عید الفطر پاسنگ آوٹ کا دن
رمضان میں تربیتی کورس کے بعد عید کی حیثیت پاسنگ آؤٹ ڈے جیسی ہے اس لئے اس کے تقاضے بھی پورے کرنا چاہئیں
ISLAMABAD:
بچپن کی بات ہے ، ہمارے محلے میں ایک صوفی صاحب رہا کرتے تھے۔
عید الفطر کی صبح وہ ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے یا بیل بجا دیتے اور زور دار آ واز لگاتے '' تیار ہو جاؤ ، پا سنگ آ وٹ پریڈ کا وقت ہو گیا ہے، اللہ تعالیٰ خود اس پریڈ کا معائنہ کرے گا، جس کی کارکر دگی بہت اچھی ہوگی ، اُسے خصوصی انعام ملے گا۔''
ہمیں ان کی بات سمجھ نہیں آ تی تھی مگر اِ تنا ضرور پتہ چل جاتا تھا کہ نمازِ عید کا وقت ہو نے والا ہے، اب نماز عید کیلئے نئے کپڑے پہن کر تیار ہونا ہے، سب گھر والے عید کی تیاریوں میں لگ جا تے، ہم سب بچے اپنے دادا جی اور ابّا جی کے ساتھ بادشاہی مسجد نماز پڑھنے چلے جاتے۔
جب نماز ِ عید کے بعد گھر واپس آتے تو صوفی صاحب محلے کی نکڑ پر کھڑے ہوتے وہ ہر ایک سے عید ملتے، مگر یہ جملے ضرور بولتے''بھئی ! پورے مہینے کی ٹر نینگ کیسی رہی؟ صحیح ٹرنینگ کی ہے نا؟ اب باقی گیارہ ماہ دیکھتے ہیں کہ اس تربیتی کورس سے آ پ نے کیا سیکھا، ''کہتے تھے کہ ''اب اس ٹرنینگ کو جو کام ماہ رمضان میں کئے، پورا سال وہی سب کچھ کرنا ہے۔'' عر صہ ہوا صوفی صاحب کا وصال ہو چکا ہے۔ مگر انکی بات ہمارے لاشعور میں بیٹھ گئی کہ عید الفطر کا دن '' پا سنگ آ وٹ کا دن ہے۔''
جس طرح فوج ، پولیس ، رینجرز اور دوسرے محکموں کے اہلکار اپنی ٹریننگ پوری کرتے ہیں تو آخری دن ان کی پاسنگ آ وٹ پریڈ ہوتی ہے ، اعلیٰ حکام اور افسران اس پریڈ کا معا ئنہ کرتے ہیں ۔
دورانِ تربیت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالوں کا اعزازات سے نوازا جاتا ہے ۔ ٹریننگ مکمل کرنے والوں کو پاس کر دیا جاتا ہے، اور ان کی تعیناتی کر دی جاتی ہے اور وہ اپنی سروس میں اس ٹرنینگ سے استفادہ کرتے ہیں ۔ تنحواہ اور دوسری سہولیات وصول کرتے ہیں ۔ اسی طرح تمام مسلمانوں کی ماہ رمضان میں خصوصی ٹرنینگ کی جاتی ہے۔ اس ٹریننگ یا تربیتی کورس کا مقصد باقی زندگی کو بھی اسی طرح گزارنا ہے جیسے رمضان المبارک میں اہتمام کیا جاتا ہے۔
عید پر اُجلے کپڑے پہن کر جب تمام مسلمان عیدگاہ میں صبح کے وقت نماز عید ادا کرتے ہیں تو بالکل ایسا ہی تا ثر پیدا ہوتا ہے جیسے مختلف اداروں کی پاسنگ آ وٹ پریڈ کے وقت ہوتا ہے ۔ عید کے بعد پنجگانہ نماز کی ادائیگی اپنی اپنی '' یونٹوں'' یعنی محلوں میں ادا کی جاتی ہے اور زندگی کا ہر پہلو دین اسلام کے مطابق گزارنا فرض ہے۔
ماہ رمضان اور عیدالفطر کی روح کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ وہ ہمیں ہر سال '' تر بیتی کورس '' کا پورا موقع مہیا کرتا ہے، خشوع وخضوع سے یہ ''تر بیتی کورس'' مکمل کر نے والوں کو خصوصی انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ جس انعام سے مالک کائنات نوازے اُس سے بڑ ی خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایک بڑا طبقہ فلسفہ عید الفطر سمجھ ہی نہیں سکا ۔
عید پر وہ تمام کام کئے جاتے ہیں جو ممنوع ہیں
عید کا دن ایسے منایا جاتا ہے جیسے کسی قید سے '' رہائی '' ملی ہو، ہلا گلا، کھانے پینے، سیر وتفریح کرنے، بے جا اسراف کرنے اور اُن تمام کاموں میں یہ دن گزارا جاتا ہے کہ جس کی دین ِاسلام میں سختی کے ساتھ ممانعت ہے۔
اس دن طبقاتی تفریق اور سماجی ناہمواری اپنے عروج پر نظر آتی ہے، کروڑوں افراد کے چہروں پر مایوسی، دکھ اور احساس محرومی کے گہرے سا ئے صاف نظر آ رہے ہوتے ہیں، لا کھوں بیوائیں، یتیم بچے، معذور، بے بس و بے کس افراد حسرت بھرے چہروں سے متمول افراد کو ''عید'' مناتے دیکھتے ہیں ۔ غریب معصوم بچے جِن آنکھوں سے بے جا اسراف کرنے والے بچوں کو دیکھتے ہیں ہر اہل درد کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ اس دن اربوں روپے اپنی نفسانی و دنیا وی خواہشات پر خرچ کر دئیے جا تے ہیں۔ صدقہ فطرانہ دیکر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ فرض پورا ہو گیا۔ اب باقی رقم جہاں مرضی خرچ کریں، جہاں چاہیں اڑائیں ۔
یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی صریح اور کھلی نافرمانی ہے۔ رمضان المبارک اور عید الفطر کا فلسفہ ہی یہ ہے کہ جن کاموں کو قرآن حکیم میں کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ کئے جائیں اور جن کاموں سے منع کیا گیا ہے اُن سے باز رہا جائے۔
مساوات اور جذبہ ایثار کا دن
اسلام کی تمام تعلیمات انسانی مساوات اور معاشرتی توازن سے عبارت ہیں، تمام مسلمانوں کو ایک اُمت قرار دیا گیا ہے، ایک جیسی زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو مال ودولت کی نعمت سے نوازا ہے تو واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ اللہ کی امانت ہے اسے دوسرے اُمتوں پر اس طرح خرچ کیا جائے کہ وہ بھی بطور اُمتی ایک فعال کردار سر انجام دے سکیں، معاشرہ زکواۃ دینے والوں اور زکواۃ لینے والوں میں تقسیم نہیں کیا گیا ، یہ نظام معاشی نا ہمواری کوختم کرنے کیلئے قا ئم کیا گیا ہے، قرآن پاک، احادیث مبارکہ اور سنت نبوی ﷺ سے یہ فلسفہ بالکل واضح ہے کہ ضروریات سے بڑھ کر فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سخت ناپسند فرماتا ہے اور قرآن حکیم میں اس بات کو بالکل واضح کر دیا گیا ہے۔
آپﷺ کی حیات ِمبارکہ اور صحابہ کرام ؓ کی زندگیاں تمام اُمتیوں کیلئے حتمی راہنما اُصول ہیں، انہی تعلیما ت پر عمل کر کے ہی مسلمان کہلایا جا سکتا ہے ۔ رمضان المبارک اور عید الفطر کے پُرمسرت موقع پر خلوص وایثار، جذبہ قربانی اور مسا وات کا سختی کے ساتھ حکم دیا گیا ہے، مگر اب عید کے موقع پر کروڑوں دکھی انسانوں کو مزید دُکھی کر دیا جاتا ہے۔
صرف اپنی خو شیوں کا خیال
عید الفطر کے تہوار پر عجیب متضاد روّیے دیکھنے میں آتے ہیں، دین اسلام میں ر مضان اور یکم شوال کی اہمیت کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے یہ دن پاکیزگی اور مساوات کا دن ہے۔ عید الفطر کے موقع پر ہر قسم کی تفریق ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ تہوار بطور '' اُ متی'' منانے کا حکم دیا گیا ہے اور اس پاکیزہ دن کا واضح پیام ہے کہ تمام مسلمان ایک دوسرے کو اپنی خوشیوں میں شامل کریں، اسلام سے پہلے عربوں کے اپنے تہوار ہو تے تھے، مگر وہ تہوار انتہا ئی دکھ بھرے منا ظر کے حاصل ہوتے تھے، امراء اور روساء دل کھول کے مناتے تھے، غرباء ، غلام ، مساکین اور بے بس و بے کس افراد حسرت سے انھیں تہوار مناتا ہو ا دیکھتے تھے۔ بیوائیں اور یتیم بچوں میں احساس محرومی اور بھی بڑھ جاتا تھا ، خود غرضی اور نفس پرستی کے مناظر عروج پرنظر آتے تھے۔
اسلام سے پہلے کے تمام تہواروں کو ختم کر دیا گیا، کیونکہ ان تہواروں سے عدم مساوات کا تاثر اُ بھرتا تھا، اور واضح کر دیا گیا ہے کہ ہر مسلمان کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں۔ دکھ اور سکھ سانجھے ہیں۔ مگر کچھ لوگ خودغرض اور بے حس ہی ہوتے ہیں، جنہیںصرف اپنی خوشیاں عزیز ہوتی ہیں ۔ جنہیں دین ِاسلام سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، نہ ہی دین کے فلسفے سے اور نہ ہی اسلامی احکامات کی اصل روح کو سمجھنے میں دلچسپی ہوتی ہے،یہ صرف اپنے نفس کے غلام ہوتے ہیں۔
وطن ِ عزیز میں بھی جہاں دور ِ جاہلیت کے تہواروں کے مناظر کثرت سے دکھائی دیتے ہیں، وہاں بے شمار افراد ایسے بھی ہیں جو ماہ رمضان اور عید الفطر کو دین اسلام کے احکامات کے عین مطابق دکھی انسانوں اور نادار افراد میں خوشیاں بانٹتے نظر آتے ہیں۔
خوشیاں بانٹنے کا ایک انداز
لا ہور کے ایک بہت بڑ ے تاجر جو کہ الیکٹرو نکس کا کاروبا ر کرتے ہیں ۔ عید سے دو تین روز قبل لاہور کے مختلف با زاروں میں جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ٹھیلے والوں اور دکانداروں سے عام استعمال کا کافی سا مان خریدتے ہیں۔ اُن کو منُہ مانگے دام دیتے ہیں، دانستہ طور پر بڑ ے نوٹ دیتے ہیں اور بقایا رقم واپس نہیں لیتے، ''کہتے ہیں ! پیشہ ور فقیروں پر رقم خرچ کرنے کی بجائے ایسے خوددار محنت کشوں پر رقم خرچ کرنا زیادہ احسن ہے۔''
عید الفطر کے موقع پر اپنے تمام غریب جاننے والوں کے گھروں میں جاتے ہیں اور عیدی کے طور پر خطیر رقم دیتے ہیں، اور اس دن وہ اور انکے اہل خا نہ شکرانے کے نوافل زیادہ سے زیادہ ادا کرتے ہیں۔گھر آنے والے تمام مہمانوں کی شاندار طریقے سے تواضح بھی کرتے ہیں۔'' کہتے ہیں ! ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتے۔'' ٹھیلوں سے خریدا ہوا سامان وہ نادار افراد میں تقسیم کر دیتے ہیں اس طرح انھیں دُگنا ثواب ملتا ہے۔
ذخیرہ اندوزی ، چور بازاری اور رشوت کی رقم سے فطرانہ کی ادائیگی
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عید کے موقع پر تمام اشیائے خورونوش کے ریٹس انتہائی بڑ ھا دئیے جاتے ہیں۔ صاحب حیثیت افراد کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا مگر وطن عزیز کی تقر یباً 65 فیصد آ بادی اس موقع پر مہنگائی کی وجہ سے عام استعمال کی چیزوں سے بھی محروم ہو جاتی ہے۔ دکاندار اور ہُنرمند ہر ایک سے زبردستی ''عیدی'' وصول کرتے ہیں، رمضان المبارک میں رشوت کے ریٹس بھی بڑھ جاتے ہیں ، پھر عید کے موقع پر اسی رشوت کی رقم سے فطرانہ دیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ دل میں خوف خدا ہی نہیں پیدا ہو تا؟۔
عیدالفطر کا دن بخشش اور انعام کا دن ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا دن ہے۔ سب کچھ دے کر بھی اسکی نعمتوں کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا۔ معذور افراد، بے بس و بے کس افراد، یتیم بچوں، بیواؤں، بیماروں اور مجبور انسانوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکراداکرنا چاہیے۔ ایسے افراد میںخوشیاں بانٹنا ہی اس دن کا اصل تقاضا ہے۔ اسلامی تہوار اور عہد جاہلیت کے تہواروں میں کچھ فرق نظر آ نا چاہیے یہ نہ ہو کہ بخشش کی خوش فہمی میں اللہ کی قائم کی ہوئی حدود کو ہی یاد نہ رکھا جائے، اور اس کی ناراضگی کا سبب بن جائے۔
اس دن مزدوری کرنے والے اور معصوم بچوں اور دوسرے افراد کا خاص خیال رکھا جائے۔ اس پُرمسرت موقع پر اُن ملازمت پیشہ افراد کو بھی اہمیت دی جائے، جو اپنے بیوی بچوں سے دور رہ کر ہمیں خوشیاں مہیا کرتے ہیں، دوسروں کا احساس کرنا ہی اس مبارک دن کی اصل روح اور مقصد ہے۔ عید کے بعد بھی اسلامی و قومی اجتماعی زندگی کا تصور قا ئم رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن پاک کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!!!
آ پس میں محبت بڑ ھانے کی بجائے تفریح پر زور
اگرچہ یہ تہوار آپس میں محبتیں بڑھانے اور ایثار وقربانی کا دن ہے مگر لوگ آپس میں میل ملاپ کی بجائے تفریحی مقامات پر جانے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ تفریحی مقا مات تو سارا سال کھلے رہتے ہیں ۔ چڑ یا گھر میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ جاتے ہیں۔ اس وقت جگ جگہ ایسے''پلے لینڈ'' قائم ہو چکے ہیں کہ جن کے جھولوں میں بیٹھنے کی ٹکٹ کافی زیادہ ہوتی ہے، لوگوں نے ایسی جگہوں پر پیسہ ضائع کرنا اپنی روش ہی بنالی ہے۔
چند لمحوں کی تفریح کی بجائے مستحق افراد کی مدد کرکے دائمی خوشیاں اور سکون حاصل کیا جا سکتا ہے اور رشتہ داروں اور دوست احباب سے میل ملاپ رکھا جائے تا کہ معاشرے میں اُخوت اور محبت میں اضافہ ہو۔ اس دن سنیماؤں اور تھیٹروں میں بھی بہت رش ہوتا ہے، ہوٹل اور ریسٹورنٹ بھی بھرے ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پورے سال میں سب سے زیادہ سوفٹ ڈرنک (بوتلیں ) اور فاسٹ فوڈ عید کے موقع پر کھایا جاتا ہے۔ رقم کے اسراف کے ساتھ بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔
فطرانہ کی ادائیگی ؟
فطرانہ ادا کرنے کے الگ الگ نصاب ہیں ایک صاع گندم کے حساب سے بھی فطرانہ دیا جا سکتا ہے۔ ایک صاع کجھور یا چھوارے کے حساب سے دیا جا سکتا ہے۔ ایک صاع کشمش کے حساب سے بھی دیا جا سکتا ہے ۔
آ ج کل گندم کے حساب سے تقر یباً100 روپے سے لیکر 120روپے تک بنتے ہیں، جبکہ کجھور اور کشمش کے حساب سے زیادہ بنتے ہیں ، مگر دیکھا گیا ہے کہ صاحب استعداد اور صاحب حیثیت افراد بھی گندم کے حساب سے ہی فطرانہ ادا کرتے ہیں اور وہ بھی مساجد کے باہر اور بازاروں میں گھومنے والے فقیروں کو دیکر گویا اس فریضے سے جان چھڑواتے ہیں کہ جو اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔ زکواۃ اور فطرانہ اُن لوگوں کا حق ہے جنہیں آپ جانتے ہیں کہ وہ واقعتاً گردش حالات کا شکار اور مستحق بھی ہیں۔کشمش کے حساب سے فطرانہ ادا کرنا زیادہ بہتر ہے۔
بخشش کی خوشخبری اور عوام کی بے فکری
عیدالفطر کے پُرمسرت موقع پر نماز عید سے پہلے جو اُردو خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ اس میں تقریباً تما م علماء کرام اور امام حضرات یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ ماہ رمضان میں ر وزے رکھنے، تراویح پڑھنے، زکواۃ دینے اور لیلۃ القدر پر عبادت کرنے کی وجہ سے روزہ داروں کے تمام گناہ معاف ہو گئے ہیں، ا س موقع پر عموماً نہ تو رمضان المبارک کا فلسفہ بیان کیا جاتا ہے نہ ہی عید الفطر کا۔ عام نماز ی سمجھتے ہیں کہ ہماری بخشش ہو گئی ہے اب یہ دن موج مستی کا دن ہے، اب وہ ہر قسم کی مذہبی قیود سے آزاد ہیں وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جو فرشتے بخشش کی عید لیکر آسمانوں سے اُ ترتے ہیں وہ لہو ولہب میں ڈ وبے اور موج مستیوں میں مشغول افراد کو نہیں دیکھتے ہو ں گے؟
عید کے دنوں میں نمازیوں کی تعداد میں کمی
عجیب بات نظر آتی ہے کہ نماز عید کے بعد باقی نمازوں کیلئے مساجد میں بہت ہی کم نمازی نظرآتے ہیں، یہ عیدالفطر ''مزدروی'' ملنے کا دن ہے اس روز فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین پر اُترتے ہیں اور روزہ داروں کو اللہ کے راضی ہونے کی خوشخبری سنا رہے ہوتے ہیں، مگر نہ مساجد میں نمازی نظرآتے ہیںاور نہ ہی لوگ گھروں میں پنجگانہ نماز کی پابندی کرتے ہیں، یہ تہوار انتہائی پاکیزگی کا حامل ہے مگر اس دن لہو ولہب کے منا ظر زیادہ نظرآتے ہیں۔
بچپن کی بات ہے ، ہمارے محلے میں ایک صوفی صاحب رہا کرتے تھے۔
عید الفطر کی صبح وہ ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے یا بیل بجا دیتے اور زور دار آ واز لگاتے '' تیار ہو جاؤ ، پا سنگ آ وٹ پریڈ کا وقت ہو گیا ہے، اللہ تعالیٰ خود اس پریڈ کا معائنہ کرے گا، جس کی کارکر دگی بہت اچھی ہوگی ، اُسے خصوصی انعام ملے گا۔''
ہمیں ان کی بات سمجھ نہیں آ تی تھی مگر اِ تنا ضرور پتہ چل جاتا تھا کہ نمازِ عید کا وقت ہو نے والا ہے، اب نماز عید کیلئے نئے کپڑے پہن کر تیار ہونا ہے، سب گھر والے عید کی تیاریوں میں لگ جا تے، ہم سب بچے اپنے دادا جی اور ابّا جی کے ساتھ بادشاہی مسجد نماز پڑھنے چلے جاتے۔
جب نماز ِ عید کے بعد گھر واپس آتے تو صوفی صاحب محلے کی نکڑ پر کھڑے ہوتے وہ ہر ایک سے عید ملتے، مگر یہ جملے ضرور بولتے''بھئی ! پورے مہینے کی ٹر نینگ کیسی رہی؟ صحیح ٹرنینگ کی ہے نا؟ اب باقی گیارہ ماہ دیکھتے ہیں کہ اس تربیتی کورس سے آ پ نے کیا سیکھا، ''کہتے تھے کہ ''اب اس ٹرنینگ کو جو کام ماہ رمضان میں کئے، پورا سال وہی سب کچھ کرنا ہے۔'' عر صہ ہوا صوفی صاحب کا وصال ہو چکا ہے۔ مگر انکی بات ہمارے لاشعور میں بیٹھ گئی کہ عید الفطر کا دن '' پا سنگ آ وٹ کا دن ہے۔''
جس طرح فوج ، پولیس ، رینجرز اور دوسرے محکموں کے اہلکار اپنی ٹریننگ پوری کرتے ہیں تو آخری دن ان کی پاسنگ آ وٹ پریڈ ہوتی ہے ، اعلیٰ حکام اور افسران اس پریڈ کا معا ئنہ کرتے ہیں ۔
دورانِ تربیت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالوں کا اعزازات سے نوازا جاتا ہے ۔ ٹریننگ مکمل کرنے والوں کو پاس کر دیا جاتا ہے، اور ان کی تعیناتی کر دی جاتی ہے اور وہ اپنی سروس میں اس ٹرنینگ سے استفادہ کرتے ہیں ۔ تنحواہ اور دوسری سہولیات وصول کرتے ہیں ۔ اسی طرح تمام مسلمانوں کی ماہ رمضان میں خصوصی ٹرنینگ کی جاتی ہے۔ اس ٹریننگ یا تربیتی کورس کا مقصد باقی زندگی کو بھی اسی طرح گزارنا ہے جیسے رمضان المبارک میں اہتمام کیا جاتا ہے۔
عید پر اُجلے کپڑے پہن کر جب تمام مسلمان عیدگاہ میں صبح کے وقت نماز عید ادا کرتے ہیں تو بالکل ایسا ہی تا ثر پیدا ہوتا ہے جیسے مختلف اداروں کی پاسنگ آ وٹ پریڈ کے وقت ہوتا ہے ۔ عید کے بعد پنجگانہ نماز کی ادائیگی اپنی اپنی '' یونٹوں'' یعنی محلوں میں ادا کی جاتی ہے اور زندگی کا ہر پہلو دین اسلام کے مطابق گزارنا فرض ہے۔
ماہ رمضان اور عیدالفطر کی روح کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ وہ ہمیں ہر سال '' تر بیتی کورس '' کا پورا موقع مہیا کرتا ہے، خشوع وخضوع سے یہ ''تر بیتی کورس'' مکمل کر نے والوں کو خصوصی انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ جس انعام سے مالک کائنات نوازے اُس سے بڑ ی خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایک بڑا طبقہ فلسفہ عید الفطر سمجھ ہی نہیں سکا ۔
عید پر وہ تمام کام کئے جاتے ہیں جو ممنوع ہیں
عید کا دن ایسے منایا جاتا ہے جیسے کسی قید سے '' رہائی '' ملی ہو، ہلا گلا، کھانے پینے، سیر وتفریح کرنے، بے جا اسراف کرنے اور اُن تمام کاموں میں یہ دن گزارا جاتا ہے کہ جس کی دین ِاسلام میں سختی کے ساتھ ممانعت ہے۔
اس دن طبقاتی تفریق اور سماجی ناہمواری اپنے عروج پر نظر آتی ہے، کروڑوں افراد کے چہروں پر مایوسی، دکھ اور احساس محرومی کے گہرے سا ئے صاف نظر آ رہے ہوتے ہیں، لا کھوں بیوائیں، یتیم بچے، معذور، بے بس و بے کس افراد حسرت بھرے چہروں سے متمول افراد کو ''عید'' مناتے دیکھتے ہیں ۔ غریب معصوم بچے جِن آنکھوں سے بے جا اسراف کرنے والے بچوں کو دیکھتے ہیں ہر اہل درد کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ اس دن اربوں روپے اپنی نفسانی و دنیا وی خواہشات پر خرچ کر دئیے جا تے ہیں۔ صدقہ فطرانہ دیکر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ فرض پورا ہو گیا۔ اب باقی رقم جہاں مرضی خرچ کریں، جہاں چاہیں اڑائیں ۔
یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی صریح اور کھلی نافرمانی ہے۔ رمضان المبارک اور عید الفطر کا فلسفہ ہی یہ ہے کہ جن کاموں کو قرآن حکیم میں کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ کئے جائیں اور جن کاموں سے منع کیا گیا ہے اُن سے باز رہا جائے۔
مساوات اور جذبہ ایثار کا دن
اسلام کی تمام تعلیمات انسانی مساوات اور معاشرتی توازن سے عبارت ہیں، تمام مسلمانوں کو ایک اُمت قرار دیا گیا ہے، ایک جیسی زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو مال ودولت کی نعمت سے نوازا ہے تو واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ اللہ کی امانت ہے اسے دوسرے اُمتوں پر اس طرح خرچ کیا جائے کہ وہ بھی بطور اُمتی ایک فعال کردار سر انجام دے سکیں، معاشرہ زکواۃ دینے والوں اور زکواۃ لینے والوں میں تقسیم نہیں کیا گیا ، یہ نظام معاشی نا ہمواری کوختم کرنے کیلئے قا ئم کیا گیا ہے، قرآن پاک، احادیث مبارکہ اور سنت نبوی ﷺ سے یہ فلسفہ بالکل واضح ہے کہ ضروریات سے بڑھ کر فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سخت ناپسند فرماتا ہے اور قرآن حکیم میں اس بات کو بالکل واضح کر دیا گیا ہے۔
آپﷺ کی حیات ِمبارکہ اور صحابہ کرام ؓ کی زندگیاں تمام اُمتیوں کیلئے حتمی راہنما اُصول ہیں، انہی تعلیما ت پر عمل کر کے ہی مسلمان کہلایا جا سکتا ہے ۔ رمضان المبارک اور عید الفطر کے پُرمسرت موقع پر خلوص وایثار، جذبہ قربانی اور مسا وات کا سختی کے ساتھ حکم دیا گیا ہے، مگر اب عید کے موقع پر کروڑوں دکھی انسانوں کو مزید دُکھی کر دیا جاتا ہے۔
صرف اپنی خو شیوں کا خیال
عید الفطر کے تہوار پر عجیب متضاد روّیے دیکھنے میں آتے ہیں، دین اسلام میں ر مضان اور یکم شوال کی اہمیت کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے یہ دن پاکیزگی اور مساوات کا دن ہے۔ عید الفطر کے موقع پر ہر قسم کی تفریق ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ تہوار بطور '' اُ متی'' منانے کا حکم دیا گیا ہے اور اس پاکیزہ دن کا واضح پیام ہے کہ تمام مسلمان ایک دوسرے کو اپنی خوشیوں میں شامل کریں، اسلام سے پہلے عربوں کے اپنے تہوار ہو تے تھے، مگر وہ تہوار انتہا ئی دکھ بھرے منا ظر کے حاصل ہوتے تھے، امراء اور روساء دل کھول کے مناتے تھے، غرباء ، غلام ، مساکین اور بے بس و بے کس افراد حسرت سے انھیں تہوار مناتا ہو ا دیکھتے تھے۔ بیوائیں اور یتیم بچوں میں احساس محرومی اور بھی بڑھ جاتا تھا ، خود غرضی اور نفس پرستی کے مناظر عروج پرنظر آتے تھے۔
اسلام سے پہلے کے تمام تہواروں کو ختم کر دیا گیا، کیونکہ ان تہواروں سے عدم مساوات کا تاثر اُ بھرتا تھا، اور واضح کر دیا گیا ہے کہ ہر مسلمان کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں۔ دکھ اور سکھ سانجھے ہیں۔ مگر کچھ لوگ خودغرض اور بے حس ہی ہوتے ہیں، جنہیںصرف اپنی خوشیاں عزیز ہوتی ہیں ۔ جنہیں دین ِاسلام سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، نہ ہی دین کے فلسفے سے اور نہ ہی اسلامی احکامات کی اصل روح کو سمجھنے میں دلچسپی ہوتی ہے،یہ صرف اپنے نفس کے غلام ہوتے ہیں۔
وطن ِ عزیز میں بھی جہاں دور ِ جاہلیت کے تہواروں کے مناظر کثرت سے دکھائی دیتے ہیں، وہاں بے شمار افراد ایسے بھی ہیں جو ماہ رمضان اور عید الفطر کو دین اسلام کے احکامات کے عین مطابق دکھی انسانوں اور نادار افراد میں خوشیاں بانٹتے نظر آتے ہیں۔
خوشیاں بانٹنے کا ایک انداز
لا ہور کے ایک بہت بڑ ے تاجر جو کہ الیکٹرو نکس کا کاروبا ر کرتے ہیں ۔ عید سے دو تین روز قبل لاہور کے مختلف با زاروں میں جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ٹھیلے والوں اور دکانداروں سے عام استعمال کا کافی سا مان خریدتے ہیں۔ اُن کو منُہ مانگے دام دیتے ہیں، دانستہ طور پر بڑ ے نوٹ دیتے ہیں اور بقایا رقم واپس نہیں لیتے، ''کہتے ہیں ! پیشہ ور فقیروں پر رقم خرچ کرنے کی بجائے ایسے خوددار محنت کشوں پر رقم خرچ کرنا زیادہ احسن ہے۔''
عید الفطر کے موقع پر اپنے تمام غریب جاننے والوں کے گھروں میں جاتے ہیں اور عیدی کے طور پر خطیر رقم دیتے ہیں، اور اس دن وہ اور انکے اہل خا نہ شکرانے کے نوافل زیادہ سے زیادہ ادا کرتے ہیں۔گھر آنے والے تمام مہمانوں کی شاندار طریقے سے تواضح بھی کرتے ہیں۔'' کہتے ہیں ! ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتے۔'' ٹھیلوں سے خریدا ہوا سامان وہ نادار افراد میں تقسیم کر دیتے ہیں اس طرح انھیں دُگنا ثواب ملتا ہے۔
ذخیرہ اندوزی ، چور بازاری اور رشوت کی رقم سے فطرانہ کی ادائیگی
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عید کے موقع پر تمام اشیائے خورونوش کے ریٹس انتہائی بڑ ھا دئیے جاتے ہیں۔ صاحب حیثیت افراد کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا مگر وطن عزیز کی تقر یباً 65 فیصد آ بادی اس موقع پر مہنگائی کی وجہ سے عام استعمال کی چیزوں سے بھی محروم ہو جاتی ہے۔ دکاندار اور ہُنرمند ہر ایک سے زبردستی ''عیدی'' وصول کرتے ہیں، رمضان المبارک میں رشوت کے ریٹس بھی بڑھ جاتے ہیں ، پھر عید کے موقع پر اسی رشوت کی رقم سے فطرانہ دیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ دل میں خوف خدا ہی نہیں پیدا ہو تا؟۔
عیدالفطر کا دن بخشش اور انعام کا دن ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا دن ہے۔ سب کچھ دے کر بھی اسکی نعمتوں کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا۔ معذور افراد، بے بس و بے کس افراد، یتیم بچوں، بیواؤں، بیماروں اور مجبور انسانوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکراداکرنا چاہیے۔ ایسے افراد میںخوشیاں بانٹنا ہی اس دن کا اصل تقاضا ہے۔ اسلامی تہوار اور عہد جاہلیت کے تہواروں میں کچھ فرق نظر آ نا چاہیے یہ نہ ہو کہ بخشش کی خوش فہمی میں اللہ کی قائم کی ہوئی حدود کو ہی یاد نہ رکھا جائے، اور اس کی ناراضگی کا سبب بن جائے۔
اس دن مزدوری کرنے والے اور معصوم بچوں اور دوسرے افراد کا خاص خیال رکھا جائے۔ اس پُرمسرت موقع پر اُن ملازمت پیشہ افراد کو بھی اہمیت دی جائے، جو اپنے بیوی بچوں سے دور رہ کر ہمیں خوشیاں مہیا کرتے ہیں، دوسروں کا احساس کرنا ہی اس مبارک دن کی اصل روح اور مقصد ہے۔ عید کے بعد بھی اسلامی و قومی اجتماعی زندگی کا تصور قا ئم رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن پاک کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!!!
آ پس میں محبت بڑ ھانے کی بجائے تفریح پر زور
اگرچہ یہ تہوار آپس میں محبتیں بڑھانے اور ایثار وقربانی کا دن ہے مگر لوگ آپس میں میل ملاپ کی بجائے تفریحی مقامات پر جانے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ تفریحی مقا مات تو سارا سال کھلے رہتے ہیں ۔ چڑ یا گھر میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ جاتے ہیں۔ اس وقت جگ جگہ ایسے''پلے لینڈ'' قائم ہو چکے ہیں کہ جن کے جھولوں میں بیٹھنے کی ٹکٹ کافی زیادہ ہوتی ہے، لوگوں نے ایسی جگہوں پر پیسہ ضائع کرنا اپنی روش ہی بنالی ہے۔
چند لمحوں کی تفریح کی بجائے مستحق افراد کی مدد کرکے دائمی خوشیاں اور سکون حاصل کیا جا سکتا ہے اور رشتہ داروں اور دوست احباب سے میل ملاپ رکھا جائے تا کہ معاشرے میں اُخوت اور محبت میں اضافہ ہو۔ اس دن سنیماؤں اور تھیٹروں میں بھی بہت رش ہوتا ہے، ہوٹل اور ریسٹورنٹ بھی بھرے ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پورے سال میں سب سے زیادہ سوفٹ ڈرنک (بوتلیں ) اور فاسٹ فوڈ عید کے موقع پر کھایا جاتا ہے۔ رقم کے اسراف کے ساتھ بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔
فطرانہ کی ادائیگی ؟
فطرانہ ادا کرنے کے الگ الگ نصاب ہیں ایک صاع گندم کے حساب سے بھی فطرانہ دیا جا سکتا ہے۔ ایک صاع کجھور یا چھوارے کے حساب سے دیا جا سکتا ہے۔ ایک صاع کشمش کے حساب سے بھی دیا جا سکتا ہے ۔
آ ج کل گندم کے حساب سے تقر یباً100 روپے سے لیکر 120روپے تک بنتے ہیں، جبکہ کجھور اور کشمش کے حساب سے زیادہ بنتے ہیں ، مگر دیکھا گیا ہے کہ صاحب استعداد اور صاحب حیثیت افراد بھی گندم کے حساب سے ہی فطرانہ ادا کرتے ہیں اور وہ بھی مساجد کے باہر اور بازاروں میں گھومنے والے فقیروں کو دیکر گویا اس فریضے سے جان چھڑواتے ہیں کہ جو اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔ زکواۃ اور فطرانہ اُن لوگوں کا حق ہے جنہیں آپ جانتے ہیں کہ وہ واقعتاً گردش حالات کا شکار اور مستحق بھی ہیں۔کشمش کے حساب سے فطرانہ ادا کرنا زیادہ بہتر ہے۔
بخشش کی خوشخبری اور عوام کی بے فکری
عیدالفطر کے پُرمسرت موقع پر نماز عید سے پہلے جو اُردو خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ اس میں تقریباً تما م علماء کرام اور امام حضرات یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ ماہ رمضان میں ر وزے رکھنے، تراویح پڑھنے، زکواۃ دینے اور لیلۃ القدر پر عبادت کرنے کی وجہ سے روزہ داروں کے تمام گناہ معاف ہو گئے ہیں، ا س موقع پر عموماً نہ تو رمضان المبارک کا فلسفہ بیان کیا جاتا ہے نہ ہی عید الفطر کا۔ عام نماز ی سمجھتے ہیں کہ ہماری بخشش ہو گئی ہے اب یہ دن موج مستی کا دن ہے، اب وہ ہر قسم کی مذہبی قیود سے آزاد ہیں وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جو فرشتے بخشش کی عید لیکر آسمانوں سے اُ ترتے ہیں وہ لہو ولہب میں ڈ وبے اور موج مستیوں میں مشغول افراد کو نہیں دیکھتے ہو ں گے؟
عید کے دنوں میں نمازیوں کی تعداد میں کمی
عجیب بات نظر آتی ہے کہ نماز عید کے بعد باقی نمازوں کیلئے مساجد میں بہت ہی کم نمازی نظرآتے ہیں، یہ عیدالفطر ''مزدروی'' ملنے کا دن ہے اس روز فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین پر اُترتے ہیں اور روزہ داروں کو اللہ کے راضی ہونے کی خوشخبری سنا رہے ہوتے ہیں، مگر نہ مساجد میں نمازی نظرآتے ہیںاور نہ ہی لوگ گھروں میں پنجگانہ نماز کی پابندی کرتے ہیں، یہ تہوار انتہائی پاکیزگی کا حامل ہے مگر اس دن لہو ولہب کے منا ظر زیادہ نظرآتے ہیں۔