مقامی حکومتوں کے انتخابات کا مستقبل

حالیہ سیاسی بحران ظاہر کرتا ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کا مستقبل پرامید نہیں

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کی سیاسی بدقسمتی یہ ہی ہے کہ یہاں مقامی حکومتوں کا نظام ہمیشہ سے سیاسی مصلحتوں یا سیاسی عدم ترجیحات کا شکار رہا ہے۔ جو بھی سیاسی حکومت آئی ان کا رویہ مقامی حکومتوں کے نظام کے بارے میں منفی رہا ہے ۔

اس وقت ملک کے سیاسی منظر نامہ کا تجزیہ کریں تو یہاں جو سیاسی بحران ہے اس میں ایک بڑا مطالبہ فوری طور پر نئے عام انتخابات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ عمران خان کی موجودہ سیاسی حکومت کے خلاف جاری مزاحمتی تحریک کا بھی بنیادی نقطہ '' فوری عام انتخابات '' کے نعرے سے ہی جڑا ہوا ہے ۔الیکشن کمیشن بھی اعلیٰ عدلیہ کو کہہ چکا ہے کہ اگر اس نے فوری عام انتخابات کا راستہ اختیار کرنا ہے تو یہ کام اکتوبر 2022 سے پہلے ممکن نہیں ہوگا۔

حالیہ سیاسی بحران ظاہر کرتا ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کا مستقبل پرامید نہیں۔ اگر مسلم لیگ ن نے پہلے سے موجود مقامی حکومتوں کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانا مقصود ہے تو پھر شیڈول کے مطابق مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کی منزل اور زیادہ دور ہوسکتی ہے ۔

سندھ میں بھی پیپلزپارٹی اب ایم کیو ایم کی اہم اتحادی بن گئی ہے ۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان حالیہ دنوں میں سیاسی مفاہمت کے نام پر تحریری معاہدے ہوئے ہیں ۔ ایک معاہدہ ایم کیو ایم نے سندھ میں پیپلزپارٹی اور دوسرا معاہدہ مرکز میں پیپلزپارٹی سے کیا گیا ہے ۔ ان اہم معاہدے میں مقامی حکومتوں کے نظام میں موجود خامیوں سمیت کراچی میں ایم کیو ایم کے حمایت یافتہ ایڈمنسٹریٹر اور گورنر سندھ کی تقرری بھی شامل ہے۔

ایم کیو ایم پہلے سے موجود سندھ کے مقامی حکومتوں کے نظام کو قبول کرنے سے انکاری ہے اور ان کے بقول سندھ کی شہری آبادی کو بے اختیاری پر مبنی نظام قبول نہیں۔ اس لیے اب اگر مستقبل کی سیاست میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے مل کر چلنا ہے تو ان کو موجود مقامی حکومتوں کے نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کو یقینی بنانا ہوگا ۔

ایک بنیادی نوعیت کا سوال یہ بھی ہے کہ اگر 2022 میں ہی عام انتخابات ہونے ہیں تو ان عام انتخابات اور اس کے نتیجے میں بننے والی مرکز یا نئی صوبائی حکومتوں کی موجودگی میں پہلے سے موجود مقامی حکومتوں کے نظام کا کیا سیاسی مستقبل ہوگا۔ بالخصوص ایسے موقع پر جب صوبائی سطح پر ایک جماعت کی حکومت ہو اور دوسری طرف مقامی حکومتوں کے نظام میں دوسری جماعت کی عددی برتری ہو تو اس نظام کو سیاسی بنیاد پر چلانا آسان نہیں ہوگا۔


جو بھی نئی سیاسی صوبائی حکومت صوبوں میں بنے گی وہ سب سے پہلے عملاً پہلے سے موجود مقامی حکومتوں کے نظام پر شب خون مارے گی اور یہ نظام سیاسی افراتفری یا غیر یقینی صورتحال کے دور سے گزرے گی ۔اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسی برس نئی حکومت بھی بنے اور پہلے سے موجود مقامی حکومتوں کا نظام خوش اسلوبی سے چلے گا ، ممکن نظر نہیں آتا۔

کیونکہ پاکستان کے سیاسی حقایق کافی تلخ ہیں اور یہاں صوبائی حکومتیں کسی بھی صورت میں اپنے سیاسی مخالفین کی مقامی حکومتوں کے نظام کو قبول نہیں کریں گے ۔اسی طرح اس بات کے امکانات بھی کم ہیں کہ یہاں صوبائی حکومتیں واقعی اپنے اپنے صوبہ میں ایک مضبوط، مربوط ، شفاف اور خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کی تشکیل کو یقینی بنانا چاہتی ہیں ۔

مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے جو سیاسی مسائل اس ملک میں موجود ہیں یا جو سیاسی قیادت کی عدم ترجیحات سے جڑے مسائل ہیں اس کا براہ راست منفی اثر مجموعی طور پر حکمرانی کے نظام پر پڑرہا ہے ۔ 18ویں ترمیم کے بعد حکمرانی کے نظام کی شفافیت اور عوامی مفادات پر مبنی سیاست کو یقینی بنانے میں صوبائی حکومتیں ہی جوابدہ ہیں ۔لیکن صوبائی حکومتیں اسی صورت میں حکمرانی کے نظام یا گورننس کی شفافیت کو اسی صورت میں یقینی بناسکتی ہیں جب ان کی ترجیحات میں مضبوط مقامی حکومتوں کا نظام ہوگا۔

اس لیے موجودہ صورتحال میں مجھے اول تو مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد تین صوبوں میں ممکن نظر نہیں آرہا اور دوئم اگر انتخابات کا راستہ اختیار بھی کیا گیا تو ایسی صورت میں ان مقامی حکومتوں کے اداروں کو بے اختیار کرکے ان کو سیاسی طور پر مفلوج کردیا جائے گا جو حکمرانی کے نظام میں اور زیادہ سیاسی ،انتظامی سطح پر بگاڑ کا سبب بنے گا۔

اصولی طور پر اگر ہم نے واقعی ملک میں مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کے نظام کو تسلسل کے ساتھ چلانا چاہتے ہیں اور اس کی بنیاد1973 کے آئین میں دی گئی شق140-Aیا 32 ہے تو اس میں ہمیں ایک بڑے سیاسی ، انتظامی اور قانونی تناظر میں ایک بڑے فریم ورک پر عملا اتفاق کرنا ہوگا۔

یہ معاملہ محض صوبائی حکومتوں پر چھوڑ کر ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکیں گے اور اس کے لیے وفاق کے کردار کو بھی سامنے لانا ہوگا جو اس بات کو یقینی بنائے کہ چاروں صوبوں میں ایک مضبوط اور مربوط مقامی نظام کو یقینی بنائے ۔یہ بات اچھی طرح سمجھنی ہوگی کہ ہمیں مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی کے سوال کو روائتی اور فرسودہ سوچ، فکر یا خیالات سے باہر نکل کر غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی اقدامات کی طرف بڑھنا ہوگا۔
Load Next Story