سیاسی اتحادکی ناگزیریت
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی ایک سیاسی اتحاد بھی ایسا نظر نہیں آتا جو عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے بنایا گیا ہو
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے آسمان پر سیاسی اتحاد ستاروں کی طرح جگمگاتے نظر آتے ہیں اور ستاروں ہی کی طرح آسمان سے ٹوٹ کر زمین پر آتے نظر آتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے اور وقتی مصلحتوں، وقتی تقاضوں، سیاسی ضرورتوں، سیاسی مفادات کے تحت تو بے شمار اتحاد بنتے بگڑتے ٹوٹتے رہے ہیں لیکن ہماری سیاسی زندگی میں بعض ایسے بڑے سیاسی اتحاد بھی بنے ہیں جو اپنی کارکردگی کے حوالے سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ ایوب خان کی آمریت کے خلاف اتحاد بھٹو کی جمہوریت کے خلاف نو ستاروں کا اتحاد۔ ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف اتحاد اور پی این اے کی تحریک مشرقی پاکستان کی تاریخ کا مشہور اتحاد جگتو فرنٹ وغیرہ یہ تمام بڑے اتحاد بھی وقتی ضرورتوں، سیاسی مفادات کے تحت بنائے گئے اور جب ان کے ٹارگٹ پورے ہوئے تو یہ اتحاد اپنی موت آپ مر گئے۔
ان اتحادوں میں سب سے دل چسپ اتحاد بھٹو کے خلاف بننے والا اتحاد تھا۔ یہ واحد اتحاد تھا جس میں ملکی سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے مفادات کے ساتھ ساتھ امریکا کے مفادات بھی وابستہ تھے اور اس اتحاد کے تحت چلنے والی تحریک کی بھاری فنڈنگ بھی امریکا کی خفیہ ایجنسیوں نے ڈالروں کی یلغار سے کی اس تحریک میں شامل جماعتوں کے دامن ڈالروں سے بھر دیے گئے، اسی وجہ سے اس اتحاد کا دامن داغ دار بھی ہوا۔ ایوبی آمریت اور ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف اتحاد تو منطقی نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ یہ اتحاد جمہوریت کے حق میں اور آمریت کے خلاف تھے لیکن بھٹو کی جمہوری حکومت کے خلاف اتحاد دو حوالوں سے منفی اور غیر منطقی رہا۔ ایک حوالہ تو یہ تھا کہ بھٹو ایک مقبول عوامی رہنما تھا اور 1977 کے انتخابات بھٹو کی جماعت نے مجموعی طور پر جیت لیے تھے صرف چند سیٹوں پر دھاندلی کے حوالے سے چلائی جانے والی یہ بہت بڑی تحریک کا انجام ضیا الحق کی آمرانہ حکومت میں شمولیت کی صورت میں سیاست کا کلنک بن گیا۔ اس اتحاد کا دوسرا اندوہ ناک پہلو اس میں امریکا کی شرکت تھا۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ایٹمی شعبے میں بھٹو کی پیش رفت روکنی چاہی بھٹو رضامند نہ ہوئے تو کسنجر نے انھیں عبرت ناک انجام کی بشارت دی۔ یہ اتحاد اور اس اتحاد کے تحت چلنے والی تحریک امریکی مفادات کی تحریک بن گئی۔ یہ اس تحریک کا دوسرا المیہ تھا۔
یہ ایک المیہ ہی نہیں بلکہ بڑی بد قسمتی بھی رہی ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی ایک سیاسی اتحاد بھی ایسا نظر نہیں آتا جو عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے بنایا گیا ہو۔ مثلاً غربت اس ملک کے 18کروڑ غریب انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ غربت کے خلاف آج تک کوئی اتحاد نہیں بنا، مہنگائی اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب عوام کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے مہنگائی کے خلاف کوئی اتحاد بھی نہیں بنا۔ بے روزگاری اس ملک کے غریب عوام کا تیسرا بڑا مسئلہ ہے، بے روزگاری کے خلاف کوئی اتحاد کبھی نہیں بنا۔ اس ملک کے عوام پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں ان میں طبقاتی استحصال ایک بہت بڑا ظلم ہے۔ طبقاتی استحصال کے خلاف بائیں بازو کی جماعتیں اگرچہ جنگ کرتی رہیں لیکن طبقاتی استحصال کے خلاف کوئی بڑا سیاسی اتحاد کبھی نہیں بنا۔ عوام کو اس ملک کی سیاسی اشرافیہ نے زبان، قومیت، نسل اور فقہوں کے حوالے سے تقسیم کرکے رکھا ہے اس مکروہ کاروبار کے خلاف کبھی کوئی سیاسی اتحاد نہیں بنا۔ بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، اسٹریٹ کرائم نے غریبوں اور مڈل کلاس کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے ان عذابوں کے خلاف کبھی کوئی سیاسی اتحاد نہیں بنا۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ اس ملک کے عوام کی زندگی کا سب سے بڑا عذاب بن گئے ہیں۔
کوئی شخص نہ گھر کے اندر محفوظ ہے نہ گھر کے باہر، جب بیٹے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو مائیں ان کی خیریت سے گھر واپسی کے لیے دست بہ دعا رہتی ہیں جب کوئی بھائی علم یا روزگار کے لیے گھر سے باہر نکلتا ہے تو اس کی خیریت سے گھر واپسی تک بہنوں کی آنکھیں نم اور دروازے کی طرف لگی رہتی ہیں، جب کوئی شوہر روزی کے لیے گھر سے باہر نکلتا ہے تو بیوی اس کی خیریت سے گھر واپسی تک بے کل رہتی ہے۔ جب کوئی باپ نوکری یا کاروبار کے لیے گھر سے باہر نکلتا ہے تو اس کی اولاد وسوسوں میں گرفتار رہتی ہے کہ باپ کا منہ دوبارہ دیکھنا نصیب ہوگا یا نہیں۔ عوام کو جن مسائل اور مصائب کا سامنا ہے ان میں سب سے بڑا مسئلہ جس نے غربت، مہنگائی، بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل کو بھی پیچھے دھکیل دیا ہے وہ ہے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ۔ یہ مسئلہ اس ملک اور اس ملک کے عوام کے بہتر مستقبل پر ایک نحوست کی طرح چھایا ہوا ہے۔ ویسے تو پورا ملک ہی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہے لیکن کراچی کی اس حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت اس لیے ہے کہ اس شہر کو منی پاکستان اور ملک کا معاشی حب کہا جاتا ہے۔ اس شہر کے امن کا یا اس شہر کی بد امنی کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے اس شہر میں امن وامان کی بدتر صورت حال کی وجہ سے اقتصادی زندگی تہ وبالا ہوجاتی ہے اور تشویش کی بات یہ ہے کہ امن کے دشمنوں نے اس شہر پر تسلط حاصل کرنے کو اپنا بنیادی مقصد بنا لیا ہے اور کھلے عام کہا جا رہا ہے کہ اس شہر پر قبضے کے لیے بغیر ہمارے ''مقاصد'' پورے نہیں ہوسکتے۔
اس انتہائی سنگین صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ اس شہر کو اغیار کے تسلط سے بچانے کے لیے یہاں کی تمام جماعتیں متحد ہوجائیں یعنی ایک ایسا سیاسی اتحاد تشکیل دیا جائے جس کا واحد مقصد اور ایجنڈا اس شہر کو دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے نجات دلانا ہو۔ ہم نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا تھا کہ اس ملک میں غربت، بھوک، مہنگائی، بے روزگاری، عوام کی مختلف حوالوں سے تقسیم کے خلاف اب تک کوئی اتحاد نہیں بنا۔ لیکن یہ سارے مسائل انسان کے زندہ رہنے سے جڑے ہوئے ہیں جب زندگی ہی غیر یقینیت کا شکار ہوجائے تو پھر بھوک، غربت، مہنگائی سب سیکنڈری حیثیت اختیار کرلیتے ہیں یعنی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اب زندگی کی ضمانت بن گیا ہے۔2008 سے 2013 کے درمیان پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران سندھ میں جو حکومتی اتحاد تھا اس میں پیپلزپارٹی، متحدہ اور اے این پی بڑی اتحادی جماعتیں تھیں لیکن یہ اتحاد بھی سیاسی مفادات کی بنیاد پر بنا تھا۔ چونکہ سیاسی مفادات ہمیشہ اپ اینڈ ڈاؤن کا شکار رہتے ہیں اس لیے یہ اتحاد بھی اپ اینڈ ڈاؤن کا شکار رہا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب سندھ خاص طور پر کراچی کے حوالے سے ایک ایسا سیاسی اتحاد تشکیل دیا جائے جس کا واحد مقصد دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ ہو۔ اگر کوئی ایسا سیاسی اتحاد بنتا ہے تو فطری اور منطقی طور پر اس اتحاد کے شرکا کا اس ایک پوائنٹ یعنی دہشت گردی کے خاتمے پر اتفاق ضروری ہوگا۔
بد قسمتی سے مسلسل کوششوں کے باوجود ابھی تک نہ ملک کی سطح پر اس قسم کا کوئی اتحاد بن سکا ہے نہ کراچی یا سندھ کی سطح پر اس قسم کا کوئی اتحاد بن سکا ہے۔ مذہبی جماعتوں کی اس ممکنہ اتحاد میں شرکت اس لیے مشکوک ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے پر ان جماعتوں کے اپنے تحفظات ہیں لیکن بعض مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے حوالے سے ایک واضح فکر رکھتی ہیں لیکن یہ جماعتیں بھی ابھی تک نظریاتی دھند سے باہر نہیں آسکیں۔ ایسی صورت میں اس ممکنہ اتحاد میں شامل ہونے کی اہل جماعتیں پیپلزپارٹی، متحدہ، اے این پی اور قوم پرست جماعتیں ہی نظر آتی ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ جماعتیں بھی ابھی تک ''جمہوریت کے حسن'' کی چکا چوند کا شکار ہیں۔ واضح رہے کہ ہمارے جمہوری علماء سیاسی اختلاف کو جمہوریت کا حسن کہتے ہیں۔ لیکن عملاً یہ حسن ایک ایسی بد صورتی بن گیا ہے جس کے تصور ہی سے کراہت آتی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جس طرح بھوک، بیماری، مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ انسان کی زندگی سے مشروط ہیں اسی طرح سیاسی اختلافات بھی سیاسی جماعتوں کی زندگی سے مشروط ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کا وجود اور زندگی ہی خطرے میں پڑ جائے تو سیاسی اختلافات کی حیثیت کیا ہوسکتی ہے؟
پیپلزپارٹی، متحدہ، اے این پی کے درمیان سخت سیاسی اختلافات ہیں اسی طرح قوم پرست جماعتیں بھی پی پی پی اور متحدہ کے حوالے سے سخت تحفظات رکھتی ہیں۔ لیکن ان جماعتوں کی ایک مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ یہ جماعتیں لبرل ہی نہیں بلکہ روشن خیال بھی کہلاتی ہیں اور بد قسمتی سے دہشت گردی کا سب سے بڑا ہدف بھی لبرل اور روشن خیال فکر ہے۔ یعنی لبرل اور روشن خیال طاقتوں کو دہشت گردی سے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ دنیا کے سیاسی اتحادوں کی تاریخ میں سیاسی طاقتیں ہمیشہ کسی مشترکہ خطرے کے خلاف بلا امتیاز فکر و نظر متحد ہوتی رہی ہیں اس کی سب سے بڑی مثال نازی جرمنی کے خلاف اتحاد ہے۔
ان اتحادوں میں سب سے دل چسپ اتحاد بھٹو کے خلاف بننے والا اتحاد تھا۔ یہ واحد اتحاد تھا جس میں ملکی سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے مفادات کے ساتھ ساتھ امریکا کے مفادات بھی وابستہ تھے اور اس اتحاد کے تحت چلنے والی تحریک کی بھاری فنڈنگ بھی امریکا کی خفیہ ایجنسیوں نے ڈالروں کی یلغار سے کی اس تحریک میں شامل جماعتوں کے دامن ڈالروں سے بھر دیے گئے، اسی وجہ سے اس اتحاد کا دامن داغ دار بھی ہوا۔ ایوبی آمریت اور ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف اتحاد تو منطقی نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ یہ اتحاد جمہوریت کے حق میں اور آمریت کے خلاف تھے لیکن بھٹو کی جمہوری حکومت کے خلاف اتحاد دو حوالوں سے منفی اور غیر منطقی رہا۔ ایک حوالہ تو یہ تھا کہ بھٹو ایک مقبول عوامی رہنما تھا اور 1977 کے انتخابات بھٹو کی جماعت نے مجموعی طور پر جیت لیے تھے صرف چند سیٹوں پر دھاندلی کے حوالے سے چلائی جانے والی یہ بہت بڑی تحریک کا انجام ضیا الحق کی آمرانہ حکومت میں شمولیت کی صورت میں سیاست کا کلنک بن گیا۔ اس اتحاد کا دوسرا اندوہ ناک پہلو اس میں امریکا کی شرکت تھا۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ایٹمی شعبے میں بھٹو کی پیش رفت روکنی چاہی بھٹو رضامند نہ ہوئے تو کسنجر نے انھیں عبرت ناک انجام کی بشارت دی۔ یہ اتحاد اور اس اتحاد کے تحت چلنے والی تحریک امریکی مفادات کی تحریک بن گئی۔ یہ اس تحریک کا دوسرا المیہ تھا۔
یہ ایک المیہ ہی نہیں بلکہ بڑی بد قسمتی بھی رہی ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی ایک سیاسی اتحاد بھی ایسا نظر نہیں آتا جو عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے بنایا گیا ہو۔ مثلاً غربت اس ملک کے 18کروڑ غریب انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ غربت کے خلاف آج تک کوئی اتحاد نہیں بنا، مہنگائی اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب عوام کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے مہنگائی کے خلاف کوئی اتحاد بھی نہیں بنا۔ بے روزگاری اس ملک کے غریب عوام کا تیسرا بڑا مسئلہ ہے، بے روزگاری کے خلاف کوئی اتحاد کبھی نہیں بنا۔ اس ملک کے عوام پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں ان میں طبقاتی استحصال ایک بہت بڑا ظلم ہے۔ طبقاتی استحصال کے خلاف بائیں بازو کی جماعتیں اگرچہ جنگ کرتی رہیں لیکن طبقاتی استحصال کے خلاف کوئی بڑا سیاسی اتحاد کبھی نہیں بنا۔ عوام کو اس ملک کی سیاسی اشرافیہ نے زبان، قومیت، نسل اور فقہوں کے حوالے سے تقسیم کرکے رکھا ہے اس مکروہ کاروبار کے خلاف کبھی کوئی سیاسی اتحاد نہیں بنا۔ بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، اسٹریٹ کرائم نے غریبوں اور مڈل کلاس کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے ان عذابوں کے خلاف کبھی کوئی سیاسی اتحاد نہیں بنا۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ اس ملک کے عوام کی زندگی کا سب سے بڑا عذاب بن گئے ہیں۔
کوئی شخص نہ گھر کے اندر محفوظ ہے نہ گھر کے باہر، جب بیٹے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو مائیں ان کی خیریت سے گھر واپسی کے لیے دست بہ دعا رہتی ہیں جب کوئی بھائی علم یا روزگار کے لیے گھر سے باہر نکلتا ہے تو اس کی خیریت سے گھر واپسی تک بہنوں کی آنکھیں نم اور دروازے کی طرف لگی رہتی ہیں، جب کوئی شوہر روزی کے لیے گھر سے باہر نکلتا ہے تو بیوی اس کی خیریت سے گھر واپسی تک بے کل رہتی ہے۔ جب کوئی باپ نوکری یا کاروبار کے لیے گھر سے باہر نکلتا ہے تو اس کی اولاد وسوسوں میں گرفتار رہتی ہے کہ باپ کا منہ دوبارہ دیکھنا نصیب ہوگا یا نہیں۔ عوام کو جن مسائل اور مصائب کا سامنا ہے ان میں سب سے بڑا مسئلہ جس نے غربت، مہنگائی، بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل کو بھی پیچھے دھکیل دیا ہے وہ ہے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ۔ یہ مسئلہ اس ملک اور اس ملک کے عوام کے بہتر مستقبل پر ایک نحوست کی طرح چھایا ہوا ہے۔ ویسے تو پورا ملک ہی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہے لیکن کراچی کی اس حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت اس لیے ہے کہ اس شہر کو منی پاکستان اور ملک کا معاشی حب کہا جاتا ہے۔ اس شہر کے امن کا یا اس شہر کی بد امنی کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے اس شہر میں امن وامان کی بدتر صورت حال کی وجہ سے اقتصادی زندگی تہ وبالا ہوجاتی ہے اور تشویش کی بات یہ ہے کہ امن کے دشمنوں نے اس شہر پر تسلط حاصل کرنے کو اپنا بنیادی مقصد بنا لیا ہے اور کھلے عام کہا جا رہا ہے کہ اس شہر پر قبضے کے لیے بغیر ہمارے ''مقاصد'' پورے نہیں ہوسکتے۔
اس انتہائی سنگین صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ اس شہر کو اغیار کے تسلط سے بچانے کے لیے یہاں کی تمام جماعتیں متحد ہوجائیں یعنی ایک ایسا سیاسی اتحاد تشکیل دیا جائے جس کا واحد مقصد اور ایجنڈا اس شہر کو دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے نجات دلانا ہو۔ ہم نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا تھا کہ اس ملک میں غربت، بھوک، مہنگائی، بے روزگاری، عوام کی مختلف حوالوں سے تقسیم کے خلاف اب تک کوئی اتحاد نہیں بنا۔ لیکن یہ سارے مسائل انسان کے زندہ رہنے سے جڑے ہوئے ہیں جب زندگی ہی غیر یقینیت کا شکار ہوجائے تو پھر بھوک، غربت، مہنگائی سب سیکنڈری حیثیت اختیار کرلیتے ہیں یعنی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اب زندگی کی ضمانت بن گیا ہے۔2008 سے 2013 کے درمیان پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران سندھ میں جو حکومتی اتحاد تھا اس میں پیپلزپارٹی، متحدہ اور اے این پی بڑی اتحادی جماعتیں تھیں لیکن یہ اتحاد بھی سیاسی مفادات کی بنیاد پر بنا تھا۔ چونکہ سیاسی مفادات ہمیشہ اپ اینڈ ڈاؤن کا شکار رہتے ہیں اس لیے یہ اتحاد بھی اپ اینڈ ڈاؤن کا شکار رہا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب سندھ خاص طور پر کراچی کے حوالے سے ایک ایسا سیاسی اتحاد تشکیل دیا جائے جس کا واحد مقصد دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ ہو۔ اگر کوئی ایسا سیاسی اتحاد بنتا ہے تو فطری اور منطقی طور پر اس اتحاد کے شرکا کا اس ایک پوائنٹ یعنی دہشت گردی کے خاتمے پر اتفاق ضروری ہوگا۔
بد قسمتی سے مسلسل کوششوں کے باوجود ابھی تک نہ ملک کی سطح پر اس قسم کا کوئی اتحاد بن سکا ہے نہ کراچی یا سندھ کی سطح پر اس قسم کا کوئی اتحاد بن سکا ہے۔ مذہبی جماعتوں کی اس ممکنہ اتحاد میں شرکت اس لیے مشکوک ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے پر ان جماعتوں کے اپنے تحفظات ہیں لیکن بعض مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے حوالے سے ایک واضح فکر رکھتی ہیں لیکن یہ جماعتیں بھی ابھی تک نظریاتی دھند سے باہر نہیں آسکیں۔ ایسی صورت میں اس ممکنہ اتحاد میں شامل ہونے کی اہل جماعتیں پیپلزپارٹی، متحدہ، اے این پی اور قوم پرست جماعتیں ہی نظر آتی ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ جماعتیں بھی ابھی تک ''جمہوریت کے حسن'' کی چکا چوند کا شکار ہیں۔ واضح رہے کہ ہمارے جمہوری علماء سیاسی اختلاف کو جمہوریت کا حسن کہتے ہیں۔ لیکن عملاً یہ حسن ایک ایسی بد صورتی بن گیا ہے جس کے تصور ہی سے کراہت آتی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جس طرح بھوک، بیماری، مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ انسان کی زندگی سے مشروط ہیں اسی طرح سیاسی اختلافات بھی سیاسی جماعتوں کی زندگی سے مشروط ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کا وجود اور زندگی ہی خطرے میں پڑ جائے تو سیاسی اختلافات کی حیثیت کیا ہوسکتی ہے؟
پیپلزپارٹی، متحدہ، اے این پی کے درمیان سخت سیاسی اختلافات ہیں اسی طرح قوم پرست جماعتیں بھی پی پی پی اور متحدہ کے حوالے سے سخت تحفظات رکھتی ہیں۔ لیکن ان جماعتوں کی ایک مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ یہ جماعتیں لبرل ہی نہیں بلکہ روشن خیال بھی کہلاتی ہیں اور بد قسمتی سے دہشت گردی کا سب سے بڑا ہدف بھی لبرل اور روشن خیال فکر ہے۔ یعنی لبرل اور روشن خیال طاقتوں کو دہشت گردی سے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ دنیا کے سیاسی اتحادوں کی تاریخ میں سیاسی طاقتیں ہمیشہ کسی مشترکہ خطرے کے خلاف بلا امتیاز فکر و نظر متحد ہوتی رہی ہیں اس کی سب سے بڑی مثال نازی جرمنی کے خلاف اتحاد ہے۔