پاکستان کرکٹ ٹیم کی پرانی کہانیاں باہر آنے لگیں
وسیم اکرم اور وقاریونس میرے کپتان بننے سے خوش نہیں تھے،سلیم ملک
PESHAWAR:
پاکستان کرکٹ ٹیم کی پرانی کہانیاں باہر آنے لگیں جب کہ سلیم ملک، وسیم اکرم اور وقاریونس کی مخالفت نہیں بھولے، دہائیاں گزرجانے کے بعد گلے شکوے زبان پر لے آئے۔
ون ڈے ورلڈ کپ میں فتح کے بعد سلیم ملک نے 1993 سے 1995 تک پاکستان ٹیم کی قیادت سنبھالی،میچ فکسنگ سے داغدار کیریئر کے حامل سابق بیٹرنے دعویٰ کیا کہ سابق فاسٹ بولرز وسیم اکرم اور وقار یونس ان کے کپتان بنائے جانے سے خوش نہیں تھے،دونوں کا رویہ ان کے ساتھ انتہائی سرد رہا۔
ایک انٹرویو میں سلیم ملک نے کہا کہ وسیم اور وقار کو میری سپورٹ حاصل تھی مگر انھیں ایک پروفیشنل کرکٹر ہونے کے ناطے اپنی کارکردگی پر توجہ دینا چاہیے تھی،صرف اس لیے کہ مجھے کپتان بنادیا گیا وہ دونوں مجھ سے بات تک نہیں کیا کرتے تھے، میں نے بعض اوقات اس بارے میں ان سے گفتگو بھی کرنے کی کوشش کی تھی، جب میں ان سے بولنگ کرنے کو کہتا تو وہ گیند کو میرے ہاتھوں سے چھین لیتے تھے، وہ دونوں کپتان بننا چاہتے تھے جبکہ قیادت مجھے سونپ دی گئی تھی۔
سلیم ملک نے 34 ون ڈے اور 12 ٹیسٹ میچز میں ٹیم کی قیادت سنبھالی، ان میں سے 21 ون ڈے اور 7 ٹیسٹ میچز میں ٹیم کو کامیابی سے بھی ہمکنار کیا، اس کے باوجود انھیں کپتانی سے ہٹادیا گیا، اس کا سبب بھی سلیم ملک ان دونوں پیسرز کی میدان سے باہر کی سیاست کو قرار دیتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ وہ دونوں بولر مجھ سے بات نہیں کرتے تھے اس کے باوجود ہم سیریز جیت گئے، میں نے وسیم سے کہا کہ آپ دنیا کے نمبر ون بولر ہیں، وکٹیں لیں یا نہیں مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر آپ کی اپنی ساکھ متاثر ہوگی، وقار یونس نے 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا مگر یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے انھیں سنبھالا، اسی چیز کو میں مینجمنٹ کہتا ہوں۔
میں اپنا ذہن استعمال کرکے اس بات کو یقینی بناتا تھا کہ دونوں عمدہ کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھیں، جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں ہم نے 6 میں سے 5 میچز جیتے، چونکہ یہ میچ اور سیریز میں نے جیتی تھی اس لیے کچھ لوگوں کو اس سے بھی مسئلہ ہوگیا، میں نہیں جانتا کہ مجھے قیادت سے کیوں ہٹایا گیا جبکہ میں تو کسی سیاست کا حصہ بھی نہیں تھا۔
یاد رہے کہ سلیم ملک بعد ازاں میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے اور 2000 میں جوڈیشنل انکوائری کے بعد ان پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی تھی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی پرانی کہانیاں باہر آنے لگیں جب کہ سلیم ملک، وسیم اکرم اور وقاریونس کی مخالفت نہیں بھولے، دہائیاں گزرجانے کے بعد گلے شکوے زبان پر لے آئے۔
ون ڈے ورلڈ کپ میں فتح کے بعد سلیم ملک نے 1993 سے 1995 تک پاکستان ٹیم کی قیادت سنبھالی،میچ فکسنگ سے داغدار کیریئر کے حامل سابق بیٹرنے دعویٰ کیا کہ سابق فاسٹ بولرز وسیم اکرم اور وقار یونس ان کے کپتان بنائے جانے سے خوش نہیں تھے،دونوں کا رویہ ان کے ساتھ انتہائی سرد رہا۔
ایک انٹرویو میں سلیم ملک نے کہا کہ وسیم اور وقار کو میری سپورٹ حاصل تھی مگر انھیں ایک پروفیشنل کرکٹر ہونے کے ناطے اپنی کارکردگی پر توجہ دینا چاہیے تھی،صرف اس لیے کہ مجھے کپتان بنادیا گیا وہ دونوں مجھ سے بات تک نہیں کیا کرتے تھے، میں نے بعض اوقات اس بارے میں ان سے گفتگو بھی کرنے کی کوشش کی تھی، جب میں ان سے بولنگ کرنے کو کہتا تو وہ گیند کو میرے ہاتھوں سے چھین لیتے تھے، وہ دونوں کپتان بننا چاہتے تھے جبکہ قیادت مجھے سونپ دی گئی تھی۔
سلیم ملک نے 34 ون ڈے اور 12 ٹیسٹ میچز میں ٹیم کی قیادت سنبھالی، ان میں سے 21 ون ڈے اور 7 ٹیسٹ میچز میں ٹیم کو کامیابی سے بھی ہمکنار کیا، اس کے باوجود انھیں کپتانی سے ہٹادیا گیا، اس کا سبب بھی سلیم ملک ان دونوں پیسرز کی میدان سے باہر کی سیاست کو قرار دیتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ وہ دونوں بولر مجھ سے بات نہیں کرتے تھے اس کے باوجود ہم سیریز جیت گئے، میں نے وسیم سے کہا کہ آپ دنیا کے نمبر ون بولر ہیں، وکٹیں لیں یا نہیں مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر آپ کی اپنی ساکھ متاثر ہوگی، وقار یونس نے 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا مگر یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے انھیں سنبھالا، اسی چیز کو میں مینجمنٹ کہتا ہوں۔
میں اپنا ذہن استعمال کرکے اس بات کو یقینی بناتا تھا کہ دونوں عمدہ کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھیں، جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں ہم نے 6 میں سے 5 میچز جیتے، چونکہ یہ میچ اور سیریز میں نے جیتی تھی اس لیے کچھ لوگوں کو اس سے بھی مسئلہ ہوگیا، میں نہیں جانتا کہ مجھے قیادت سے کیوں ہٹایا گیا جبکہ میں تو کسی سیاست کا حصہ بھی نہیں تھا۔
یاد رہے کہ سلیم ملک بعد ازاں میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے اور 2000 میں جوڈیشنل انکوائری کے بعد ان پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی تھی۔