتا ہے وہ جو ایک مثل مشہور ہے کہ قرآن عرب میں اترا، استنبول میں شایع ہوا اور مصر میں پڑھا گیا تو اس میں اضافہ یہ کیا گیا کہ ہندوستان میں سمجھا گیا۔
یعنی استنبول کے چھاپے خانوں نے قرآن کو شایع کیا، مصر کے قاریوں نے اسے قرآت کیا لیکن ہندوستان کے علماء نے اسے سمجھا اور سمجھایا لیکن انھی مسلمانوں کے وارث ملک پاکستان میں قرآنی تعلیمات کی بے حرمتی کی گئی۔ تعجب ہوتا ہے کہ علماء کرام کی ایک بہت بڑی تعداد اس ملک میں موجود ہے، حال ہی میں سید مودودی جیسے عالمی مفسر، عالم اور تحریکی رہنما موجود رہے۔ شاہ ولی اللہ جیسے پرانے علماء کا ذکر نہ بھی کریں تب بھی یہ قوم قرآن و سنت سے نا آشنا نہیں ہے مگر پھر بھی قرآن وسنت کے معیار سے یہ قوم ایک گناہ گار اور نافرمان قوم ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ قوم مجھے تو خدا کی پکڑ میں دکھائی دیتی ہے۔ اللہ ہی فضل کرے اور آپ بھی سوچیں۔
میں ٹی وی ذرا کم ہی لگاتا ہوں۔ ہر چینل کی اسکرین پر لاشیں اور بہتا ہوا خون دکھائی دیتا ہے یا حکمرانوں کے صریحاً جھوٹ ۔
پھر شام کو میں ہر ٹی وی کے خصوصی پروگرام کا منتظر رہتا تھا لیکن راز کھلا کہ یہ پروگرام جن میں بھانت بھانت، نسل نسل اور قسم قسم کے سیاستدان شریک ہوتے ہیں اور ٹی وی والے اسے رنگین بنانے کے لیے ایک آدھ ان پڑھ مگر نخرے دار خاتون بھی ڈال دیتے ہیں، یہ دراصل اس چینل کی مقبولیت بڑھانے کا ایک اوچھا سا حربہ ہوتا ہے جسے ریٹنگ کہا جاتا ہے۔ باقی سب سامعین کو بے وقوف بنانا ہوتا ہے اور ان لیڈروں کو بھی جن کا نام ان کی جماعت کے لوگ بار بار لیتے ہیں اور اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہیں۔
یہ تمہید کچھ لمبی ہو گئی مطلب صرف اتنا تھا کہ میں ٹی وی بہت کم دیکھتا ہوں اور اس کی وجہ بیان کر دی ہے لیکن گزشتہ روز دیکھا کہ لاہور کے ایک کارخانے میں جہاں جوتیاں بنتی تھیں وہاں آگ لگی ہوئی ہے اور اس فیکٹری میں کام کرنے والے آگ اور دھوئیں سے مرتے جا رہے ہیں، ان میں فیکٹری کے مالک اور اس کا بیٹا بھی شامل ہیں۔ معلوم ہوا یہ فیکٹری نہ صرف غیر قانونی طور پر تعمیر ہوئی، اس میں آگ بجھانے کا کوئی انتظام بھی نہیں تھا، صرف جلنے مرنے کے لیے مزدور تھے، ان میں سے پچیس سے زیادہ مر گئے۔ ایک خاتون کو بین کرنے سے پولیس نے روکا تو اس نے کہا جس کے دو بھائی مر گئے ہوں وہ بین بھی نہ کرے۔ ہماری پولیس کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔
ابھی لاہور کی اس فیکٹری میں قیامت برپا تھی کہ کراچی سے بھی کسی فیکٹری کے جلنے کی خبر ٹی وی پر چلنے لگی۔ اس فیکٹری میں بھی تین سو کے قریب پاکستانی مزدور مر گئے۔ ان دونوں فیکٹریوں میں جو زخمی ہوئے مگر بچ گئے، نہیں معلوم وہ کس برے حال میں ہوں گے یا مردوں سے زیادہ برے حال میں، جن کے سامنے ان کی باقی ماندہ زندگی ایک زندہ موت بن کر کھڑی ہے۔
یہ تو کارخانوں میں آگ لگنے کی خبریں تھیں اور شاید اب بھی جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو کسی دوسرے کارخانے سے شعلے بلند ہو رہے ہوں، انسانی چیخوں کے ساتھ ساتھ۔ حالات انسانی بس سے باہر ہو چکے ہیں، بس اللہ کی رحمت ہی بچا سکتی ہے اور جب میں اس آگ کے ساتھ سیلاب کی خبریں دیکھتا ہوں تو اپنے گناہوں پر حیرت ہوتی ہے۔ پورا ملک سیلاب کی زد میں ہے ۔کیا نشیب اور کیا فراز ہر مقام پانی سے تربتر ہے اور پانی بھی منہ زور جو سب کچھ بہا کر لے جا رہا ہے۔ علاوہ ان آفات کے ملک میں ہر روز حادثے ہو رہے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں بسوں گاڑیوں میں یا کسی دوسرے حادثے میں۔
یوں لگتا ہے کہ اس قوم کے لیے موت لکھ دی گئی ہے جو کسی سماوی آفت سے نازل ہوتی ہے یا زمینی آفات سے۔ چار پانچ برس قبل بھی یہی ملک تھا۔ معمول کے حادثے اور اموات تو دنیا میں ہر جگہ ہوتی ہیں، ہمارے ہاں بھی ہوا کرتی تھیں لیکن پاکستان میں انسانی اموات کا یہ تسلسل کسی تصور میں نہ تھا۔ میں نے گھبرا کر ایک صوفی سے پوچھا کہ سرکار یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ انھوں نے مجھے اعتماد میں لے کر کہا جس ملک میں ظلم اور ستم کی حکمرانی ہو اور لوگ اس حکمرانی کو قبول کر کے بیٹھے ہوں تو یہ سب اس اجتماعی گناہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔
ہم نے اپنے خدا سے رحمت اور مغفرت نہیں مانگی استغفار نہیں کیا بلکہ صبر کر کے ظلم کو برداشت کرتے رہے تو اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا تھا۔ آپ زہر کھائیں گے تو اس کا نتیجہ موت ہو گی۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے چند دن پہلے ایک آیت کریمہ کا حوالہ دیا تھا جب میں نے پہلی بار یہ آیت پڑھی سمجھی تھی تو میں حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ وہ بلند آواز اور فریاد کو پسند نہیں کرتا مگر اس شخص کی بلند آواز کو جس پر ظلم کیا گیا ہو تو میں سوچتا ہوں کہ ہمیں بلند احتجاج اور فریاد کی اجازت تو اللہ کی ذات دیتی ہے۔
میں مفسر نہیں ہوں اور نہ ہی تفاسیر کا زیادہ مطالعہ کیا ہے لیکن میں یوں سمجھتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالی اس آیت سے شاید اپنے بندوں کو فریاد اور احتجاج کی رغبت دیتا ہو۔ اس ضمن میں زیادہ کچھ عرض کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا لیکن اس بے لوث اور دنیائے دوں سے لاپروا صوفی کی بات کو نہیں بھول سکتا کہ ہمیں ہمارے اعمال کی سزا مل رہی ہے۔ قرآن و احادیث ایسی تنبیہوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ہم اپنے ملک میں انصاف اور عدل کی حکومت نہیں چاہتے، عوام کی حکومت چاہتے ہیں جسے عرف عام میں جمہوریت کہا جاتا ہے۔ ان دنوں ایسی ہی حکومت ہمارے ہاں برسراقتدار ہے۔
عوام کے سو فی صد کرپٹ نمایندے ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے اپنی سہولت کے لیے عوام کا ایک بڑا طبقہ بھی کرپٹ کر دیا ہے۔ غضب خدا کا ایک شخص کو عدالت عظمیٰ تک کرپٹ قرار دے دے اور اسے رشوت دینے والا تسلیم کر لے پھر عدالت ہی میں یہ بھی کہا جائے کہ ایک فرمان کے مطابق رشوت دینے اور لینے والے دونوں جہنمی ہیں اور دونوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ اتنا کچھ طے ہو جانے کے بعد بلکہ راشی اور مرتشی کے اعتراضات کے بعد بھی حالت یہ ہو کہ ملک کے اس سب سے بڑے رشوت دینے والے کو کسی وزیراعظم کے برابر پروٹوکول دیا جائے اور اسے کسی وی وی آئی پی کی طرح حفاظت میں رکھا جائے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خرچ پر۔
حالات کی یہ ایک بہت ہی ہلکی سی جھلک ہے ہمارے قرآن و سنت کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور یہ خلاف ورزی میں اور آپ کسی انفرادی حالت میں نہیں کرتے بلکہ ماشاء اللہ پوری قوم اجتماعی حالت میں کرتی ہے، ڈنکے کی چوٹ پر۔ میں یہاں ان اخلاقی اور کاروباری خلاف ورزیوں کا ذکر نہیں کرتا جو بازار کی ہر دکان پر دکھائی دیتی ہیں، ناپ تول میں جان بوجھ کر کوتاہی وعدوں کی خلاف ورزی عام اخلاقی روایات سے بغاوت جھوٹ اور چوری کا عام رواج اور اکا دکا نیک بندوں کی پریشانی کہ وہ اس دنیا میں زندگی کیسے گزاریں اور کہاں جائیں۔
میں نے گھبرا کر اپنے ایک دوست سے کہا کہ میں بھی تمہاری طرح گائوں لوٹ آنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا ضرور آئو مل بیٹھیں گے مگر اپنے ٹیوب ویل چلانے کے لیے ڈیزل کا بندوبست کر لینا کیونکہ یہاں اب کوئی فصل ایسی نہیں رہی جو آجکل کے مہنگے ڈیزل کے پانی پر کاشت کی جا سکے یعنی ہمارے حکمرانوں نے ہماری صنعت ڈبو دینے کے بعد اب زراعت کو بھی ختم کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ تمام صورت حال ہمارے بداعمال کا ایک کھلا نتیجہ ہے جس میں اب کوئی راز نہیں ہے اور اس کو بیان کرنے کے لیے کسی پیغمبر کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پیغمبر یہ سب بتا گئے ہیں اور خود اللہ تبارک تعالیٰ کا کلام ایسی برائیوں کے نتائج کے بیان سے بھرا ہوا ہے۔
میں ان ہستیوں کا کیا ذکر کروں جنہوں نے ہمیں اسلام کی نعمت سے سرفراز کیا، میں صرف اس شخص کا ذکر کرتا ہوں اور کرتا رہتا ہوں جس نے پاکستان بنایا تھا۔ یہ شخص دیانت و امانت کا پیکر تھا اور کرپشن کا تو اس کے نام کے ساتھ ذکر کرنا بھی گناہ ہے جو میں اب کر چکا ہوں لیکن نہیں معلوم کس کی بددعا سے ہم اپنے قائد کے بالکل برعکس زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پوری اسلامی دنیا میں برصغیر کے مسلمانوں کو خاص درجہ دیا جاتا ہے وہ جو ایک مثل مشہور ہے کہ قرآن عرب میں اترا، استنبول میں شایع ہوا اور مصر میں پڑھا گیا تو اس میں اضافہ یہ کیا گیا کہ ہندوستان میں سمجھا گیا۔
یعنی استنبول کے چھاپے خانوں نے قرآن کو شایع کیا، مصر کے قاریوں نے اسے قرآت کیا لیکن ہندوستان کے علماء نے اسے سمجھا اور سمجھایا لیکن انھی مسلمانوں کے وارث ملک پاکستان میں قرآنی تعلیمات کی بے حرمتی کی گئی۔ تعجب ہوتا ہے کہ علماء کرام کی ایک بہت بڑی تعداد اس ملک میں موجود ہے، حال ہی میں سید مودودی جیسے عالمی مفسر، عالم اور تحریکی رہنما موجود رہے۔ شاہ ولی اللہ جیسے پرانے علماء کا ذکر نہ بھی کریں تب بھی یہ قوم قرآن و سنت سے نا آشنا نہیں ہے مگر پھر بھی قرآن وسنت کے معیار سے یہ قوم ایک گناہ گار اور نافرمان قوم ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ قوم مجھے تو خدا کی پکڑ میں دکھائی دیتی ہے۔ اللہ ہی فضل کرے اور آپ بھی سوچیں۔