اپنے بچوں پر جبر نہیں کیجئے ان کے دوست بنیے
والدین اگر بچوں کو کنٹرول کرنے کے بجائے ان سے دوستی کرکے مسائل حل کریں تو کوئی لڑکی گھر سے نہ بھاگے گی
BALOCHISTAN:
دعا زہرہ پہلی لڑکی نہیں ہے، جو گھر سے غائب ہوئی۔ بلکہ دعا سے پہلے بھی نجانے کتنی ہی لڑکیاں یا تو غائب کردی گئیں یا پھر انہوں نے بھی دعا زہرہ کی طرح اپنے والدین سے دور چند لمحوں کی محبت کے پیچھے بھاگتے ہوئے ایک نئی دنیا بسالی۔
دعا زہرہ کے غائب ہونے سے لے کر اس کے مل جانے تک نجانے کتنی باتیں اس کے خلاف اور اس کے حق میں کہی گئیں۔ دعا کے والدین کے مطابق ان کی بیٹی تو صرف کچرا پھینکنے گئی تھی اور پھر واپس ہی نہیں آئی۔ کچرا پھینکنے سے پہلے دعا اور اس لڑکے کے درمیان جس سے دعا محبت کی دعویدار تھی کیا کھچڑی پکی، انہیں اس کھچڑی کا علم ہی نہیں تھا۔
پورا پاکستان دعا زہرہ کی سلامتی اور اس کی جلد سے جلد گھر واپسی کےلیے دعاگو تھا۔ ہر والدین کو دعا زہرہ میں اپنی بچی نظر آرہی تھی۔ اور دعا کی والدہ کے آنسو ہر اس ماں کے دل پر گر رہے تھے جن کے گھر میں بیٹیاں موجود ہیں۔
حالانکہ ایک موقع پر چند شرپسندوں کی جانب سے دعا زہرہ کی گمشدگی کو فرقہ واریت کا رنگ دینے کی بھی کوشش کی گئی لیکن دعا زہرہ کیس صرف ایک گھر کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا معاملہ بن گیا تھا۔ کسی بھی فرقے، مسلک اور قومیت سے قطع نظر دعا کی والدہ کی طرح ہر ماں کی جان سولی پر اٹکی تھی اور ہر گھر میں دعا کی واپسی کےلیے دعائیں کی جارہی تھیں۔ اور پھر ماؤں کی دعائیں رنگ لے آئیں۔ دعا خود ہی منظر عام پر آگئی اور اپنے اغوا کی خبروں کو بالکل بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ تو خود اپنی مرضی سے گئی تھی، اسے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا اور نہ ہی بھگایا تھا۔
جہاں ایک طرف دعا کے ملنے کی خوشی تھی، وہیں دوسری طرف دعا کی اس بات نے مجھ سمیت پوری پاکستانی قوم کو ششدر کردیا کہ وہ اپنی اس ماں کے پاس جانے کےلیے تیار نہیں، جس نے اس کی یاد میں رو رو کر آنکھیں سجالی تھیں۔
دعا اس باپ کے پاس جانے سے انکاری تھی جس کی شفقت کے آگے دنیا کی ہر محبت کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر دنیا کی سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستیوں یعنی والدین کو چھوڑ کر دعا کو ایک انجانے شخص میں ایسا کیا نظر آیا کہ وہ اپنے والدین کو ہی اپنا دشمن سمجھ بیٹھی؟ آخر دعا کے والدین سے کہاں غلطی ہوئی کہ وہ اپنی بیٹی کے جذبات کو سمجھ ہی نہیں سکے؟ خیر باپ تو روزی کمانے کی غرض سے زیادہ تر وقت گھر سے باہر ہوتا ہے، لیکن 24 گھنٹے گھر میں رہنے والی ماں کو بھی اپنی بیٹی کی سرگرمیوں کے بارے میں علم نہیں ہوسکا؟
والدین، خاص طور پر ماں کو تو اپنی بیٹیوں کی ہر حرکت کے بارے میں پہلے ہی علم ہوجاتا ہے۔ بیٹیوں میں آنے والی چھوٹی سی تبدیلی بھی ماں کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہوسکتی۔ پھر ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ دعا اتنے عرصے سے کسی لڑکے کی محبت میں گرفتار رہی اور بالآخر اس نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کیا اور اس کی ماں کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوئی؟ آخر دعا کے اس انتہائی قدم اٹھانے کے پیچھے کیا وجہ تھی؟ کیوں دعا کے گھر سے بھاگنے کا علم اس کی ماں کو وقت سے پہلے نہیں ہوسکا؟
میں یہاں پورے پاکستان کی توجہ اس ایک انتہائی اہم نکتے کی طرف دلانا چاہوں گی کہ پاکستانی معاشرے میں خاندانی نظام کو تو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور بچوں کو کنٹرول میں رکھنے کے دعوے بھی بہت کیے جاتے ہیں، لیکن اگر والدین بچوں کو کنٹرول کرنے کے بجائے ان کے دوست بن کر ان کے اندر آنے والی جذباتی تبدیلیوں اور ان کے مسائل کو اپنے تجربے اور سمجھداری سے حل کرنے کی کوشش کریں تو لڑکیوں کے بھاگنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
گھر سے بھاگ کر والدین کی رسوائی کا باعث بننے پر لوگ دعا زہرہ کو تو خوب لعن طعن کررہے ہیں لیکن اس کے والدین سے کوئی سوال کیوں نہیں کررہا کہ آخر اسے اپنا گھر دوزخ کیوں لگنے لگا تھا کہ وہ ایک انجان لڑکے کے پاس اپنی جنت تلاش کرنے اکیلی ہی نکل کھڑی ہوئی۔
میری تمام والدین سے اپیل ہے کہ خدارا دعا زہرہ کیس کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیجیے اور جو غلطیاں دعا کے والدین سے ہوئیں آپ کم از کم وہ غلطیاں نہ کریں۔ اپنے بچوں پر بے جا پابندیاں لگانے، ان کے ساتھ برا سلوک کرنے اور انہیں کنٹرول کرنے کے بجائے ان کے دوست بنیے۔ اگر وہ کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو ان کو مارنے اور ان کی بے عزتی کرنے کے بجائے ایک دوست کی طرح انہیں اچھے اور برے کا فرق سمجھائیے، انہیں گالیاں نہ دیجئے، انہیں اس بات کا یقین دلائیے کہ اگر وہ اپنے مسائل اپنے والدین کو بتائیں گے تو انہیں شرمندہ نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کا مسئلہ حل کیا جائے گا۔
مانا کہ والدین دنیا کی سب سے مقدس ہستی ہوتے ہیں لیکن اکثر والدین کا رویہ اپنے بچوں کے ساتھ کسی سخت گیر استاد جیسا ہوتا ہے، جن سے بچے بات کرتے ہوئے بھی خوف کھاتے ہیں۔ لہٰذا اس صورتحال میں وہ اپنے مسائل اپنے والدین کو نہیں بتاتے اور انہیں اپنے طور پر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دعا زہرہ کیس میں بھی یہی ہوا۔ دعا نے ظہیر کے ساتھ دوستی کے بارے میں اپنی والدہ کو بتانے کے بجائے گھر سے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
جب بچوں کو اس بات کا یقین ہوجائے گا کہ والدین ان کی نادانیوں پر انہیں ڈانٹیں گے یا ماریں گے نہیں، بلکہ تحمل سے ان کی بات سن کر اس کا حل نکالنے کی کوشش کریں گے تو یقین کیجئے کہ بچے اور بچیاں گھروں سے کبھی نہیں بھاگیں گے اور نہ ہی والدین کےلیے ذلت اور رسوائی کا باعث بنیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دعا زہرہ پہلی لڑکی نہیں ہے، جو گھر سے غائب ہوئی۔ بلکہ دعا سے پہلے بھی نجانے کتنی ہی لڑکیاں یا تو غائب کردی گئیں یا پھر انہوں نے بھی دعا زہرہ کی طرح اپنے والدین سے دور چند لمحوں کی محبت کے پیچھے بھاگتے ہوئے ایک نئی دنیا بسالی۔
دعا زہرہ کے غائب ہونے سے لے کر اس کے مل جانے تک نجانے کتنی باتیں اس کے خلاف اور اس کے حق میں کہی گئیں۔ دعا کے والدین کے مطابق ان کی بیٹی تو صرف کچرا پھینکنے گئی تھی اور پھر واپس ہی نہیں آئی۔ کچرا پھینکنے سے پہلے دعا اور اس لڑکے کے درمیان جس سے دعا محبت کی دعویدار تھی کیا کھچڑی پکی، انہیں اس کھچڑی کا علم ہی نہیں تھا۔
پورا پاکستان دعا زہرہ کی سلامتی اور اس کی جلد سے جلد گھر واپسی کےلیے دعاگو تھا۔ ہر والدین کو دعا زہرہ میں اپنی بچی نظر آرہی تھی۔ اور دعا کی والدہ کے آنسو ہر اس ماں کے دل پر گر رہے تھے جن کے گھر میں بیٹیاں موجود ہیں۔
حالانکہ ایک موقع پر چند شرپسندوں کی جانب سے دعا زہرہ کی گمشدگی کو فرقہ واریت کا رنگ دینے کی بھی کوشش کی گئی لیکن دعا زہرہ کیس صرف ایک گھر کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا معاملہ بن گیا تھا۔ کسی بھی فرقے، مسلک اور قومیت سے قطع نظر دعا کی والدہ کی طرح ہر ماں کی جان سولی پر اٹکی تھی اور ہر گھر میں دعا کی واپسی کےلیے دعائیں کی جارہی تھیں۔ اور پھر ماؤں کی دعائیں رنگ لے آئیں۔ دعا خود ہی منظر عام پر آگئی اور اپنے اغوا کی خبروں کو بالکل بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ تو خود اپنی مرضی سے گئی تھی، اسے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا اور نہ ہی بھگایا تھا۔
جہاں ایک طرف دعا کے ملنے کی خوشی تھی، وہیں دوسری طرف دعا کی اس بات نے مجھ سمیت پوری پاکستانی قوم کو ششدر کردیا کہ وہ اپنی اس ماں کے پاس جانے کےلیے تیار نہیں، جس نے اس کی یاد میں رو رو کر آنکھیں سجالی تھیں۔
دعا اس باپ کے پاس جانے سے انکاری تھی جس کی شفقت کے آگے دنیا کی ہر محبت کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر دنیا کی سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستیوں یعنی والدین کو چھوڑ کر دعا کو ایک انجانے شخص میں ایسا کیا نظر آیا کہ وہ اپنے والدین کو ہی اپنا دشمن سمجھ بیٹھی؟ آخر دعا کے والدین سے کہاں غلطی ہوئی کہ وہ اپنی بیٹی کے جذبات کو سمجھ ہی نہیں سکے؟ خیر باپ تو روزی کمانے کی غرض سے زیادہ تر وقت گھر سے باہر ہوتا ہے، لیکن 24 گھنٹے گھر میں رہنے والی ماں کو بھی اپنی بیٹی کی سرگرمیوں کے بارے میں علم نہیں ہوسکا؟
والدین، خاص طور پر ماں کو تو اپنی بیٹیوں کی ہر حرکت کے بارے میں پہلے ہی علم ہوجاتا ہے۔ بیٹیوں میں آنے والی چھوٹی سی تبدیلی بھی ماں کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہوسکتی۔ پھر ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ دعا اتنے عرصے سے کسی لڑکے کی محبت میں گرفتار رہی اور بالآخر اس نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کیا اور اس کی ماں کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوئی؟ آخر دعا کے اس انتہائی قدم اٹھانے کے پیچھے کیا وجہ تھی؟ کیوں دعا کے گھر سے بھاگنے کا علم اس کی ماں کو وقت سے پہلے نہیں ہوسکا؟
میں یہاں پورے پاکستان کی توجہ اس ایک انتہائی اہم نکتے کی طرف دلانا چاہوں گی کہ پاکستانی معاشرے میں خاندانی نظام کو تو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور بچوں کو کنٹرول میں رکھنے کے دعوے بھی بہت کیے جاتے ہیں، لیکن اگر والدین بچوں کو کنٹرول کرنے کے بجائے ان کے دوست بن کر ان کے اندر آنے والی جذباتی تبدیلیوں اور ان کے مسائل کو اپنے تجربے اور سمجھداری سے حل کرنے کی کوشش کریں تو لڑکیوں کے بھاگنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
گھر سے بھاگ کر والدین کی رسوائی کا باعث بننے پر لوگ دعا زہرہ کو تو خوب لعن طعن کررہے ہیں لیکن اس کے والدین سے کوئی سوال کیوں نہیں کررہا کہ آخر اسے اپنا گھر دوزخ کیوں لگنے لگا تھا کہ وہ ایک انجان لڑکے کے پاس اپنی جنت تلاش کرنے اکیلی ہی نکل کھڑی ہوئی۔
میری تمام والدین سے اپیل ہے کہ خدارا دعا زہرہ کیس کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیجیے اور جو غلطیاں دعا کے والدین سے ہوئیں آپ کم از کم وہ غلطیاں نہ کریں۔ اپنے بچوں پر بے جا پابندیاں لگانے، ان کے ساتھ برا سلوک کرنے اور انہیں کنٹرول کرنے کے بجائے ان کے دوست بنیے۔ اگر وہ کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو ان کو مارنے اور ان کی بے عزتی کرنے کے بجائے ایک دوست کی طرح انہیں اچھے اور برے کا فرق سمجھائیے، انہیں گالیاں نہ دیجئے، انہیں اس بات کا یقین دلائیے کہ اگر وہ اپنے مسائل اپنے والدین کو بتائیں گے تو انہیں شرمندہ نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کا مسئلہ حل کیا جائے گا۔
مانا کہ والدین دنیا کی سب سے مقدس ہستی ہوتے ہیں لیکن اکثر والدین کا رویہ اپنے بچوں کے ساتھ کسی سخت گیر استاد جیسا ہوتا ہے، جن سے بچے بات کرتے ہوئے بھی خوف کھاتے ہیں۔ لہٰذا اس صورتحال میں وہ اپنے مسائل اپنے والدین کو نہیں بتاتے اور انہیں اپنے طور پر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دعا زہرہ کیس میں بھی یہی ہوا۔ دعا نے ظہیر کے ساتھ دوستی کے بارے میں اپنی والدہ کو بتانے کے بجائے گھر سے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
جب بچوں کو اس بات کا یقین ہوجائے گا کہ والدین ان کی نادانیوں پر انہیں ڈانٹیں گے یا ماریں گے نہیں، بلکہ تحمل سے ان کی بات سن کر اس کا حل نکالنے کی کوشش کریں گے تو یقین کیجئے کہ بچے اور بچیاں گھروں سے کبھی نہیں بھاگیں گے اور نہ ہی والدین کےلیے ذلت اور رسوائی کا باعث بنیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔