چین بھارت دفاعی تعاون

ہم نے ہمیشہ ہمسائیگی کی پالیسی کو اہمیت نہ دی بلکہ وہی کئی سمندر پار کی پالیسی پر ہم پالیسی وضع کرتے ہیں۔۔۔

anisbaqar@hotmail.com

ابتدا میں چین کے پہلے وزیراعظم چواین لائی اور بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل کے مابین نہایت اچھے تعلقات تھے یہاں تک کہ کلکتہ جو بھارتی صوبہ بنگال کا دارالسلطنت تھا وہاں ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے لگتے تھے۔ اس کے اثرات یہ پڑے کہ بھارتی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آگئی اور اشتراکی چین کے اثرات تیزی سے صوبے میں گھر کرنے لگے آزادی سے قبل کلکتہ ممبئی سے کہیں بڑا صنعتی اور تجارتی شہر تھا ۔

آزادی کے بعد ممبئی کو بھارتی مرکزی حکومت نے ترقی نہ دی ایک وقت وہ تھا کہ مرزا غالب گھر بار چھوڑ کر وائسرائے سے ملنے کلکتہ گئے مگر قسمت نے یاوری نہ کی اور نامراد لوٹے۔ غرض ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس شہر کو کافی اہمیت دی تھی لیکن اشتراکیت کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ نے بھارتی حکومت کی توجہ ہٹادی تھی۔ حالانکہ پنڈت جواہر لعل خود کو سوشلسٹ کہلواتے تھے بس زمین کی تقسیم کی پالیسی اور نوابی ختم کرنے کے بعد ان کی ہمت جاتی رہی گوکہ چین کی حکومت کو تسلیم کرنے میں سوویت یونین کے حمایتی ممالک کے بعد بھارت وہ واحد ملک تھا جس نے پہل کی ۔بھارت ، روس چین سے اچھے تعلقات کے علاوہ امریکا سے بھی اچھے تعلقات رکھتا تھا لہٰذا وہ چین کے اثرات کو پھیلنے سے روکنے میں امریکا کا ہمنوا بنا رہا ۔ 1959 میں جب تبت میں دلائی لامہ نے بغاوت پھیلائی تو نہ صرف بھارت نے اس میں دلائی لامہ کی حمایت کی بلکہ بھارت نے امریکا برطانیہ کے پروپیگنڈا مشنری کا ساتھ دیا اور پھر دلائی لامہ کو بھارت میں سیاسی پناہ دے دی جو بدھ مت کے روحانی پیشوا بھی تھے اور تبت کے سیاسی سرکردہ رہنما بھی۔

نہرو نے ایک طرف سوویت یونین کو اپنا ہمنوا بنائے رکھا تو دوسری طرف مغربی دنیا کو بھی ۔ یہ تھی اس کی غیر جانبدار خارجہ پالیسی مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چین اور روس میں قدرے دوری بھی پیدا ہوئی گوکہ نظریاتی طور پر چین اور روس دوست تھے مگر بھارت نے دوسری طرف مغرب کا کام بھی کر دیکھا اس طرح اس نے سوشلسٹ نظریات کو پھیلنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا غرض عجیب و غریب خارجہ حکمت عملی اختیار کرتا رہا لیکن ساری کی ساری پالیسی بھارتی سیاسی حکمران ہی بناتے رہے اور اس نمونے کو سیٹ کرنے میں بھارتی کانگریس پارٹی کا ہی کردار رہا ابھی دلائی لامہ کا مسئلہ زندہ تھا کہ بھارت اور چین میں لداخ کے کئی ہزار بلند زمینی علاقے میں سرحدی جھڑپ شروع ہوگئی جو 20 اکتوبر 1962 میں بھرپور جنگ کی شکل اختیار کرگئی۔

یہ جنگ ایک ماہ جاری رہی اس جنگ میں بھارتی کمیونسٹ پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک چین کی حمایت کر رہی تھی دوسری روس کی۔ نمبودری پدر چین کے ساتھ تھے اور ڈانگے روس کے ہمنوا بنے جب کہ ابھی چین میں ثقافتی انقلاب کا شاخسانہ شروع نہ ہوا تھا جو روس اور چین کے مابین اختلاف کا باعث بنا ایک اور دلچسپ بات جو صدر ایوب خان نے اپنی کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹر (Friends Not Master) میں تحریر کی ہے کہ وہ بھارت چین جنگ کے بعد پنڈت نہرو سے نو وار پیکٹ کرنے کے متمنی تھے جس کو نہرو نے انکار کیا غالباً یہ امریکا کے اشارے پر تھا۔ حالانکہ 1965 میں پاک بھارت جنگ ہوئی اور وہ بھی ایوب خان کے دور میں اور بعد ازاں کئی اور جنگیں خصوصاً بنگلہ دیش کے مسئلے پر جنگ خاصی سیاسی اہمیت کی حامل تھی جس میں چین زبانی طور پر پاکستان کے ساتھ تھا پھر رفتہ رفتہ ذوالفقار علی بھٹو نے چین کو پاکستان کے ثقافتی طور پر قریب تر لادیا اور پھر ایسا دور آگیا جس پر حبیب جالب نے کچھ یوں کہا کہ


چین اپنا یار ہے
اس پہ جاں نثار ہے

مگر آگے چل کر پاکستانی حکومت کی داخلہ پالیسی پر انحراف کا تذکرہ کرتے ہیں ۔حالانکہ چین اور بھارت میں جنگ ہوئی مگر پاکستان نے چین کے ساتھ پرامن بقائے باہم کے چینی نظریے کے تحت تعلقات قائم رکھے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان نے مغربی دنیا کے ساتھ چین کا روابطی پل امریکا تک نکسن کے دور میں تعمیر کیا۔ اس کا ثمر اس کو نہ ملا مگر کچھوے کی رفتار سے چین کے ساتھ روابط بڑھانے والے بھارت نے نہ صرف اقتصادی تعلقات بڑھائے بلکہ سرحدی تنازعات طے کرنے کے بعد رفتہ رفتہ فوجی روابط میں بھی تعلقات میں اضافہ ہوتا گیا۔ گزشتہ 10 برسوں میں یہ تعلقات نسبتاً تیز ہوئے اور آج 26 فروری کو جب یہ خبر نظر سے گزری کہ چین اور بھارت کا دفاعی تعاون بڑھانے پر اتفاق، اس سال دونوں ممالک مشترکہ دفاعی مشقیں کرنے پر متفق اس کے علاوہ متنازعہ سرحد امن کے لیے میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی، اس کے علاوہ فوجی ہیڈ کوارٹر بریگیڈ کور اینڈ کمانڈ سطح پر ہاٹ لائن اس بات سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ دونوں ملکوں میں اعتماد سازی کے عمل میں خاصی پیش قدمی ہوچکی ہے جب کہ ہم عرب ممالک میں آپسی اتفاقات کو فروغ نہ دے سکے بجائے اس کے کہ ہم ان ملکوں کے مابین خلیج کو کم کرتے ہم ان کے مابین پارٹی بن گئے جس سے ہم نے ایک اور سرحدی محاذ کھول دیا خارجہ پالیسی کے داخلہ پالیسی پر براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں خصوصاً وہ ہمسائے ممالک کسی نے ایسے موقع پر خوب کہا ہے:

اک درخت ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے

مگر ہم نے ہمیشہ ہمسائیگی کی پالیسی کو اہمیت نہ دی بلکہ وہی کئی سمندر پار کی پالیسی پر ہم پالیسی وضع کرتے ہیں اپنے ہمسائے کی ہم کو خبر نہیں بلکہ پڑوس سے ہم دوری کی پالیسی پر گامزن رہتے ہیں۔ بھارت کا مسئلہ تو تھا ہی مگر افغانستان کا مسئلہ تو ایسا بنا کہ خون کے چھینٹے ہمارے گلی کوچوں میں آگئے ہر مارنے والا بھی مجاہد اور ہر مرنے والا شہید پورا ملک گرداب میں ہے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو بالکل یقین نہیں رہا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے اور تضادات شدید ہیں ۔ اب تو سیاسی اور معاشی منظر نامے سے بڑھ کر پڑوسی ممالک کے تعلقات، سرحدی حالات، ملک میں بڑھتی لاقانونیت قومی سلامتی کی پالیسی پر شور و غوغا اور ملک تنہائی کا شکار۔
Load Next Story