پنجاب بحران در بحران
حقیقتاً قومی اسمبلی میں عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتمادکی منظوری ہی کا ایک شاخسانہ ہے
16 اپریل کو پنجاب اسمبلی میں جس انداز میں وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہوا اور اس دوران میں ایوان کے اندر جو کچھ ہوا ، اس کے نتیجہ میں اب تک ''نومنتخب وزیراعلیٰ '' کی حلف برداری کی تقریب نہیں ہو سکی ہے۔
یوں پنجاب اسمبلی کا موجودہ سیاسی بحران، جو حقیقتاً قومی اسمبلی میں عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتمادکی منظوری ہی کا ایک شاخسانہ ہے، اب تک تحلیل نہیں ہوا، بلکہ مزید سنگین، پیچیدہ اور خطرناک رخ اختیار کر گیا ہے،اور اب تک اس سلسلہ میں لاہور ہائی کورٹ نے جو 2 فیصلے جاری کیے ہیں ، وہ بھی اس بحران کو ختم کرنے میں عملی طور پر غیر موثر ثابت ہوئے ہیںاور یہ بحران جوں کا توں موجود ہے۔
اس میں شک نہیں کہ16اپریل کا وزیراعلیٰ پنجاب انتخاب لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے تحت ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کی نگرانی میں ہو رہا تھا۔ پنجاب اسمبلی کا انتظامی کنٹرول انھی کے پاس تھا ، اور اس روز پنجاب اسمبلی کے اندر اور باہر پولیس اور ایلیٹ فورس کی طرف سے جو کارروائی ہوئی ، انھی کے احکامات پر ہوئی، اور اس کا اعتراف وہ یہ کہہ کے کرچکے ہیں کہ یہ سب کچھ انھوں نے'' بہ امرمجبوری'' کیا۔
لیکن اس پر سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور تجزیہ کار حسن عسکری صاحب نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب ڈپٹی اسپیکر اور پولیس حکام کویہ معلوم تھا کہ ایوان میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالٰہی بھی موجود ہیں ، اور اس کارروائی کے نتیجے میں، جو افراتفری پیدا ہو گی، اس کا نقصان ان کو بھی پہنچ سکتا ہے ، توپولیس کارروائی سے اجتناب کیاجانا چاہیے تھا، اور پھر اس کے نتیجے میں وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا کہ ایوان کے اندر اس طرح کی صورت حال پیدا ہوئی کہ اسپیکرپنجاب اسمبلی اور وزیراعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویزالٰہی بھی مجروح ہوئے، اور وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ آئینی طور گورنر ، نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف لینے سے انکار نہیں کر سکتا ہے، جیسا کہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی اپنے فیصلہ میں قرار دیا ہے،لیکن گورنر ، نومنتخب وزیراعلیٰ سے فوری طور پر حلف لینے کا پابند بھی نہیں ہے ؛ اسی طرح وزیراعظم کی سمری پر گورنر کی تبدیلی ضروری ہے ، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں صدر مملکت ، گورنر کی تبدیلی کے لیے وزیراعظم کی طرف سے آنے والی سمری کو ایک مخصوص مدت تک روک کے رکھ سکتا ہے۔
یوں جس طرح ن لیگ ، آئین میں موجود گنجائش سے فائدہ اٹھا کے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے بل پر پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کے لیے کوشاں ہے ، اسی طرح پی ٹی آئی آئین میں موجود گنجایش سے استفادہ کرکے پنجاب میں اس کی حکومت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے ۔اس معاملہ میں مزید پیچیدگی یہ پیدا ہو چکی ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی، پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کی تحریری درخواست پر پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 24 منخرف ارکان اسمبلی ، جنھوں نے ن لیگ کے امیدوار حمزہ شہبازشریف کو ووٹ دیے ہیں۔
کی رکنیت کے خاتمہ کی کارروائی شروع کر چکے ہیں، اور ان کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو موصول ہو چکے ہیں۔آئینی طور پر الیکشن کمیشن ایک ماہ کے اندر اندر ان منحرف ارکان اسمبلی کی نشستیں خالی قرار دینے کا پابند ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نومنتخب وزیراعلیٰ، منتخب ہوتے ہی ایوان میں اپنی اکثریت پھر کھو بیٹھے گا ۔
پنجاب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری اس کشمکش پر21 اپریل کو مینار پاکستان گراونڈ میں پی ٹی آئی کے بڑے جلسہ نے بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ پنجاب کی سیاست میں آنے والے دنوں میں ن لیگ کے خلاف عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی ایک دوسرے کے حلیف ہیں اور یقینی طور پر سینٹرل پنجاب کی انتخابی سیاست میں عمران خان اس سے بہت مستفید ہوں گے۔
مینار پاکستان کے اس جلسہ کے نتیجہ میں پنجاب کے سیاسی حلقوں کو واضح طو رپر پیغام پہنچا ہے کہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ2018 کی طرح آیندہ الیکشن میں اہمیت رکھتا ہے ، اور کوئی بعید نہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی پہلے سے زیادہ اکثریت کے ساتھ کم بیک کرے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے جلسہ کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب سمیت ن لیگ کے بیشتر وزراء نے واضح طور پر یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ موجودہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی اور الیکشن 2023میں ہوں گے۔
پنجاب کے وزارت اعلیٰ کے حالیہ بحران، اور لاہور جلسہ ہی کا دباؤ معلوم ہوتا ہے ، جس کے باعث ن لیگ اب پنجاب کی گورنر شپ پیپلزپارٹی کو دینے پر تیار نہیںکہ موجودہ بحران میں گورنر کے عہدے کی اہمیت بھی ثابت ہو چکی ہے۔ تاہم ، پنجاب اسمبلی کے موجودہ بحران کا دوسرا دور حقیقتاً ، 26 اپریل کو شروع ہو رہا ہے ، جب پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہو گا ، یہ اجلاس چوہدری پرویزالٰہی نے بطور اسپیکر پنجاب اسمبلی طلب کیا ہوا ہے۔
اور یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس اجلاس میں 16 اپریل کو ایوان کے اندر پولیس کی آمد، اس پر سیکریٹری اسمبلی رپورٹ، اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پر حملہ سمیت وہ تمام متنازعہ امور زیر بحث آئیں گے ، جو پنجاب اسمبلی میں موجودہ بحران کی جڑ ہیں ۔دل چسپ بات یہ ہے کہ چند ماہ پیشتر پنجاب اسمبلی متفقہ طور پر ایک قانون منظور کر چکی ہے ،اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کو ایوان اور ارکان اسمبلی کا استحقاق مجروح ہونے پر ، متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کرنے، اور سزا دینے کے لیے خصوصی اختیارات اختیارات تفویض کر چکی ہے۔
16 اپریل کو ایوان کے اندر جو کچھ ہوا ، اس پر اسپیکر کی طرف سے ان خصوصی اختیارات کو استعمال کرنا خارج از امکان نہیں ہے۔ چوہدری پرویزالٰہی 16اپریل کو ایوان کے اندر یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ایوان کے اندر پولیس کی آمداور ارکان اسمبلی کا استحقاق مجروح ہونے پر وہ بطور اسپیکر، ذمے دار افسران سے ضرور جواب طلب کریں گے ، چنانچہ ن لیگ کی پوری کوشش ہو گی کہ 26 اپریل کو جب پنجاب اسمبلی کا موجودہ بحران ایک نئی صورت اختیار کر سکتا ہے، اس سے پیشتر حمزہ شہبازشریف کا بطور وزیراعلیٰ پنجاب حلف ہو جائے ۔
یوں پنجاب اسمبلی کا موجودہ سیاسی بحران، جو حقیقتاً قومی اسمبلی میں عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتمادکی منظوری ہی کا ایک شاخسانہ ہے، اب تک تحلیل نہیں ہوا، بلکہ مزید سنگین، پیچیدہ اور خطرناک رخ اختیار کر گیا ہے،اور اب تک اس سلسلہ میں لاہور ہائی کورٹ نے جو 2 فیصلے جاری کیے ہیں ، وہ بھی اس بحران کو ختم کرنے میں عملی طور پر غیر موثر ثابت ہوئے ہیںاور یہ بحران جوں کا توں موجود ہے۔
اس میں شک نہیں کہ16اپریل کا وزیراعلیٰ پنجاب انتخاب لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے تحت ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کی نگرانی میں ہو رہا تھا۔ پنجاب اسمبلی کا انتظامی کنٹرول انھی کے پاس تھا ، اور اس روز پنجاب اسمبلی کے اندر اور باہر پولیس اور ایلیٹ فورس کی طرف سے جو کارروائی ہوئی ، انھی کے احکامات پر ہوئی، اور اس کا اعتراف وہ یہ کہہ کے کرچکے ہیں کہ یہ سب کچھ انھوں نے'' بہ امرمجبوری'' کیا۔
لیکن اس پر سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور تجزیہ کار حسن عسکری صاحب نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب ڈپٹی اسپیکر اور پولیس حکام کویہ معلوم تھا کہ ایوان میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالٰہی بھی موجود ہیں ، اور اس کارروائی کے نتیجے میں، جو افراتفری پیدا ہو گی، اس کا نقصان ان کو بھی پہنچ سکتا ہے ، توپولیس کارروائی سے اجتناب کیاجانا چاہیے تھا، اور پھر اس کے نتیجے میں وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا کہ ایوان کے اندر اس طرح کی صورت حال پیدا ہوئی کہ اسپیکرپنجاب اسمبلی اور وزیراعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویزالٰہی بھی مجروح ہوئے، اور وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ آئینی طور گورنر ، نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف لینے سے انکار نہیں کر سکتا ہے، جیسا کہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی اپنے فیصلہ میں قرار دیا ہے،لیکن گورنر ، نومنتخب وزیراعلیٰ سے فوری طور پر حلف لینے کا پابند بھی نہیں ہے ؛ اسی طرح وزیراعظم کی سمری پر گورنر کی تبدیلی ضروری ہے ، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں صدر مملکت ، گورنر کی تبدیلی کے لیے وزیراعظم کی طرف سے آنے والی سمری کو ایک مخصوص مدت تک روک کے رکھ سکتا ہے۔
یوں جس طرح ن لیگ ، آئین میں موجود گنجائش سے فائدہ اٹھا کے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے بل پر پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کے لیے کوشاں ہے ، اسی طرح پی ٹی آئی آئین میں موجود گنجایش سے استفادہ کرکے پنجاب میں اس کی حکومت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے ۔اس معاملہ میں مزید پیچیدگی یہ پیدا ہو چکی ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی، پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کی تحریری درخواست پر پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 24 منخرف ارکان اسمبلی ، جنھوں نے ن لیگ کے امیدوار حمزہ شہبازشریف کو ووٹ دیے ہیں۔
کی رکنیت کے خاتمہ کی کارروائی شروع کر چکے ہیں، اور ان کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو موصول ہو چکے ہیں۔آئینی طور پر الیکشن کمیشن ایک ماہ کے اندر اندر ان منحرف ارکان اسمبلی کی نشستیں خالی قرار دینے کا پابند ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نومنتخب وزیراعلیٰ، منتخب ہوتے ہی ایوان میں اپنی اکثریت پھر کھو بیٹھے گا ۔
پنجاب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری اس کشمکش پر21 اپریل کو مینار پاکستان گراونڈ میں پی ٹی آئی کے بڑے جلسہ نے بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ پنجاب کی سیاست میں آنے والے دنوں میں ن لیگ کے خلاف عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی ایک دوسرے کے حلیف ہیں اور یقینی طور پر سینٹرل پنجاب کی انتخابی سیاست میں عمران خان اس سے بہت مستفید ہوں گے۔
مینار پاکستان کے اس جلسہ کے نتیجہ میں پنجاب کے سیاسی حلقوں کو واضح طو رپر پیغام پہنچا ہے کہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ2018 کی طرح آیندہ الیکشن میں اہمیت رکھتا ہے ، اور کوئی بعید نہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی پہلے سے زیادہ اکثریت کے ساتھ کم بیک کرے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے جلسہ کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب سمیت ن لیگ کے بیشتر وزراء نے واضح طور پر یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ موجودہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی اور الیکشن 2023میں ہوں گے۔
پنجاب کے وزارت اعلیٰ کے حالیہ بحران، اور لاہور جلسہ ہی کا دباؤ معلوم ہوتا ہے ، جس کے باعث ن لیگ اب پنجاب کی گورنر شپ پیپلزپارٹی کو دینے پر تیار نہیںکہ موجودہ بحران میں گورنر کے عہدے کی اہمیت بھی ثابت ہو چکی ہے۔ تاہم ، پنجاب اسمبلی کے موجودہ بحران کا دوسرا دور حقیقتاً ، 26 اپریل کو شروع ہو رہا ہے ، جب پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہو گا ، یہ اجلاس چوہدری پرویزالٰہی نے بطور اسپیکر پنجاب اسمبلی طلب کیا ہوا ہے۔
اور یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس اجلاس میں 16 اپریل کو ایوان کے اندر پولیس کی آمد، اس پر سیکریٹری اسمبلی رپورٹ، اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پر حملہ سمیت وہ تمام متنازعہ امور زیر بحث آئیں گے ، جو پنجاب اسمبلی میں موجودہ بحران کی جڑ ہیں ۔دل چسپ بات یہ ہے کہ چند ماہ پیشتر پنجاب اسمبلی متفقہ طور پر ایک قانون منظور کر چکی ہے ،اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کو ایوان اور ارکان اسمبلی کا استحقاق مجروح ہونے پر ، متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کرنے، اور سزا دینے کے لیے خصوصی اختیارات اختیارات تفویض کر چکی ہے۔
16 اپریل کو ایوان کے اندر جو کچھ ہوا ، اس پر اسپیکر کی طرف سے ان خصوصی اختیارات کو استعمال کرنا خارج از امکان نہیں ہے۔ چوہدری پرویزالٰہی 16اپریل کو ایوان کے اندر یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ایوان کے اندر پولیس کی آمداور ارکان اسمبلی کا استحقاق مجروح ہونے پر وہ بطور اسپیکر، ذمے دار افسران سے ضرور جواب طلب کریں گے ، چنانچہ ن لیگ کی پوری کوشش ہو گی کہ 26 اپریل کو جب پنجاب اسمبلی کا موجودہ بحران ایک نئی صورت اختیار کر سکتا ہے، اس سے پیشتر حمزہ شہبازشریف کا بطور وزیراعلیٰ پنجاب حلف ہو جائے ۔