حقیقت احوال

اسوہ نبویؐ پر عمل درآمد کی ضرورت جتنی آج محسوس کی جا رہی ہے اس سے قبل شاید کبھی نہ تھی۔۔۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

KARACHI:
غور و فکر اسلام کا خاصہ ہے۔ ایک مسلمان کا طرز عمل بھی یہی ہونا چاہیے کہ عبادات الٰہیہ کے ساتھ ساتھ غور و خوص کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے، ذرا سوچیے اور غور تو کیجیے کہ ''اگر حضورؐ نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟'' پھر ذرا یہ بھی سوچیے کہ ''اور آج اگر حضورؐ ہمارے درمیان ہوتے تو کیا ہوتا؟'' تاریخ گواہ ہے کہ آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو انقلاب برپا فرمایا وہ درحقیقت ''انقلاب انسانیت'' تھا۔ محسن انسانیتؐ کے ہاتھوں وقوع پذیر ہونے والا انقلاب عظیم، پوری انسانی تاریخ کا وہ اہم ترین موڑ تھا کہ جب دنیا پہلی بار صحیح معنوں میں احترام آدمیت و تکریم انسانیت کے درست احساس سے روشناس ہوئی۔ انسانیت کے افق پر وہ روشن آفتاب طلوع ہوا کہ جس کی پرنور کرنوں نے غلامی کی تمام زنجیروں کو توڑ کر پورے عالم انسانیت کو نور حق سے جگمگا دیا۔ سسکتی انسانیت کو درحقیقت اشرف المخلوقات کے عظیم درجے پر فائز نیز اس تمام عالم میں صحیح معنوں میں اللہ کا نائب اور خلیفہ بنا دیا، کئی مغربی مفکرین و مستشرقین نے رسول اللہؐ کی عظمت اور دین اسلام کی صداقت کا اقرار کرتے ہوئے مختلف انداز و القاب میں خراج تحسین و خراج عقیدت پیش کیا ہے جو کہ تاریخ کی کتب میں مرقوم ہیں، جارج برنارڈ شاہ نے دیکھیے کیا خوب کہا کہ ''اجڑ اجڑ کر بسنے والی بستی کو دائمی امن کے لیے محمدؐ کی ضرورت ہو گی۔''

بلاشبہ اسوہ حسنہ کی اہمیت و ضرورت آج دوچند ہے اور اسوہ نبویؐ پر عمل درآمد کی ضرورت جتنی آج محسوس کی جا رہی ہے اس سے قبل شاید کبھی نہ تھی، اگرچہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں ہماری بھرپور مدد اور رہنمائی کرتا ہے تاہم دین سے دوری کے سبب آج ہم بحیثیت مسلم امہ و عالم اسلام تمام عالم میں رسوا ہیں، ہر میدان میں مار کھا رہے ہیں، ترقی کے ہر میدان میں طفل مکتب ہیں، جہالت و جاہلیت و ظلمت اور دجالی فتنوں کے آثار جنھوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے آج عالم اسلام بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ آج مغربی تہذیب کا غلبہ ہم پر جس قدر اثرانداز ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کو تو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اللہ کی ایک نہیں مانتے، رسولؐ کو ماننے کی حامی بھرتے ہماری زبان نہیں تھکتی، لیکن سنت نبویؐ پر ہم عمل نہیں کرتے، قرآن کو اللہ کا کلام قرار دیتے لیکن اس کے احکامات پر پورا عمل نہیں کرتے آخرت کو تسلیم کرتے ہیں مگر آخرت کے لیے کوئی تیاری نہیں کرتے! کیا ان حالات میں ہم واقعی مسلمان کہلانے کے مستحق ہیں؟

آج اگر اللہ کے رسولؐؐ ہمارے درمیان اپنے ظاہری وجود کے ساتھ موجود ہوتے تو یقینا ہم سخت آزمائش میں مبتلا ہو جاتے اور دین اسلام میں پورے پورے داخل ہونے کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں ہوتا، اسلام سے دوری اور راہ فرار کے ہمارے حلیے و بہانے دھرے کے دھرے رہ جاتے۔ بہرحال آج بھی قرآن، سنت و حدیث ہمارے درمیان یقینا وہی حیثیت رکھتے ہیں جیسے حضورؐ نے خود اپنے عہد مبارک میں احکام صادر فرمائے تھے تاہم پھر بھی ہماری اکثریت ہے کہ ان سے دور بھاگے چلے جا رہی ہے چنانچہ امت مسلمہ و عالم اسلام کی حالت زار ہمارے سامنے ہے اور اس کا مستقبل ایک فکرانگیز المیہ و سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔

آج ہمارے معاشرے میں ہر قسم کی برائی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ احادیث نبویؐ کی روشنی میں ہمارے مصائب و آفات کس گناہ کی پاداش ہیں۔ زنا جب عام ہو جاتا ہے تو اموات کی کثرت ہو جاتی ہے۔ فیصلوں میں ظلم کرنے اور جھوٹے قسمیں کھانے والوں میں قتل و غارت گری عام ہو جاتی ہے۔ بے حیائی اور آلات لہو و لعب سے نت نئے امراض جنم لیتے ہیں۔ جھوٹ، فریب، دغا بازی، دھوکا دہی، فراڈ سے رزق میں تنگی آتی ہے۔ ناپ تول میں کمی، خیانت اور رشوت کا لین دین مہنگائی کے عذاب کا سبب بنتے ہیں۔ پانی کا بحران اور چوری و ڈکیتی کا سبب زکوٰۃ سے فرار اور حکام کا ظلم وستم ہے۔ اختلاف و انتشار، صفیں (باجماعت نماز) درست نہ کرنے سے دلوں میں پھوٹ پڑ جاتی ہے۔

دشمنوں سے مرعوبیت، اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی اور جہاد فی سبیل اللہ سے فرار، دشمن سے مرعوب ہونے اور اس کے سامنے ذلیل و رسوا ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ پس دیکھیے قرآن کیا فرماتا ہے ''اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں تفرقے میں نہ پڑو''۔ رسول اللہؐ کا یہ فرمان مذکورہ بالا پس منظر کی روش میں ملاحظہ فرمائیے حکمت سمجھ آجائے گی۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ ''اللہ تعالیٰ جس کے حق میں بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے'' یہ دین کی سمجھ بوجھ سے عاری ہونے کا ہی نتیجہ یا عذاب ہے کہ ہمیں آج بحیثیت مجموعی پوری امت مسلمہ مارکس کا سوشلزم، ملٹن کا لبرل ازم ، روسو کی ڈیموکریسی تو پسند ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لایا ہوا نظام پسند نہیں پھر بھی مسلمانی کا دعویٰ ہے۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی، اور جب بھی میں کہتا ہوں یا الٰہی صورت احوال دیکھ، حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامہ اعمال دیکھ ۔۔۔!


پس آج ہمیں درست فہم و ادراک اور شعور و آگہی، فکر سازی و ذہن سازی کی ضرورت ہے بالکل ان ہی خطوط پر جن پر رسول اللہؐ نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے عرب کی تربیت فرمائی تھی جن کے سدھرنے کے کوئی آثار دور دور تک دکھائی نہ دیتے تھے اور بعد از اسلام ان سے بہتر کوئی قوم اس روئے زمین پر چراغ لے کر بھی ڈھونڈو تو ملنے کی نہ تھی، اسلام میں غور و خوص، فکر و تدبر، فکر و ذہن سازی کی بڑی اہمیت ہے اسی لیے عابد پر عالم کی حیثیت ستاروں پر چودھویں کے چاند کی مانند ہے اور گھڑی بھر کا تدبر ہزار برس کی عبادت سے بہتر ہے۔ آخر میں حضرت علیؓ کا ایک ارشاد پیش کرتا ہوں فرماتے ہیں کہ ''حقیقی معنوں میں فقیہہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور نا امید نہ کرے، لوگوں کو گناہوں میں چھوٹ نہ دے اور نہ ہی انھیں اللہ کے عذاب سے بے خوف ہونے دے اور نہ ہی قرآن سے کسی حال میں اعراض کرے۔

یاد رکھو! بغیر علم کے عبادت میں خیر نہیں، ایسے علم میں بھلائی نہیں جو بے فہم ہو اور ایسی قرأت میں جان نہیں جو بغیر تدبر کے ہو''۔ مزید فرماتے ہیں کہ مسجد میں ایک گھڑی بیٹھ کر دین میں سمجھ بوجھ حاصل کروں یہ میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ میں ساری رات کھڑے ہو کر عبادت کرتا رہوں، ہر عمارت کا ایک ستون ہوتا ہے اسی طرح دین کا بنیادی ستون دین کی صحیح سمجھ ہے (مفتاح دارالسعادہ) دین اسلام کی تمام تر خوبصورتی موعظۃ حسنہ میں پنہاں ہے، عالم اسلام کے عظیم مفکر علامہ یوسف قرضاوی نے مسلم امہ کی ذہن سازی و فکر سازی پر سب سے زیادہ زور دیا ہے پس اس ضمن میں ہمارے لیے نبی کریمؐ کا انداز تعلیم و تربیت مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے جسے آج ہم نے بھلا دیا ہے، اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

پس آج ہماری عالمی سطح پر بدنامی و ناکامی اور مسائل و چیلنجز سے دو چار ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے، آج ہماری صورت احوال ہمارے نامہ اعمال سے جڑی ہے اور یہی اعمال ہمارے حقیقت احوال کے درست ترجمان ہیں۔
Load Next Story