خاک نشینوں کے نام پر
اگر ایسی آگ خدانخواستہ کسی اشرافیہ محلے میں لگتی تو پھر ہم دیکھتے کہ کیسے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں ناکارہ ملتیں
وطنِ عزیز میں غریبوں اور تہی دستوں کے نام پر بڑے بڑے کھیل کھیلے جاتے ہیں ۔تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے منشور پاکستان کے غریبوں اور مفلسوں کی اعانت کے دعوے کرتے تو نظرآتے ہیں لیکن یہ پارٹیاں اقتدار میں آکر غریبوں کو بھول بھال جاتی ہیں۔
ابھی چند دن پہلے سندھ کے ضلع دادُو کی تحصیل میہڑ کے ایک گاؤں میں مفلسوں کے درجنوں گھر رات کے اندھے اندھیرے میں کسی پُراسرار آگ نے جلا کرراکھ کر دیے مگر کوئی بروقت آگ بجھانے والا وہاں نہ پہنچا۔ فائر بریگیڈ کی سبھی گاڑیاں ناکارہ پائی گئیں ۔ تقریباً دس افراد جل کر خاکستر ہو گئے، زندگی بھر کی پونجیاں راکھ کا ڈھیر بن گئیں مگر کسی حکمران کی آنکھ نہ بھیگ سکی۔
ابھی تک یہ خانماں برباد غریب کھلے آسماں تلے بیٹھے ہیں۔ 14سال سے مسلسل سندھ کی حکمران جماعت، پیپلز پارٹی ، دادُو کے کوئلہ بن جانے والے انسانوں کی دستگیری کرنے میں محض اس لیے ناکام رہی کہ وہ تہی دست تھے۔
اگر ایسی آگ خدانخواستہ کسی اشرافیہ محلے میں لگتی تو پھر ہم دیکھتے کہ کیسے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں ناکارہ ملتیں۔اور یہ خبر کسی المیہ سے کم نہیں ہے کہ حکومت نے میہڑ کے ان بربادوں کے لیے خوراک کی جو امداد بھجوائی ، وہ بھی راستے ہی میں لُوٹ لی گئی ۔ اس میں مبینہ طور پر مقامی پولیس کے جوانوں کا نام لیا جارہا ہے۔اب اس کی بھی انکوائریاں ہوتی رہیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے ان سانحات کی تحقیقات کے لیے ایک جے آئی ٹی تو بنا دی ہے لیکن اس کا نتیجہ بھی ہمیں معلوم ہے ۔
سندھ کے ان مفلسوں پر شائد کبھی مستقبل میں کوئی کہانی یا ڈرامہ بھی لکھے ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ایسے سانحات تہی دستوں میں شدید قسم کی نفسیاتی الجھنیں پیدا کر دیتے ہیں ۔یہ نفسیاتی الجھنیں ساری عمر غریبوں کا تعاقب کرتی ہیں۔
ابھی چند دن پہلے مَیں نے 12سالہ انکیتا اجے کا لکھا شاندار ناولThe Whitest of Rosesپڑھا تو اس خیال نے دل کو بیقرار کر ڈالا : کیا ہمارے پاکستانی معاشرے میں سے ایسی کمسن ادیبہ پیدا ہو کر عالمی ادبی دُنیا میں تہلکہ نہیں مچا سکتی ؟ یارَب، ایسی چنگاری ہمارے خاکستر میں کیوں نہیں ہے ؟ انکیتا اجے بھارتی نژاد ناول نگار ہیں اور ایک خلیجی ریاست میں رہائش پذیر ۔ اُن کے مذکورہ ناول نے عالمی ادبی دُنیا میں ہلچل پیدا کر رکھی ہے ۔ انگریزی زبان میں لکھا یہ ناول سماج کے پسماندگان کی نفسیاتی اُلجھنوں کو جاننے کی ایک بھرپور اور باکمال کوشش ہے۔
انکیتا اجے کی قوتِ متخیلہ کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ وہ خود کبھی امریکا نہیں گئیں لیکن اُن کے ناول کی بنیاد اور بُنت امریکی سرزمین اور امریکی کرداروں پر رکھی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانی نفسیات کی الجھنوں کی تفہیم پر مشتمل کہانی اور افسانے رقم کرنا ایک دشوار تر مہم ہے ۔ انکیتا اجے کی مانند پاکستان میں بھی اس طرح کے تجربات کیے جا رہے ہیں ۔اگرچہ محدود پیمانے پر۔ میرے سامنے ایسے ہی افسانوں کا ایک مجموعہ دھرا پڑا ہے۔محترمہ فارحہ ارشد اس کی مصنفہ ہیں اور اُن کے لکھے گئے مشکل افسانوں کے مجموعے کا عنوان ہے : مونتاژ!
افسانہ نگار فارحہ ارشد نے اس مشکل مہم میں شائد اس لیے بھی قدم رکھنے کی جرأت کی ہے کیونکہ وہ علمِ نفسیات کی سنجیدہ طالبہ رہی ہیں ۔چند سال پہلے اُن کے لکھے ایک چشم کشا افسانے ''مَیں نیلکرائیاں نیلکاں'' کی طرف ایک ادب نواز دوست نے میری توجہ مبذول کروائی تھی ۔ یہ افسانہ کراچی سے شائع ہونے والے ایک معروف جریدے میں شائع ہُوا تھا۔ پڑھ کر راقم تو تھرا اُٹھا تھا۔ یہ افسانہ زیر نظر افسانوں کے مجموعے ''مونتاژ'' میں شامل نہیں ہے ۔ اس کا سبب شائد یہ ہو کہ فارحہ ارشد کا افسانے پرکھنے اور اپنے معیار پر لانے کا زاویہ اور ترازو بدل چکا ہے۔ مونتاژ (Montage) بذاتِ خود ایک نفسیاتی اصطلاح ہے۔
لخت لخت انسانی نفسیات کو بڑی احتیاط سے جوڑنے کا نام۔ متفرق تصاویر کو باہم جوڑ کر ایک کامل تصویر بنانے کا نام ہی ''مونتاژ'' کہلاتا ہے۔ فارحہ ارشد نے اپنی اس کتاب میں غریبوں کی بستی میں متفرق اور بکھرے انسانی چہروں کی نقاب کشائی کرکے ایک انسان کا ہیولہ بنانے کی سعی کی ہے۔زیر نظر کتاب میں اس انسان کے 22چہرے بنائے اور سجائے گئے ہیں ۔ ان22افسانوں میں فقط ایک ہی انسان ، خواہ وہ عورت ہے یا مرد ،ہمکتا اور دھڑکتا سامنے آتا ہے ۔ یہ مفلس انسان اُلجھا ہُوا ہے اور افسردہ ہے ۔ اور کسی یقین اور دستگیری کی تلاش میں ۔
نفسیاتی اُلجھنوں کے ساتھ ساتھ فارحہ ارشد نے وطنِ عزیز کے بے نواؤں کی دکھ شناسی کے لیے جرأتِ رندانہ کو بروئے کار لا کر اپنا مافی الضمیرکہنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر ''مونتاژ'' میں شامل پانچواں افسانہ : ڈھائی گز کمبل کا خدا ۔ یہ افتادگانِ خاک کی ایک اشک بار داستان ہے۔ایک عسرت زدہ اور بے اماں بچے کی کہانی۔ لاہور کے چوبرجی چوک کو اس کا محور بنایا گیا ہے۔ راقم چونکہ خود بھی چوبرجی کے مضافات میں برسوں قیام پذیر رہ چکا ہے ، اس لیے اس افسانے کی بُنت دیکھ کر اور منظر نگاری پڑھ کر مبہوت رہ گیا ہے ۔
''مونتاژ'' کی افسانہ نگار نے دیہاتی زندگی اور محرومیوں کے ماروں کو بھی اپنے قلم کی سان پر چڑھاکر دُکھوں اور دُکھیاروں کو ہمارے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نہایت مشکل فن ہے ، اس لیے کہ اس فنکاری کے لیے ذاتی مشاہدات کی بے حد ضرورت پڑتی ہے ۔ فارحہ ارشد کے اس فن کا اظہار اُن کے دو افسانوں (''حویلی مہر داد کی ملکہ'' اور'' شریکا'') میں ہوتا ہے ۔ اُنھوں نے دیہات میں مفلس عورتوں کے روز مرہ اور عمومی بول چال کا بھی خوب خوب استعمال کیا ہے۔
افسانہ نگار نے اپنی کہانیوں میں جن اصطلاحوں کو نہایت سہل اسلوب میں استعمال کیا ہے ، وہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ اُن کا اپنا بیک گراؤنڈ وطنِ عزیز کے کس علاقے اور خطے سے ہے۔ مصنفہ نے زیر نظر کتاب میں شامل افسانوں میں چار ایسے افسانے بھی شامل کیے ہیں جن کے عنوانات انگریزی زبان میں ہیں۔ اُردو، پنجابی ، سرائیکی اور انگریزی کے الفاظ کا استعمال کرکے مصنفہ نے اپنی داستانوں کے تنوع میں ایک ہمہ گیری اور یکجہتی پیدا کی ہے ۔ افسانہ ''اَن اسکرپٹڈ'' اِس کی ایک اور نظیر ہے ۔
اِس کتاب کا مجموعی ماحول یاس انگیز ہے ۔مَیں نے بیماری کی گرفت میں ہونے کے باوجود ''مونتاژ'' کی سبھی کہانیوں کو دلچسپی سے پڑھا ہے۔ اور یہ کہتے اور لکھتے ہُوئے مسرت ہورہی ہے کہ ''مونتاژ'' کی مصنفہ نے ہدف کے ساتھ افلاس زدگان کا اجتماعی نوحہ لکھا ہے۔ اُن کے افسانوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے مگر صبر کی ضرورت ہے ۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ ''مونتاژ'' کا طائرانہ سی نظر اور اُچٹتی نگاہ سے جائزہ لے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ مصنفہ نے کسی تجریدی مصور کی طرح اپنی کہانیوں میں اشاروں کی زبان بھی استعمال کی ہے ۔ مونتاژ ایسے مشکل فن کی شائد یہ بھی ایک پہچان ہے ۔
ابھی چند دن پہلے سندھ کے ضلع دادُو کی تحصیل میہڑ کے ایک گاؤں میں مفلسوں کے درجنوں گھر رات کے اندھے اندھیرے میں کسی پُراسرار آگ نے جلا کرراکھ کر دیے مگر کوئی بروقت آگ بجھانے والا وہاں نہ پہنچا۔ فائر بریگیڈ کی سبھی گاڑیاں ناکارہ پائی گئیں ۔ تقریباً دس افراد جل کر خاکستر ہو گئے، زندگی بھر کی پونجیاں راکھ کا ڈھیر بن گئیں مگر کسی حکمران کی آنکھ نہ بھیگ سکی۔
ابھی تک یہ خانماں برباد غریب کھلے آسماں تلے بیٹھے ہیں۔ 14سال سے مسلسل سندھ کی حکمران جماعت، پیپلز پارٹی ، دادُو کے کوئلہ بن جانے والے انسانوں کی دستگیری کرنے میں محض اس لیے ناکام رہی کہ وہ تہی دست تھے۔
اگر ایسی آگ خدانخواستہ کسی اشرافیہ محلے میں لگتی تو پھر ہم دیکھتے کہ کیسے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں ناکارہ ملتیں۔اور یہ خبر کسی المیہ سے کم نہیں ہے کہ حکومت نے میہڑ کے ان بربادوں کے لیے خوراک کی جو امداد بھجوائی ، وہ بھی راستے ہی میں لُوٹ لی گئی ۔ اس میں مبینہ طور پر مقامی پولیس کے جوانوں کا نام لیا جارہا ہے۔اب اس کی بھی انکوائریاں ہوتی رہیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے ان سانحات کی تحقیقات کے لیے ایک جے آئی ٹی تو بنا دی ہے لیکن اس کا نتیجہ بھی ہمیں معلوم ہے ۔
سندھ کے ان مفلسوں پر شائد کبھی مستقبل میں کوئی کہانی یا ڈرامہ بھی لکھے ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ایسے سانحات تہی دستوں میں شدید قسم کی نفسیاتی الجھنیں پیدا کر دیتے ہیں ۔یہ نفسیاتی الجھنیں ساری عمر غریبوں کا تعاقب کرتی ہیں۔
ابھی چند دن پہلے مَیں نے 12سالہ انکیتا اجے کا لکھا شاندار ناولThe Whitest of Rosesپڑھا تو اس خیال نے دل کو بیقرار کر ڈالا : کیا ہمارے پاکستانی معاشرے میں سے ایسی کمسن ادیبہ پیدا ہو کر عالمی ادبی دُنیا میں تہلکہ نہیں مچا سکتی ؟ یارَب، ایسی چنگاری ہمارے خاکستر میں کیوں نہیں ہے ؟ انکیتا اجے بھارتی نژاد ناول نگار ہیں اور ایک خلیجی ریاست میں رہائش پذیر ۔ اُن کے مذکورہ ناول نے عالمی ادبی دُنیا میں ہلچل پیدا کر رکھی ہے ۔ انگریزی زبان میں لکھا یہ ناول سماج کے پسماندگان کی نفسیاتی اُلجھنوں کو جاننے کی ایک بھرپور اور باکمال کوشش ہے۔
انکیتا اجے کی قوتِ متخیلہ کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ وہ خود کبھی امریکا نہیں گئیں لیکن اُن کے ناول کی بنیاد اور بُنت امریکی سرزمین اور امریکی کرداروں پر رکھی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانی نفسیات کی الجھنوں کی تفہیم پر مشتمل کہانی اور افسانے رقم کرنا ایک دشوار تر مہم ہے ۔ انکیتا اجے کی مانند پاکستان میں بھی اس طرح کے تجربات کیے جا رہے ہیں ۔اگرچہ محدود پیمانے پر۔ میرے سامنے ایسے ہی افسانوں کا ایک مجموعہ دھرا پڑا ہے۔محترمہ فارحہ ارشد اس کی مصنفہ ہیں اور اُن کے لکھے گئے مشکل افسانوں کے مجموعے کا عنوان ہے : مونتاژ!
افسانہ نگار فارحہ ارشد نے اس مشکل مہم میں شائد اس لیے بھی قدم رکھنے کی جرأت کی ہے کیونکہ وہ علمِ نفسیات کی سنجیدہ طالبہ رہی ہیں ۔چند سال پہلے اُن کے لکھے ایک چشم کشا افسانے ''مَیں نیلکرائیاں نیلکاں'' کی طرف ایک ادب نواز دوست نے میری توجہ مبذول کروائی تھی ۔ یہ افسانہ کراچی سے شائع ہونے والے ایک معروف جریدے میں شائع ہُوا تھا۔ پڑھ کر راقم تو تھرا اُٹھا تھا۔ یہ افسانہ زیر نظر افسانوں کے مجموعے ''مونتاژ'' میں شامل نہیں ہے ۔ اس کا سبب شائد یہ ہو کہ فارحہ ارشد کا افسانے پرکھنے اور اپنے معیار پر لانے کا زاویہ اور ترازو بدل چکا ہے۔ مونتاژ (Montage) بذاتِ خود ایک نفسیاتی اصطلاح ہے۔
لخت لخت انسانی نفسیات کو بڑی احتیاط سے جوڑنے کا نام۔ متفرق تصاویر کو باہم جوڑ کر ایک کامل تصویر بنانے کا نام ہی ''مونتاژ'' کہلاتا ہے۔ فارحہ ارشد نے اپنی اس کتاب میں غریبوں کی بستی میں متفرق اور بکھرے انسانی چہروں کی نقاب کشائی کرکے ایک انسان کا ہیولہ بنانے کی سعی کی ہے۔زیر نظر کتاب میں اس انسان کے 22چہرے بنائے اور سجائے گئے ہیں ۔ ان22افسانوں میں فقط ایک ہی انسان ، خواہ وہ عورت ہے یا مرد ،ہمکتا اور دھڑکتا سامنے آتا ہے ۔ یہ مفلس انسان اُلجھا ہُوا ہے اور افسردہ ہے ۔ اور کسی یقین اور دستگیری کی تلاش میں ۔
نفسیاتی اُلجھنوں کے ساتھ ساتھ فارحہ ارشد نے وطنِ عزیز کے بے نواؤں کی دکھ شناسی کے لیے جرأتِ رندانہ کو بروئے کار لا کر اپنا مافی الضمیرکہنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر ''مونتاژ'' میں شامل پانچواں افسانہ : ڈھائی گز کمبل کا خدا ۔ یہ افتادگانِ خاک کی ایک اشک بار داستان ہے۔ایک عسرت زدہ اور بے اماں بچے کی کہانی۔ لاہور کے چوبرجی چوک کو اس کا محور بنایا گیا ہے۔ راقم چونکہ خود بھی چوبرجی کے مضافات میں برسوں قیام پذیر رہ چکا ہے ، اس لیے اس افسانے کی بُنت دیکھ کر اور منظر نگاری پڑھ کر مبہوت رہ گیا ہے ۔
''مونتاژ'' کی افسانہ نگار نے دیہاتی زندگی اور محرومیوں کے ماروں کو بھی اپنے قلم کی سان پر چڑھاکر دُکھوں اور دُکھیاروں کو ہمارے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نہایت مشکل فن ہے ، اس لیے کہ اس فنکاری کے لیے ذاتی مشاہدات کی بے حد ضرورت پڑتی ہے ۔ فارحہ ارشد کے اس فن کا اظہار اُن کے دو افسانوں (''حویلی مہر داد کی ملکہ'' اور'' شریکا'') میں ہوتا ہے ۔ اُنھوں نے دیہات میں مفلس عورتوں کے روز مرہ اور عمومی بول چال کا بھی خوب خوب استعمال کیا ہے۔
افسانہ نگار نے اپنی کہانیوں میں جن اصطلاحوں کو نہایت سہل اسلوب میں استعمال کیا ہے ، وہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ اُن کا اپنا بیک گراؤنڈ وطنِ عزیز کے کس علاقے اور خطے سے ہے۔ مصنفہ نے زیر نظر کتاب میں شامل افسانوں میں چار ایسے افسانے بھی شامل کیے ہیں جن کے عنوانات انگریزی زبان میں ہیں۔ اُردو، پنجابی ، سرائیکی اور انگریزی کے الفاظ کا استعمال کرکے مصنفہ نے اپنی داستانوں کے تنوع میں ایک ہمہ گیری اور یکجہتی پیدا کی ہے ۔ افسانہ ''اَن اسکرپٹڈ'' اِس کی ایک اور نظیر ہے ۔
اِس کتاب کا مجموعی ماحول یاس انگیز ہے ۔مَیں نے بیماری کی گرفت میں ہونے کے باوجود ''مونتاژ'' کی سبھی کہانیوں کو دلچسپی سے پڑھا ہے۔ اور یہ کہتے اور لکھتے ہُوئے مسرت ہورہی ہے کہ ''مونتاژ'' کی مصنفہ نے ہدف کے ساتھ افلاس زدگان کا اجتماعی نوحہ لکھا ہے۔ اُن کے افسانوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے مگر صبر کی ضرورت ہے ۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ ''مونتاژ'' کا طائرانہ سی نظر اور اُچٹتی نگاہ سے جائزہ لے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ مصنفہ نے کسی تجریدی مصور کی طرح اپنی کہانیوں میں اشاروں کی زبان بھی استعمال کی ہے ۔ مونتاژ ایسے مشکل فن کی شائد یہ بھی ایک پہچان ہے ۔