امن اور محبت کے دروازے کھل گئے
پاکستانیوں کے لیے تاریخی مقامات دیکھنے اور سیاحت کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ، سستا اور مناسب ملک بھارت ہی ہے
انگلستان کے کنگ ایڈورڈ ہشتم نے محبت کی خاطر تاج و تخت ٹھکرا دیا تھا۔
ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی آخری تقریر میں انھوں نے کہا تھا۔ ''میں خوش ہوں کہ محبت نے آخرکار سیاست پہ فتح پالی۔''
ہم سب بھی بہت خوش ہیں کہ امن کی فاختہ آزاد ہوگئی۔ انسانیت جیت گئی، محبت نے نفرت اور سیاست پہ فتح پالی۔ دونوں ملکوں کے بڑوں نے کروڑوں لوگوں کی خواہش کو پورا کردیا۔موجودہ حکومت کا یہ اتنا بڑا قدم ہے جس کے لیے اس کی بہت سی زیادتیاں معاف کی جاسکتی ہیں۔
پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کے لیے آصف زرداری واقعی مبارک باد اور شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے جنگجو اور نفرت کا کاروبار کرنے والی قوتوں کی بات ماننے سے انکار کردیا، اسی طرح بھارتی حکومت کے بھی ہم شکر گزار ہیں کہ انھوں نے انسانی بنیادوں پر ویزا پالیسی پر دستخط کرکے دونوں طرف کے عوام کو ذاتی اور سیاحتی سطح پر ایک دوسرے سے ملنے کا موقع دیا۔
اس معاہدے نے نہ جانے کتنے پژمردہ دلوں میں امید کی کرنیں روشن کردی ہوں گی۔ لاہور کی سوشیلا جس کی دادی سونی پت جا کر اپنے نواسوں سے ملنا چاہتی ہے، بیگم احمد علی جنھوں نے ملتان سے فون کرکے کہا تھا کہ کاش وہ بھی پرندہ ہوتیں اور اڑ کر سرحدوں کے پار پہنچ جاتیں۔ لکشمن دادا شکارپور سے گجرات جاسکتے، پروین بخاری پشاور سے دہلی جاسکتیں اور اپنے والدین کی جنم بھومی دیکھ سکتیں۔ کراچی کی روبینہ قریشی، فیاض محمود ایڈووکیٹ، فریدہ قزلباش اور قیوم عارف نے تو مجھے فون کرکے روتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کیا کہ وہ سب بہ حیثیت سیّاح ہندوستان کے شہروں میں گھوم سکیں گے کہ میری طرح ان سب کا بھی کوئی عزیز رشتے دار بھارت میں کہیں بھی نہیں ہے۔
میرے والدین تو کشتیاں جلا کر آئے تھے، باوجود ہر عید تہوار پر آبدیدہ ہونے کے، اپنے بچپن کی سکھیوں کو یاد کرنے کے، چوڑیاں پہنانے والی منھیاری شانتی چاچی کو یاد کرنے کے، اپنی سب سے زیادہ پکی سہیلی شاردا للوانی کا ذکر کرکے روتے روتے وہ اکثر چپ ہوجایا کرتی تھیں اور جب میرے والد ان سے کہتے تھے کہ وہ اگر دلّی جانا چاہیں تو وہ جاسکتی ہیں، تو وہ دوپٹے سے آنکھیں پونچھ کر کہتی تھیں، ''اپنے گھر میں جہاں میں پیدا ہوئی، ہوش سنبھالا اور دلہن بنی، وہاں کیسے جائوں گی، کس طرح اس آم اور جامن کے پیڑ کو دیکھوں گی جہاں میں اپنی چاروں بہنوں کے ساتھ جھولا جھولتی تھی۔
اس گھڑونچی کو کہاں ڈھونڈوں گی جن پر موتیا اور چنبیلی کے گجرے ڈالنے کی ذمے داری میری تھی۔ اس ڈیوڑھی اور بیٹھک کو کیونکر دیکھ سکوں گی جہاں ابّا میاں محلے کے سرکردہ لوگوں کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد بیٹھا کرتے تھے... اور... اور اس بڑے سے چولھے کو کہاں ڈھونڈوں گی جس پر ہر اتوار کو سردیوں میں نہاری کی دیگ چڑھتی تھی۔''
آج وہ سب پاکستانی بہت خوش ہیں کہ وہ ٹورسٹ ویزا پر سیاحت کے لیے جاسکیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانیوں کے لیے سیر و تفریح اور تاریخی مقامات دیکھنے اور سیاحت کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ، سستا اور مناسب ملک بھارت ہی ہے۔ وہاں آپ خود کو اجنبی نہیں محسوس کرتے۔ کوئی آپ کی جانب سوالیہ نظروں سے نہیں دیکھتا کہ سرزمین تو ایک ہی ہے۔
کوئی بھی پڑھا لکھا اور باشعور انسان امن و آشتی کی طرف بڑھتے قدموں میں نذرانۂ عقیدت ضرور پیش کرے گا۔ اس معاہدے کی ایک بہت بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ بھارت نے اپنے مثبت رویے سے ثابت کردیا کہ وہ بڑا بھائی ہے اور دونوں ملکوں کو جنگوں کی نہیں امن اور سلامتی کی ضرورت ہے۔ سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ بھارت نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا کہ ہم پاکستانی خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ ممبئی حملوں کا مجرم اجمل قصاب پاکستانی ہے، لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ ان انتہائی خطرناک اور تکلیف دہ حملوں میں نہ پاکستانی حکومت ملوث تھی اور نہ یہاں کے عوام۔ بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جس طرح ہمیں دہشت گردوں،ٹارگٹ کلرز اور انتہا پسندوں کا سامنا ہے، بالکل اسی طرح تو بھارت کو بھی ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ، شیوسینا اور بال ٹھاکرے جیسے مذہبی انتہا پسندوں کا سامنا ہے ۔ جس طرح برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے سب کچھ بھلا کر اپنی سرحدوں کو محفوظ کرلیا، اپنی نئی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ کرلیا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر تمام مذاکرات بے نتیجہ ہیں۔ لاہور کے ایک نجی ٹی وی چینل نے بھی مجھ سے اپنے نیوز بلیٹن میں یہی بات پوچھی، مگر میں ان سے متفق نہیں تھی، کیونکہ میرا ایمان صرف اور صرف امن اور محبت ہے۔ سب سے پہلے اپنے گھر کی خبر لینی چاہیے۔ یہ کیا کہ اپنے گھر میں آگ لگی ہو، اسے چھوڑ کر دوسرے محلے کی آگ بجھانے جانا محض حماقت ہے۔ پہلے اپنے گھر کی آگ بجھائیے۔ سمجھ دار اور سنجیدہ لوگ جب گھر بناتے یا خریدتے ہیں تو پہلے اندر کا کوڑا کرکٹ اور گندگی صاف کرتے ہیں، پھر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کے یہ طے کرتے ہیں کہ اندرونی اور بیرونی حفاظت کے لیے اور کیا کیا تدابیر اختیار کی جائیں۔
کشمیر کا مسئلہ بھی شاید حل ہوجائے لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ اگر اس مسئلے کو حل ہونا ہوتا تو کب کا ہوچکا ہوتا۔ انھیں حق خودارادیت دے کر۔ آخر کشمیری کیوں اپنی آزادی کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آخر کیوں دونوں ممالک اس کے حصّے بخرے کرنا چاہتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ کشمیر کے مسئلے کو اس طرح حل کیا جائے کہ وہاں بھی بھارتی اور پاکستانی بغیر ویزا اور پاسپورٹ کے آزادانہ آجاسکیں۔ لیکن ایسا ہونا اس لیے ممکن نہیں کہ کشمیر دودھ دینے والی گائے اور سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے۔ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہوگیا تو ہمارے ہاں بہت سی نادیدہ خفیہ قوتوں کا جنازہ نکل جائے گا، جو کشمیر فنڈز پر عیاشی کرتے ہیں۔
ہمیں حنا ربانی کھر اور ایس ایم کرشنا (بھارتی وزیر خارجہ) کی اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ دونوں ممالک کو ماضی کے واقعات کا یرغمالی نہیں بننا چاہیے۔ تصفیہ طلب اور ہر کام جاری رہنا چاہیے، جس میں سب سے بڑا کام یہ ہے کہ انسان کو زندہ رہنا چاہیے، محبتوں کے پھولوں کو کِھلنا چاہیے، دہشت گردی اور نفرتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے۔ دونوں ملکوں کو دہشت گردی، کشمیر اور سیاچن کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات عاید کرنے کے بجائے ایک ایک قدم آگے بڑھا کر ان مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ محمد علی ہو یا رام لال دونوں انسان ہیں اور دونوں کے خون کا رنگ ایک ہی ہے۔
البتہ نفرتوں کے بادل سیاہ ہوتے ہیں جو آزاد فضائوں میں اڑنے والی امن کی فاختائوں کے دشمن ہیں۔ ان سیاہ بادلوں کو چھانٹنا دونوں حکومتوں کا کام ہے۔ اس تاریخی معاہدے کے لیے دونوں ممالک کی حکومتیں قابلِ مبارک باد ہیں... لیکن دونوں حکومتوں کو اس بات پہ بھی گہری نظر رکھنی چاہیے کہ خدا نہ کرے کچھ خفیہ ہاتھ ایک بار پھر امن مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے کوئی گھنائونی (خدا نہ کرے) حرکت نہ کریں تاکہ دونوں طرف کے عوام ایک بار پھر مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب جائیں۔
مجھے اس وقت آگرے کی سعدیہ اور جوگیندر لعل، جے پور کے ستیش آنند (رکشا والا)، دلّی کے مصباح الدین، کیرالہ کے مہدی، دلّی کے عالم، کناٹ پیلس کی مارکیٹ کے مہندر، سنتوش اور کملا بہت یاد آرہے ہیں، جنھوں نے کہا تھا کہ وہ پرارتھنا کرتے ہیں کہ جلد ہی دونوں ملکوں کے تعلقات اچھے ہوجائیں تاکہ وہ لاہور، میرپورخاص، کراچی اور شکارپور جاسکیں۔ خدا کرے یہ مذاکرات مسلسل کامیابی کی طرف گامزن رہیں۔ محبتوں کا پرچم یوں ہی لہراتا رہے۔ امن کی فاختائیں یوں ہی اڑتی رہیں اور لوگ آپس میں یوں ہی ملتے رہیں۔ (آمین)
ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی آخری تقریر میں انھوں نے کہا تھا۔ ''میں خوش ہوں کہ محبت نے آخرکار سیاست پہ فتح پالی۔''
ہم سب بھی بہت خوش ہیں کہ امن کی فاختہ آزاد ہوگئی۔ انسانیت جیت گئی، محبت نے نفرت اور سیاست پہ فتح پالی۔ دونوں ملکوں کے بڑوں نے کروڑوں لوگوں کی خواہش کو پورا کردیا۔موجودہ حکومت کا یہ اتنا بڑا قدم ہے جس کے لیے اس کی بہت سی زیادتیاں معاف کی جاسکتی ہیں۔
پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کے لیے آصف زرداری واقعی مبارک باد اور شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے جنگجو اور نفرت کا کاروبار کرنے والی قوتوں کی بات ماننے سے انکار کردیا، اسی طرح بھارتی حکومت کے بھی ہم شکر گزار ہیں کہ انھوں نے انسانی بنیادوں پر ویزا پالیسی پر دستخط کرکے دونوں طرف کے عوام کو ذاتی اور سیاحتی سطح پر ایک دوسرے سے ملنے کا موقع دیا۔
اس معاہدے نے نہ جانے کتنے پژمردہ دلوں میں امید کی کرنیں روشن کردی ہوں گی۔ لاہور کی سوشیلا جس کی دادی سونی پت جا کر اپنے نواسوں سے ملنا چاہتی ہے، بیگم احمد علی جنھوں نے ملتان سے فون کرکے کہا تھا کہ کاش وہ بھی پرندہ ہوتیں اور اڑ کر سرحدوں کے پار پہنچ جاتیں۔ لکشمن دادا شکارپور سے گجرات جاسکتے، پروین بخاری پشاور سے دہلی جاسکتیں اور اپنے والدین کی جنم بھومی دیکھ سکتیں۔ کراچی کی روبینہ قریشی، فیاض محمود ایڈووکیٹ، فریدہ قزلباش اور قیوم عارف نے تو مجھے فون کرکے روتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کیا کہ وہ سب بہ حیثیت سیّاح ہندوستان کے شہروں میں گھوم سکیں گے کہ میری طرح ان سب کا بھی کوئی عزیز رشتے دار بھارت میں کہیں بھی نہیں ہے۔
میرے والدین تو کشتیاں جلا کر آئے تھے، باوجود ہر عید تہوار پر آبدیدہ ہونے کے، اپنے بچپن کی سکھیوں کو یاد کرنے کے، چوڑیاں پہنانے والی منھیاری شانتی چاچی کو یاد کرنے کے، اپنی سب سے زیادہ پکی سہیلی شاردا للوانی کا ذکر کرکے روتے روتے وہ اکثر چپ ہوجایا کرتی تھیں اور جب میرے والد ان سے کہتے تھے کہ وہ اگر دلّی جانا چاہیں تو وہ جاسکتی ہیں، تو وہ دوپٹے سے آنکھیں پونچھ کر کہتی تھیں، ''اپنے گھر میں جہاں میں پیدا ہوئی، ہوش سنبھالا اور دلہن بنی، وہاں کیسے جائوں گی، کس طرح اس آم اور جامن کے پیڑ کو دیکھوں گی جہاں میں اپنی چاروں بہنوں کے ساتھ جھولا جھولتی تھی۔
اس گھڑونچی کو کہاں ڈھونڈوں گی جن پر موتیا اور چنبیلی کے گجرے ڈالنے کی ذمے داری میری تھی۔ اس ڈیوڑھی اور بیٹھک کو کیونکر دیکھ سکوں گی جہاں ابّا میاں محلے کے سرکردہ لوگوں کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد بیٹھا کرتے تھے... اور... اور اس بڑے سے چولھے کو کہاں ڈھونڈوں گی جس پر ہر اتوار کو سردیوں میں نہاری کی دیگ چڑھتی تھی۔''
آج وہ سب پاکستانی بہت خوش ہیں کہ وہ ٹورسٹ ویزا پر سیاحت کے لیے جاسکیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانیوں کے لیے سیر و تفریح اور تاریخی مقامات دیکھنے اور سیاحت کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ، سستا اور مناسب ملک بھارت ہی ہے۔ وہاں آپ خود کو اجنبی نہیں محسوس کرتے۔ کوئی آپ کی جانب سوالیہ نظروں سے نہیں دیکھتا کہ سرزمین تو ایک ہی ہے۔
کوئی بھی پڑھا لکھا اور باشعور انسان امن و آشتی کی طرف بڑھتے قدموں میں نذرانۂ عقیدت ضرور پیش کرے گا۔ اس معاہدے کی ایک بہت بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ بھارت نے اپنے مثبت رویے سے ثابت کردیا کہ وہ بڑا بھائی ہے اور دونوں ملکوں کو جنگوں کی نہیں امن اور سلامتی کی ضرورت ہے۔ سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ بھارت نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا کہ ہم پاکستانی خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ ممبئی حملوں کا مجرم اجمل قصاب پاکستانی ہے، لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ ان انتہائی خطرناک اور تکلیف دہ حملوں میں نہ پاکستانی حکومت ملوث تھی اور نہ یہاں کے عوام۔ بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جس طرح ہمیں دہشت گردوں،ٹارگٹ کلرز اور انتہا پسندوں کا سامنا ہے، بالکل اسی طرح تو بھارت کو بھی ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ، شیوسینا اور بال ٹھاکرے جیسے مذہبی انتہا پسندوں کا سامنا ہے ۔ جس طرح برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے سب کچھ بھلا کر اپنی سرحدوں کو محفوظ کرلیا، اپنی نئی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ کرلیا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر تمام مذاکرات بے نتیجہ ہیں۔ لاہور کے ایک نجی ٹی وی چینل نے بھی مجھ سے اپنے نیوز بلیٹن میں یہی بات پوچھی، مگر میں ان سے متفق نہیں تھی، کیونکہ میرا ایمان صرف اور صرف امن اور محبت ہے۔ سب سے پہلے اپنے گھر کی خبر لینی چاہیے۔ یہ کیا کہ اپنے گھر میں آگ لگی ہو، اسے چھوڑ کر دوسرے محلے کی آگ بجھانے جانا محض حماقت ہے۔ پہلے اپنے گھر کی آگ بجھائیے۔ سمجھ دار اور سنجیدہ لوگ جب گھر بناتے یا خریدتے ہیں تو پہلے اندر کا کوڑا کرکٹ اور گندگی صاف کرتے ہیں، پھر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کے یہ طے کرتے ہیں کہ اندرونی اور بیرونی حفاظت کے لیے اور کیا کیا تدابیر اختیار کی جائیں۔
کشمیر کا مسئلہ بھی شاید حل ہوجائے لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ اگر اس مسئلے کو حل ہونا ہوتا تو کب کا ہوچکا ہوتا۔ انھیں حق خودارادیت دے کر۔ آخر کشمیری کیوں اپنی آزادی کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آخر کیوں دونوں ممالک اس کے حصّے بخرے کرنا چاہتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ کشمیر کے مسئلے کو اس طرح حل کیا جائے کہ وہاں بھی بھارتی اور پاکستانی بغیر ویزا اور پاسپورٹ کے آزادانہ آجاسکیں۔ لیکن ایسا ہونا اس لیے ممکن نہیں کہ کشمیر دودھ دینے والی گائے اور سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے۔ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہوگیا تو ہمارے ہاں بہت سی نادیدہ خفیہ قوتوں کا جنازہ نکل جائے گا، جو کشمیر فنڈز پر عیاشی کرتے ہیں۔
ہمیں حنا ربانی کھر اور ایس ایم کرشنا (بھارتی وزیر خارجہ) کی اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ دونوں ممالک کو ماضی کے واقعات کا یرغمالی نہیں بننا چاہیے۔ تصفیہ طلب اور ہر کام جاری رہنا چاہیے، جس میں سب سے بڑا کام یہ ہے کہ انسان کو زندہ رہنا چاہیے، محبتوں کے پھولوں کو کِھلنا چاہیے، دہشت گردی اور نفرتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے۔ دونوں ملکوں کو دہشت گردی، کشمیر اور سیاچن کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات عاید کرنے کے بجائے ایک ایک قدم آگے بڑھا کر ان مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ محمد علی ہو یا رام لال دونوں انسان ہیں اور دونوں کے خون کا رنگ ایک ہی ہے۔
البتہ نفرتوں کے بادل سیاہ ہوتے ہیں جو آزاد فضائوں میں اڑنے والی امن کی فاختائوں کے دشمن ہیں۔ ان سیاہ بادلوں کو چھانٹنا دونوں حکومتوں کا کام ہے۔ اس تاریخی معاہدے کے لیے دونوں ممالک کی حکومتیں قابلِ مبارک باد ہیں... لیکن دونوں حکومتوں کو اس بات پہ بھی گہری نظر رکھنی چاہیے کہ خدا نہ کرے کچھ خفیہ ہاتھ ایک بار پھر امن مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے کوئی گھنائونی (خدا نہ کرے) حرکت نہ کریں تاکہ دونوں طرف کے عوام ایک بار پھر مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب جائیں۔
مجھے اس وقت آگرے کی سعدیہ اور جوگیندر لعل، جے پور کے ستیش آنند (رکشا والا)، دلّی کے مصباح الدین، کیرالہ کے مہدی، دلّی کے عالم، کناٹ پیلس کی مارکیٹ کے مہندر، سنتوش اور کملا بہت یاد آرہے ہیں، جنھوں نے کہا تھا کہ وہ پرارتھنا کرتے ہیں کہ جلد ہی دونوں ملکوں کے تعلقات اچھے ہوجائیں تاکہ وہ لاہور، میرپورخاص، کراچی اور شکارپور جاسکیں۔ خدا کرے یہ مذاکرات مسلسل کامیابی کی طرف گامزن رہیں۔ محبتوں کا پرچم یوں ہی لہراتا رہے۔ امن کی فاختائیں یوں ہی اڑتی رہیں اور لوگ آپس میں یوں ہی ملتے رہیں۔ (آمین)