پاکستان کرکٹ کو سیاسی اثرسے نکالنے کی ضرورت
پی سی بی میں تبدیلی برائے تبدیلی کی روایت ختم ہونا چاہیے
کھیلوں میں سیاست کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، دنیا کے بیشتر ملکوں میں اسپورٹس کی تنظیمیں آزادانہ حیثیت میں ہی کام کرتی ہیں مگر پاکستان میں کھیل کبھی سیاسی پنجوں سے آزاد نہیں ہو سکے، کوئی بھی نئی حکومت آئے تو اپنی کابینہ تشکیل دینے کے ساتھ بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کرتے ہوئے مرضی کے عہدیدار لانے کی کوشش کرتی ہے، تو سپورٹس کی تنظیمیں بھی تبدیلی کی ہواؤں کی زد میں آجاتی ہیں۔
کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے کہ ایک ایک گیند کے ساتھ کروڑوں شائقین کے دل دھڑکتے ہیں، دولت کی ریل پیل اور شہرت کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی، اسی لیے ماضی میں کئی سیاستدان اپنی وزارت چھوڑ کر بھی چیئرمین پی سی بی کا عہدہ پانے کیلیے کوشاں رہے،آئی سی سی کی خواہش رہی ہے کہ تمام ملکوں کے کرکٹ بورڈز خودمختار اور سیاسی مداخلت سے آزاد ہوں مگر کوئی واضح اور سخت پالیسی اختیار نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ چند بورڈز نے رسمی جمہوری طرز عمل کا راستہ اپنا لیا۔
پی سی بی کے آئین کے مطابق گورننگ بورڈ میں سے ہی چیئرمین پی سی بی کا انتخاب لازمی قرار دیا گیا ہے مگر منتخب پیٹرن ان چیف وزیراعظم کے نامزد کردہ 2 افراد میں سے ایک ہی ہوتا ہے، دیگر ارکان ربڑ اسٹیمپ کا کردار ادا کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم اپنا اختیار استعمال کرنے کا یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر کوئی چیئرمین اچھا کام نہیں کر رہا تو عدم اعتماد کی ووٹنگ کے ذریعے اس کو فارغ کرکے کسی دوسرے رکن کو الیکشن لڑنے کا موقع دیا جائے مگر کبھی یہ طریقہ کار اپنانے کی نوبت ہی نہیں آنے دی گئی۔
نواز شریف کی حکومت آتے ہی چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی تھی، پیپلزپارٹی کا حمایت یافتہ ہونے کی وجہ سے نئی حکومت کو ان کا وجود گوار نہیں تھا، انھوں نے ایک جمہوری طور پر منتخب چیئرمین ہونے کا جواز پیش کرتے ہوئے طویل عدالتی جنگ بھی لڑی، میوزیکل چیئر گیم میں کبھی نجم سیٹھی تو کبھی ذکاء اشرف کی باری آتی رہی، بالآخر فیصلہ ہوا کہ دونوں میں سے کوئی بھی اس عہدے پر فائز نہیں ہوگا، شہریار خان کو برائے نام چیئرمین پی سی بی بنادیا گیا۔
نجم سیٹھی نے متبادل حل یہ نکالا کہ ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ کے طور پر بیشتر معاملات سنبھال لیے، نجم سیٹھی کے دور پی ایس ایل اور ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی سمیت کئی اچھے کام بھی ہوئے مگر عمران خان کی حکومت آنے کے بعد ان کو احسان مانی کیلیے جگہ خالی کرنا پڑی، سابق کپتان نے ورلڈکپ 1992کے فاتح اسکواڈ میں شامل رمیز راجہ کو چیئرمین پی سی بی بنانے کا فیصلہ کیا تو رسمی جمہوری عمل کے بعد یہ مرحلہ بھی طے کر لیا گیا۔
رمیز راجہ عہدہ سنبھالتے ہی خاصے متحرک نظر آئے، قومی ٹیم کا مزاج بدلنے کی کوشش میں ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس کی چھٹی کروا دی گئی، چیف ایگزیکٹو وسیم خان کو بھی رخصت ہونا پڑا، سلمان نصیر سمیت دیگر چند عہدیدار خلاف توقع پہلے سے بھی زیادہ مضبوط گئے،چیئرمین نے کپتان بابر اعظم کو با اختیار بنانے کے ساتھ کھلاڑیوں کو اعتماد دینے کی بھی کوشش کی جس سے ٹیم کی کارکردگی میں بہتری بھی آئی،پی ایس ایل کے مالی معاملات میں سدھار آیا جس کی وجہ سے فرنچائزز کے تحفظات میں کمی آئی۔
کورونا مسائل کے باوجود اس بار پی سی بی اپنی لیگ کے تمام میچز پاکستان میں مکمل کرنے میں کامیاب ہوا، رمیز راجہ کے عہدہ سنبھالتے ہی نیوزی لینڈ کی ٹیم سیکورٹی خدشات کو جواز بناکر بغیر کوئی میچ کھیلے ہی پاکستان سے واپس چلے گئی تھی، چیئرمین نے آئی سی سی اور دیگر پلیٹ فارمز پر یہ کیس پی بہتر انداز میں لڑا اور سخت موقف اختیار کرتے ہوئے دنیا کو عالمی کرکٹ میں پاکستان کی اہمیت باور کروائی، اس نقصان کا ازالہ کسی بڑی ٹیم کی آمد سے ہی ہوسکتا تھا، 24 سال بعد آسٹریلیا کے ٹورنے خدشات کو ہوا میں اڑانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اب اگلے مرحلے میں نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں رواں سیزن میں ہی دو، دو بار پاکستان آئیں گی، پی ایس ایل کی طرز پر جونیئر اور خواتین لیگز کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے، پچز کی حالت بہتر بنانے کیلیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد پی سی بی میں بھی غیر یقینی صورتحال نظر آتی ہے،گرچہ رمیز راجہ سے ڈائریکٹرز اور جنرل منیجرز کی میٹنگ بلاکر ان کو بتایا کہ مجھے کام جاری رکھنے کیلیے کہا گیا ہے۔
آپ معمول کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں،فی الحال ملک میں کرکٹ کو کوئی بڑا ایونٹ نہی ہورہا، اس لیے کوئی انتظامی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ بھی نہیں ہے لیکن آگے چل کر انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں نے پاکستان آنا ہے،پی ایس ایل اور دیگر ایونٹس کے معاملات بھی چل رہے ہوں گے،اس لیے ابھی سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوجائے تو اچھا ہے۔
رمیز راجہ نے یہ تو کہا ہے کہ انھیں کام جاری رکھنے کو کہا گیا ہے مگر یہ بات کس نے کہی یہ نہیں بتایا،متحدہ اپوزیشن کی حکومت میں چیئرمین پی سی بی کے بھی کئی امیدوار ہوں گے،بہتر یہی ہوگا کہ اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی بیان جاری کردیا جائے۔
رمیز راجہ بہتر کام کررہے ہیں تو ان کو محض اس وجہ سے فارغ نہیں کردینا چاہیے کہ ان کو نامزد کرنے والے عمران خان کی حکومت چلے گئی،نامزدگیوں کی صورت میں حکومتی مداخلت ختم کرنے کی پالیسی گزشتہ حکومت بناسکتی تھی مگر توجہ اس طرف نہیں گئی،بہتر یہی ہے کہ کرکٹ کو سیاسی پنجوں سے آزاد کردیا جائے،عمران خان کا ڈپارٹمنٹل کرکٹ واپس لیکر ان کی ٹیموں کو ووٹنگ کا حق دیا جائے، اسٹیک ہولڈرز میں سے ہی چیئرمین منتخب ہو جس کا حکومتوں کے آنے جانے سے کوئی تعلق نہ ہو۔
کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے کہ ایک ایک گیند کے ساتھ کروڑوں شائقین کے دل دھڑکتے ہیں، دولت کی ریل پیل اور شہرت کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی، اسی لیے ماضی میں کئی سیاستدان اپنی وزارت چھوڑ کر بھی چیئرمین پی سی بی کا عہدہ پانے کیلیے کوشاں رہے،آئی سی سی کی خواہش رہی ہے کہ تمام ملکوں کے کرکٹ بورڈز خودمختار اور سیاسی مداخلت سے آزاد ہوں مگر کوئی واضح اور سخت پالیسی اختیار نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ چند بورڈز نے رسمی جمہوری طرز عمل کا راستہ اپنا لیا۔
پی سی بی کے آئین کے مطابق گورننگ بورڈ میں سے ہی چیئرمین پی سی بی کا انتخاب لازمی قرار دیا گیا ہے مگر منتخب پیٹرن ان چیف وزیراعظم کے نامزد کردہ 2 افراد میں سے ایک ہی ہوتا ہے، دیگر ارکان ربڑ اسٹیمپ کا کردار ادا کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم اپنا اختیار استعمال کرنے کا یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر کوئی چیئرمین اچھا کام نہیں کر رہا تو عدم اعتماد کی ووٹنگ کے ذریعے اس کو فارغ کرکے کسی دوسرے رکن کو الیکشن لڑنے کا موقع دیا جائے مگر کبھی یہ طریقہ کار اپنانے کی نوبت ہی نہیں آنے دی گئی۔
نواز شریف کی حکومت آتے ہی چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی تھی، پیپلزپارٹی کا حمایت یافتہ ہونے کی وجہ سے نئی حکومت کو ان کا وجود گوار نہیں تھا، انھوں نے ایک جمہوری طور پر منتخب چیئرمین ہونے کا جواز پیش کرتے ہوئے طویل عدالتی جنگ بھی لڑی، میوزیکل چیئر گیم میں کبھی نجم سیٹھی تو کبھی ذکاء اشرف کی باری آتی رہی، بالآخر فیصلہ ہوا کہ دونوں میں سے کوئی بھی اس عہدے پر فائز نہیں ہوگا، شہریار خان کو برائے نام چیئرمین پی سی بی بنادیا گیا۔
نجم سیٹھی نے متبادل حل یہ نکالا کہ ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ کے طور پر بیشتر معاملات سنبھال لیے، نجم سیٹھی کے دور پی ایس ایل اور ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی سمیت کئی اچھے کام بھی ہوئے مگر عمران خان کی حکومت آنے کے بعد ان کو احسان مانی کیلیے جگہ خالی کرنا پڑی، سابق کپتان نے ورلڈکپ 1992کے فاتح اسکواڈ میں شامل رمیز راجہ کو چیئرمین پی سی بی بنانے کا فیصلہ کیا تو رسمی جمہوری عمل کے بعد یہ مرحلہ بھی طے کر لیا گیا۔
رمیز راجہ عہدہ سنبھالتے ہی خاصے متحرک نظر آئے، قومی ٹیم کا مزاج بدلنے کی کوشش میں ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس کی چھٹی کروا دی گئی، چیف ایگزیکٹو وسیم خان کو بھی رخصت ہونا پڑا، سلمان نصیر سمیت دیگر چند عہدیدار خلاف توقع پہلے سے بھی زیادہ مضبوط گئے،چیئرمین نے کپتان بابر اعظم کو با اختیار بنانے کے ساتھ کھلاڑیوں کو اعتماد دینے کی بھی کوشش کی جس سے ٹیم کی کارکردگی میں بہتری بھی آئی،پی ایس ایل کے مالی معاملات میں سدھار آیا جس کی وجہ سے فرنچائزز کے تحفظات میں کمی آئی۔
کورونا مسائل کے باوجود اس بار پی سی بی اپنی لیگ کے تمام میچز پاکستان میں مکمل کرنے میں کامیاب ہوا، رمیز راجہ کے عہدہ سنبھالتے ہی نیوزی لینڈ کی ٹیم سیکورٹی خدشات کو جواز بناکر بغیر کوئی میچ کھیلے ہی پاکستان سے واپس چلے گئی تھی، چیئرمین نے آئی سی سی اور دیگر پلیٹ فارمز پر یہ کیس پی بہتر انداز میں لڑا اور سخت موقف اختیار کرتے ہوئے دنیا کو عالمی کرکٹ میں پاکستان کی اہمیت باور کروائی، اس نقصان کا ازالہ کسی بڑی ٹیم کی آمد سے ہی ہوسکتا تھا، 24 سال بعد آسٹریلیا کے ٹورنے خدشات کو ہوا میں اڑانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اب اگلے مرحلے میں نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں رواں سیزن میں ہی دو، دو بار پاکستان آئیں گی، پی ایس ایل کی طرز پر جونیئر اور خواتین لیگز کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے، پچز کی حالت بہتر بنانے کیلیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد پی سی بی میں بھی غیر یقینی صورتحال نظر آتی ہے،گرچہ رمیز راجہ سے ڈائریکٹرز اور جنرل منیجرز کی میٹنگ بلاکر ان کو بتایا کہ مجھے کام جاری رکھنے کیلیے کہا گیا ہے۔
آپ معمول کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں،فی الحال ملک میں کرکٹ کو کوئی بڑا ایونٹ نہی ہورہا، اس لیے کوئی انتظامی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ بھی نہیں ہے لیکن آگے چل کر انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں نے پاکستان آنا ہے،پی ایس ایل اور دیگر ایونٹس کے معاملات بھی چل رہے ہوں گے،اس لیے ابھی سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوجائے تو اچھا ہے۔
رمیز راجہ نے یہ تو کہا ہے کہ انھیں کام جاری رکھنے کو کہا گیا ہے مگر یہ بات کس نے کہی یہ نہیں بتایا،متحدہ اپوزیشن کی حکومت میں چیئرمین پی سی بی کے بھی کئی امیدوار ہوں گے،بہتر یہی ہوگا کہ اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی بیان جاری کردیا جائے۔
رمیز راجہ بہتر کام کررہے ہیں تو ان کو محض اس وجہ سے فارغ نہیں کردینا چاہیے کہ ان کو نامزد کرنے والے عمران خان کی حکومت چلے گئی،نامزدگیوں کی صورت میں حکومتی مداخلت ختم کرنے کی پالیسی گزشتہ حکومت بناسکتی تھی مگر توجہ اس طرف نہیں گئی،بہتر یہی ہے کہ کرکٹ کو سیاسی پنجوں سے آزاد کردیا جائے،عمران خان کا ڈپارٹمنٹل کرکٹ واپس لیکر ان کی ٹیموں کو ووٹنگ کا حق دیا جائے، اسٹیک ہولڈرز میں سے ہی چیئرمین منتخب ہو جس کا حکومتوں کے آنے جانے سے کوئی تعلق نہ ہو۔